سخی اللہ کا دوست و جنتی ہے!

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی

 انسانی عادتوں میں سخاوت یعنی اپنے مال کو اللہ کے لئے غریبوں ،ضرورت مندوں کو دینا اللہ و رسول کو بھی بہت عزیز ہے اور ایسے لوگوں کو عوام الناس، اللہ کی مخلوق بھی پسند کرتی ہے اور اسی طرح سخاوت کی ضد یعنی کنجوسی، بخالت اللہ و رسول کے ساتھ عوام الناس کے نزدیک بھی ناپسندیدہ عمل ہے۔ سخاوت کو اللہ بہت پسند فرماتا ہے اور کنجوسی کو بہت ناپسند فرماتاہے۔ اللہ رب العزت سخی کو جنت عطا فرمائے گا اور کنجوس کو جہنم میں بھیج دے گا۔ احادیث پاک میں سخاوت کی بہت فضیلت اور بخالت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔

 نبی رحمت  ﷺ کا ارشادگرامی ہے:

دو خلق(عادت) ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتاہے۔ اول ، سخاوت، دوم نیک عادت اور دو خلق(عادت) ایسی ہیں جنہیں اللہ ناپسند فرماتا ہے۔ اول بخل(کنجوسی)،دوم بدخوئی۔ آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ سخی کی غلطی کو معاف کردو کہ جب وہ تنگ دست ہوتا ہے تو حق تعالیٰ اس کی دستگیری فرماتاہے۔سخی کی سخاوت اس کی حفاظت و سلامتی کرتی ہے۔ وہ بندگانِ خدا پر خرچ کرکے مال کو کم نہیں کرتا بلکہ اس کا مال بڑھتا ہی جاتاہے۔ اس میں اضافہ ہی ہوتاہے۔اللہ رب العزت کاارشاد ہے :

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَ نْفُسِکُمْ وَمَا تُنْفِقُوْ امِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْن ط( البقرہ: 272)

ترجمہ: اور اے لوگو!تم جو کچھ بھی اچھی چیز خیرات کرتے ہو توصرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے رہو۔ اورجو کچھ تم خیرات کرو گے اس کا پورا پوا بدلہ دیا جائے گا۔ (کنزالایمان) اس آیت کریمہ کا شان نزول بڑا پر لطف ہے۔ حضور سید عالم  ﷺ عمرہ کرنے مکہ شریف گئے آپ کے ہمراہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی) بھی تھیں ۔ اور ابونصرہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی ، ان کی ماں اور دادی کافر تھیں ۔ وہ بولیں کافروں کو دینے سے مجھے کیا ملے گا اور یہ مسئلہ حضور  ﷺ سے پوچھا تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ اے حبیب  ﷺ آپ فقط راہ بتانے والے ہیں ۔ منزل تک پہنچانا اور ساری دنیا کا مسلمان ہوجانا آپ کا کام نہیں ہے۔ خدائے تعالیٰ جسے چاہتا ہے مسلمان کرتا ہے ۔ پس اگر کوئی کافر فقیر ہو تو اسے دینا بھی ثواب ہے ،وہ بھی خدا کا بندہ ہے کہ تم جو خیرات دیتے ہو تو خدائے تعالیٰ کے لئے دیتے ہو۔ ان کو دینے سے بھی ثواب مل جائے گا۔ تم تو خدا کی رضا چاہتے ہو تو کافر فقیروں کو دینے سے بھی خدائے تعالیٰ راضی ہوتاہے۔ پس تم انہیں بھی دو ثواب(اجر) پاؤگے اور جو مسلمان فقیر ، اہلِ صفہ وغیرہ کو دوگے اس کا بھی پورا ثواب پاؤگے۔تم پر ظلم نہ ہوگاکہ ثواب کم کر دیاجائے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ کافروں کو نفلی صدقہ دینا جائز ہے۔ زکوٰۃ و صدقات واجبات جیسے صدقۂ فطر، نذر ومنت مانی ہوئی چیز یا قسم کے کفارہ وغیرہ دینا کافروں کو جائز نہیں ۔(تفسیر ابن عباس، قادری ، کشف القلوب، جلد 4،صفحہ 490 ص 491)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی انتہائی سبق آموزہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام انتہائی سخی اور اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنے والے تھے۔ روایت ہے کہ آپ کبھی اکیلے کھانانہیں کھاتے بلکہ جب کھانا کھاتے کسی کو بلاکر اکٹھے مل کرکھا تے۔ ایک دن کھانا کھلانے کے لئے کوئی آدمی نہیں ملا ۔ متفکر ہوکر دور دور تک دیکھنے لگے کہ شاید کوئی نظر آجائے۔ تھوڑی دیر کے بعد دو رسے ایک آدمی آتا ہوا نظر آیا۔ آپ نے اس کا انتظار کیا اور جب وہ آگیا تو اسے اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ دونوں حضرات کھانے کے لئے دستر خوان پر بیٹھے تو مہمان نے بسم اللہ پڑھے بغیر کھانا شروع کر دیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ میں بت پرست ہوں ۔ آپ نے یہ سنا تو اسے دستر خوان سے اٹھا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس فوراً وحی بھیجی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابراہیم، تم نے آج اس بت پرست کو کھانا کیوں نہیں کھلایا۔ میں تو روزانہ ہر ذی روح بشمول انسانوں کو کھانا کھلاتا ہوں جبکہ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو مجھے نہیں مانتے اور میرے بجائے بتوں کی پوجا کرتے ہیں ۔ا براہیم علیہ السلام نے یہ سنا فوراً اٹھ کر دوڑے اور اس شخص کو مناکر لائے اور اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا۔حدیث پاک میں نبی پاک  ﷺ نے فرمایا:لوگوں کو کھانا کھلایا اور انہیں سلام کیا کرو، یعنی انہیں سلامتی کی دعا دیا کرو خواہ تم انہیں جانتے ہو یا نہیں ۔

