زکوة اور بیت المال کا نظام

نور محمد خان

(ممبئی) 

دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو عدل و انصاف اور حقوق پر مبنی ہے جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد مومن مسلمان پر فرض ہے حقوق اللہ میں روزہ، نماز، حج وغیرہ شامل ہیں جس کا اجر اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے پاس رکھا ہے اور حقوق العباد ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق ادا کرنا فرض ہے ایسا نہ کرنے پر جب تک وہ انسان معاف نہیں کرے گا تب تک اللہ معاف نہیں کرے گا اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں واضع طور پر انسانوں کے ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں بیان فرما دیا ہے اور اس کے انعامات بھی مقرر کر دیے ہیں لیکن اکیسویں صدی کا مسلمان جس طرح سے احکام خداوندی پر عمل کر رہا اس کی مذمت کی جائے یا پھر اس کی تعریف کی جائے ایک ذی شعور انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اگر ہم اپنے اطراف و اکناف پر عام مسلمانوں کے حالات پر نظر کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ بالخصوص رمضان المبارک کے مہینے میں زکوۃ کی ادائیگی کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ کس حد تک درست ہے ؟

اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ ’’ صدقہ صرف فقیروں کے لئے ہے اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصولنے والوں کے لئے اور ان کے لیے ہے جن کے دل میں الفت ڈالنی مقصود ہو اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور راہ اللہ میں، راہ رو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے، اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘ (سورہ توبہ آیت نمبر 60) اس آحکام الٰہی سے واضح ہوتا ہے کہ زکوۃ کے مستحق کون کون ہیں۔ لیکن اس حکم کو کتنا عمل میں لایا جاتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے
مسلم معاشرے میں صاحب نصاب زکوۃ کی رقم نکالتے اور ادا بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اوپر بھی اور ذمہ داریاں ہیں جس کو ادا کرنے سے قاصر ہیں ؟

مسلم معاشرے میں جہاں امیروں کا طبقہ ہے وہیں غربت سے متاثر ایک طبقہ بھی موجود ہے جو خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے جھگیوں سے لیکر اسپتالوں کے بستر مرگ تک علاج و معالجہ کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے والے مریضوں کی لا تعداد موجود ہے دوسری طرف ایسی نوجوان لڑکیاں بھی ہیں جو غربت کے سبب ہندوستانی معاشرے کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں شادی کی مہندی بھی نصیب نہیں ہے۔

اگر اس کا اندازہ لگانا ہو تو قحبہ خانہ اور شراب کے اڈوں (بیر بار) سے لگا سکتے ہیں لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری نوجوان بہن بیٹیاں جس غلیظ جگہوں میں پھنسی ہیں اس کو آباد کرنے میں مسلم معاشرے کا کہیں نہ کہیں عمل دخل ضرور ہے ورنہ ان کی تعداد برائیوں میں سب سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بیوہ اور طلاق شدہ خواتین میں بھی ایک طبقہ ہے جو اس طرح کی ذلت بھری زندگی گذارنے پر مجبور ہے لیکن ہمارے معاشرہ میں ایسی خواتین اور لڑکیوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھا تو جاتا ہے پر اس کا ادراک نہیں کہ اس سے نجات کس طرح حاصل کی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگ زکوۃ کے مستحق ہیں ؟

دنیا کے گوشے گوشے میں عام لوگوں کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے علاوہ اس کے اسی طرح عام مسلمانوں کی ذمہ داری بھی حکومت سے زیادہ مسلم رہنماؤں پر ہوتی ہے جس میں سب سے بڑا کردار علمائے کرام کا ہے جن کے ہاتھوں اللہ و رسول کے وہ احکامات پر عمل کی ذمہ داری ہے جس کو انجام دینا اہم فریضہ ہے لیکن کیا اس پر عمل کیا جارہا ہے ؟

سیاست کے اسٹیج پر جب ایک مسلم لیڈر یا سیاسی علمائے کرام و مسلم تنظیمیں عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں اور الزامات حکومت پر عائد کرتے ہیں تب عام طور پر مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات ضرور رہتی ہے کہ کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی پسماندگی کی ذمہ دار حکومت ہی ہے۔ لیکن اس بات کا خیال کیوں نہیں کیا جا سکتا کہ زکوۃ کی رقم سے بھی مسلمانوں کی پسماندگی دور کی جاسکتی ہے، یہ بات سولہ آنے سچ ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے ذمہ دار علماء کرام اور مسلم معاشرہ بھی ہے۔ آج کل زکوۃ کی رقم صرف مدرسوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے آخر کیوں ؟ کیا مدرسوں میں صرف اور صرف زکوۃ کے مستحق بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں ؟ اگر ہاں تو مسلمانوں میں پسماندگی دور کیوں نہیں ہوتی اور اگر تمام بچے مستحق نہیں ہیں تو پھر رقم کہاں اور کس پر خرچ کی جاتی ہے کیا مدرسوں کا قیام اس لئے ہوا تھا کہ اس کی بنیاد زکوۃ کی رقم پر ٹِکی رہیگی ! کیا وجہ ہے کہ دینی مدارس خود کفیل نہیں بن سکتے ؟

