سرسید احمد بحیثیت صحافی ایک جائزہ 

راحت علی صدیقی قاسمی

ہندوستان قدیم روایات و اقدار سے جدا نہیں ہوا،ایران النسل بادشاہوں کے اثرات ملک پر پوری طرح باقی ہیں، مغلیہ سلطنت کا چراغ تو گل ہو چکا، مگر مزاج و طبیعت میں تمام افراد ابھی ان سے ہم آہنگ ہیں، انگریزی تہذیب و تمدن اعمال و جوارح پر ظاہر نہیں ہوا،زبان و بیان پر فارسی کا غلبہ ہے، زبان و ادب کی تمام اصناف میں یہی رنگ غالب ہے، نومولود  زبان اردو ابھی اتنی ترقی نہیں پاسکی کہ اخبارات کہ صفحات اس کی سادہ عبارتوں سے مزین ہوں، صحافت پر بھی فارسی کا غلبہ ہے، اخبارات ورسائل کی زبان فارسی ہے،عبارت آرائ، تصنع، مبالغہ آرائی، سے خبریں بھی خالی نہیں ہے،جب کسی خبر کو پڑھتے ہیں، تو افسانہ کا گمان ہوتا ہے، سادگی، شگفتگی، کی حامل تحریریں ابھی اردو صحافت کو نصیب نہیں ہوئ ہیں، اور ابھی صحافت فارسی کا چولہ   تن سے جدا نہیں کر پائ۔

تاریخ کے صفحات اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں، لوگوں کا مزاج اردو سے ابھی تک ہم آہنگ نہیں ہوا، یہی وجہ ہیکہ جام جہانما اپنے چار اردو صفحات کو بھی فارسی میں شائع کرنے پر مجبور ہوا،اسی رنگ اور طرز میں اردو صحافت کا کارواں آگے بڑھ رہا تھا،نا ابھی اس میں انقلاب کی شورش ہے، اور نا عوام کو جوش و جذبہ سے لیس کرنے والا انداز، اور نا آزادی کی امنگوں کو قلوب میں پیدا کرتے انقلابی حروف، علاوہ ازیں قوم کے لئے کوئ ایسا لائحہ عمل بھی پیش نہیں کیا جارہا ہے،جو قوم کی زبوں حالی و بدحالی کو ختم کردے، اور ملت کو علمی شعور سے آراستہ و پیراستہ کرے، اور نئ راہیں پیدا کریے جو امت کے مسائل کا سد باب کرنے کے لئے کافی ہوں، اور پیدا شدہ  مشکلات و مصائب کی تاریکی کو دور کر دے،حالانکہ وقت کی رفتار اتنی تیز اور حالات اتنے سخت ہیں کہ ملک میں اخبارات کی کوئ اہمیت ہی نہیں ہے، انہیں کوئ پڑھنا نہیں چاہتا،وہ ضیاع وقت کے اسباب میں سے ہیں، ان کی کوئ حیثیت و وقعت نہیں ہے،اس حقیقت کی منظر کشی کرتی یہ تحریر ملاحظہ کیجئے۔

