شریفوں کے نہیں اچھے بسیرے
عبدالکریم شاد
شریفوں کے نہیں اچھے بسیرے
محل بنوائے جاتے ہیں لٹیرے
…
لگاتا ہوں تری گلیوں کے پھیرے
بدلتے ہیں یوں ہی حالات میرے
…
پھنسے جاتے ہیں کتنے دل نہ جانے
گزرتے ہیں وہ جب زلفیں بکھیرے
…
پرندوں کی طرح دل کے شجر پر
تمھاری یادوں نے ڈالے ہیں ڈیرے
…
اگر رشتہ محبت کا نہیں تھا
تو پھر کیا درمیاں تھا تیرے میرے
…
ملے ہم اجنبی کی طرح ان سے
مقدر نے یہ کیسے وقت پھیرے
…
میاں! اس دور میں دیکھے گئے ہیں
چراغوں سے عیاں ہوتے اندھیرے
…
نکلنا شاد مشکل ہو گیا ہے
ہر اک جانب ہیں ارمانوں کے گھیرے
تبصرے بند ہیں۔