سانحہ کربلا: ایک المیہ کا پس منظر

شہباز رشید بہورو

پیغمبرِ انقلاب حضرت محمد صلی الله عليه وسلم نے دنیا سے شرک جیسے ظلمِ عظیم کا خاتمہ کرکے خصوصاَ  سرزمین عرب کو اور عموماََ پوری دنیا کو اس کی خباثتوں سے محفوظ کر لیا۔ شرک کے امکانات کو مٹانے کے ساتھ ساتھ ان تمام اخلاقی بیماریوں کا کامیاب علاج کیا عربی معاشرہ جن کا شکار  تھا۔ خاندانی عصبیت، قبائلی تفاخر، باقیوں کے مقابلے میں احساسِ برتری اور اپنے ابا واجداد کے رسمی معمولات کے ساتھ بے جا محبت جیسی برائیوں نے عربی معاشرے کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ یہ وہ غیر اخلاقی و غیر انسانی  بیماریاں تھیں جو عربی معاشرہ کے رگ و پے میں سرایت کرچکی تھیں۔ اسی لیے حضور صلی الله عليه وسلم نے فتح مکہ کے موقعہ پرخانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر لوگوں کے ایک اجتماعِ عظیم کو مخاطب فرمایا:

"اے گروہ قریش اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے تکبر اور باپ دادا کے فخر کو دورکردیا۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگو ہم نے تم کو نر ومادہ سے پیدا کیا اور تمہاری شاخیں اور قبائل بنائے تاکہ الگ الگ پہچان ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بزرگ تم میں وہی ہے جو متقی ہے.”

آپ صلی الله عليه وسلم نے لوگوں کو ان کے ذاتی تقویٰ اور صلاحیتوں کی بنیاد پر مختلف زمہ داریاں سونپی تھیں۔ بلال حبشی کو موذن، زید بن حارثہ کو سپہ سالار، عثامہ بن زید کو لشکر اسامہ کا سپہ سالار، مصعب بن عمیر کو مدینہ کا معلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نمازوں کا امام اور اسی طرح سے مختلف مواقع پر مختلف قبائل سے وابستہ لوگوں کو مختلف زمہ داریاں سونپ کراعزاز بخشا۔ قبائلی برتری کو احساسِ اخوت میں تبدیل کیا، احساسِ کِبر کو تقوی و نیکی کی لگام لگا کر  باندھ دیا اور اس کے بدلے دوسروں کو ترجیح دینے کا مزاج پیدا کیا۔

قبیلہ بنی امیہ اور بنی ہاشم میں پہلے سے ایک رقابت چلی آرہی تھی اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشیش کرتا تھا۔ اس  خطرے کا احساس آپ صلی الله عليه وسلم کو بخوبی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بند ٹوٹ جائے جو آپ صلی الله عليه وسلم نے اسلام کی صورت میں کھڑا کیا تھا اسی لیے حضور صلی الله عليه وسلم نے اپنے بعد محض قابلیت کی بنیاد پر ابوبکرؓ کو نمازوں کا امام بنا کر ان کی خلافت کے لئے اشارہ فرمایا۔ ابوبکرؓ مذکورہ بالا دونوں قبیلوں میں سے ایک سے بھی تعلق نہ رکھتے تھے۔ خود ابوبکرؓ نے بھی ابنا جانشین  حضرت عمر فاروق کو چنا جو نہ ہاشمی تھے نہ اموی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے بعد اگرحضرت ابو عبیدہ بن الجراح یا سالم مولی میں سے کوئی ایک خلیفہ ہوتا جیسا کہ عمر فاروق کی آرزو تھی، تو یہ مردہ رقابت ز ندہ نہ ہوئی ہوتی مگر یہ دونوں بزرگ حضرت عمر فاروق سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ بہر حال جو کچھ بھی اس کے بعد ہوا وہ مشیتِ ایزدی کے مطابق ہوا اور یہاں پر ان تمام واقعات کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

