زکوٰۃ: ایک بے مثال جدید نظام !

ترتیب:عبدالعزیز

 مسلمانوں میں نماز کے سلسلے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ نماز پڑھے بغیر بھی کوئی مسلمان رہ سکتا ہے لیکن زکوٰۃ کے سلسلے میں معلومات کی بے حد کمی ہے اور حب مال و دنیا بھی ہے جس کی وجہ سے جو لوگ زکوٰۃ دینے کے اہل ہیں ان پر فرض ہے وہ بھی زکوٰۃ کی عدم ادائیگی سے اپنے لئے نہ گناہ سمجھتے ہیں اور نہ عذاب، جبکہ زکوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اگر کوئی اس کا منکر ہے اور اسلامی حکومت کو ادا نہیں کرتا تو اسلامی حکومت اس کے خلاف جہاد و قتال کرسکتی ہے۔ اگر حکومت نہ ہو تو مالداروں کو امانت دار اداروں میں جمع کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ زکوٰۃ کی مدات پر ترجیحات طے کرنے کا حق مسلمانوں کے اہل الرائے کو دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ زکوٰۃ کا اجتماعی نظم ہونا چاہئے۔ انفرادی طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی سے وہ فرض پورا نہیں ہوتا جس کی اللہ اور رسولؐ نے ہدایت کی ہے۔

  برسوں سے معاشرہ میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ زکوٰۃ کا مطلب ہے چند روپئے یا چند کلو اناج کسی فقیر یا بھکاری کو دے دینا تاکہ وہ اپنی بھوک کچھ دنوں تک مٹاسکے اور دینے والے کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس صورت سے اسلامی تعلیمات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک اشتراکی صحافی نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ زکوٰۃ معاشرے کیلئے موزوں نہیں ہے کیونکہ آج کا اقتصادی اور اجتماعی نظام صدقات کے بل پر نہیں چل سکتا بلکہ محنت اور پیداوار ہی کے بل پر چل سکتا ہے، گویا زکوٰۃ کی حیثیت اس کی نظرمیں بھیک کی ہے اور بے کار بیٹھے رہنے والوں کیلئے اعانت یا چندہ ہے۔

 آج پہلی غلط فہمی مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے اندر سے یہ دور کرنے کی ضرورت ہے کہ زکوٰۃ بھیک نہیں بلکہ ضرورت مندوں کا حق ہے۔ قرآن مجید میں صاف صاف اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 ’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) لے کر انھیں پاک کرو اور نیکی کی راہ میں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو بلاشبہ تمہاری دعا ان کیلئے باعث تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘ (سورہ توبہ: 103)۔

  دوسری جگہ سورہ توبہ میں اللہ کا فرمان ہے :

  ’’اور جو لوگ سونا اور چاندی وغیرہ خرید کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔ جس دن جہنم کی آگ اس پر دہکائی جائے گی اور اس سے ان کی پیشانیوں ، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا،تو اب چکھو اپنے جمع کرنے کا مزا‘‘۔ (التوبہ:34،35)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس شخص کے پا س سونا، چاندی ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرے، قیامت کے دن اسے سونے چاندی کی تختیاں بناکر جہنم کی آگ میں ان کو تپایا جائے گا، اور ان سے اس کی پیشانی، بازو اور پیٹھ داغی جائے گی۔ جب ٹھنڈی ہوں گی تو انھیں پھر تپا کر داغا جائے گا۔ یہ عمل اس کے ساتھ اس دن ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جائے گا اور وہ اپنی راہ دیکھ لے گا جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف‘‘۔ (مسلم: کتاب الزکوٰۃ)

 امت مسلمہ کو معلوم ہے کہ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ کے دورمیں جن لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا۔ خلیفہ اول نے فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اونٹ کی ایک رسی زکوٰۃ میں دیتے تھے اگر اس وقت نہیں دیں گے تو میں ان کے خلاف جنگ کروں گا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زکوٰۃ بھیک نہیں ہے بلکہ اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم عنصر ہے جسے پورا کئے بغیر یا ادا کئے بغیر کسی کا مسلمان رہنا غیر ممکن ہے۔ مسلمان کیلئے جس طرح نماز قائم کرنا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح مالداروں کو زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