سخی اللہ اور رسول کو پسند ہے:

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوں گی۔ کنجوسی اور بد اخلاقی۔ اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ مومن میں کنجوسی اور بداخلاقی یہ دونوں بری خصلتیں (عادتیں ) بیک وقت جمع نہیں ہوں گی۔ مومن اگر کنجوس ہوگا تو بداخلاق نہیں ہوگا اور اگر بداخلاق ہوگا تو کنجوس نہیں ہوگا اور جس مسلمان کو دیکھو کہ کنجوس بھی ہے اور بد اخلاق بھی ہے تو اس حدیث کی روشنی میں یہ سمجھ لو کہ اس شخص کے ایمان میں کچھ نہ کچھ فتور (کمی) ضرور ہے۔

  سخاوت و بخل کے سلسلے میں اور احادیث لکھی جارہی ہیں بغور مطالعہ فرمائیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا:سخی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے ،تمام لوگوں سے قریب ہے، جہنم سے دور اور کنجوس اللہ سے دور ہے ،جنت سے دور ہے ،جہنم سے قریب ہے ۔اور جاہل سخی عابد بخیل سے زیادہ اللہ کوپیارا ہے۔ (سنن الترمذی ، کتاب ابروالصلتہ ،باب ماجاء فی اسماء الحدیث 1969،جلد 3، صفحہ 387) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سخاوت جنت میں ایک درخت ہے ۔جو شخص (دنیا میں ) سخی ہوگاوہ اس درخت کی ایک شاخ کو پکڑے گا وہ شاخ اس کو نہیں چھوڑے گی یہاں تک کہ اس کو جنت میں داخل کردے گی۔ اور بخل جہنم میں ایک درخت ہے توجو شخص (دنیا میں ) بخیل ہوگاوہ اس درخت کی ایک شاخ کو پکڑے گا تو وہ شاخ اس کو نہیں چھوڑے گی یہاں تک کہ اس کو دوزخ میں ڈال دے گی۔(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الزکوٰۃ باب الانفاق ۔۔۔۔الخ الحدیث نمبر1886، جلد ایک ، صفحہ 385)

اندھے،گنجے اور کوڑھی کی سخاوت و کنجوسی کا امتحان:

  بعض حدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے بندوں کی سخاوت اور کنجوسی کا امتحان بھی لیتاہے۔ اس لئے جب کوئی سائل دروازے پر آئے تو ہمیشہ اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں خدا کی طرف سے میرا امتحان تونہیں ہورہاہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں یہاں اندھے، گنجے اور کوڑھی کے امتحان والی حدیث پیش کی جارہی ہے جو بہت ہی عبرت خیز اور نصیحت آموز ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کے تین آدمی ایک کوڑھی برص والا، دوسرا گنجا، تیسرا اندھا، اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کا امتحان لیا۔ ان تینوں کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجا ۔ چنانچہ وہ فرشتہ سب سے پہلے برص والے کوڑھی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دنیا میں تم کو سب سے زیادہ کون سی چیز محبوب وپسند ہے ؟تو اس نے کہا اچھا رنگ، اچھی کھال اور میری یہ بیماری چلی جائے جس کی وجہ سے تمام لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں ۔یہ سن کر فرشتے نے اس کے بدن پر ہاتھ پھیر دیا تو ایکدم اس کا مرض دور ہوگیااور اللہ تعالیٰ نے اس کو بہترین رنگ، خوبصورت کھال عطا فرمادی ۔ پھر فرشتے نے اس سے پوچھا تمہیں کون سا مال پسند ہے ؟تو اس نے کہا کہ اونٹ۔تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو ایک حاملہ اونٹنی عطاکر دی گئی اور فرشتہ دعادے کر کہ اللہ پاک تمہیں برکت عطافرمائے چلا گیا۔ پھر یہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور کہا کہ دنیا میں تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے ؟اس نے کہا خوبصورت بال اور میری یہ بیماری چلی جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ۔ یہ سن کر فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو فوراً اس کی بیماری چلی گئی ۔اللہ کی طرف سے سر پر خوبصور ت بال اگ آئے۔اس سے فرشتے نے پوچھا تمہیں کون سامال پسند ہے؟تو اس نے کہا گائے۔پھر فرشتے نے اللہ کی جانب سے ایک حاملہ گائے عطا کردی اور فرشتہ یہ کہہ کر چل دیا کہ اللہ تعالیٰ برکت دے۔ اس کے بعد یہ فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ دنیا میں تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے؟تو اس نے کہا بس یہی کہ اللہ تعالیٰ میری بینائی واپس عطا کردے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ۔ یہ سن کر فرشتے نے اس کی آنکھ پر ہاتھ پھیرا تو وہ فوراً بینا ہوگیا ، دیکھنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی واپس لوٹادی۔ پھر فرشتے نے کہا کہ دنیا میں تم کوکون سامال زیادہ پسند ہے؟تواس نے کہا کہ بکری۔تو اس کو ایک گابھن( حاملہ) بکری عطاکر دی گئی اللہ کی جانب سے۔پھر اونٹنی، گائے اور بکری تینوں نے بچے دیئے اور اللہ نے برکت ڈال دی کہ کوڑھی کے پاس ایک میدان بھر کر اونٹ ہوگئے۔ اور گنجے کے پاس ایک میدان بھر کر گائیں ہوگئیں اور اندھے کے پاس ایک میدان بھر کر بکریاں ہوگئیں ۔پھر کچھ دنوں کے بعد وہی فرشتہ برص والے کے پاس آیا۔

