زندہ محاورے-ناصرہ شرما

صفدر امام قادری

ہندستان کی تقسیم اور اس کے بعد کے بدلتے احوال اردو اور ہندستان کی دوسری زبانوں کے فکشن کا سب سے مقبول موضوع رہے ہیں۔ قرۃ العین حیدر، عبد اللہ حسین، حیات اللہ انصاری، خدیجہ مستور، انتظار حسین اور عبد الصمد وغیرہ کی تحریروں کا بنیادی رجحان ہندستان کی قومی تحریک، تقسیمِ ملک اور اس کے بعد کے تغیّرات سے وابستہ ہے۔ اس موضوع سے متعلق قدرت اللہ شہاب، ایم اسلم اور ر امانند ساگر کی فوری تحریریں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ انگریزی میں ’’ اے ٹرین ٹوپاکستان‘‘ (خشونت سنگھ) اور ہندی میں ’’ تمس‘‘ ( بھیشم سا ہنی)، ’’ آدھا گائوں ‘‘ ( راہی معصوم رضا)، ’’ جھوٹا سچ‘‘ ( یشپال)، ’’جلوس ‘‘( بھونیشور ناتھ رینو) اور ’’کتنے پاکستان‘‘ ( کملیشور) جیسے ناولوں کی ادبی اور موضوعاتی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

 ممتاز ہندی ادیبہ ناصرہ شرما کی اردو میں تازہ وارد کتاب ’’زندہ محاورے‘‘ کا موضوع تقسیمِ ملک کے بعد ابھرے ہندوپاک کے معاشرتی مسائل سے متعلق ہے۔ اصل میں یہ کتاب ہندی زبان میں ایک عرصہ پہلے شائع ہو چکی ہے۔ اس لیے اردو، ہندی اور دیگر زبانوں میں اس موضوع کے تعلّق سے جو  سرمایہ موجود ہے، اس کی روشنی اور پرچھائیں میں بھی اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ ناصرہ شرما کی کتاب میں تقسیمِ ملک سے اُپجے منظر نامے کوتقریباً1990ء کے آس پاس تک دیکھا گیا ہے۔ فیض آباد میں کارسیوکوں کی سر گرمیاں جاری ہیں۔ یہی تاریخی اعتبار سے اس ناول کا آخری سرا ہے۔ منڈل کمیشن کا نفاذ ہو چکا ہے، اس کی اطلاع بھی ناول میں موجود ہے۔ اس ناول کی یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ سرحد کے دونوں پار سیاسی، سماجی اور دوسرے معاملات میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں، انھیں بنیادی اہمیت عطا کی گئی ہے۔ فسادات اور فرقہ واریت کو مرکزیت بخشنے سے گریز کیا گیا ہے۔ ایک خاندان کے دو ٹکڑے میں بٹ جانے سے اس ناول کی کہانی مکمّل ہوئی ہے۔ ہندستان میں رہنے والے اور پاکستان چلے جانے والے خاندان کے دونوں اجزا چالیس پینتالیس برسوں میں خود کو قائم رکھنے کے لیے کس کس طرح کے جتن کرتے ہیں، اسی تفصیل سے قصّہ پورا ہو ا ہے۔ لکھنے والے کا نقطۂ نظر واضح ہے کہ وہ نہ کسی کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور نہ کسی ایک کے ساتھ طرف داری میں کھڑا ہوتا ہے۔ نقطۂ نظر کی یہ معروضیت قابل ِتعریف ہے۔

