علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ (قسط 2)

ادریس آزاد

عام مسلمان کا عقیدۂ توحید

ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلام توحید پرست مذہب ہے۔ لیکن جب ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ توحید کیا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔ہم الجھ جاتے ہیں۔

یہ مقامِ ’’فکر‘‘ کا آغاز ہے۔ آسان جواب تو یہ ہے کہ توحید کا مطلب ہے، ’’اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘‘۔

اور اگر کوئی اللہ کے ساتھ اور طاقتوں کو شریک ٹھہرائے تو مشرک ہے اور ظلم عظیم کا مرتکب ہوتاہے۔ پھر جب اسی سادہ سے جواب پر ہم بارِ دگر غور کرتے ہیں کہ توحید کیا ہے تو ہمیں چونکنا پڑتاہے۔

ہمیں سوچنا پڑتاہے کہ’’شرک‘‘ میں کیا کیا آتاہے؟

وحدانیت پسندوں کے نزدیک بعض ایسی باتیں بھی شرک ہیں جو ہمارے نزدیک بالکل عام سی باتیں ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ، ’’میں مُولی نہیں کھاتا۔ اس سے میرے پیٹ میں درد ہوتاہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ بھی شرک ہے کیونکہ توحید یہ ہےکہ،

’’اللہ تعالیٰ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے‘‘۔

اور دوسری طرف اگر یہ کہا جائے کہ، ’’نہیں جناب شرک اتنا سختی سے سوچنے کا نام نہیں۔کسی کے سامنے جھکنا تعظیم کے لیے بھی ہوسکتاہے۔ کسی شئے کو چومنا محبت کے لیے بھی ہوسکتاہے۔

اور اس طرح پہلی کڑی شرط ’’شرک نہ کرنا‘‘ کی بے شمار تاویلیں نکل سکتی ہیں اور ’نرم و سخت‘ ہردو انتہاؤں کو آرام سے اخذ کیا جاسکتاہے۔

سوال یہ ہے کہ پھر توحید کا حقیق معنیٰ کیسے متعین کیا جائے؟

کیا توحید کے معنیٰ میں خدا کا تصور لازمی ہے؟

اگر خدا کا تصور لازمی ہے تو پھر خود ’’تصور ِ خدا‘‘ ہی ایسا لاینحل سوال ہے کہ آج تک دنیا کے کسی مذہب و فلسفہ سے حل نہ ہوسکا۔ کون سا خدا؟

کیسا خدا؟

کیا خدا کا جسم ہے؟

قران میں خدا کی آنکھوں کا ذکر ہے۔ قران میں خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو کیا خدا کی آنکھیں اور ہاتھ بھی ہیں؟

اگر خدا کا جسم ہے تو وہ ضرور ’’مکان‘‘ میں کسی جگہ بیٹھتاہوگا؟

وہی خدا کا عرش ہے۔ خدا کا عرش کہاں ہے؟

وہ کتنی جگہ گھیرتاہے؟

خدا کتنا بڑاہے؟

اگر وہ جگہ گھیرتاہے اور کہیں دور اس کا جسم کسی عرش پر بیٹھاہے تو پھر جسمانی طور پر تو وہ ہم سے الگ ہوا۔ اس کی حد مقرر ہوگئی۔ تب وہ ہرجگہ، ہروقت کیسے ہوسکتاہے؟

غرض یہ سادہ سادہ سے عوامی سوالات ہیں جو محض یہ کہہ دینے سے کہ توحید میں تصور ِ خدا لازمی طور پر شامل ہے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان سے آگے سوالات پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔

جب ہم ’’تصورخدا‘‘ پر بات کرتے ہیں تو عقیدہ توحید جابجا مجروح ہوتا اور بعض اوقات توحید سے فی الواقع بہت دُور نکل جاتاہے۔ مثال کے طور پر تصور خدا پر بات کرتے کرتے ہم اکثر کہتے ہیں،

’’خدا ہرشئے میں جاری ساری ہے لیکن خدا کا مجازی دنیا میں کامل رُوپ انسان خود ہے‘‘۔

آدم کی کسی رُوپ میں تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر
مبارک شاہ مرحوم

اگر خدا ہر شئے میں ہے تو ہر شئے مقدس ہوئی اور اگر خدا کا کامل، مجازی رُوپ انسان ہے تو تمام انسان خدا جتنے واجب الاحترام ہوجائیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دینِ اکبری وحدت الوجود کے بدترین نتائج میں سے ایک تھا۔ جس میں خنزیر تک کو اِس لیے قابل ِ احترام گردانا گیا کہ چونکہ خدا ہرشئے میں جاری و ساری ہے فلہذا اِس میں بھی خدا موجود ہے۔ مستی کے اِس عالم تک کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض لوگ کُتوں کے منہ چُومتے پھرتے ہیں کہ یہ بھی محترم ہے کیوں کہ خدا ہرشئے میں جاری و ساری ہے۔

چناں چہ تصورخدا پر بات کرتے ہوئے ہم خود الجھ جاتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ’’توحید‘‘ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور ’’شرک‘‘ کہاں سے شروع ہوتاہے کیونکہ شرک کو خود قران نے ظلم عظیم کہہ کر پکاراہے۔ اور یوں اسلام کے سب سے بنیادی عقیدہ میں ہی اتنے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں کہ ہم انہیں کسی طور حل نہیں کرسکتے۔

