زندگی کا اصل مقصد!

 عالم نقوی

 یہ سوال ہر دور کا سب سے بڑا سوال رہا ہے۔ دنیا کے تمام علماء اور فلاسفہ اسی سوال کے جواب کے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں ۔ تمام مذاہب عالَم کی بنیادی تعلیمات بھی اسی سوال کے جواب پر مبنی ہیں ۔ ہندستان کے سلسلئہ سلاطین مغلیہ کے بانی ظہیر ا لدین محمد بابر (1483ء۔ 1530 ء ) نے پانچ سو سال پہلے اسی سوال کاجواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے جو مہمل بات کہی تھی کہ: بابر بہ عیش کوش کہ

 عالَم دوبارہ نیست ! آج پانچ سو سال بعد قارونی سرمایہ داریت والے گلوبلائزیشن اور معاشی لبرلائزیشن کا ’ترقی یافتہ ‘ عہد بھی وہی غلطی دہراتے ہوئے دنیا کواُسی  طرف لیے جا رہا ہے !آج نہ صرف ’علم‘ کے معنی بدل گئے ہیں بلکہ تعلیم کا مقصد محض نوکری (جاب) کا حصول اور کریر سازی ہو کر رہ گئے ہیں یعنی تعلیم اب ’علم و دانش رُخی ‘ Knowledge and wisdom oriented ہونے کے بجائے محض ملازمت رخی اور کریر رُخی Job Oriented ہو کے رہ گئی ہے۔

  تو کیا زندگی کا مقصد واقعی محض اچھی تعلیم، اچھی ملازمت کا حصول اور معیار زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے کی پیہم کوششوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے ؟ جاپان، امریکہ، اور یورپ وغیرہ  کے خوشحال معاشروں کے ساتھ تیسری دنیا کے غریب اور ترقی پذیر دنیا میں بھی ’خود کشی ‘ کے رُجحان میں مسلسل اِ ضافہ بتاتا ہے کہ زندگی کا مقصد وہ تو نہیں ہے جو با لعموم سمجھ لیا گیا ہے !عام لوگوں میں روز افزوں سنگین سے سنگین تر ہوتا ہوا ڈپریشن اور مایوسی کا نفوذ اور اُس کا خود کشی پر منتج ہونا بتاتا ہے کہ موجودہ علمی، تعلیمی،معاشی، سماجی اور سیاسی نظام، زندگی کا مقصد سمجھنے اور بتانے سے قاصر ہے!

قرآن کہتا ہے کہ ’’ نہایت بزرگ و برتراور با برکت ہے وہ ذات کہ جس کے ہاتھ میں ’ ملک ‘ یعنی کائنات کی سلطنت و بادشاہت ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اور زندگی کو خلق کیا ہے کہ یہ آزمائے کہ تم لوگوں میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے (سورئہ ملک آیات 1 و2) یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا  یہ سلسلہ اُس نے اِسی لیے شروع کیا ہے کہ وہ اُن کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس کا عمل زیادہ بہتر ہے۔ قرآن نے’ تبارک ‘اور’ ملک ‘کے ا لفاظ اِستعمال کیے ہیں ۔ تبارک کے معنی اضافے، زیادتی یا بڑھوتری کے ہیں ۔ ملک کے معنی بھی وہی ہیں جو ہم آپ سب جانتے ہیں لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ دنیا کے ملک تو اپنے حدودِ اَربعہ سے پہچانے جاتے ہیں لیکن یہ کائنات پوری کی پوری اللہ جل جلالہ کا ملک ہے جس کی کوئی حد و انتہا نہیں ۔ جو لا محدود ہے۔ اِسی طرح اُس کا تصرف و اِقتدار بھی لا محدود ہے۔ وہ جس کے ساتھ جو بہتر سمجھے وہ سلوک کرے۔ وہ چاہے تو شاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بنا دے کوئی اُس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ۔ اِس آیئہ کریمہ کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ نگاہ پروردگار میں کثرت عمل معیار نہیں بلکہ حسنِ عمل معیار ہے !کثرتِ عمل کا تعلق تکرارِ عمل سے ہے لیکن حسنِ عمل اِخلاص سے تعلق رکھتا ہے۔ زندگی اور موت دونوں اُس کی طرف سے ہیں اور نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت۔  زندگی امتحان کی مہلت کا وقفہ ہے۔ موت کے معنی ہیں کہ امتحان کا وقت اور مہلت دونوں ختم۔

اِسی امتحان کی غرض سے خالق و مالک اللہ نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں اپنی اچھائی یا برائی کا اظہار کر سکے لیکن اِس فیصلے کا حق اُس نے اپنے ہاتھوں رکھا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ! اَب اُس علیم و خبیر پروردگار کے نزدیک جس کا جیسا عمل ہوگا وہ اُس کو اُسی کے اعتبار سے جزا یا سزا دے گا۔ عمل کا یہ اچھا یا برا بدلہ نہ ہوتا تو امتحان ہی بے معنی ہوجاتا !  حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ سرکار دو عالَم، فخر ِ موجودات حضرت محمد  مصطفیٰ صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا (یعنی یہ عالَمِ خلق) پیچھے کی طرف جارہی ہے اور آخرت ( یعنی عالمِ اَمر) آگے بڑھ رہی ہے اور دونوں کی اولادیں ہیں ۔ تم آخرت کی اولاد بنو، اور دنیا

