سرد الآؤ

تقدیس نقوی

سیٹھ رشید جب سے شھر کی بلدیہ کے چیرمین منتخب کرادئے گئے تھے انھیں سانس لینے کی فرصت نہ تھی۔ ایک جانب اتنا بڑا پھیلا ہوا انکا کروڑوں روپئے کا  روئی کا کاروبار اور دوسری جانب انکی اس نئی سیاسی پوزیشن کے روز مرہ کے تقاضے جن میں انھیں اب اپنے کاروبار سے زیادہ مزہ آنے لگا تھا۔ بلدیہ آفس میں ان سے ملنے کے لئے لوگوں کی لگی بھیڑ اور روزمرہ کے جلسے جلوسوں میں سیٹھ صاحب کہیں کھو سے گئے تھے۔ کبھی علی الصبح کلکٹر صاحب کے یہاں ناشتے پر مدعو ہیں تو اسی دن شام کو کسی پروگرام کے افتتاح کا فیتا کاٹ رہے ہیں۔ کبھی ریلوے اسٹیشن پر کسی وزیر کے استقبال کے لئے اپنے اہالی موالیوں کے ہمراہ ہار لئے کھڑے نظر آتے تو کبھی مزدوروں کی یونین کی بھوک ہڑتال کے لئے لگائے گئے شامیانے کے نیچے بیٹھے نظر آتے۔ بے انتہا پیسے نے بہت جلد انھیں عوام میں مقبول کرادیا تھا۔ انکی تصویر شھر میں ہر سو لگے پوسٹروں میں نظر آنے لگی جس کے زریعے شھر کا بچہ بچہ ان سے واقف ہوچکا تھا۔ انکی کاروباری حیثیت کے اعتراف میں انکے نام کے ساتھ سیٹھ تو پہلے ہی انکے نمکخواروں نے نتھی کردیا تھا مگر اب تو وہ سارے شھر کے چیرمین بن چکے تھے اس لئے اب وہ صرف چیرمین صاحب سے ہی مخاطب کئے جانا پسند کرنے لگے تھے جس کو سن کر وہ اپنی گردن تھوڑی سے ٹیڑھی کر لیتے تھے۔

 انکی یہ کج گلوئی شاید اس لئے بھی انھیں سیدھا رکھنے میں ناکام رہی ہوگی کہ تعلیم سے ان کا دامن اتنا ہی صاف رہا تھا جتنا کہ انکی روئی دھننے کی مشین سے نکلی دھنی ہوئی روئی۔ نہ کبھی انھوں نے کسی اسکول کا راستہ دیکھا تھا اور نہ ہی کسی اسکول نے انھیں کبھی راستہ دکھایا تھا۔

 انکا چیرمین کے خطاب سے التفات اور لگاو کچھ کس قدر بڑھ چکا تھا کہ چیرمین شپ کی مدت تمام ہونے پر بعد میں بھی وہ خود کو چیئرمین ہی کہلوانا پسند کرتے رہے۔

گو کہ سیٹھ رشید نے اپنے کاروبار کی مناسبت سے بستی کے باہر ایک وسیع وعریض کوٹھی بنا رکھی تھی مگر جب سے وہ شھر کے چیرمین بنے تھے ان کا زیادہ تروقت بستی کے اندر بنے اپنے آبائی گھر پر ہی گذرتا تھا۔ اسی خاندانی قدیم گھر میں ہی کبھی انکی ہینڈلوم کی کھڈیاں لگی ہوئی تھیں جہاں سے انھوں نے اپنے کاروبار کی ابتداء کی تھی۔ انکے آبائی گھر سے تھوڑی دور نکڑ پر ایک چائے والے کا ٹھیلا لگا رہتا جس کی پشت پر ایک خالی پڑے ہوئے وسیع میدان پر مزدوروں نے نیلی پلاسٹک سے ڈھکی اپنی جھگیاں ڈال رکھی تھیں۔ سیٹھ رشید کی کار جب گھر سے نکل کر اس چائے کے ٹھیلے کے سامنے سے گذرتی تو آس پاس کھڑے مزدور انکو ہاتھ سے اشارہ کرکے سلام کرتے تو وہ کار کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی ایک مسکراہٹ سے انکا جواب دیتے اور کبھی کبھی نہیں بھی دیتے تھے۔

