سرخرو کشتی رہی ہر حال میں

ڈاکٹرشکیل احمد خان

۱۹۱۶کی لند ن کی ایک سہا نی شام، اپنے عہد کی مقبو ل ترین اداکارہ کے فن کا مظا ہرہ، ناظر ین سے کھچا کھچ بھرا ہال، تالیوں کی گڑگڑاہٹ، لوگوں کا کھڑے ہو کر خراج پیش کرنا، سب کچھ بہت خوشگوار تھا۔ ہر کوئی اداکارہ سے ملنے کا متمنی تھا۔بہ ہزار دقت شائقین سے پیچھا چھڑا کر وہ پچھلے دروازے سے نکل پڑی۔ناظرین میں موجود ایک شخص بھی اداکارہ کے خیالوں میں مگن اپنے گھر روانہ ہوا۔ مشہور ندی تھیمز پر بنے پل پر ملگجے اندھیرے میں اسے ایک ہیولہ دکھا ئی دیا جو ندی میں چھلانگ لگانے ہی والا تھا۔ آخری لمحے میں اس نے اسے پیچھے سے پکڑ کر بچا لیا۔ روشنی میں اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ انگشت بدنداں رہ گیا۔ خود کشی کرنے جارہی لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ وہی اداکارہ تھی جس کی قربت کے لئے سارا لندن دیوانہ ہو رہا تھا۔ اس نے بے اختیار کہا، ’’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم خودکشی کرنا چاہو ں گی ! اور وہ بھی اس وقت جب کے سارا لندن تمہاری ایک نظر عنایت کے لئے اس وقت بھی تھیٹر کے اطراف گھوم رہا ہے۔تمہارے پاس حسن ہے، دولت ہے، صلاحیت ہے، شہرت ہے اور تم کامیابی کی بلندی پر ہو۔ اداکارہ نے بیزارگی سے جواب دیا، ’’ حسن، دولت، شہرت، کامیابی، جائے جہنم میں۔ کیا یہ میری اندرونی بے چینی کا علاج کر سکتی ہے؟ اس تضاد کی شدت مزید بڈھ جاتی ہے جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ اداکارہ کوئی عام فرد نہیں بلکہ ۱۸ویں صدی کی آخری صدی کی آخری دہائیوں کی یورپ کی مقبول ترین ہستی ایو لا وا لیری Eve Lavalliere تھی۔

ایو لا وا لیری کا اصل نام یو جین فینو گلیو تھا جو ۱۸۶۶ میں فرانس میں پیدا ہوئی۔۱۸۸۴ میں شرابی اور وہمی باپ نے ماں کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ دہشت ذدہ ایو گھر سے بھاگ نکلی۔ قدرت نے اسے غیر معمولی حسن اور خوبصورت آ واز سے نوازا تھا۔ وہ ہر قسم کے جذبات کے بہترین اظہار پر قادر تھی۔ حسن،آواز اور رکھ رکھاؤ نے اسے بہت جلد پیرس کے بہترین تھیٹرس کی جان بنادیا۔وہ فرانس کی سب سے ذیادہ مقبول celebrity بن گئی۔اس کا لباس اور کنگی چوٹی کا انداز یورپ میں فیشن کا معیار تسلیم کیا جاتا۔اس کے استعمال میں رہنے والی پرفیومس، صابن و کاسمیٹکس کی دھوم رہتی۔اس دوران اس کے تعلقات ایک نواب سے ہوئے جس نے اس کا نام ایو لاوا لیری کر دیا۔ یورپی ممالک کے بادشاہ، رانیاں، شہزادے، سُفرا، نواب اور سالار جب فرانس آتے تو اس کے حسن، اداکاری اور آواز سے ضرور محظوظ ہوتے۔پرتگال کا بادشاہ کارلوس، بیلجیم کا بادشاہ لیو پولڈ دُوم، انگلینڈ کا بادشاہ اٰیڈورڈ ہفتم، ہنری آف باوریا وغیرہ اس کے فن کے معترف اور مداح تھے۔خود ایو کا کہنا تھا، ’’ سونا میرے ہاتھ کا میل تھا، میرے پاس ہر وہ چیز تھی جو نیادے سکتی تھی اور جس کی مجھے خواہش تھی، لیکن اس کے باوجود میری روح سب سے ذیادہ دکھی اور غمگین تھی‘‘۔ اندرونی بے چینی دور کرنے وہ گناہ کے راستے پر چل پڑی۔ نواب سے پیچھا چھڑا کر ایک تھیٹر ڈایریکٹر سے تعلقات استوار کئے، ایک ناجائز بیٹی کو جنم دیا، دیگر کئی مردوں سے ہر قسم کے روابط رکھے۔لیکن قلبی سکون اوراطمینان سے محروم ہی رہی۔ ناجائز بیٹی اسے ہراساں کرنے ہر طرح کی حرکتیں کرتی۔یہاں تک کے ایو بیزار ہو کر خودکشی پر مائل ہوئی۔آکر کار مذہب میں پناہ لی۔دنیا کے تام جھام اور رنگینیوں کو ٹھکرا کر ایک غیر معروف دیہات میں سادہ اور تیاگ کی زندگی گزار کر ۱۹۲۹ میں گمنامی کی موت کو گلے لگایا۔ اس داستانِ حیات کی عصرِ حاضر میں اور خصوصا ہمارے لئے کیا معنویت ہے؟

