سائنس

ندرت کار

سوچ پہلے آتی ہے، سائنس بعد میں، سوچ نہیں تو سائنس بھی نہیں۔ جب بھی کوئی نیا ایونٹ ہوتا ہے تو انسان پہلے اس کے متعلق سوچتا ہے،پھر اس کے Cause and Effects کو،سائنسی بنیادوں پر سرچ کرتا ہے۔

سائنس کا مقام اور اہمیت

موجودہ تہذیب میں سائنس اس قدر رچی بسی ہوئی ہے کہ سائنس دان ہونا ایک بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ فی زمانہ کسی انسان کی کوشش کو قدرو منزلت کی نظر سے اس وقت تک نہیں دیکھا جاتا، جب تک کہ اس کی بنیاد سائنس پر نہ ہو۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو، سائنس کو چنداں اہمیت نہیں دیتے، لیکن اتنی چھوٹی سی بھی بات نہیں سمجھتے کہ ایک شخص، جس نے بجلی کا بلب ایجاد کرکے تمام دنیا کو روشن کردیا، اس کا انسانیت پر کتنا بڑ ا احسان ہے۔

دور نہ جائیے، انسان کی آج کی رہائش اور نصف صدی پیشتر کی رہائش کا مقابلہ کیجیئے۔ آج کا انسان، سائنس کی بدولت،کس قدر آرام و آسائش کی زندگی گذار رہا ہے۔ یہ سب کچھ سائنس ہی کے طفیل ہے۔

سائنس کا طریق

سائنس وہ علم ہے جس میں باقاعدگی بدرجہ اتم موجود ہے،یہ مبہم شے نہیں اس میں سخت نظم و ضبط موجود ہے،
سائنس کی بنیاد Scientific Method سائنس کے طریقہ کار پر ہے۔ سائنس کی قوت، اور اس کی حدود کا انحصار ، اسی سائنسی طریق پر ہے۔ یہ سائنسی طریق مندرجہ ذیل مراحل سے گذرتا ہے۔

1- مشاہدہ Observation

ایسی شے جو مشاہدہ میں نہ آسکے، اس پر سائنسی تحقیق نہیں کی جاسکتی،تاہم مشاہدہ براہِ راست بھی ہو سکتا ہے اور اوزاروں کے ذریعہ بھی۔

2- عقدہ Problem

مشاہدہ کے بعد، سائنسی طریق کا دوسرا مرحلہ،ُProblem کا ہے، جس میں دریافت کیا جاتا ہے کہ،فلاں چیز کے ایسا ہونے میں کون کون سے عناصر شامل ہیں۔

3- قیاس Hypothesis

یہ سوالات دیکھنے کے بعد سائنسدان،سائنسی طریق کے ،تیسرے مر حلہ میں داخل ہوتا ہے، اس میں قیاس آرائی ہوتی ہے،جو کہ بظاہر غیر سائنسی چیز ہے،یہاں ایک مسئلہ زیرِ غور ہوتا ہے، جسے ،ہائی پو تھیسس کہا جاتا ہے،
ایک سوال کے ہزاروں جوابات ہوسکتے ہیں،، لیکن صحیح جواب، ایک ہی ہوتا ہے،جب کہ جوابات کے غلط ہونے کے امکا نات زیادہ ہوتے ہیں، ایک سائنسدان،کہہ نہیں سکتا کہ اس نے جو جواب سوچا ہے وہ واقعی درست ہے،یا نہیں،جب تک کہ وہ :سائنسی طریق” کے، چوتھے مرحلہ کو طے نہ کرلے، یہ چوتھا مرحلہ "تجربہ” کا ہے۔

4- تجربہ Experimentation

اس مرحلے پر سائنس اور غیر سائسندان،ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں،،مشاہدہ کرتے ہیں سوالات پوچھتے ہیں، اور ان کے جوابات پر، قیاس کرتے ہیں، لیکن غیر سائنسدان یہاں آکر رک جاتا ہے، اور کہتا ہےکہ:

میرا جواب معقول ہے، مدلل ہے، اور ایسا صحیح معلوم ہوتا ہے،کہ اس میں شک کی گنجائش نہیں،
سننے والے اس کے دلائل سنتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ واقعی یہ جواب مدلل ہے، اور اس کی صحت پر یقین ہوجاتا ہے۔
اب وہ باہر نکلتے ہیں اور باقی لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور کچھ عرصہ بعد، تمام لوگ خوش ہوجاتے ہیں،کہ ان کو اس مسئلہ کا صحیح جواب مل گیا ہے۔ اچانک پیچھے سے آواز آتی ہےکہ اس کے متعلق شہــــــــــــــادت کہاں ہے؟

ان حالات می تاریخ یہ بتاتی ہے کہ، سائنسدان کو، الگ اکھاڑ کر پھینکنا، زیادہ آسان ہوتا ہے،بنسبت،اس کے کہ ۔۔۔۔ جذبات سے پُر۔۔۔ پبلک کی راۓ کو ٹھکرایا جاۓ،۔۔۔ لیکن سائنسدان،کو پرے یا الگ کر دینےسے ۔۔۔۔ اس حقیقت کو الگ یا پرے نہیں کیا جاسکتا کہ،بغیر شہادت کے جوابات ۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ، بے سہارا ہوتے ہین ۔۔۔۔۔ اور کم سے کم ۔۔۔۔ پسندیدہ خیالات، اور تعصب سے بھرے ہوئے فریب،ہوتے ہیں، تجربہ، ضروری شہادت مہیا کرتا ہے،لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ تجربہ کے بعد بھی،سائنٹفک نتیجے پر پہنچنا یقینی نہیں، چنانچہ تجربہ کے بعد کے مراحل مین بھی غیر سائنٹفک ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

5- نظریہ Theory

تجرباتی شہادت، "نظریہ” کی بنیاد بنتی ہے،جو کہ،”سائنسی طریق” کا پانچواں اور آخری مرحلہ ہے، بعض نظریات،پوری دنیا میں اس حد تک صحیح تسلیم کئے گئے ہیں،اور ان کی صحت ، اس درجہ تک درست ہے کہ ان کو، UNIVERSAL LAWS کائناتی قوانین کہا جاتا ہے۔ مثلاً اس نظریہ میں کوئی بھی استثنا نہیں ہوا کہ ،ایک سیب جب درخت سے علیحدہ ہوگا تو وہ ہمیشہ زمین پرآکر گرے گا،اوپر کی طرف نہیں جائے گا۔ کششِ ثقل کے قانون کی بنیاد، اسی مشاہدہ پر مبنی ہے۔ اس لحاظ سے سائنس،اٹکل کا نام نہیں ہے،یہ ایک نظم و ضبط میں گھرا ہوا،علم ہے،جسے مسلسل تگ و دو ، کوشش اور اغلاط و اصلاحات کے مراحل سے گذر کرحاصل کیا جاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