دسمبر کا آخری ہفتہ تھا۔ رواں سال کڑاکے کی سردی میں اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کے دم توڑ رہا تھا۔ یوں تو ہر سال ہی ان دنوں میں سخت سردی پڑتی رہی تھی مگر نہ جانے کیوں اس برس سردی نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دئیے تھے۔ جہاں بند گھروں میں دبیز لحافوں اور کمبلوں میں چھپے اور الکٹریک ہیٹرس کے سامنے بیٹھے لوگوں کے سردی سے دانت بج رہے ہوں وہاں کھلی فضا میں پلاسٹک اور ٹاٹ سے گھری جھگیوں میں اور فٹ پاتھ پر پڑے رہنے والے ننگ دھڑنگ انسانوں کی مشلول حالت زار کا کون پرسان حال ہوتا۔ لے دیکے انکے لئے سوکھے جھاڑ جھنکاڑ کو جلاکر سلگتے بجھتے آلاؤ کا ایک موہوم سا سہارا ہی بچا تھا۔ پکے گھروں میں اگر لوگ کافی اور دیگر گرم مشروبات کے سہارے اس شدید ٹھنڈ سے نبرد آزماء  تھے تو سامنے میدان میں جھگیوں والے غریب لوگ جلتے الآؤ میں آلو اور شکرقندی بھون بھون کر کھاتے ہوئے  خود کو گرمی پہچانے کی کوشش کررہے تھے۔ رات کے پہلے پہر میں تو اکا دکا کوئی جیب کا تھوڑا بھاری مزدور ٹھیلے والے کوایک ادھ چائے کا آرڈر دے بھی دیتا مگر باقی تہی دستوں کو تو چائے کے سہارے پوری رات گذارنے کے لئے قرض پر چائے دے دے کرٹھیلے والے کا دیوالیہ ہوجانا یقینی تھا ۔ ان مفلس لوگوں کے پاس تو اپنے کھلے ٹھنڈے ہاتھوں پر پھونکنے لئے گرم سانسیں بھی نہیں بچی تھیں۔  ۔

 ان لاچار مزدوروں نے اپنی جھگیوں کے اگے جگہہ جگہہ لکڑیوں سے جلتے جو الآؤ روشن کررکھے تھے وہ مہیب کہرے کی چادر میں لپٹی فضا میں ایک اسیب زدہ شمشان میں جلتی ہوئی چتا سے اٹھتے ہوئے شعلوں کا سا سماں پیش کررہے تھے۔ جب کہیں گہری دھند کے پرے کسی کتے یا گیدڑ کے رونے کی آواز فضا کو چیرتی ہوئی الآؤ کے اردگرد بیٹھے لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی تو وہ خوف اور سردی سے تھرتھراتے ہوئے الآؤ سے مزید قریب ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے اور سٹ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگتے۔ آلاؤ کے پیچھے جھگیوں میں پھٹی پرانی چادروں میں لپٹے ہوئے انکے بال بچے سکڑے سمٹے سورج نکلنے کے انتظار میں نیند سے لڑتے رہتے تھے۔ جھگیوں کے سامنے کے کھلے حصوں کو نیلے پلاسٹک اور پرانے ٹاٹوں کے ٹکڑوں کو ستلی سے گا نٹھیں لگا کر ایک دوسرے سے ملانے کی کوشش کی گئی تھی مگر یخ تیز ہوا کی سفاکانہ در اندازی نے ان کمزور بندھنوں کے بیچ بھی دراڑ ڈالدی اور اندر باہر کا فرق مٹا دیا تھا۔ تیز چلتی ٹھنڈی ہوا ادھ کھلی پلاسٹک کے لٹکے ہوئے ٹکڑوں کو زور زور سے برابر کھڑی لکڑی پرپٹخ پٹخ کر ہولی کی رات میں پٹتے ڈھول سے زیادہ خوفناک آوازیں پیدا کررہی تھی۔