اس وقت نہ تو صحافیوں کو ملی شعور بیدار تھا اور نا ہی انکی نظر رفتار زمانہ پر تھی، اور دنیا کی خبروں کا علم غیر ضروری سمجھا جاتا تھا،اخبار کو پڑھنا تضیع اوقات تھا،،(حوالہ سر سید احمد اور ان کا عہد صفحہ 227)یہ سطریں عیاں کررہی ہیں کہ اخبارات کا معیار کیا تھا ؟کس طرز اور انداز پر اخبار نکل رہے تھے،جس کی ایک پالیسی تھی دائرہ کار تھا، اسے پھلانگنا صحافی کے لئے لکشمن ریکھا عبور کرنے جیسے عمل تھا، اس کی اپنی ذمہ داریاں تھیں، جن سے عہدہ برآں ہونا اخبار کی موت کا سبب تھا، اسی طرح قارئین کی کیفیات کا بھی بخوبی علم ہوجاتا ہے،نہ انکی نگاہ میں اخبار کی کوئ اہمیت ہے، نا وہ اسے پڑھنا چاہتے ہیں، اور نہ اسکی ضرورت محسوس کرتے ہیں، اخبار حکومت کے رحم و کرم پر رینگ رہا ہے،اور انکی خواہشات کی تکمیل کا آلہ کار بنا ہوا ہے،یہی طرز عمل 1857 عیسوی تک رہا ناکام جنگ آزادی کے دانشوران  و مفکرین نے قوم کو پھر سے عزم و حوصلہ عطا کرنے اور شکست وریخت کی فرسودگی ختم کرنے کا منشاء بنایا،اور ڈھانچہ اور روپ بدلنے لگا،اور دہلی اردو اخبار کی شکل میں مولوی حسین احمدآزاد کے والد مولوی باقر نے اس طرز کی بنیاد رکھی، صالح فکر اور عمدہ لب و لہجہ کے مضامین خال خال ہی ہیں، اور صحافت ترقی کے اعلی معیار نہیں چھوسکی۔

اسی دوران ایک ایسے شخص نے میدان صحافت میں جو علمی و ادبی سے قوم کو ضروریات کرنے بھرپور صلاحیت رکھتا تھا،اس اندر قوت و طاقت تھی وہ اس دھارے کے رخ کو موڑنا چاہتا تھا،اسے صحیح سمت عطا کرنا چاہتا تھا،اور کارنامہ اس کارنامے کو انجام دینے کے لئے ہر طرح قربانی پیش کرنا اپنے باعث افتخار سمجھتا تھا، اس کی خواہش و آرزو یہی تھی، کہ قوم انگریزوں سے مقابلہ لے لائق ہو جائے، اور ذلت و رسوائی کے اس مشکل ترین  سے آزاد ہو، اس عظیم شخصیت کو ہم سرسید احمد کے نام جانتے ہیں، جنہوں نے اپنے علم وفن کامظاہرہ کیا،اور صحافت کے نئے اسلوب سے لوگوں کو واقف کرایا اور مبالغہ، عبارت آرائ،اور تصنع سے پرہیز کیا صاف ششفتہ تحریریں پیش کیں، اور بلند افکار سے لوگوں کو جلا بخشنے کی کوشش کی، یہ طرز عمل خاص علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نامی اخبار میں نظر آیا،جس میں سرسید نے اسلوب ہی نہیں صحافت کے تئیں لوگوں کا نظریہ ہی تبدیل کرنے کوشش کی،اور کہتے ہین :کہ اخبار نہایت عمدہ ذریعہ قومی ترقی، ملک کی بھلائ عوام کی رہنمائی، خواص کی دلچسپی حکام کی ہدایت اور رعایا کی اطاعت کا ہے،(سر سید احمد اور انکا عہد صفحہ 229)