اس کے برعکس وحدانیت پسندوں کا نظریہ ہے۔ اگر وحدانیت پسندوں کو کسی مذہبی گروہ کی شکل میں دیکھنا ہے تو ہمارے سامنے اہلحدیث المعروف ’’وہابی‘‘ فرقہ کی مثال ہے۔ وحدانیت پسندوں کی توحید مختلف ہے اور ان کے نزدیک وحدت الوجودی عقائد کفریہ عقائد ہیں۔ اہلحدیث مصنفین بلاخوف و خطر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی جیسے بزرگوں کو ’’الصوفی الملحلد‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

میرا مدعا یہ ہے کہ ہم عقیدۂ توحید پر مصالحت کس طرح کرسکتے ہیں؟ کیونکہ ہم تصور ِ خدا پر مصالحت نہیں کرسکتے۔ مختلف طبائع کو مختلف طرح کا خدا پسند ہوتاہے۔ ایک قوم قابل ِ رحم حد تک غلامی کا شکار ہوچکی ہو تو اس قوم کی اجتماعی رُوح بھی بدل چکی ہوتی ہے اور اس کے برعکس ایک قوم اگر صدیوں سے آزاد ہے تو اس قوم کی رُوح یعنی اجتماعی طبیعت بھی اتنی ہی بالیدہ ہے۔غلامی میں راضی برضا رہنے والے صرف تقدیر پرست ہی نہیں تقدیر پسند بھی ہوتے ہیں اور

’’ہرشئے میں خدا جاری و ساری ہے‘‘ کا نظریہ انہیں موافق آتاہے۔

ہو اسیری میں بھی نہال اگر
ایسے سمجھو رہا ہوئے ہوہے ہو

اہلسنت والجماعت میں صرف بریلوی مکتبِ فکر ہی وحدت الوجودی عقائد کا دلدادہ نہیں بلکہ دیوبندی مسلک کے سُنی بھی تصورِ خدا میں مکمل طور پر وحدت الوجودی ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک منطقی مقدمہ ہے جسے میں نے اپنی کتاب ’’تصوف، سائنس اور اقبال‘‘ میں یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اِس میں مغالطہ غیر جامع حداکبر ہے۔

کبریٰ: ماخلقت ھذا باطلا (قران)

ترجمہ: یہ کائنات باطل تخلیق نہیں کی گئی

صغریٰ: کل غیراللہ باطلٌ (حدیث)

ترجمہ: ہرغیراللہ باطل ہے
۔۔۔

استنتاج: یہ کائنات غیراللہ نہیں ہے۔

یعنی یہ کائنات عین اللہ ہے۔اور یہ خالص وحدت الوجود ہے۔

اس مقدمہ میں ’’ھذا‘‘ کالفظ مقدمہ کبریٰ کو کلیہ سالبہ سے جزئیہ سالبہ میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس لیے اس مقدمہ میں مغالطہ ہے اور مولانا اشرف علی تھانوی کا استنتاج غیردرست ہے۔

سوال یہ نہیں کہ وحدت الوجود درست ہے یا غلط ۔ وحدت الوجود کی بھی تو قسمیں ہیں۔

ہم جس قدر گہرائی میں اُترتے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہرلحاظ سے ہمارا تصورتوحید متاثر ہوتاہے۔ چاہے وہ عقیدہ، وحدانیت پرستوں کا ہو یا وحدت الوجودیوں کا۔

یہ تو تھی اس بابت تفصیل کہ خود پہلا عقیدہ یعنی عقیدہ توحید ہی آج تک اجماع ِ اُمت کا منتظر ہے تو ہم آگے کیسے بڑھیں؟

اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے تشکیل جدید میں اقبال نے اس وقت کے ترکی کے وزیر اعظم سعید حلیم پاشا کا قول یہ کہتے ہوئے نقل کیا کہ وہ بڑے ہی بابصر اہل قلم ہیں،

’’سعید حلیم پاشا کو افسوس ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور اجتماعی مقاصد بھی بعض ایسے توہمات کے زیر اثر جو امم اسلامیہ کے اندر زمانۂ قبل ازاسلام سے کام کررہے تھے، غیر اسلامی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ ان کے مقاصد بھی تو اسلامی بہت کم ہیں۔ عجمی، عربی یا ترکی زیادہ۔ نہ توحید کا صاف ستھرا اور پاکیزہ چہرہ کفر و شرک کے غبار سے محفوظ رہ سکا، نہ قیدِ مقامی کی روز افزوں پابندیوں نے اسلام کے اخلاقی مقاصد کی

غیرشخصی اور عالم گیر نوعیت کو برقرار رہنے دیا‘‘۔
میں نے یہاں تک مختلف مکاتب ِ فکر کے عقیدۂ توحید کا اجمالی ذکر کیا۔اور ذکر بھی عوامی نوعیت کا۔ ہاں البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ اعتقادی درجہ کی مذہبی زندگی میں چونکہ ’’سوال‘‘ اور ’’غوروفکر‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر عقیدۂ توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی شریک نہیں اور بس۔ اس سے زیادہ نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔

جاری ہے!

تبصرے بند ہیں۔