شریفوں کے نہیں اچھے بسیرے

عبدالکریم شاد

شریفوں کے نہیں اچھے بسیرے

محل بنوائے جاتے ہیں لٹیرے

لگاتا ہوں تری گلیوں کے پھیرے

بدلتے ہیں یوں ہی حالات میرے

پھنسے جاتے ہیں کتنے دل نہ جانے

گزرتے ہیں وہ جب زلفیں بکھیرے

پرندوں کی طرح دل کے شجر پر

تمھاری یادوں نے ڈالے ہیں ڈیرے

اگر رشتہ محبت کا نہیں تھا

تو پھر کیا درمیاں تھا تیرے میرے

ملے ہم اجنبی کی طرح ان سے

مقدر نے یہ کیسے وقت پھیرے

میاں! اس دور میں دیکھے گئے ہیں

چراغوں سے عیاں ہوتے اندھیرے

نکلنا شاد مشکل ہو گیا ہے

ہر اک جانب ہیں ارمانوں کے گھیرے

تبصرے بند ہیں۔