سادگی سے نكاح کی ایک متواضع کوشش

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

6 ماہ قبل جماعت اسلامی ہند کی ‘مسلم پرسنل لا بیداری مہم’ کے دوران جگہ جگہ پروگرام ہوئے تھے، جن میں نکاح کو آسان بنانے کی ترغیب و تلقین کی گئی تھی _ اسی موقع پر میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اپنے بیٹے کا نکاح سادگی سے کرنے کی کوشش کروں گا _
15 اکتوبر کو میرے بیٹے کا نکاح میرے چچا زاد بھائی کی بیٹی سے ہوا _ اس موقع پر ہر ممکن کوشش کی گئی کہ تمام معاملات سادگی سے انجام پائیں اور بے جا رسوم اور فضول مصارف سے بچا جائے _

بارات کا کوئی تصور نہ تھا کہ ہم دونوں کے گھر ملے ہوئے ہیں اور نکاح کی تقریب گھر سے باہر ہی ہونی تھی _ باراتیوں کی لمبی فہرست تیار ہوتی ہے اور انھیں لے جانے کے لیے بڑی تعداد میں سواریاں بُک کرایی جاتی ہیں _ اس کی نوبت ہی نہیں آئی _ اگلے دن ولیمہ طے کیا گیا تھا اور میں نے اپنے مہمانوں کو تقریبِ نکاح کے بجائے ولیمہ میں مدعو کیا تھا _

جہیز کے بارے میں رشتہ طے ہوتے وقت ہی صراحت سے منع کردیا گیا تھا _ ماحول اور رواج کو دیکھتے ہوئے لڑکی کے رشتے دار بہ ضد تھے کہ وہ لڑکے کو موٹر سائیکل دینا چاہتے ہیں _ اس سے بھی سختی سے منع کردیا گیا _ لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے کا نکاحی لباس آتا ہے _ اس سے بھی منع کردیا گیا _

مہر 25 ہزار طے ہوا تھا _ اس کی ادائیگی زیور کی شکل میں کردی گئی، جس کی مالیت 50 ہزار روپے تھی _
گاؤں میں ایک عجیب رسم ہے کہ لڑکی کو نکاح والے دن رخصت نہیں کرتے، اگلے دن کرتے ہیں _ میں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ پھر ولیمہ کی کیا حکمت ہے؟ چنانچہ میرے اصرار پر اسی دن رخصتی عمل میں آئی _

نئے جوڑے کی ضروریات کی چیزیں فراہم کرنے کی کوشش پہلے سے جاری تھی _ مکان تنگ تھا، اسے تبدیل کرکے کشادہ مکان حاصل کیا گیا _ ڈبل بیڈ، گدّے، سنگار میز اور دوسری چیزیں خریدی گئیں _ لڑکے کی پھوپھی کے ذریعے دی گئی رقم سے اس کے لیے موٹرسائیکل خرید دی گئی _ الحمد للہ تمام معاملات بہ خیر و خوبی انجام پائے _

اندازہ ہوا کہ چاہے لڑکے والے ہوں یا لڑکی والے، سماج کے دباؤ کی وجہ سے رسوم و روایات پر عمل کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں اور بہت بے دردی سے پیسہ خرچ کرتے ہیں _ یہ رسوم جب شروع کی گئی ہوں گی تو ممکن ہے سماجی اعتبار سے ان کی کچھ افادیت رہی ہو، لیکن اب یہ سماج کے لیے ناسور بن گئی ہیں _ تھوڑی کوشش کی جائے تو بہ آسانی ان سے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے _

تبصرے بند ہیں۔