سالِ نو کا جشن اور اسلامی تعلیمات

مولاناعبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 زندگی اللہ پاک کا عظیم عطیہ اور قیمتی امانت ہے ؛اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی کامیابی اور اخروی سرفرازی کا سبب ہے اوراس کا ضیاع انسان کو ہلاکت وبربادی کے دہانے تک پہونچادیتا ہے۔ قیامت میں انسان کو اپنے ہر قول و عمل کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پورا حساب دیناہے ؛اس لیے ضروری ہے کہ انسان کسی بھی عمل کو انجام دینے سے پہلے اس بات پر بہ خوبی غورکرلے کہ اس عمل کے ارتکاب کی صورت میں وہ کل کیا صفائی پیش کرے گااور اپنے معبود حقیقی کو کیا منہ دکھائے گا؟؟۔آج مسلمانوں نے دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی بہت سی ان چیزوں کواپنی زندگی کا حصہ بنالیا اور انہیں اپنے لیے لازم و ضروری سمجھ لیا؛جو دین و دنیا دونوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہیں، ان ہی خرافات اور ناجائز رسومات میں "سال نو کا جشن” بھی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہے۔

 ایک سال کا اختتام اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا، حیات مستعار کا ایک ورق الٹ گیا اورہم موت کے مزید قریب ہوگئے، اس لحاظ سے ہماری فکر اور ذمہ داری اور بڑھ جانی چاہیے، ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور وقت کو منظم کرکے اچھے اختتام کی کوشش میں لگ جانا چاہیے اوراپنا محاسبہ کرکے کمزوریوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے؛مگر افسوس صد افسوس! اس کے برعکس دیکھا یہ جاتا ہے کہ عیسوی سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پرمغربی ممالک کی طرح ہمارے ملک کے بہت سارے مسلم اور غیر مسلم بالخصوص نوجوان لڑکیاں اور لڑکے،دھوم دھام سے خوشیاں مناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں اور ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتے ہیں پھراظہار مسرت کے اس بے محل موقع پر وہ جائز اور مناسب حدود سے نکل کر بہت سے ایسے کام بھی کرتے ہیں ؛جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اور نہ ہی انسانی سماج کے لیے وہ کام کسی طرح مفید ہیں ؛بلکہ نگاہ بصیرت سے دیکھاجائے تو حد درجہ مضر ہیں ۔ مثال کے طور پر (۳۱)دسمبر اور یکم جنوری کے بیچ کی شب میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے جگہ جگہ قمقمے روشن کئے جاتے ہیں، رنگ بہ رنگی تقاریب کا اہتمام ہوتاہے، ناچنے گانے والیوں کو بلاکر رقص و سرود کی محفلیں جمتی ہیں اوران حرام کاموں پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ بہت سارے نوجوان اس رات شراب وکباب کا جم کر استعمال کرتے ہیں اور اس غلط کام پر بھی بے دریغ پیسہ صرف کرتے ہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ شراب نوشی کی کسی بھی مذہب میں کوئی بھی گنجائش ہوگی، یہ انسانی عقل کو سلب کر کے آدمی کو بالکل ناکارہ بنا دیتی ہے، اور اس کے نشہ میں چور آدمی قتل وغارت گری، زنا کاری وبدکاری اور بہت ساری دوسری برائیوں کا بلا جھجھک ارتکاب کرتا ہے۔

الغرض: پرانے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر یعنی 31دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب فحاشی اور عریانی کی تمام حدوں سے گزرجانے، بے دریغ مال و اوقات کا ضیاع کرنے نیز مذہبی و اخلاقی پابندیوں کو پاؤں تَلے روند ڈالنے، بلکہ حیوانیت کا گندامظاہرہ کرنے کوفی زمانہ نیو ایئر سیلی بریشن سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس میں متعدد گناہوں کے ساتھ اسراف وفضول خرچی، کفار ومشرکین کی تقلید، نعمتِ خداوندی کی ناقدری اور وقت کا ضیاع جیسے بیشتر امور بھی شامل ہیں ۔

 جشن سال نو، آغاز و ارتقاء:

 دیگر بہت سی خرافات کی طرح یہ رسم بد بھی یہود و نصاری کی دین ہے ؛جو مسلمانوں میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو عام کرنے کے لیے ایجاد کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ نئے عیسوی سال کا جشن پہلی بار1؍ جنوری 1600 عیسوی کو، اسکاٹ لینڈ میں منایا گیا، اس لیے کہ عیسائی اسی سے نئے سال کی ابتدا مانتے ہیں، جب کہ یہ تاریخ مروجہ میلادِ مسیح سے مختلف ہے ‘ یعنی میلادِ مسیح 25؍دسمبر اور نئے سال کا آغاز اس کے ایک ہفتے بعد31دسمبر۔پھر عصرِ حاضر میں نئے سال کا جشن ایک اہم تقریب کے طور پر عیسائی وغیر عیسائی ممالک میں جدید مغربی تہذیب کے مطابق 31دسمبر کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رات کے 12 بجے منعقد کیا جانے لگا، جس میں مسلمان بھی دھڑلّے سے شریک ہوتے اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور نبوی تعلیمات وتعلیمات کے چیتھڑے اڑاتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔

اہل اسلام خود جائزہ لیں کہ جو مذہب، اسلامی سال کی آمد پر بھی آپس میں مبارک بادی وغیرہ کی تاکید نہیں کرتاکہ کہیں اس طرح کی مبارک بادی آہستہ آہستہ مستقل بدعت کی شکل اختیار نہ کرجائے، وہ غیر اسلامی سال پر جشن منانے اور مبارک باد ی دینے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟؟۔ ہجرت کے بعد رسول اللہﷺدس سال مدینہ منورہ میں رہے اور آپﷺکے بعد تیس سال خلافت ِ راشدہ کا عہد رہا،صحابہ کرامؓ کی نگاہ میں اس واقعے کی اتنی اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واساس بنایا گیااور حضرتِ عمر ؓکے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا، لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یومِ ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی،اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم ورواج کا قائل نہیں ہے، کیوں کہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں، پھر وہ دھیرے دھیرے دین کاجزو بن جاتی ہیں، اس لیے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز کرنا ضروری ہے۔ ’’ (ملخص از کتاب الفتاوی) اسلام میں نئے سال کی ابتداء پر یوں مادر پدر آزاد ہوجانے کی کوئی اجازت نہیں اور المیہ یہ ہے کہ آج ہم پر مغربی ثقافت کا ایسا رنگ چھایا ہم بھول ہی گئے کہ اسلامی سال کی ابتداء محرم کے مہینے سے ہوتی ہے اور اختتام ذوالحجہ کے مہینے پر ہوتا ہے – ہمارے کیلنڈروں پر انگریزی تاریخ ہی درج ہوتی ہے، دفاتر میں انگریزی تاریخ والا کیلنڈر، ملازمین کی تنخواہیں اسی کیلنڈر کے مطابق، چھٹیاں بھی ان ہی تاریخوں کے حساب سے، گویا کہ اسلامی مہینوں کی تاریخیں محض رمضان المبارک اور عیدین کے ساتھ ہی معلق ہوکر رہ گئی۔ جبکہ اسلامی مہینوں کی بنیاد چاند کے گھٹنے اور بڑھنے پر ہے جس کا ادراک ایک عام ان پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے پھر دوسری طرف اسلامی مہینوں کے نام شریعت نے وضع کئے اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کو ان کی بنیاد قرار دیا گویا کہ اسلامی سال اور مہینوں کا نظام ایک باقاعدہ ترتیب شدہ اوراعلی و معیاری ہے اور ہم ہوش مند مسلمانوں نے معیاری چیز کو چھوڑ کر غیر معیاری اور گھٹیا چیز کو سینے سے لگالیا – عیسائی ثقافت کو اسلامی ثقافت پر ترجیح دی اور پھر ان کی نقالی نے ہم سے غیرت و حیا بھی چھین لی کہ ہم ان کے پیچھے چلتے ہوئے ان ہی کے انداز میں ہیپی نیو ایئر کے نعرے لگانے، بدن سے کپڑے نوچ پھینکنے اور طرح طرح کی خرافات انجام دینے میں فخر محسوس کرنے لگے –

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے میں

حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

خود احتسابی کی ضرورت :

 غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے ؛جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘(بخاری، کتاب الرقاق)

اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں آنا حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو رب کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں ؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے ؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔ (ترمذی شریف)اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا مواخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے ؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے۔ اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے ؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے ؟

انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔

یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو ! ۱)اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ ۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے۔ ۳)اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے۔۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے۔ ۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (مشکوۃ شریف)

خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوش گمانیوں اور بھول بھلیوں میں گم کرنے کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین وبے کل کردیتا ہے، اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے ؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس دامن گیرر ہتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور میں آہستہ آہستہ منزل مقصود سے قریب ہورہاہوں ۔ ایسا شخص کس بات پر خوشی منائے گا ؟کس بات کا جشن کرے گا؟ کیوں کر وقت اور مال کا ضیاع کرے گا ؟ بل کہ وہ تویہ سمجھے گا کہ یہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرنے اور آنے والے لمحا تِ زندگی کے صحیح استعمال کے عزم و ارادے کا موقع ہے نیز از سر نو عزائم کو بلند کرنے،خامیوں کو دور کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔

 درد مندانہ گزارش :

انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا مقصد ’’خالق کائنات کی بندگی‘‘ (الذاریات، 51 : 56) قرار دیا گیا ہے، یہ ہر انسان کی تخلیق کا مقصد ہے اور جو مسلمان ہو تو اس پر عام انسانوں کی نسبت ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ؛کیونکہ کسی بھی مسلمان کا مقصد خالق کائنات کی بندگی کے ساتھ اپنے آقاومولی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور مذہب اسلام کی سچی نمائندگی ہے۔ ان سے بڑھ کرعلماء کرام تو انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اس حیثیت سے ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے؛ لہذا بڑے ہی عجز ونیازکے ساتھ ملت اسلامیہ کے امینوں و پاسبانوں اورعقائد و اعمال کے محافظوں اور نگہبانوں سے گزارش ہے کہ خدارا !ان نوجوانوں کی حالت زار پر رحم کیجئے، انہیں ان کے متاع گمشدہ سے روشناس کرائیے !!انہیں ان کے اسلاف کی زندگیوں سے واقف کرائیے !!،حضرت خباب و بلال کے عزم و حوصلوں کو بیان فرمائیے !!،تاریخ و سیرت،مدنیت و سیاست،قانون و قیادت کے روشن ترین اسلامی ابواب ان کی گھٹی میں پیوست کردیجئے !! زعماء و قائدین اور اولیاء و سرپرستان سے ملاقات فرمائیے !مل کر باہمی گفت و شنید کے ذریعہ انہیں اس ایمان سوز عمل سے باز رہنے کی تاکید فرمائیے۔

رحمت کا ابر بن کر جہاں بھر میں چھائیے

عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