ناول نگار نے موضوع جس قدر پیچیدہ لیا، اپنا بیانیہ اسی طرح آسان جس سے اپنے عہد کے صبر آزما مرحلے ان کی تحریر میں پوری سادگی کے ساتھ ابھر آئے ہیں۔ کیا تقسیم ملک کے اسباب و عوامل ایسے ہیں جن کا سادگیِ نظر کے ساتھ تجزیہ کر کے کسی نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے؟ ہندستان کی قومی تحریک کے آخری زمانے میں درجنوں ایسے مسئلے پیدا ہوئے جن کا فیصلہ کُن اظہار پاکستان کی شکل میں ہوا۔ ان سوالوں میں سے ایک، دو قومی نظریے کو ہی اگر گاندھی یا جناح کے نقطۂ نظر سے سمجھ کر ہم صبر کر لیں تو یہ انصاف کی بات نہیں۔ لیکن اس سے بھی پیچیدہ معاملہ یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد ہندستان، پاکستان اور پھر بنگلہ دیش جیسے ممالک جن شکلوں میں فروغ پائے، ان کا معروضی تجزیہ کیا جائے اور ضرورت پڑے تو ایک دوسرے کے حالات کا موازنہ کیا جائے۔ ناصرہ شرما کے ناول ’’ زندہ محاورے‘‘ کا پلاٹ اصل میں اسی طرح کی ایک مشق ہے لیکن دشواری یہ ہے کہ اس کی داخلی پیچیدگیوں کے پچڑے میں وہ نہیں پڑنا چاہتیں اور بہ ظاہر معمولی یا غیر اہم دکھائی دے رہے عوامل پر  تو اُن کی نگاہ جاتی ہی نہیں۔ کہنا چاہیے کہ انھوں نے اتنے پیچیدہ سچویشن کو سادگیِ نظرسے دیکھ کر موضوع کے وسیع تر امکانات محدود کر دیے۔

 1947ء کے بعد پاکستان توایک نیا ملک بنا لیکن ہندستان بھی نئے سرے سے تعمیر ہوا۔ کراچی میں مہاجرین اور ہندستانی مسلمانوں میں لُٹے پِٹے جاگیرداروں کی آخری نسل نے اپنی باز آبادکاری کے لیے کیسے ایک نئی دنیا تلاش کی، اسے ’’ زندہ محاورے‘‘ میں مرکزیت دی گئی ہے۔ لیکن ہندستان کی قومی تحریک کو سمجھنے کے لیے ( غالباً جواہر لال نہرو کی قیادت میں ) جو  سٹیریو ٹائپ بنا، ناصرہ شرما اس سے باہر نہیں نکل پائی ہیں۔ اس لیے سرسری گزر جانے کی ایک ادا یہاں موجود ہے۔ لیکن تاریخ اور سماج کے بدلاو اتنے سیدھے اور عمومی طریقے سے نہیں سامنے آتے۔ تجزیہ کرنے کا موقع نہیں لیکن یہ سچّائی ہے کہ بدلتے حالات اور وقت کی نت نئی کروٹوں کو گہرائی سے دیکھنے کے بجاے اوپر اوپر سطح سے جھانکنے کی وجہ سے ہی شاید تقسیمِ ملک ایک ناگزیر حقیقت بنی۔ افسوس کی بات ہے کہ تقسیم سے سماجی اور سیاسی صورتوں میں جو تبدیلیاں ہوئیں، انھیں اب بھی ہم سر سری طریقے سے دیکھنے کے خوگر ہیں۔ سماج میں اندرونی تبدیلیوں کی نزاکت سمجھنے کی کوشش ناصرہ شرما کے اس ناول میں دکھائی نہیں دیتی۔ طبقات اور خانوں میں بٹے اس معاشرے کو بھرپور طریقے سے اور توجّہ کے ساتھ انھوں نے نہیں دیکھا۔ چھوٹی چھوٹی اکائیوں کو غور سے دیکھے بغیر جو نقطۂ نظر قائم ہوگا، وہ اگر غلط نہیں تو پختہ بھی نہیں ہوگا۔ ناصرہ شرما کو تقسیمِ ملک کے بعد ہندستان اور پاکستان دونوں جگہ کے مسلما ن مادی ترقیات بٹورتے دکھائی دیتے ہیں، اس کی صداقت پر کیوں کر ایمان لایا جائے؟ ان کے کردار موہن جوداڑو کا ہندستان سے پاکستان چلے جانے سے تکلیف میں مبتلا ہیں لیکن پورے ہندستان سے کامگاروں اور خاص طور پر مسلم ہنر پیشوں کو کس انجام تک پہنچ جانا پڑا‘ اس المیے کی کسی کو خبر ہی نہیں۔ آزادی کے بعد ہندستان کے مسلمانوں کی معیشت پر یہ کتنا بڑا حملہ تھا، اس پر ناول میں کوئی غور وفکر ہی نہیں۔ 1857ء کے بعد انگریزی حکومت نے بھی یہی حربہ آزمایا تھااور ہمارے ملک میں پس ماندگی کوآخری نتیجے تک پہنچا دیا تھا۔