    باہر جلتے الآؤ میں جلتی لکڑیاں بھی اہستہ آہستہ کم ہونے لگیں تو ان مفلوک الحال لوگوں نے میدان کے ارد گرد لگے پیڑوں کی سوکھی شاخیں کاٹ کر لانا شروع کردیں تاکہ یہ سخت رات کچھ تو اسانی سے کٹ سکے۔ جب کسی  پیڑ کا کوئی نسبتا” بڑا گدا لاکر الآؤ میں ڈالا جاتا تو آلاؤ سے اچانک اٹھتے شعلے اور زیادہ بلند ہونے لگتے اور پوری فضا میں یکلخت دھواں اور روشنی چھا جاتی۔ ساتھ ہی الآؤ کے اردگرد بیٹھے لوگوں کے چہرے بھی تمتما اٹھتے۔ کبھی کبھی جب کوئی گوند آلودہ سوکھی لکڑی الآؤ میں ڈالنے پر اچانک چٹخ جاتی تو اس کے ارد گرد بیٹھے لوگوں  پر  آتشبازی جیسی چنگاریوں کی اک بوچھاڑ سی پڑجاتی جو اس شدید سردی میں کسی کو بھی بری نہ لگتی۔

کڑاکے کی سردیوں میں گرم اونی کپڑوں اور بستروں کے متبادل کے طور پر کھلی جگہوں پر یہ جلتے الآؤ اپنی افادیت میں کسی رئیس کے مینشن میں روشن ہوئے فائر پلیس سے کسی طرح بھی کم نہیں ہوتے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ان جلتے الآؤ کا کوئی ایک تنہا مالک نہیں ہوتا اور یہ الآؤ وہاں انے والے تمام لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں جن کو جلانے بجھانے کا کنٹرول ہر کسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر چھجو نے کہیں سے کوئی ٹوٹے فرنیچر کی دیمک زدہ لکڑی الآؤ میں لاکر ڈالدی تو گلو کو اس لکڑی کے دہکتے انگارے کسی ادھ جلی لکڑی سے اپنے سامنے کرنے کا پورا حق حاصل تھا۔ ان جلتے الآؤ کی گرمی سے نہ صرف اس کے اردگرگرد بیٹھے سردی سے کپکپا تے لوگ ہی اپنا ٹھنڈاجسم گرماتے بلکہ تھوڑی دور پر جھگیوں میں بیٹھے لوگ بھی اس کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتے ہوئے اس سے گرمآہٹ حاصل کرتے۔ دراصل یہ جلتا ہوا الآؤ ان غریبوں کی حقیقی زندگی کا عکاس تھا۔ جس طرح اس الآؤ میں جلنے والی لکڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر خاک ہوتی رہتی ہیں اسی طرح یہ مفلس لوگ بھی مرتے دم تک بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔

ادھر آج شام ہی سے سیٹھ رشید شھر کے ٹاون ہال میں منعقد ہونے والے پروگرام میں شرکت کرنے کی تیاری میں مصروف تھے جس کی انھیں صدارت بھی کرنا تھی۔ دراصل اج رات شھر کی کئی رفاہی تنظیموں نے مل جل کر شھر کے غریب و نادار لوگوں کے لئے اس شدید سردی کو محسوس کرتے ہوئے لحافوں اور کمبلوں کی تقسیم کا انتظام کیا تھا جس کے لئے سیٹھ رشید کو ٹاون ہال میں دیگر عمائدین شھر کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔ ہال میں ایک جانب لحافوں اور کمبلوں کا ایک بڑا سا انبار لگا ہوا تھا۔ دوسری جانب  کھلے میدان میں کثیر تعداد میں غریب ومفلس لوگ قطار در قطار اپنے اپنے حصے کا لحاف یا کمبل لینے کے لئے بے قراری کے ساتھ منتظر تھے۔ پروگرام کے مطابق معززین شھر کی تقاریر کے بعد سیٹھ رشید کے ہاتھوں یہ لحاف اور کمبل محتاجوں میں تقسیم کئے جانا تھے۔

معینہ وقت سے تھوڑی تاخیر سے سیٹھ رشید اپنی کار میں اپنے سکریٹری کے ہمراہ ٹاون ہال پہنچ گئے۔ منتظمین نے انکا تالیاں بجا کرگرم جوشی سے استقبال کیا۔ افتتاحی اور استقبالیہ تقاریر کے بعد سیٹھ رشید سے صدارتی تقریر کرنے اور اسکے بعد لحافوں اورکمبلوں کو تقسیم کرنے کی درخواست کی گئی۔ سیٹھ صاحب نے کہ جو اس وقت لونگ کوٹ’ جیکٹ’ سوئٹر’ شال ‘ مفلر اور ٹوپی سے لدے ہوئے یا منڈھے ہوئے تھے مائیک پر تشریف لاکر پہلے  ایک مختصر اور بہت جذباتی تقریر کی:

” حضرات آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس برس  شدید اور ناقابل برداشت سردی نے کیا قہر ڈھایا ہوا ہے۔ جن لوگوں کے سر پر چھت ہے اور سردی سے بچنے کے لئے گرم لباس بھی ہیں انکی حالت ابتر ہورہی ہے تو زرا سوچیں کہ ان غریبوں کا کیا حال ہوگا کہ جن کے سر پر چھت ہے اور نہ تن ڈھکنے کے لئے لباس۔ زرا  ان جھگیوں اور فٹ پاتھ پر رہنے والوں کی مشکلات کا اندازہ کریں کہ جن کے پاس سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ بے چارے کھلے میدانوں میں لکڑیوں سے الآؤ جلاکر اتنی سخت سردی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ اس کڑے وقت میں ہمارے شھر کی ان رفاہی تنظیموں نے ان ضرورتمندوں کے لئے جو لحافوں اور کمبلوں کا اہتمام کیا ہے وہ بہت قابل ستائش ہے۔ اس نیک کام میں شھر کے ہر باشندے سے بڑھ چڑھ کر تعاون کرنے کی ہماری مخلصانہ اپیل ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورتمند لوگ اس مدد سے فائدہ اٹھا سکیں اور انکی قیمتی جانوں کی حفاظت کی جاسکے۔ "

اس جذباتی تقریر پر بجتی تالیوں کے درمیان سیٹھ رشید نے لحافوں اور کمبلوں کی تقسیم شروع کی۔ پریس رپورٹرس نے سیٹھ صاحب کو چاروں سمت سے گھیرا ہوا تھا  اور اخباروں کے فوٹوگرافرز نے سیٹھ صاحب کی ہر لحاف وصول کرنے والے کے ساتھ  تصویر کھینچی۔

پروگرام ختم  ہوتے ہی شیخ رشید اپنے سکریٹری کے ہمراہ ٹاون ہال سے اپنے گھر کی جانب چلے آئے۔ جیسے ہی انکی کار چائے والے ٹھیلے کے نزدیک جلتے ہوئے الآؤ کے قریب پہنچی اسی وقت کسی نے ایک بڑا لکڑی کا گدا آلاؤ کے اندرڈالدیا جس کے ڈالتے ہی الآؤ بھڑک اٹھا اور اس سے کچھ چنگاریاں اور جلتے ہوئے انگارے آڑکر سڑک پر گرنے لگے۔ جب تک شیخ رشید کی کار بھی وہاں پہنچ چکی تھی۔

کچھ جلتے ہوئے انگارے شیخ رشید کی کار کے بونٹ پر بھی گرے جس کے باعث انکے ڈروائیور نے گھبراکر بریک لگا دئے جس کے سبب کار چائے کے ٹھیلے سے ٹکرا گئی  اور وہاں کھڑے کچھ مزدوروں کو زخمی کرتی ہوئی تھوڑا  آگے جاکر رک گئی۔ اس اچانک صورت حال سے اس جگہہ افرتفری سی پھیل گئی۔ سب سے پہلے کار سے شیخ رشید کے سکریٹری باہر نکلے اور انھوں نے غصے سے آگ بگولہ ہوتے ہوئے وہاں کھڑے سب ہی لوگوں کو انکی اس لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ حرکت کا خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دے ڈالی۔ فورا” ہی شیخ رشید بھی کار سے اتر آئے اور وہاں کھڑے لوگوں کو خوب کھری کھوٹی سنا ڈالیں۔ پھر اپنے سکریٹری کو اک کونے میں لے جاکر انکے کان میں کچھ کہنے لگے جس کے بعد وہ لوگ اپنی کار میں بیٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔

لوگ جلد ہی جائے حادثہ سے ہٹ کر تتر بتر ہوگئے۔ مگر رات بھرجھگیوں کے میدان سے چیخ و پکار کی آوازیں آتی رہیں۔ صبح کے اخباروں میں فرنٹ پیج پر ایک جانب شیخ رشید کی غریبوں میں لحاف بانٹتے ہوئے بڑی سی تصویر چھپی تھی اور دوسری جانب تصویر میں میدان میں جھگیوں کی جگہہ بلدیہ کے دو بل ڈوزرس کھڑے نظر آرہے تھے جس کے نیچے خبر لگی تھی:

"جلتے الآؤ سے  ا ٓڑتی چنگاریوں سے جھگیوں کی بستی پوری طرح سے خاکستر”

تبصرے بند ہیں۔