دور رسالت و خلفائے راشدین کے زمانے میں مال غنیمت اور زکوٰۃ اس کے بعد بیت المال کا نظام کیسا تھا اور اس کے اغراض و مقاصد کیا تھے ہمارے علمائے کرام جانتے ہیں کلمہ گو مسلمان احکام خداوندی اور سنت رسول اللہ پر عمل کرنے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن عام طور پر عمل نظر نہیں آتا۔ آخر ہم اس کی کیا وجہ محسوس کریں اور کیا نہ کریں ؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہی نہیں بہت بڑا سوال بھی ہے کہ اگر زکوٰۃ کی رقم مستحق لوگوں تک پہنچتی تو مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے میں موثر کردار ادا ہوتا۔ مسلم معاشرے میں جہاں مساجد اور مدارس کی بہتات ہے لیکن بیت المال کا نظام نہیں ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو متعدد بدعنوانی و مسائل کا شکار ہے۔ بعض مقامات کا یہ حال ہے کہ کوئی شخص بیت المال کا قیام کرنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف مسجدوں کے منتظمین کمر بستہ ہو جاتے ہیں ایسا بھی معاملہ سامنے آیا ہے کیونکہ زکوٰۃ کی رقم بیت المال میں جمع ہو گی تو ان کا نقصان ہے آخر اس نقصان کے پیچھے کس کا فائدہ ہے اور کس کا نقصان اور بیت المال پر روک لگانے کا مقصد کیا ہے ؟

دراصل بات یہ ہے کہ چندہ برائے دھندہ آج کے متعدد مسلمانوں کا وصول بن گیا ہے ہر سال زکوٰۃ کی کروڑوں روپے کی رقم مدارس کے نام پر وصولی کی جاتی ہے اور ” یہ دعوا کیا جارہا ہے کہ تعلیمی پسماندگی،، دور کی جارہی ہے اور وصولنے والے باقاعدہ فی صد کے حساب سے ٹھیکہ لیتے ہیں علاوہ اس کے فرضی رسیدوں کے ذریعے بھی وصولی کی جاتی ہے بلکہ فرضی مدارس کی بہتات بھی موجود ہے جو مستحق ادارے اور افراد کا حقوق غصب کرنے میں کامیاب ہیں ایک بات کا ذکر اور کرتے چلیں کہ جو حقیقت پر مبنی ہے’’ ایک گاؤں میں پندرہ سے بیس گھر مسلمان آباد ہیں لیکن اس گاؤں میں ایک کی بجائے دو دو مدرسے موجود ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پندرہ سے بیس گھر مسلمان میں کتنے بچے ہونگے جس کے لئے دو مدرسوں کی ضرورت پڑ گئی ؟ ظاہر سی بات ہے اس میں کہیں نہ کہیں چندہ برائے دھندہ کا مقصد شامل ہے،، اب آپ یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کے دیہی علاقوں میں ایسے کتنے مدارس اور گاؤں ہونگے جہاں ایک گاؤں میں ایک سے زائد مدرسے موجود ہیں۔

