سرحدوں کے پار پھر سے دوستی لے کر چلیں

بیتاب ؔجے پوری

سرحدوں کے پار پھر سے دوستی لے کر چلیں

تیرگی مٹ جائیگی ہم روشنی لیکر چلیں

یاد شائد آہی جائے گم شدہ ماضی کا پیار

لاش وہ ماضی کی جو ہے ادھ جلی لیکر چلیں

سن رہے ہیں جاں بلب ہے اپنا ہمسایہ وہاں

کیوں نہ اُس کے واطے ہم زندگی لیکر چلیں

آگ نفرت کی اگر ہے اُن کے دل میں جل رہی

وہ بجھانے کو پیام آشتی لیکر چلیں

چاہتے ہیں ہم تو سب سے دوستی بیتاب ؔجی

ہیں بضد کچھ لو گ لیکن دشمنی لیکر چلیں

تبصرے بند ہیں۔