بنوامیہ اپنی قابلیتوں کی وجہ سے اسلامی خلافت کے اہم جز پہلے سے ہی بنتے چلے آرہےتھے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں ان کی انتہاء نرم مزاجی اور مروان بن حکم کی سیاسی مرتبہ سے بھر پور فائدہ اٹھا کر  یہ پوری اسلامی حکومت پر چھا گیے اور تب سے ہی پورے عرب پر اپنی قیادت وسیادت قائم کرنے کے کی تدبیروں میں مصروف ہوگئے۔ جس کو وہ عہدجاہلیت میں بنو ہاشم کے خلاف قائم نہ کر سکے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت، منافقوں کی منافقت اور یہودیوں کی سازشوں نے بنوامیہ کے لئے ایک موافق  ماحول فراہم کیا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعدحضرت علی  خلیفہ بنائے گئے۔ اس وقت حالات کافی نازک تھے انہی حالات میں ان سے حضرت عثمان کا قصاص لینے کا مطالبہ بنوامیہ کی طرف سے کافی تیز ہوا۔ انہوں نے حالات کو سدھارنے کے بعد اس کام کو سرانجام دینے کا یقین دلایا لیکن ان کی کچھ بھی نہ سنی گئی۔ یہ حالات آگے مزید بگڑ کر جنگِ جمل و صفین کی صورت میں تبدیل ہوئے جو تاریخ اسلام کا ایک نہایت مایوس کن دور مانا جاتا ہے۔ جن جنگوں میں ہزاروں کی تعدادمیں مسلمان مارے گئے، ہزاروں عورتیں بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا پورا دور شورشوں، بغاوتوں اور آپسی مشاجرات کی نذر ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں پورا شام جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیرِانتظام تھا اسلامی سلطنت سے کٹ کر ایک خودمختار ریاست یا ملک کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ بہت کم عرصہ کے لیے خلافت پر متمکن ہوئے پھر اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امت کے مجموعی مفاد کی خاطر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کی اور خلافت سے دست بردار ہوئے۔ ان کی دست برداری کے بعد اکتالیس ہجری میں امیر معاویہ عالم اسلام کے خلیفہ ہوگئے، انھوں نے اپنے زمانے میں  تمام تر مخالفتوں کا قلع قمع کرکے اسلامی حکومت و سلطنت کو کا فی ترقی و وسعت بخشی۔

    مغیرہ بن شعبہ نے امیر معاویہ کی خیرخواہی میں ان کی نسل میں خلافت کو منتقل کرنے کی طرف نےان کو توجہ دلائی۔ انھوں نے امیر معاویہ سے کہا:

"عثمان کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں میں جو اختلاف اور خوں ریزی قائم ہے، وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہےاس لئے میری رائے میں یزید کی ولی عہدی کی بیعت لے کر اسے جانشین بنا دینا چاہئے، تا کہجب آپ کا وقت آئے تو مسلمانوں کے لئے ایک سہارا اور جانشین موجود ہو اور ان میں خوں ریزی اور فتنہ فساد برپا نہ ہو”۔

 خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کی تحریک یہاں سے ہی شروع ہوئی۔ امیر معاویہ کو اس کا م کی مشکلات کا پورا اندازہ تھا ‘چنانچہ انھوں نے مغیرہ سے پوچھا کہ اس مہم کو سرانجام کون دے گا؟اس وقت سیاسی اعتبار سے کوفہ و بصرہ اور مذہبی حیثیت سے حجاز مسلمانوں کے مرکز تھے۔ انہی پر اس قسم کی مہمات کا دارومدار تھا۔ مغیرہ نے کہا "کوفہ کی زمہ داری میں لیتا ہوں ‘ بصرہ کو زیاد ہموار  کرے گا اور حجاز کی زمہ داری مروان بن حکم کے سپرد کی جائے”۔

یزید کی ولی عہدی کے لئے عالمِ اسلام کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ نے لوگوں کو آمادہ کیا۔ جب زیاد بن ابی سفیان کے پاس یہ معاملہ پیش ہوتا ہے تو انہوں نے بصرہ کے ایک رئیس عبید بن کعب کو بلا کر حضرت معاویہ کا حکم سنایا اور کہا کہ وہ اس معاملے میں لوگوں کی مخالفت سے بھی ڈرتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ یزید کی ولی عہدی پر کمر بستہ ہیں۔ زیاد نے یزید کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرکے عبید کو سمجھایا کہ آپ امیر معاویہ کو سمجھائیں کہ وہ اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ عبید نے امیر کو سمجھانے کے بدلے یزید کو سمجھانے کی رائے پیش کی، زیاد نے بھی اس رائے کو پسند کیا۔، چنانچہ عبید  نے جا کر  یزید کو سمجھایا ان کے سمجھانے سے اس نے اپنی بڑی حد تک اصلاح کر لی۔

    امیر معاویہ کا خط جب مروان بن حکم کے پاس پہنچا تو اس نے اس مسئلہ کو اہلِ مدینہ کے سامنے پیش کیا امیر معاویہ نے خط میں کسی جانشین کا نام نہیں لکھا تھا بلکہ صرف  جانشینی کی تجویز پیش کی تھی۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ اس کے بعد دوسرا خط جس میں یزید کا نام بحیثیت ولی عہد کے تھا جب اہلِ مدینہ کے سامنے پیش ہوا تو یزید کا نام سنتے ہی عبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی نے سخت مخالفت کا اظہار کیا۔ اسی درمیان امیر معاویہ نے اسلامی سلطنت کے مختلف خطوں سے آرائیں منگوائیں اور اکثر آرائیں انھیں اس معاملے میں مزید غوروفکر کرنے کی نسبت تھیں۔ لیکن امیر معاویہ یزید کی ولی عہدی طہ کرچکے تھے۔ امیر معاویہ  نے اس ظمن میں تمام تر سود مند اقدامات اٹھا کر یزید کی ولی عہدی کے لیے عالمِ اسلام کی رائے عامہ کو ہموار کیا۔