قابل غور بات یہ بھی ہے کہ دینی مدارس سے جب ایک عالم دین سند لے کر فارغ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ہاتھوں میں چندے کی رسید دی جاتی ہے اگر انہیں ہاتھوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکچر، وغیرہ وغیرہ کی سند حاصل ہوتی تو ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جاتی آج مولوی، حافظ، قاری کی کتنی تنخواہیں ہیں ؟ لیکن اللہ رحم فرمائے ان کے حالات پر، اس کے برعکس مساجد و مدارس کے منتظمین کے مالی حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ دس پندرہ برسوں میں جتنی ترقی مدارس و مساجد کی نہیں ہوئی اس سے  زیادہ ترقی ٹرسٹیان کی ہوتی ہے اگر یقین نہ ہو تو اپنے اطراف سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کل ان کے پاس کتنی دولت تھی یا مالی حالت کیسی تھی اور آج کیسی ہے۔ ایک اور بات یہاں کہنا ضروری اس لئے ہے کہ ’’ چندہ برائے دھندہ‘‘ کا اصول مسجد و مدرسوں کے نام پر نافذ ہے اور اس بدعنوانی کے خلاف صدائیں بلند نہیں ہوتیں بلکہ رفتہ رفتہ مساجد و مدارس ان حضرات کی وراثت بن جاتی ہے۔ موجودہ دور کے منتظمین جنھیں امیر کا درجہ حاصل ہے ان کو دور خلافت کے اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یوں تو واقعہ سے تاریخ لبریز ہے لیکن چنندہ واقعات کا ذکر کرتے چلیں امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو طبیب نے کسی مرض پر شہد کھانے کا مشورہ دیا آپ کے پاس شہد نہیں تھا کئی جگہ تلاش کرنے پر بھی نہیں ملا تب آپ کو کسی نے مشورہ دیا کہ بیت المال میں شہد موجود ہے وہاں سے لے لیں آپ نے کہا بیت المال میرا نہیں ہے یہ مسلمانوں کا ہے جب تک تمام مسلمان اجازت نہیں دے دیتے تب تک میں نہیں لے سکتا۔ یہ بات جب عام ہوگئی تمام مسلمان جمع ہوئے تب آپ نے مسلمانوں سے اجازت لے کر شہد حاصل کیا۔ یہ تھا ایک خلیفہ کا اصول جو آپ نے نبی کریم ﷺ سے حاصل کی تھی ایک بات اور ملاخطہ فرمایئے کہ مسلم لیڈران، علماء کرام، مسلم تنظیمیں اور بالخصوص مساجد و مدارس اور اسکول کے ٹرسٹیان سے اداروں کے حساب و کتاب کے بارے میں پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی جیسا کہ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا تھا اس پر غور فرمائیں، لوگوں کا مجمع تھا امیر المومنین نے کہا سنو! اتنا کہنا تھا کہ ایک شخص نے کہا پہلے میرے سوال کا جواب دیں کہ آپ کے پاس یہ کرتا کہاں سے آیا سب کو ایک ایک چادریں تقسیم کی گئی تھیں اور ایک چادر میں آپ کا کرتا نہیں بن سکتا جب تک آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ زائد کپڑا کہاں سے آیا اور حصہ سے زیادہ کیوں لیا ہم آپ کی کوئی بات نہیں سنیں گے، امیر المومنین نے یہ اعتراض سن کر اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کی طرف اشارہ کیا انھوں نے کھڑے ہوکر کہا یہ صحیح ہے کہ سب کو ایک ایک چادر تقسیم ہوئی ہے اور امیر المومنین کو بھی ایک چادر ملی تھی لیکن ان کا کرتا ایک چادر میں نہیں بن سکتا تھا اس لئے میں نے اپنے حصے کی چادر ان کو دے دی تھی، متعرض نے کہا اب میرا شک رفع ہوگیا ہے فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ہم آپ کے حکم کے لئے تیار ہیں۔ یہ تھا خلفائے راشدین کا زمانہ جب ایک معمولی شخص بھی جواب طلب کر سکتا تھا لیکن آج کے مسلمانوں میں وہ جذبہ قابلیت اور شعور بالکل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج دینی درس گاہوں سے اللہ و رسول کے دینی علوم کے ساتھ ساتھ مسلکی و اختلافی علوم کی اشاعت و درس نہیں دی جاتی اور اگر مسلک کی بنیاد پر بھی علوم دیا جاتا تو کم از کم اپنے مسلکی بھائیوں جن میں مستحقین ہیں ان کی ترقی و ترویج کے لئے زکوٰۃ کی رقم کو بیت المال میں جمع کر کے ان پر خرچ کیا جاتا۔ ہمارے علمائے کرام جتنی قوت اور طاقت سے مسلک کی ترقی و ترویج کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اگر اتنا مسلمانوں کے لئے کردیں تو یقیناً مسلمانوں میں پسماندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

آخری بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں جس طرح سے مظلوم و محکوم مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور مسلمان در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ان کے جملہ مسائل اور حقوق العباد کے فرائض کو انجام دینے کے لئے لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔ یہ فرض صاحب نصاب سے لیکر علمائے کرام اور مسلم تنظیموں پر عائد ہوتی ہے اگر ہمارے پاس بیت المال کا بہترین نظام ہو گا تو ظاہر سی بات ہے کہ ہماری بہن بیٹیاں مطلقہ و بیوہ خواتین کو ذلت و رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر زکوۃ کی رقم سے کسی مستحق مریض کی مدد ہوجائے، زکوۃ کی رقم سے کسی کے پاس راشن کا انتظام ہوجائے، زکوۃ کی رقم سے ننگے کو کپڑا مل جائے، زکوۃ کی رقم سے کسی مسافر کی مدد ہوجائے، زکوۃ کی رقم سے کسی کا قرض ادا ہو جائے تو کیا اللہ تبارک و تعالٰی ہمیں اس کا اجر نہیں دے گا؟ کیا ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی مدد کرنے سے اللہ اور رسول کی خوشنودی حاصل نہیں ہوگی ؟ ان سوالوں کا جواب آپ کے پاس ضرور ہے اللہ تعالٰی ہم سب کو مستحقین کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

تبصرے بند ہیں۔