’سراب‘ کی حقیقت: شعراء کی نظر میں

محمدصابر حسین ندوی

یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید

تشنگی بھی سراب ہے شاید

(محمد احمد)

 سراب کی تعریف یوں کی جاتی ہے؛ کہ کسی چلچلاتی دھوپ اور سورج کی برستی تمازت میں کسی دور ریگستان کہ ریت پر پانی کا عکس ایسے بھنور بن کر گھومے جیسے اس ریگ میں کوئی چشمہ پھوٹ پڑاہے؛ لیکن اگر کوئی پیاسا ، پانی کا متلاشی اپنی سوکھی حلق تر کرنے کے ارادے سے اس کی طرف تیز گام ، سرپٹ دوڑتا چلا جائے تو وہ کسی ریت کے ڈھیر کی طرح پھسلتا جائے، اور انجام یہ ہو کہ ایک پیاسا اپنی پیاس یونہی لئے ہچکیوں میں مبتلا ہوجائے، اس کے ہاتھ نہ مینا آئے نہ ساقی وہ یونہی شدت پیاس میں مرغ بسمل بن جائے۔اسی طرح سراب کنایہ کے طور پر دھوکا اور فریب کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے، روز مرہ کے بول چال میں اس کا استعمال معمول بہ ہے، لیکن شعراء نے اسے اپنے دل کا آئینہ اور اپنے اندرون احساسات کے اظہار کا موثر ذریعہ بنایا ہے، اہل سخن کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اس میدان میں نئے رنگ کے گل کھلائے ہیں، جنہیں پڑھ کر انسانی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور دل مچل اٹھتا ہے، ان شعراء میں بعض وہ نام نہاد شعراء ہیں جن کا کلام غزل و نظم میں عالی مرتبت تصور کیا جاتا ہے، بلکہ بہت سے انہیں ’’آخری غزل گو شاعر‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، جناب میر تقی میر انہیں کی زبانی شراب کی حقیقت کو سنئے :

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

 یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے

 پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

دےکھئے ابر کی طرح اب کے

  میری چشم پر آب کی سی ہے

میر ان نیم باز آنکھوں میں

 ساری مستی شراب کی سی ہے

  حباب اس بلبلہ کو کہتے ہیں جو پانی کی سطح پر نکل آئے اور دم بدم ختم ہو جائے؛ یعنی اس کے وجود اور بے وجود ہونے میں کوئی فرق نہیں رہتا، اور اگر رہتا ہے تو صرف اتنا کہ جتنا ان نیست و زیست کا ہو، میر صاحب نے اپنی زندگی کی مثال اسی حباب سے دی ہے، جبکہ دنیا کی نمائش اور زیب و زینت کو سراب سے تعبیر کیا ہے، جس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اخیر لمحہ میں ساری محنت و کوشش رائیگاں کر دے اور انسان کو کف افسوس ملنے پر مجبور کر دے، سچ ہے زندگی کی حقیقت اس سے زیادہ اور کیا ہوگی، تو وہیں میر کا دل اپنے محبوب کی نگاہوں میں جھانکتا ہے، اپنی حباب کی زندگی کو پر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی مستی و سرشاری میں ڈوب کر بے حیثیت زندگی کو حیثیت دینے کا دھوکا پالتا ہے، کیونکہ شراب کا خمار جب پرے ہوتا ہے،ساقی سے جام حیات ملنا بند ہوجائے، ایسے میں اس کا نشہ جب سر سے اترتا ہے تو پتہ چلتا ہے؛ کہ یہ سب کچھ موہ ،مایہ ہے، سحر سامری ہے، اک جادو کی نگری ہے، دل کا بہلانا اور خود کو سمجھنا اور سمجھانا ہے، نہ تو اس سراب سے کوئی فائدہ ہے، اور نہ شراب سے، اسی ماتم کناں فہرست میں ایک نام بشری ہاشمی کا اور جوڑ لیجیے جو دل کے سراب میں گم ہو کر اظہار خیال کرتے ہیں، اور اپنا دل آپ کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں:

سر دشت دل جو سراب تھا کوئی خواب تھا

 مری خواہشوں کا عذاب تھا کوئی خواب تھا 

تری خوشبوؤں کی تلاش میں مرا راز داں

  وہی ایک کنج گلاب تھا کوئی خواب تھا 

وہ جو چاند تھا سر آسماں کوئی یاد تھی

  جو گلوں پہ عہد شباب تھا کوئی خواب تھا 

جو نہ کٹ سکا وہ نشان تھا کسی زخم کا

  جو نہ مل سکا وہ سراب تھا کوئی خواب تھا

شاعر دل کا سراب لئے خواب بن رہے ہیں، خواہشات کی نگری میں اور کیا مل سکتا تھا، وہی جو ایک کم نامہ ور کا حصہ ہوتا ہے، بے نصیبہ کا نصیب ہو سکتا ہے، داغدار دامن ، عصیاں سے تر جس اور زخم خرودی دل۔پھر بھی دل نہ بھرا تو اپنے محبوب کی خوشبو پانے کو بیتاب ہوگئے، انہیں کیا معلوم کہ وہی خواب یہاں پر بھی رواں ہے، نہ آسماں کی پرواہ کیجئے اور نہ عہد شباب کی جو کچھ ہو سکے تو نشان راہ تلاش کیجئے، کیوں کہ یہی زخم ہے جو نہ بھرے گا، ہمیشہ ہرا رہے گا،شادابی ا س کے مقدر میں ہے، اس کے علاوہ تو سب سراب ہے، سراب ہے، بس سراب ہے۔یہاں پر رضی مجتبی صاحب کا بھی ہوجائے، جنہوں نے سراب کے چکر میں کیا کچھ خوش فہمیاں پال لیں اور پھر سر انجام جو ہونا تھا وہ ہونا ہی تھا، خود انہی کی زبانی سنئے!