ناصرہ شرما تیزی سے بدل رہے ہندستان اور پاکستان کو بس اشاروں میں سمجھا دینا چاہتی ہیں۔ ’’زندہ محاورے‘‘ میں واقعات اخبار کی خبر کی طرح آتے ہیں۔ ایودھیا تنازعہ اور منڈل کمیشن کیا ایک ایک جملے میں نمٹائے جا سکتے ہیں ؟ پاکستان میں مہاجروں کے مسائل کو گہرائی سے دیکھنے کی انھو ں نے کوشش نہیں کی۔ ایک مہاجر کو ہی انھوں نے مرکزی کردار بنایا لیکن وہ ابتدائی جدّوجہد کے بعد ’’ بڑا آدمی‘‘ بن جاتا ہے۔ کیا وہ اس نودو لیتے کے سہارے مہاجروں کے تمام مسائل پیش کر سکتی تھیں ؟ ہرگز نہیں۔ لیکن وہ مرکزی کردار سے الگ ہوتی کہاں ہیں ؟ اس لیے شروع سے آخر تک موجود رہنے کے با وجود نظام ناول کا طاقت ور حصّہ نہیں بن پایا۔ اس کے کردار میں وہ قوّت ہی نہیں۔ ناصرہ شرما ذیلی کرداروں اور بھانت بھانت کے لوگ، جن سے اصلی سماج تشکیل پاتا ہے، اس پر توجّہ نہیں دیتیں یا انھیں اہمیت دینے سے جھجکتی ہیں۔ اس لیے ان کا پورا ناول ایک بنا بنایا، نَپاتُلا پلاٹ تو رکھتا ہے لیکن سماجی پیچیدگی، مشکلات کی تصویر کشی اور معاشرتی اتھل پتھل کو گہرائی سے سمجھنے سے قاصر ہے۔

ناصرہ شرما کے اس ناول میں ایک بھی ایسا کردار نہیں جسے یادگار تصور کیا جا سکے۔ وہ لال منیائوں کو بنیادی استعارہ کے بہ طور رکھنا چاہتی ہیں لیکن ناو ل کے بعض حصّے ہی ان کے اس تجربے سے مز یّن ہو سکے ہیں۔ معمولی پرندوں کو مستحکم کردار کی قوّت عطاکرنے کے لیے جو  فنّی مہارت چاہیے، یہ اس ناول کی حد تک مصنّفہ میں نہیں۔ انھی پرندوں سے وہ ناول کا اصل سوز بھی پیدا کرنا چاہتی ہیں لیکن یہ تاثّر پذیری چند صفحات سے آگے نہیں بڑھتی۔ اداس نسلیں اور آنگن کے سوز سے اس ناول کا موازنہ کیا جائے تو فن کارانہ رویّے کا امتیاز اندھیرے اور اجالے کی طرح روشن ہو جائے گا۔ پورے ناول میں بنے بنائے ڈھانچے کے لوگ زیادہ ہیں۔ ایک بھی کردار کج ادا نہیں، سب کے سب صالح ہیں۔ زندگی میں وہ گھوم پھر کر اچھا اور نیک بن جاتے ہیں۔ اسی لیے یہاں وہ نیرنگی اور گہما گہمی نہیں جس کے بغیر بالعموم کو ئی بڑی ادبی تخلیق پیدا نہیں ہوتی۔

 ہندستان کی تقسیم اور اس کے بعد کے مسائل کا موجودہ عہد کے تاریخ دانوں نے بھی بہت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اس دوران کی ادبی تخلیقات پر بھی بھر پور توجّہ دی ہے۔ مشیر الحسن، گیانندر پانڈے، ریتو مینن اور اروشی بٹالیہ وغیرہ نے اس دور کے ادب اور تاریخی واقعات کے سروں کو جوڑ کر کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ ناصرہ شرمااس ناول میں ان امور سے فائدہ نہیں اٹھاتیں ورنہ ’’ زندہ محاورے‘‘ جیسے بہترین استعاراتی نام سے موضوع کی سمائی کے نقطۂ نظر سے جو  امید افزا صورت پیدا ہوتی ہے، وہ ناول کے انجام پر اس طرح زائل نہ ہوجاتی۔

تبصرے بند ہیں۔