کی اولاد (ابن ا لدنیا) نہ بنو۔ کہ آج، اِس دنیا میں اعمال (اچھے یا برے) تو ہیں لیکن حساب و کتاب نہیں ہے اور کل آخرت میں حساب و کتاب ہوگا لیکن اعمال نہ ہوں گے (یعنی عمل کرنے کا وقت گزر چکا ہوگا) (رواہ بخاری )۔تو بقول ماچس لکھنوی ایسا نہ ہو:

شیخ آئے قیامت میں تو اعمال ندارد

جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد 

یعنی زندگی کا مقصد وہ نہیں جو آج فرض کر لیا گیا ہے اور ہم، حاملین قرآن بھی، آنکھیں بند کر کے محض کیریر بنانے اور معیار زندگی Standard of Life بلند کرنے کی اندھی دوڑ RAT RACEمیں شریک ہیں ۔ اکبر الہ آبادی نے ستر، اَسی برس قبل اپنی چشمِ بصیرت سے اِس صورت حال کو دیکھ کر کہا تھا:

ہم کیا کہیں احباب کیا کار ِ نما یاں کر گئے

بی اے ہوئے، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے !

 اُس زمانے میں بی اے ہو جانا ایسا ہی تھا جیسے آج کے زمانے میں میڈیکل یا انجینیرنگ کی ڈگری کے بعد ایم بی اے MBAیا آئی اے ایس IASکے لیے منتخب ہوجانا ! کشمیر کی ایک لڑکی شہیرہ اختر کے ہائر سکنڈری (بارہویں ) کے بورڈ اکزام میں پانچ سو میں سے چار سو اٹھانوے مارکس لاکر پہلی پوزیشن لانا اور چنئی کے ایک مدرسے کے طالب علم محمد اشرف کے پہلی ہی کوشش میں آئی اے ایس میں منتخب ہوجانا بلا شبہ اہم ہے لیکن نہ صرف یہ کہ ِاس دنیا میں بس اِتنا ہی کافی نہیں ہوتا  بلکہ اُس دنیا کی کامیابی کے لیے تو بالکل ہی ناکافی ہے !

مثال کے طور پر مسز شاہ مین سید آئی اے ایس اور ان کے آئی پی ایس شوہر خورشید سید 2002 کے گجرات قتل عام کے زمانے میں اُسی نسل کشی زدہ صوبے میں تعینات تھے لیکن نہ وہ مظلوموں کے کسی کام آسکے نہ ہی اُن میں سے کسی نے گجرات کیڈر کے آئی اے ایس ہرش مَندَر کی طرح اُس یکطرفہ اور منظم نسل کشی کے خلاف، جسے گجرات سرکار کی پشت پناہی حاصل تھی، بطور احتجاج استعفے دیا !اور نہ آئی پی ایس وبھوتی نرائن رائے کی طرح فسادات میں پولیس کے منفی کردار پر کوئی کتاب لکھی ! اور نہ ہی آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کی طرح گجرات حکومت کے خلاف کبھی کوئی گواہی دی !

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جو لوگ دیہاتوں کے رہنے والے ہیں وہ جانتے ہوں گے دیہاتوں میں ایک کیڑا پایا جاتا ہے جسے گوبر کا کیڑا کہا جاتا ہے. اسے گائے , بھینس کے گوبر کی بو بہت پسند ہوتی ہے. وہ صبح اٹھ کر گوبر کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اور سارا دن جہاں سے گوبر ملے اسکا گولا بناتا رہتا ہے۔ شام تک اچھا خاصا بڑا گولا بنا لیتا ہے۔ پھر اس گولے کو دھکا دیتے ہوئے اپنی بل تک لے جاتا ہے۔ لیکن بل پر پہنچ کر اسے احساس ہوتا ہے کہ گولا تو بہت بڑا بنا لیا اور بل کا سوراخ چھوٹا ہے۔ بہت کوشش کے باوجود وہ گولا بل میں نہیں جا سکتا۔
    یہی حال ہم سب کا ہے۔ ساری زندگی حلال وحرام طریقے سے دنیا کا مال و متاع جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور جب آخری وقت قریب آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب تو قبر میں میرے ساتھ نہیں جا سکتا اور ہم اس زندگی بھر کی کمائی کو حسرت سے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
    میں چاہے کوئی کامیاب بزنس مین بن جاؤں،اربوں روپے کے بنک بیلنس بنا لوں، اپنے لئے ہر آسائش کا انتظام کر لوں، لیکن جب میری سانس نکل جائے گی تو میرا قیمتی لباس اتار کر لٹھے کا کفن پہنا دیا جائے گا۔ میرے محل نما گھر میں میرا وجود برداشت نہیں کیا جائے گا۔ میرے نام کے بجائے مجھے میت کہا جائے گا۔ کل تک جو لوگ میرے بغیر رہ نہیں سکتے تھے، آج وہ خود مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا کر قبر کے گڑھے میں چھوڑ آئیں گے۔
    ہمیں اس عارضی دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے، اس لئے ہمیں جہاں جانا اور مستقل رہنا ہے، وہاں کے لئے تیاری کرنا بہت ضروری ہے۔ ہر نیکی ہمیں وہاں ایک رفیق دوست کے روپ میں ملے گی اور ہر برائی عذاب کی صورت میں! اب یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم اپنی آخرت کے لئے اچھا ٹھکانہ بناتے ہیں یا برا۔ اپنے لئے وہ چیزیں جمع کرتے ہیں جو آخرت میں کام آئیں گی، یا گوبر کے کیڑے کی طرح حرص و لالچ میں پڑ کر صرف اپنا وقت برباد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