حقیقتوں کا پتہ دے کے خود سراب ہوا

  وہ مجھ کو ہوش میں لا کر خیال و خواب ہوا 

وہ اپنے لمس سے پتھر بنا گیا مجھ کو

  وصال اس کا مجھے صورت عذاب ہوا 

سروں پہ سب کے پڑی حادثوں کی دھوپ

 مگر  کوئی سراب بنا اور کوئی سحاب ہوا 

عذاب سب کے مرے جسم و جاں پہ نقش ہوئے

  مرا وجود مرے عہد کی کتاب ہوا 

سکوت شہر ستم سے اسیر یاس نہ ہو

  کہ یاں سکوں سے ہوا جو بھی انقلاب ہوا 

وہی تو ایک ہمارا مزاج داں تھا رضیؔ 

 جو ہم سے دور رہا اور نہ دستیاب ہو

رضی صاحب کی دلچسپ بات یہ ہے کہ سراب سے زندگی کی شروعات کرتے ہوئے حیرتناک انقلاب تک جا پہنچتے ہیں اور زندگی کی گتھیاں یوں سلجھتی جاتی ہیں کہ شاعر جذب و کیف میں پوری طرح سے اتر آتا ہے، بالخصوص ان کا یہ شعر تو ہر دیوار پر کنداں کردینے کے قابل ہے:

سکوت شہر ستم سے اسیر یاس نہ ہو کہ یاں

 سکوں سے ہوا جو بھی انقلاب ہوا

جناب سلیم کوثر صاحب جو اپنی سدا بہار غزل ’’میں خیال ہوں کسی اور کا‘‘ کیلئے معروف و مشہور ہیں، آپ کا حال بھی یہی ہے سراب کے راستے حقیقت سراب کھول کر رکھ دئے، اور زندگی کی تہ بہ تہ باریکیاں واشگاف ہوگئیں، تبھی تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:

اس عالم حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا

  کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا 

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا

  ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا 

ان شاعروں میں ’’سندیپ کے نادم‘‘ کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے ،جنہوں نے سراب کا استعمال اردو میں اس حسن و خوبی کے ساتھ کیا ہے کہ اردو شناس بغیر داد دئے نہ رہے، خاص طور سے سراب، عذاب، خواب، جواب ، خراب۔۔۔ وغیرہ کی بندشوں نے اسے آزاد کردیا ہے، اور سراب اپنے مفہوم ومعانی میں اک خاس رنگ کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے:

چشم تر ہے کوئی سراب نہیں

 درد دل اب کوئی عذاب نہیں 

کیسے اس بات پر یقیں کر لوں

  تو حقیقت ہے کوئی خواب نہیں 

موسم گل کا ذکر رہنے دے

  یہ مری بات کا جواب نہیں 

کیا کروں حسن کا تصور اب

  تیرے چہرے پہ جب نقاب نہیں 

اخیر میں فیض احمد فیض کے ان اشعار کو پڑھئے اور سراب کے استعمال پر داد دیجئے، اس کے استعارات اور بیان دل کی عجب کیفیت اور غضب پیرائے پر وارے جائیے، اس کی دشت تنہا کی سیر کیجئے، آوازوں کو سایہ بنائے اپنے محبوب ہونٹوں کے سراب پر مر مٹئے! اور کسی خواب و خیال کی دنیا میں انگڑائیاں لیتے ہوئے، شبنم کے قطروں اور سلگتی محبت کا لطف اٹھائیے، اور صبح فراق میں وصل کی رات کی گرماہٹ لئے دل میں امید و حسرت کی چٹکیاں لیجئے!سلگتے دل اور مچلتے ارماں کو سراب کی آنچ پر تپتا ہوا اور پھر اس مضطرب دل کا کسی کی یاد میں لخت لخت ہوتا ہوا دیکھئے! فیض کا انداز بیان آسان اور شستہ و شائستہ ہے، زبان کی حلاوت کے ساتھ ساتھ دل کی چاشنی بھی مل جائے گی، خود کو مجمع میں تنہا کرنے اور اپنے نہاں خانے میں الفت کی جوت جگا کر خواہ سراب پالنے کی طاقت بھی حاصل ہوجائے گی، سراب اگر چہ کچھ نہیں لیکن اسی سراب سے زندگی کا سررشتہ بھی جڑ سکتا ہے، جو ٹوٹتے میں سہارا بن جائے اور بکھرتے ہوئے لمحات میں دلجمعی کا سامان بن جائے، آپ خود دل کی نگاہ اور جذب و کیف میں ملبوس ہو کر پڑھئے!

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہے

 تیری آواز کے سایہ، تیرے ہونٹوں کے سراب

دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے

  کھل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اور گلاب 

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ 

 اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم 

دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ 

 گر رہی ہے تری دل دار نظر کی شبنم 

اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے

  دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات 

یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق

  ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات 

تبصرے بند ہیں۔