60 ہجری میں حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد یزید تخت نشین ہوتا ہے۔ اس نے تخت نشینی کے ساتھ ہی ولید بن عتبہ حاکمِ مدینہ کو امام حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بیعت لینے کا تاکیدی حکم بھیجا، اس کو اس کی تعمیل کے خطرات معلوم تھے۔ اس نے مروان سے مشورہ کیا مروان نے ان سے فوراً زبردستی بیعت لینے کی رائے دی۔ ولید نے دونوں بزرگوں کو بلا بھیجا لیکن دونوں کو یزید کی خلافِ شرع خلافت قبول نہ تھی۔ اس لئے دونوں حضرات اٹھ کر مکہ چلے گئے۔

مکہ آنے کے بعد عراق کے شیعانِ علی کی طرف سے امام حسینؓ کو بے شمار دعوتی خطوط آئے اور اس کے علاوہ عمائد کوفہ نے خود آکر چلنے کی دعوت دی۔ ان کی دعوتوں پر حضرت حسین نے مسلم بن عقیل کو حالات کی تحقیق کے لیے بھیجا۔ مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر پہلے ہی روز بارہ ہزار کوفیوں نےبیعت کی۔ مسلم نے حضرت حسین کے نام اپنے بخیریت پہنچنے اور لوگوں کی بیعت کرنے کا حال لکھا۔ امام حسین اس خط کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور کوفہ کی طرف روانگی کی تیاری کی۔ مکہ سے روانگی کے دوران تمام محبین نے آ آ کر ان کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا۔ لیکن تمام تر روکنے کی کوشیشیں بے سود ثابت ہوئیں۔

حضرت حسین اسی تاریخ کو مکہ سے معہ اہل وعیال روانہ ہوئے جس دن مسلم بن عقیل کوفہ میں  ابن زیاد بد بخت کے حکم سے شہید کر دیے گیے۔ جب حسینی قافلہ مقامِ ثعلبہ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل قتل کردیے گیے اور اب کوئی متنفس کوفہ میں حسین کا نہ بچا ہے۔ حضرت حسین نے واپس لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن مسلم بن عقیل کےبیٹوں نے قصاص لینے کے لئے کہا۔ اس کے بعد قافلہ سے دوسرے قبائل کے لوگ بتدریج نکلتے گئی اب نوبت یہاںپہنچی کہ بہت قلیل تعداد باقی رہی۔

ادھر سے عبیداللہ بن زیاد نے امام حسین کے خلاف سخت سے سخت انتظامات کیے تھے۔ امام حسینؓ کی کھوج اور محاصرہ کے لیے ابنِ زیاد نے عمروبن سعد کو چار ہزار فوج دے کر صحرا میں روانہ کیا اورحر بن یزید تمیمی کو ایک ہزار فوج سپرد کرکے گشت پر مامور کیا۔ قادسیہ کے مقام پر عمرو بن سعد خیمہ زن تھا اور ہر طرف کی خبریں منگوانے کا انتظام کر رہا تھا۔ مقام ذی حثم پر امام حسینؓ  حر کے ساتھ ملا۔ اس سے آپ نے فرمایا:

"میں خود سے نہیں آیا ہوں بلکہ تم لوگوں کے خطوط اور آدمی آئے تھے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ہے۔ آپ آکر ہماری رہنمائی کیجیے اگر تم اس بیان پر قائم ہو تو میں تمہارے شہر چلتا ہوں ورنہ۔ یہیں سے لوٹ جاؤں”۔

آپ نے تمام خطوط ان کے سامنے ڈھیر کئے لیکن انھوں نے ایک بھی نہ سنی۔ حر نے کہا کہ ہمیں ابن زیاد نے آپ کو گرفتار کر کے اپنے پاس لے آنے کو کہاہے۔ امام حسین نے کہا کہ میں ایسی ذلت کبھی بھی گوارہ نہیں کر سکتا۔ پھر امام حسین وہاں سے لوٹنے کی نیت سے مختلف مقامات سے ہو کر کربلا پہنچتے ہیں اور وہاں مقیم ہوئے۔ عمرو بن سعد بھی فوراً وہاں پہنچتے ہیں اور امام حسین کو آواز دے کر اپنے قریب بلایا سلام کے بعد کہا:

"بیشک آپ یزید کے مقابلے میں زیادہ مستحق خلافت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں کہ آپ کے خاندان میں حکومت و خلافت آئے۔ حضرت علی و حضرت حسن کے حالات آپ کے سامنے گذر چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "

حضرت حسین نے عمرو بن سعد سے تین باتوں میں سے ایک بات منظور کرنے کے لیے کہا:

"اول تو یہ کہ میں جس طرف سے آیا ہوں مجھے اسی طرف واپس جانے دو۔ دوم یہ کہ مجھ کو کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو کہ وہاں کفار کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں۔ سوم یہ کہ تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھ کو سیدھا یزید کے پاس دمشق جانے دو اور میں خو د جا کر اپنا معاملہ طے کروں گا جیسے میرے بھائی حسن نے امیر معاویہ سے کیا تھا”۔

عمروبن سعد نے ان سارے مطالبات سے بذریعہ خط مطلع کیا۔ ابن زیاد نے شمر ذی الجوشن کے کہنے پرخط  ان میں سے ایک بات بھی منظور نہ کی اور فوراً لکھ بھیجا کہ یا تو حسینبن علی کو گرفتار کرکے لاؤ یا جنگ کرکے ان کا سر کاٹ کر بھیجو۔ ابن زیاد نے خط کے فوراً بعد شمر کو بھی بھیجا۔ خط 9 محرم 61ہجری کوموصول کرتے ہی عمرو بن سعد نے جنگ کی تیاری کی۔ 10 محرم کی رات کو عبیداللہ بن زیاد کے حکم کے مطابق دریائے فرات کے پانی پر حضرت حسین کے لیے بندش لگا دی گئی۔ حضرت حسین اور ان کے ہمراہیوں نے دن کو پانی نہیں بھرا تھا۔ ظالموں نے پانی کا قطرہ بھی نواسہ رسول صہ کو نہ دیا۔ حسین کے چھوٹے بیٹے علی بن حسین بیمار تھے اور خیمے میں پڑے رہتے تھے۔ ان کی بہن ام کلثوم یہ دیکھ کر رونے لگی کہ صبح دشمنوں کا حملہ ہوگا۔ آپ نے بھروسہ دے کر چپ کرایا۔

جب صبح ہوئی تو ایک طرف وہ شخصیت ہے جو نواسہ رسول صلی الله عليه وسلم ہے جن کے رخسار بوسہ نبی سے منور تھے، جن کو رسالت مآب صلی الله عليه وسلم اپنے سینے سے لگاتے مبارک کاندھوں پر بٹھاتے۔ دوسری طرف وہ ہیں جو حق کی مخالفت میں اس انتہاء کر پہنچ گئے تھے کہ تاقیام قیامت امتِ مسلمہ ان کی ان سال کاریوں پر ملامت کرتی رہے گی۔

حضرت حسین نے ان لوگوں کے سامنے تقریر بھی کہ لیکن کسی پر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ اسی دوران حر تمیمی کوفیوں کے لشکر کو چھوڑ کر خضرت حسین کے ساتھ ملتا ہے۔ لڑائی شروع ہوتی ہے اور جس بہادری کے ساتھ حضرت حسین لڑے کوئ بھی آگے نکل کر آپ سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہورہا تھا۔ آخر شمر اور اس کے چند ہمراہیوں نے آپ پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک نے شمشیر کا ایسا وار کیا کہ آپ کا بایاں ہاتھ کٹ کر الگ ہوگیا۔ حضرت حسین نے اس پر جوابی وار کرنا چاہا لیکن آپ کا داہنا ہاتھ بھی اس قدر مجروح ہو چکا تھا کہ تلوار نہ اٹھا سکے۔ پیچھے سے سنان بن انس نے آپ پر نیزہ مارا اور جو شکم سے پار ہوا۔ آپ نیزہ کا یہ زخم کھا کر گر پڑے اور اسی کے ساتھ روح پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا اليه راجعون۔

میدان کربلا شاید دنیا کا واحد وہ میدان ہے جہاں پرایک عظیم باپ نے اپنے لخت جگر اور دیگر عزیز و اقارب کو بے دردی کے ساتھ قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہو۔ یہ وہ واحد میدان ہے جہاں پر بہنوں نے اپنے عظیم بھائی کو اپنی نگاہوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ وہ واحد میدان ہے جہاں پر خواتین نے اپنے سہاگ اجڑتے ہوئے دیکھے ہوں۔ یہ وہ واحد میدان ہے جہاں محسنِ انسانیت صلی الله عليه وسلم کے آل کو اس کے امتیوں نے بےدردی سےشہید کیا۔ اس مظلوم شہید کی شہادت امتِ مسلمہ کے لیے ایک مشعل ہے، راہنمائی ہےاور قافلہ حق کے لیے ایک حوصلہ افزائی۔

تبصرے بند ہیں۔