زکوٰۃ اور تزکیہ کا قرآنی تصور

قمرفلاحی

قرآن مجید میں تقریبا ہر جگہ نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر گیا ہے،اکثر جگہوں پہ اس زکاۃ سے مراد صدقہ ہوتا ہے جو بغیر نصاب کے ادا کرنا ہوتاہے۔ ہر مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ صدقہ کرتا رہے، یہ مومنوں کی صفت خاصہ ہے۔( البقرہ ۴۳) جس مومن کو یہ میسر نہ ہو اسے چاہیے کہ کلمہ حسنہ کے ذریعہ سے ہی صدقہ کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے۔

زکوٰۃ کا تعلق حقوق العباد سے ہے جو ناقابل معافی ہے، گویا جس کا مال ہم نے دبا کر رکھا ہے جب تک وہ معاف نہیں کرتا اللہ تعالی کے ہاں جوابدہی سے نہیں بچا جاسکتا،اس طور پہ مومن کو محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ اس کے ارد گرد کون کون لوگ ہیں جن کا حق ان پہ واجب ہورہا ہے اور وہ ادا نہیں کر رہے ہیں۔

فرض زکوٰۃ[صاحب نصاب والا] ادا کرنے والوں کی مدح و تعریف اور فضیلت میں کوئی آیت یا حدیث نہیں ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ  مال جمع کرکے رکھنا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہ دنیا پرستی کی طرف لے جاتاہے اور اللہ تعالی سے توکل کو کم کرتاہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئ نبی صاحب نصاب رہے ہوں گے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے تو یہ معلوم ہے کہ انہوں نے زکاۃ نہیں ادا کیا۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صاحب نصاب ہوئے ہی نہیں مال آتا رہا اور صرف ہوتا رہا۔یہی اصل سنت اور مزاج شریعت ہے مگر مال بڑھانے کی اجازت دین میں موجود ہے، البتہ مال بڑھانے کی اجازت اور مال جمع نہ کرنے کی فضیلت کے فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔

صحابہ کرام کی فہرست میں برائے نام تعدا د تھی جو صاحب نصاب تھی اس کے باوجود وہ برابر صدقہ کرنے والے تھے۔

جو نمازی ہوگا وہ زکوٰۃ بھی ادا کرنے والا ہوگا۔ (البقرہ ۱۷۷)

 یہ مومن کی صفت خاصہ ہے۔ (البقرہ ۴۳)

 نماز ادا کرو زکوٰۃ دو اور جھکنے والوں کے ساتھ جھک جائو:

و اقمیمو الصلوٰۃ و آتو الزکاۃ و ارکعوا مع الراکعین۔ (البقرہ ۴۳)

زکوٰۃ کی وجہ سے میں تمہاری سیئات دور کردوں گا۔ (المائدہ ۱۲)

زکوٰۃ نہ دینے والے کافر ہیں۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کی تھی۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا کہ مجھے میرے رب نے وصیت کی ہے کہ میں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دوں اور خود بھی اس پہ عمل کروں تاحیات۔

فاوصانی بالصلاۃ و الزکاۃ ما دمت حیا۔ (مریم ۳۱)

اور وہ نماز اور زکوۃ کا حکم دیا کرتے تھے،اور وہ اپنے رب کے نزدیک مقبول تھے۔

وکان یامر بالصلاۃ والزکوۃ وکان عند ربہ مرضیا۔ (مریم ۵۵)

آپ ان کے مال میں سے کچھ حصہ لیجئے بطور صدقہ کہ تاکہ آپ انہیں پاک کرسکیں اور اور ان کا تزکیہ کر سکیں، اور انکے لئے دعا کریں۔

خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا و صل علیھم۔ ۔۔۔۔ (التوبہ ۱۰۳)

تزکیہ کا اجر دائمی جنت ہے۔

خالدین فیھا و ذالک جزاء من تزکی۔ (طہ ۷۶)

کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے تزکیہ کیا۔

قد افلح من تزکی۔۔۔ (الاعلی ۱۴)

فقل ھل لک الی ان تزکی۔ (النازعات ۱۸)

 تم فرعون کے پاس جائو اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے، اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے۔

وما یدریک لعلہ یزکی۔ (عبس ۳)

وہ ترش رو ہوا اور منہہ موڑ لیا،[صرف اس لیے] کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا،تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا۔

ذالکم ازکی لکم واطھر واللہ یعلم وانتم لا تعلمون۔ (البقرہ ۲۳۲)

جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکوجبکہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں تمہاری بہترین صفائ اور پاکیزگی ہے۔

[ پاکیزگی کیلئے معاملات درست ہونے ضروری ہیں ]

واقیموا الصلوٰۃ و آتو الزکاۃ و ماتقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ۔ ۔۔(البقرہ ۱۱۰)

تم نمازیں قائم رکھو اور زکاۃ دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجوگے، سب کچھ اللہ کے پاس پالوگے۔ بے شک اللہ تعالی تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