دیکھئے، ٹی وی، اخبارات، اور سوشل میڈیا کے باعث ہم میں سے اکثر لوگ اور خصوصا نوجوان اس بات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر دیگر اقوام اور ملکی سطح پر اہلِ وطن کی دوسری برادریوں کے پاس آج اقتدار ہے،عیش و عشرت ہے، تام جھام ہے، قیمتی کاریں، ذاتی ہوائی جہاز اور بوٹ ہیں، محلات ہیں، طاقت، عزت، شہرت اور گلیمر ہے۔اس کے بر عکس ہماری قوم معاشی تنگدستی، سیاسی بے وقعتی، سماجی بے بصاعتی اور معاشرتی پسماندگی کی شکار ہے۔ یہ صورتحال ابتدائی مرحلہ میں فوری طور پراکثر لوگوں میں احساسِ محرومی، مایوسی، بے بسی اور بے دلی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یہ احساس ہماری قوتِ عمل کے لئے سمِ قاتل ثابت ہوتا ہے اور ہمارے جوش و جذبہ کے شعلوں پر برفیلے پانی کی طر ح کام کرتا ہے۔ہم یہاں تک کیوں پہونچ گئے، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں تو بس یہ اجاگر کرنا مقصود ہے کہ ظاہری شان و شوکت سے قطعا متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ اکثر صرف ایک سراب ہوتا ہے۔ظاہری شان و شوکت، طاقت اور تام جھام کے پیچھے بڑی دکھ بھری داستانیں ہوتی ہیں۔ بے چینی، بے بسی، بے سکونی اور جذباتی و روحانی خلا ہوتاہے۔

اس کی سیکڑوں مثالیں پیس کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ہم موجودہ قومی حالت میں مست رہیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ اسلام رہبانیت اور فرار کی تعلیم نہیں دیتا۔دولت، حشمت اور اقتدار خود اپنے اندر کوئی خراب چیز نہیں ہے۔ہمیں تو آخرت کے ساتھ دنیا کی بھی بھلائی مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔لیکن ناجائز طریقوں اور اقدار، ایمان اور محبت کی قیمت پر حاصل کی جانے والی دولت اور گلیمر کبھی سچی خوشی،سکون اور کامیابی کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔جبکہ زندگی میں بنیادی اہمیت قلبی سکون اور محبت کی ہے۔اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔اب اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے،دوسروں کی مدد کر کے آخرت بنانے، اور سکون و اطمینان کی زندگی بتانے کے لئے دولت، شہرت، اقتدار ایک ذریعہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ہمیں اپنی پوری صلاحیتوں اور قوت کے ساتھ شرعی حدود میں اسے حاصل کرنے کی بھر پور اور جامع کوشش کرتے رہنا ہے۔بس اہم بات یہ ہے کہ ہم ذریعہ اور مقصد کے فرق کو نہ بھولیں۔ دولت ذریعہ ہے، اور سکون، محبت، دائمی کامیابی ہمارا مقصد !

دولت سے سکون، محبت اورکردار حاصل نہیں کیا جاسکتا، ہاں، کردار، محبت اور سکونِ قلب سے دولت و وقار حاصل کیا جا سکتا ہے۔دنیا میں ہر سال کئی امیر ترین، خوبصورت ترین، طاقتور ترین، قابل ترین افراد دامنِ اسلام میں پناہ لیتے ہیں۔ ہمارے پاس امیر، خوبصورت، طاقتور اور قابل لوگوں کی قطعی کمی نہیں ہے۔اب دنیا کے کچھ حصوں میں علاقائی وجوہات اور حکمتِ عملی کی کمی کے باعث یہ چیزیں کمیاب ہیں تو اسے وقتی کمزوری تو مانا جا سکتا ہے ناکامی نہیں۔ مسلمان اگر سچ مچ میں مسلمان ہے تو وہ ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔کردار اور ایمان ہو تو پھر کوئی اور چیز ہو یا نہ ہو، وہ کامیاب ہے۔اس کے ساتھ اگر دولت و حشمت بھی ہو تو سونے پہ سہاگہ! لیکن صرف دولت و حشمت تو دنیاوی سکون، محبت اور کامیابی کی بھی ضمانت نہیں، جیسا کہ ایو لاوالیری کی مثال سے واضح ہے۔لہذا ہمیں دوسروں کی امارت و تام جھام دیکھ کر نفسیاتی طور پر متاثر نہ ہوتے ہوئے دین و دنیا دونوں کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہے۔

اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ اگر ہم ایمان و کردار کے ساتھ جد وجہد کر رہے ہیں تو ہم ہر حال میں کامیاب ہیں۔ دولت و شہرت کے ساتھ بھی، دولت و شہرت کے بغیر بھی ! بقول احسن یوسف زئی

سُرخرو کشتی رہی ہر حال میں !
ڈوبنے کے بعد بھی پانی میں ہے

تبصرے بند ہیں۔