سر سید کے جملے قوم کے خیالات کی تردید کرتے اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اخبار محض وقت کی بربادی کا قصہ نہیں ہے، بلکہ قوموں کی تعمیر کا ذریعہ ہے،اور صرف ہی نہیں بلکہ آپنے قلم کاروں کو بھی ان کے مقام سے واقف کرایا، اور صحیح طرز عمل کی نشاندہی کی،رقم طراز ہیں، آزادی ہمارے نزدیک اس بات کا نام ہے کہ کسی اخبار نویس کی طبیعت صاف گوئی اور راست بازی میں کسی کی غلام اور تابعدار نہ ہو،(سر سید اور انکاعہد،صفحہ 229)ان الفاظ میں صحافت کہ اس مذموم چہرے سامنے کرنے کی کوشش کی ہے، جو قلم فروش اور ملت فروش افراد کا شیوہ ہوتا ہے،اور ایسے شخص کو صحافت کے زمرے سے خارج  بھی کردیا ہے، جو اس جرم کا مرتکب ہو، یہ وہ اصول اور ضابطہ ہیں جن کے ساتھ سرسید نے میدان صحافت میں قدم رکھا،اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے ذریعہ قوم کی خدمت انجام دینی شروع کی،علمی مضامین، تعلیمی خبریں، اور قوم ملت کو متحرک کرنے والے مضامین و مراسلہ انہوں نے شائع کئے،اور انگریزی کے عمدہ مضامین بھی انہوں نے ترجمہ کرکے قارئین تک پہونچائے، لوگوں کو مغریبی نظریہ تعلیم سے واقف کرایا، ان سب چیزوں کے باوجود سرسید کو قوم کی حالت زار کا احساس تھا،اور وہ ہر حال مین قوم کی اصلاح چاہتے تھے، انہیں مغربی علوم وفنون سے لیس کرنا، زمانے کی اقدار اور معیار کے قابل بنانا سرسید کا حسین خواب تھا،اسی خواب کی تکمیل لئے سرسید نے تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا، اور قوم و ملت کی بگڑی بنانے کی کوشش کی، اور انہوں نے اس طرز اور نوعیت کے مضامین لکھے جو قوم کی اصلاح کے لئے مفید ثابت ہوں۔

سرسید نے اس رسالہ کے ذریعہ نا صرف قوم بلکہ صحافت کے بھی مصلح کا کردار انجام دیا اور ایک ایسا لب و لہجہ اور اسلوب اختیار کیا جس کی عام آدمی تک رسائی ممکن ہو، جس مین متن کی خوبصورتی میں آدمی گم ہوکر نا رہے،اس افسانہ اور خلاف فطرت واقعہ نہ سمجھے بلکہ صحیح اور آسان تراکیب سے مفہوم و معانی کو اخذ کرے اور اپنی زندگی کی تعمیر نو کرے،اور اس سلسلہ میں سرسید واقعتا کامیاب ثابت ہوئے، اور انہیں اردو صحافت کا مجدد کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا،پیش ہیں، چند سطریں جس سے آپ انکے طرز تحریر اور پیغام کا اندازہ کرسکیں، مثال پیش خدمت ہے،تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہیکہ جب تک وہ نہیں جاتا کوئ ہنر و کمال ان میں نہیں آتا،تربیت، و شائستگی، تہذیب و انسانیت کا مطلق نشان پایا جاتا جبکہ وہ مذہبی غلط نما نیکی کے پردے میں ظہور کرتا ہے،تو اور بھی سم قاتل ہو جاتا ہے،کیونکہ مذہب اور تعصب سے کچھ تعلق نہیں ہے،(سرسید اور ان کا عہد صفحہ 249)

ان سطروں سے انکی فکر اور طرز تحریر عیاں و بیاں ہے، قوم ملت کے تئیں ان کے احساسات و جذبات بھی ان سطروں سے ظاہر ہیں، سرسید اعلی درجی کے صحافی ہیں، انکی صحافتی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں، اور انہوں نے صحافت کے طرز و انداز کو بدلا، صحافت کے لئے ایسی بنیاد ڈالی جن پر آج تک صحافت کا ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے،اور اپنی صالح فکر اور اخلاص کے ذریعہ امت مرحومہ میں نئ روح پھونکنے کی کوشش کی اور کسی حدتک وہ کامیاب بھی رہے، صحافت مین سرسید کو نمایاں مقام حاصل ہے، ہمیشہ وہ اپنے طرز پر اور اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے کوشش کرتے رہے،مال و زر کی چمک سے مرعوب نہیں ہوئے، اور اصلاح قوم کا مشن زندگی بھر کبھی ترک نہیں کیا،اور آج بھی انکا صحافتی فیضان جاری و ساری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