سب سے بڑی دولت

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

انسان کی فطرت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنا چاہتا ہے ، تاکہ اس کے ذریعے وہ راحت و آرام کی زندگی گزار سکے، اپنی ضروریات پوری کرسکے اور وقتِ ضرورت وہ اس کے کام آسکے۔ اس معاملے میں بہت سے لوگ حرام ذرائع تک اختیار کر بیٹھتے ہیں ، جب کہ بہت سے لوگ محتاط زندگی گزارتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے ، اس لیے آپ مال و دولت کے سلسلے میں لوگوں کے اندازِ فکر کو صحیح رخ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ نے یہ تصوّر پیش کیا کہ دولت صرف روپے پیسے کے ذخیرےکو ہی نہیں کہتے ہیں ، بلکہ حقیقی دولت اعلیٰ اخلاق ، بلند صفات اور روحانی اوصاف ہیں۔ اس مضمون کی متعدّد احادیث پائی جاتی ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ سفر میں تھے۔ ایک جگہ پڑاؤ ہوا تو ان کے درمیان کچھ گفتگو ہونے لگی۔ کسی نے کہا کہ سورہ توبہ کی آیات :24۔25 وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ.…. میں مذموم مال و دولت کا ذکر ہے۔ کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کون سا مال اچھا ہوتا ہے تو ہم اس کا ذخیرہ کرلیتے۔ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

” أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ، وَقَلْبٌ شَاكِرٌ، وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ” (ترمذی :3094)

"سب سے بڑی دولت تین چیزیں ہیں : ذکر کرنے والی زبان ، شکر کرنے والا دل اور ایمان کے معاملے میں مدد کرنے والی مومن بیوی۔ "

اس حدیث میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کوئی شخص کسی پر کوئی احسان کردے تو اس کا دل اس کے لیے شکر و سپاس کے جذبات سے لب ریز ہوجاتا ہے۔ احسان بڑا ہو تو آدمی سراپا شکر بن جاتا ہے۔ وہ احسان کرنے والے کے منھ پر بھی اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے بھی اُس کی خوب تعریف و تحسین کرتے ہوئے اس کی زبان نہیں تھکتی۔ دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جتنی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس پر جتنے احسانات کیے ہیں ان کا وہ شمار نہیں کر سکتا۔ ان کا تصوّر ہی کرلے تو اس کا دل شکر کے جذبات سے معمور ہوجائے گا اور اس کی زبان ہر وقت احسان شناسی کے کلمات سے تر رہے گی۔ یہی ذکر ہے۔ شکر گزار دل اور ذکر کرنے والی زبان بہت بڑی دولت ہے جو کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔

دل اللہ تعالٰی کے احسانات پر شکر کے جذبات سے لبریز ہو اور زبان اس کے ذکر سے تَر ہو تو انسان کو انتہائی سکون ملتا ہے اور سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ کوئی شخص کروڑ پتی ، بلکہ ارب پتی ہو ، لیکن وہ بے چین زندگی گزارتا ہو تو اس کی ایسی دولت بے کار ہے جو اسے سکون نہ دے سکے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد :28)

"سن لو، اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔ "

اس حدیث میں مذکور تیسری بات بھی بہت اہم ہے۔ دین کے معاملے میں شوہر کا تعاون کرنے اور اس کا ساتھ دینے والی بیوی کو بڑی دولت قرار دیا گیا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ شوہر بہت دین دار ہے تو بیوی میں اتنی دین داری نہیں ہے۔ بیوی بہت دین دار ہے تو شوہر کا دین سے بس واجبی تعلّق ہے۔ مزاجی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں خوش گوار فضا قائم نہیں رہتی۔ لیکن اگر زوجین میں باہم محبت و الفت ہو ، وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوں ، ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہوں ، ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتے ہوں ، ایک جان دو قالب ہوں ، شوہر احکامِ دین پر خود عمل کرتا ہو اور دوسروں کو دین کی دعوت دینے کے معاملے میں بھی سرگرم ہو اور بیوی اس کا بھرپور تعاون کرتی ہو اور اس کا دستِ راست بنی ہوئی ہو تو شوہر کو کتنی تقویت محسوس ہوگی اور وہ کتنے جوش و جذبے سے کام کرے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

” خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ "(مسلم:1467)

” نیک عورت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔ "

واقعی شوہر کا بھرپور تعاون کرنے والی بیوی بہت بڑی دولت ہے ، جو کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کا مقابلہ وہ لوگ کیا کر سکتے ہیں جن کی تجوریاں چاہے روپے پیسے سے بھری ہوئی ہوں ، لیکن ان کے گھر والے دین کے معاملے میں ان کے معاون نہ ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