 آج ضرورت ہے کہ زکوٰۃ کے سلسلے میں مسلمانوں میں بیداری پیدا کی جائے ۔ انھیں اس کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی واقف کرایا جائے اور جہاں زکوٰۃ کا خاطر خواہ اجتماعی نظم نہیں قائم ہے، وہاں اجتماعی نظم قائم کیا جائے۔

 مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ مسلمان اگر زکوٰۃ کے نظم کو ٹھیک کرلیں تو ان کا اَسی فیصد سے زائد مسئلہ حل ہوجائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جو لوگ اجتماعی طور پر زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ ان کا زکوٰۃ دینا نہ دینا برابر ہے یعنی اس سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا۔

 مولانا سید سلیمان ندویؒ نے کہاکہ جس طرح نماز باجماعت ادا نہ کرنے سے نماز کی فرضیت پوری نہیں ہوتی۔ اسی طرح اجتماعی طور پر زکوٰۃ نہ ادا کرنے سے زکوٰۃ تو ادا ہوجاتی ہے مگر اس کی فرضیت پوری نہیں ہوتی اسی طرح اجتماعی طور پر زکوٰۃ نہ ادا کرنے سے زکوٰۃ تو ادا ہوجاتی ہے مگر اس کی فرضیت پوری نہیں ہوتی۔

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کہا ہے کہ

 ’’لفظ زکوٰۃ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مالدار آدمی کے پاس جو دولت جمع ہوتی ہے، وہ اسلام کی نگاہ میں ایک نجاست ہے، ایک ناپاکی ہے اور وہ پاک نہیں ہوسکتی، جب تک کہ اس کا مالک اس میں ہر سال کم از کم ڈھائی فیصد راہ خدا میں خرچ نہ کرے۔ ’’راہ خدا‘‘ کیا ہے؟ خدا کی ذات تو بے نیاز ہے، اس کو تو نہ تمہارا مال پہنچتا ہے نہ وہ اس کاحاجت مند ہے۔ اس کی راہ بس یہی ہے کہ تم خود اپنی قوم کے تنگ حال لوگوں کو خوش حال بنانے کی کوشش کرو اور ایسے مفید کاموں کو ترقی دو، جن کا فائدہ ساری قوم کو حاصل ہوتا ہے‘‘۔

 معروف و ممتاز اسلامی دانشور اور عالم سید محمد رشید رضا اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں :

  ’’اسلام کو زکوٰۃ کی بنا پر تمام ادیان اور شریعتوں کے مقابلہ میں امتیاز حاصل ہے اس کا اعتراف تمام قوموں کے دانشوروں نے کیا ہے … اگر مسلمان دین کے اس رکن کو قائم کرتے… جبکہ اللہ نے ان کو کثیر التعداد بھی بنایا ہے اور رزق میں فراوانی بھی عطا کی ہے … تو ان کے اندر بدحال، غریب اور مصیبت زدہ قرض دار نہ پائے جاتے لیکن اکثر لوگوں نے اس فریضہ کو ترک کر دیا جس کی بنا پر وہ دین کے حق میں بھی زیادتی کے مرتکب ہوئے اور ملت کے حق میں بھی۔ نتیجہ یہ کہ مالی و سیاسی لحاظ سے ان کا حال دوسری قوموں سے بدتر ہوگیا، اور وہ اپنا اقتدار اور عزت و شرف سب کھو بیٹھے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کیلئے بھی دوسروں کے دست نگر ہیں ۔چنانچہ وہ اپنے بچوں کو مشنریوں کے یا الحاد کے تعلیم دینے والے اسکولوں میں بھیجتے ہیں ، جہاں ان کی دنیا بھی خراب ہوتی ہے اور دین بھی۔ اور ان کے قومی و ملی تعلق کو ختم کرکے انھیں غیروں کا ذلیل غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