اسی شکل و صورت میں آیا جس شکل و صورت میں پہلی بار آیا تھا اور آکر اس نے کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں اور پھر سے سفر کے تمام ذرائع ختم ہوگئے ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ کے سواکوئی مجھے وطن پہنچا نے والا نہیں ہے ۔ میں تم سے اس اللہ کے نام پر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور خوبصورت چمڑااور اونٹ کی دولت عطا کی ہے۔ ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں کہ اس کے ذریعہ میں اپنا سفر مکمل کر لوں ۔یہ سن کر کوڑھی نے جواب دیا کہ مجھ پر بہت سے حقوق ہیں (یعنی بہت سے لوگوں کو اور بہت سے کام میں دیناہے۔بہانہ کر دیا)فرشتے نے کہا تمہیں پہچانتا ہوں کیا تم کوڑھی نہیں تھے؟تمہارے برص کوڑھ کی وجہ سے تمام لوگ تم سے نفرت اورگھن نہیں کرتے تھے؟ تم فقیر تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیماری دور کرکے تمہیں مال عطا فرما دیا ،دولت مند بنا دیا ۔ یہ سن کر کوڑھی نے کہا مجھے تویہ مال میرے بزرگوں سے میراث میں ملا ہے۔ فرشتے نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ویساہی کر دے جیسے کہ تم پہلے تھے۔پھر وہ فرشتہ اپنی صورت میں گنجے کے پاس آیا اور ویسا ہی سوال کیا جیسے کوڑھی سے کہا تھا اور گنجے نے بھی وہی جواب دیا جو کوڑھی نے دیا تھا تو فرشتہ اس کے پاس سے بھی یہ کہہ کر چل دیاکہ اگر تو جھوٹ بول رہاہے تو اللہ تعالیٰ تجھے پھر ویسا ہی کردے جیسا کہ تو پہلے تھا۔ اسکے بعد یہ فرشتہ اپنی پہلی شکل و صور ت میں اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں اور مسافر ہوں میرے سفر کے تمام ذرائع ختم ہوچکے ہیں ۔ اب اللہ کی مددکے سوا میرے وطن پہنچنے کی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ میں تم سے اس اللہ کے نام پر جس نے تمہیں دوبارہ بینائی عطا کی ہے ایک بکری مانگتا ہوں کہ اس کو میں اپنے وطن پہنچنے کا ذریعہ بناؤں ۔ یہ سن کر اندھے نے کہا میں تو اندھا تھا تو اللہ نے مجھے دوبارہ بینائی عطا فرمادی (تم نے اللہ کے نام پر سوال کیا ہے)تو اس میدان میں میری جتنی بکریاں ہیں ان میں سے جتنی چاہو تم لے جاؤاورجتنی چاہو چھوڑ دو ۔ خدا کی قسم!تم اللہ کے نام پر جتنی بھی بکریاں لوگے میں تم سے اس کا مطالبہ کرکے تمہیں مشقت میں نہیں ڈالوں گا ۔ یہ سن کر فرشتے نے کہا کہ تم اپنامال اپنے ہی پاس رکھو ۔ تم تینوں کا امتحان لیا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہوگیااور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا۔ تمہاری دولت ایسے ہی رہے گی بلکہ اللہ نعمتوں میں اضافہ فرمائے گا اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا اور ان کی نعمتیں چھین لی ہیں ۔(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث و برص۔۔۔۔الخ، الحدیث 3464، صفحہ 463)

 گھر میں گوشت ہوتے ہوئے فقیر کو نہیں دیا تو پتھر ہوگیا:

 اسی طرح دوسری حدیث بھی بہت ہی عبرت ناک ہے جس کے راوی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام ہیں جن کا بیان ہے :ام المومنین ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی نے ہدیہ میں ایک بو ٹی گوشت بھیجا تو چونکہ نبی  ﷺ کو گوشت بہت پسند تھا ام المومنین نے خادمہ سے کہاکہ اس گوشت کو گھر میں رکھ دو شاید نبی  ﷺ اسے کھائیں ۔ چنانچہ خادمہ نے اس گوشت کو گھر کے طاق میں رکھ دیا ۔ اس کے بعد ایک سائل آیا اور دروازے پر یہ صدا لگائی کہ صدقہ دو اللہ تم گھر والوں کو برکت دے۔ یہ سن کر گھر والوں نے کہہ دیا :اے سائل!اللہ تمہیں برکت دے یہ سن کر سائل چلا گیا پھر اسکے بعد نبی  ﷺ مکان میں داخل ہوئے اور فرمایا:اے ام سلمیٰ!تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے کہ میں اسے کھاؤں ؟تو حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے خادمہ سے فرمایا کہ تم جاؤ اور رسول اللہ  ﷺ کے لئے وہ گوشت لاؤ تو خادمہ لینے گئی لیکن اس طاق میں اس کو ایک چکنے پتھر کے ٹکڑے کے سوا اورکچھ بھی نہیں ملا ۔اس پر حضور  ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے فقیر کو گھر میں گوشت ہوتے ہوئے نہیں دیا اورواپس کر دیا اسی لئے یہ گوشت پتھر ہوگیا۔ اس حدیث پاک کو امام بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں روایت فرمایا ہے(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الزکوٰۃ باب الانفاق۔۔۔۔الخ ، الحدیث 1880،جلدایک صفحہ 357)ایک اور حدیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: جنت میں کمینی خصلت والا اور کنجوس

او راحسان جتانے والا داخل نہیں ہوگا اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اللہ اپنے محبوب  ﷺ کے صدقے ہم تمام مسلمانوں کو خوب خوب سخاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،کنجوسی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ سخی ہے:

اللہ رب العزت انتہائی عطافرمانے والا سخی ہے، سخاوت کو پسند فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌط غُلّت اَیْدِ یْھِمْ وَلُعِنُوْ بِمَاقَالُوْ بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ ط(القرآن سورہ مائدہ،آیت 63،کنزالایمان)ترجمہ: او ریہودی بولے اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے ان کے ہاتھ باندھے جائیں ۔ اور ان پر اس کہنے سے لعنت ہے بلکہ اس کے ہاتھ کشادہ ہیں عطا فرماتاہے جسے چاہے۔ شان نزول ، مدینہ کے یہودی بہت مالدار تھے۔حضور  ﷺ کے عناد اور دشمنی کی وجہ سے ان پر تنگدستی غریبی آگئی تو فخاس یہودی عالم بولا کہ اللہ کے ہاتھ بندھ گئے ہیں (معاذ اللہ)یعنی وہ بخیل ہوگیا ہے ۔اس پر یہ آیت مبارکہ اتری ۔ اس سے معلوم ہواکہ گناہوں سے روزی کم ہوتی ہے اور نیکیوں سے رزق بڑھتا ہے، برکت ہوتی ہے۔(تفسیر نورالعرفان ،صفحہ 187)

سخاوت کے فوائد:

آپ  ﷺ تیز ہوا سے بھی زیادہ صدقہ و خیرا ت کرتے ۔ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ  ﷺ نے :دوزخ سے بچو اگرچہ آدھا چھوارہ دے کر کہ وہ کجی کو سیدھا اور بری موت کودور کرتا ہے ۔ دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔ فرمایا رسول اللہ  ﷺ نے: بے شک مسلمان کا صدقہ عمر کو بڑھاتاہے اور بری موت کودفع کرتاہے۔ ایک اور حدیث پاک میں ہے۔ بے شک اللہ عز وجل صدقہ کے سبب سے 70؍دروازے بری موت کو دفع کرتاہے۔(4) صبح کے صدقے آفتوں کو دفع کر دیتے ہیں (طبرانی ، ابو یعلی ، براز،رواہ الدلیمی حضرت انس رضی اللہ عنہ)(5) جو مسلمان اپنے حلال مال سے صدقہ دیتا ہے، اسے حق تعالیٰ اپنے دست شفقت و لطف سے اس طرح پرورش فرماتاہے جیسے تم اپنے چوپایوں کی پرورش کرتے ہو یہاں تک کہ چند خرمے(چھوہارے)احد پہاڑ کے برابر ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰو وَ یُرْ بِی الصَّدَقٰت ط(سورۃ بقرہ،آیت 275) ترجمہ: اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے صدقہ و خیرات کو۔رحمت عالم  ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنے دروازے سے سائل کو محروم (خالی ہاتھ) پھیر دیتاہے سات دن تک اس کے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں جاتے۔(کشف القلوب، جلدایک، صفحہ۴۶۹،باب صدقہ کی فضیلت)رحمت عالم  ﷺ دو کام اوروں پر نہیں چھوڑتے تھے بلکہ اپنے ہاتھ ہی سے کرتے تھے۔ فقیر کو صدقہ اپنے ہی دستِ مبارک سے دیتے اور رات کو وضو کے لئے پانی برتن میں خود رکھتے تھے۔ آپ  ﷺ نے فرمایا جو شخص مسلمان کو کپڑا پہنائے گا جب تک وہ کپڑا اسکے بدن پر رہے گا کپڑا دینے والا خدا کی طرف سے حفاظت میں رہے گا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک آدمی نے ستّر(70) برس عبادت کی پھر اس سے اتنا بڑا گناہ سرزد ہوگیا کہ وہ سب عبادت برباد اور رائیگاں ہوگئیں ۔ اس کا گزر ایک فقیر کی طرف سے ہوا اور اس نے فقیر کو ایک روٹی دی تو اللہ نے اس کا گناہ عظیم بخش دیا اور ستر برس کی عبادت اسے واپس کردی۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ بیٹا!تجھ سے جب کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو صدقہ دینا ۔ اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا۔ لَنْ تَنَالُو الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْ مِمَّا تُحِبُّونِ ط (القرآن،پارہ 4 شروع) ترجمہ: تم لوگ ہرگز نیکی کے مقام کو نہ پاسکو گے جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہے۔

