زکوٰۃ ادا کرنے کے دنیاوی فائدے

سراج الدین ندویؔ

زکوٰۃ ادا کرنے کے بے شمار روحانی اور مادی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ چند کاتذکرہ ذیل میں کیا جارہاہے۔ البتہ یہ فائدے خلوص نیت پر منحصر ہیں۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ صدقات اور انفاق کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ ان تینوں الفاظ سے فرض صدقات بھی مراد ہیں اور نفل صدقات بھی۔ کہاں کیا مراد ہے یہ بات آیت کے پس منظر سے معلوم ہوجاتی ہے۔

  زکوٰۃ دینے سے آدمی بہت سی برائیوں سے پاک اور بہت سی خوبیوں سے آراستہ ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ کے اس مقصد کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے: تم ان کے اموال سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور انھیں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو۔(التوبۃ: ۱۰۳)

زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا نفس بخل، طمع، لالچ، حرص اور مال و دولت کی محبت کے تباہ کن عیوب سے پاک ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر فیاضی و سخاوت اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایسا شخص اللہ سے قریب اور اس کی ناراضگی سے دور ہوتاہے۔ سخاوت انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہے جب کہ بخل انسان کو دوزخ کے قریب کردیتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ سخاوت جنت میں ایک درخت ہے۔ سخی اس کی ٹہنیاں پکڑ لیتا ہے اور وہ اس کوجنت میں داخل کردیں گی اور بخل دوزخ کا ایک درخت ہے۔ بخیل اس کی ٹہنیاں پکڑلیتاہے، وہ اس کودوزخ میں داخل کردیں گی۔‘‘ (بیہقی)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ سخی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے اور آگ سے قریب ہے۔ جاہل سخی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بخیل عابد سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (ترمذی)

 زکوٰۃ اد کرنے اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سود سے مال بڑھتا ہے اور زکوٰۃ سے مال گھٹتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں اللہ ان کے مال میں خیر وبرکت اور ان کے اموال کی حفاظت بھی فرماتا ہے۔ اس لیے کہ زمین و آسمان میں موجود تمام وسائل کا مالک تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہ جس کو جتنا دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتااور وہ جسے نہ دینا چاہے اسے کوئی کچھ نہیں دے سکتا۔ ظاہرہے جو لوگ اللہ کی رضا اورخوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہیں تو اللہ کی رحمت ان کی طرف کیوں نہ متوجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔   (البقرۃ: ۲۷۶)ایک اور مقام پر فرمایا:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ (البقرۃ: ۲۶۱)

زکوٰۃ وانفاق سے مال میں اضافہ ہوتاہے۔ اس سلسلہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’ ایک آدمی جنگل میں جارہاتھا۔ اس نے بادل سے آواز سنی کوئی کہہ رہاہے کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو، وہ بادل اس طرف چلا، پھر وہاں پتھریلی زمین پر برسا، ایک نالی نے وہ سب پانی جذب کرلیا، وہ آدمی اس پانی کے پیچھے ہولیا، ناگہاں ایک آدمی بیلچہ لیے باغ میں پھر رہا ہے، اس نے کہا اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے۔ اس نے کہا فلاں، وہی نام جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ اس نے کہا اے اللہ کے بندے! تو میرا نام کیوں پوچھ رہاہے، اس نے کہا میں نے اس بادل سے جس کا یہ پانی ہے سنا تھا، اس سے آواز آرہی تھی کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو، اس نے تیرا نام لیا تھاتو اس میں کیا کرتا ہے، اس نے کہا جب کہ تو نے ایسا کہا تو میں بتلاتاہوں۔ جو اس باغ سے پیداوار ہوتی ہے میں اس کو دیکھتاہوں۔ ایک تہائی میں صدقہ کردیتا ہوں، ایک تہائی میں اور میرے اہل وعیال کھاتے ہیں اور اس باغ میں ایک تہائی لوٹادیتا ہوں۔ ‘‘ (مسلم)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (متفق علیہ)

حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ صدقہ کرنے والے کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے جن پر لوہے کی زرہ ہوں ان کے ہاتھ، ان کی چھاتی اور گردن اس کے ساتھ چمٹادیے گئے ہوں۔ صدقہ کرنے والا جب بھی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کھل جاتی ہے اور بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہے اور ہر حلقہ اپنے مقام پر ہوجاتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

زکوٰۃ ادا کرنے سے بندوں کے حقوق ادا ہوتے ہیں۔ آپس میں محبت اور پیار بڑھتاہے، شفقت و بھائی چارے کی فضا بنتی ہے۔ غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات کو سمجھنے اور انھیں پورا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔علامہ حمید الدین فراہی لکھتے ہیں : نماز کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی طرف محبت اور خشیت سے مائل ہو اور زکوٰۃ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ بندہ کی طرف محبت اور شفقت سے مائل ہو۔ اسلام نے بندوں کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زوردیا ہے اور دین در حقیقت اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا ہی نام ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی ہوتی ہے۔

 زکوٰۃ انسان کے دل سے دنیا پرستی اور مال کی محبت کو نکالتی ہے اور اس تصور کو مضبوط کرتی ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اس کی اپنی قوت اور توانائی کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے توانا و تندرست لوگ غریب ہوجاتے ہیں جب کہ کمزور وناتواں لوگ مال دار ہوتے ہیں۔ بہت سے اہلِ علم فقروفاقہ کا شکار ہوتے ہیں جب کہ بہت سے جاہلوں کے پاس ڈھیر ساری دولت ہوتی ہے۔ بہت سے ذہین و ہشیار لوگ کنگال ہوتے ہیں اور جب کہ بہت سے بدھو لوگوں کے پاس بڑاسرمایا ہوتا ہے۔معلوم ہوا کہ دولت، طاقت، علم، ذہانت کے بل بوتے پر حاصل نہیں کی جاسکتی۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتاہے نوازتا ہے۔

زکوٰۃ دینے سے مسلم معاشرہ میں خوش حالی اور آسودگی پیداہوتی ہے۔ فقر و غربت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ دولت چند افراد تک سمٹ کر نہیں رہ جاتی بلکہ وہ سماج کے کمزور، پسماندہ اور غریب لوگوں تک پہنچتی ہے۔ اسلام کبھی یہ گوارانہیں کرتا کہ معاشرہ میں کچھ لوگ تو عیش و آرام میں مست رہیں اور غریبوں، یتیموں، محتاجوں، بیواؤں، قرض داروں اور پریشان حال لوگوں کا کوئی پرسانِ حال نہ ہو۔ اسلام اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال داروں کو جو دولت دی ہے اس میں غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی حق ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں فرمایاگیاہے: ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور محروم لوگوں کا حق ہے۔(الذاریات:۱۹)

اگر زکوٰۃ کے جمع و تقسیم کا صحیح نظم ہو تو معاشرہ سے غربت دور ہوسکتی ہے اور معاشرہ خوش حالی کی بہترین مثال بن سکتا ہے۔ جیسا کہ صحابہؓ کے زمانے میں تھا کہ لوگ اپنی زکوٰۃ دینے کے لیے پھرتے تھے، مگر کوئی ان کو زکوٰۃ کا مستحق نہ ملتا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو زکوٰۃ ادا کرنے اور انفاق کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ مسلمان ایک بار پھر عظمت و بلندی سے ہم کنار ہوسکیں۔ (آمین)

تبصرے بند ہیں۔