کنجوس کا بھیانک انجام:

روایت ہے کہ ایک روز حضور  ﷺ طواف کررہے تھے ۔ آپ  ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ کعبہ شریف کو پکڑکر کہہ رہا تھا یا الٰہی !اس گھر کی برکت سے میرے گناہ بخش دے ۔حضور  ﷺ نے اس سے پوچھا تیرا گناہ کیا ہے؟ اس نے کہا میرا گناہ اتنا عظیم ہے کہ بیان نہیں کرسکتا ۔ حضور  ﷺ نے فرمایا تیرا گناہ بڑا ہے یا زمین؟ اس نے کہا میرا گناہ بڑا ہے۔ حضور نے ارشاد فرمایا تیراگناہ بڑا ہے یا آسمان ؟اس نے کہا میرا گناہ بڑاہے۔ آپ نے پھر دریافت کیا تیرا گناہ بڑا ہے یا عرش؟ اس نے کہا میرا گناہ۔ حضور  ﷺ نے فرمایا:بیان کر تیرا ایسا کون سا گناہ ہے؟اس نے کہا میں بڑا مالدار ہوں لیکن جب کوئی درویش دور سے مجھے نظر آتا کہ میری طرف آرہا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آگ آرہی ہے جو مجھے جلا دے گی۔(یعنی میں بخیل ہوں ) تب حضور  ﷺ نے فرمایا کہ جا میرے قریب سے دور ہو کہیں تیری آگ مجھے نہ جلا دے ۔ قسم ہے اس خدا کی جس نے مجھے ہدایت کے لئے بھیجا ہے کہ اگر تو رکن ومقام (رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم) کے درمیان ہزاربرس بھی نماز پڑھے گا اور اس قدر روئے کہ تیرے آنسؤوں سے ندیاں بہہ جائیں اور ان سے درخت اُگ آئیں اور تو بخل ہی کی حالت میں مرجائے تو تیرا مقام دوزخ ہوگا۔ بخل کفر کی علامت ہے اور کفر کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ افسوس !کیا تو نے نہیں سنا۔وَمَن یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَّبْخَلْ عَنْ نَّفْسِہِ ط(القرآن سورہ محمد، آیت38) ترجمہ: اور جو بخل کرے تووہ اپنی ہی جان پر بخل کرتاہے۔ اور فرمایا وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن ط (القرآن ، سورہ الحشر،آیت :9) ترجمہ:  اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب رہا۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر روز ہر شخص پر دو فرشتے مؤکل رہا کرتے ہیں اور وہ اعلان کرتے ہیں یا اللہ جو بخیل ہو اس کا مال ختم فرما دے اور جو سخی ہو اس کے مال میں اضافہ فرما اور اس کے دل میں اضافہ فرمادے یعنی اور دلدار بنا دے۔

شیطان کا دوست:

  نقل ہے کہ حضرت یحیٰ ابن زکریا علیھما السلام نے ابلیس کو دیکھا اور اس سے پوچھا تیرا سب سے بڑا دشمن کون ہے اور سب سے بڑا دوست کون ہے؟ ابلیس نے جواب دیا زاہد بخیل میرا سب سے بڑا دوست ہے کیوں کہ وہ محنت برداشت کرتا ہے اور بندگی بجا لاتا ہے لیکن اس کا بخل (کنجوسی) اس کی عبادت کو برباد اور ناچیز بنا دیتا ہے اور فاسق سخی میرا سب سے بڑا دشمن ہے کیوں کہ وہ اچھا کھاتا اور اچھا پہنتا ہے اور اچھی طرح زندگی بسر کرتا ہے مجھے یہ ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سخاوت کے باعث اس پر رحم فرمائے اور اس کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں بخیل کو عادل نہیں کہوں گا اور اس کی گواہی نہ سنوں گا۔کیوں کہ بخل نے اس کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ جو چیز اس کے حق سے زیادہ ہو اس کو حاصل کر لے (یہ عدل کے خلاف ہے)۔(کشف القلوب، جلد:4،ص:501) اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام لوگوں کو سخاوت کرنے اور کنجوسی نہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!

تبصرے بند ہیں۔