’سرسید کی عصری معنویت‘ کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا افتتاح

ڈاکٹر خالد مبشر

سرسید احمد خاں کے دو سو سالہ جشن ولادت کے موقع پر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے ’’سرسید کی عصری معنویت‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔ صدارتی خطبے میں پروفیسر طلعت احمد وائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے سرسید احمد خاں کو ملک وقوم کا مجدد اور محسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک مسلم قوم اور ہندوستان دونوں کی نجات اور فلاح تعلیم اور اتحاد میں مضمر ہے۔

انجینئرنگ آڈیٹوریم، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں موجود سینکڑوں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ماہر سرسید پروفیسر افتخار عالم خاں (سابق ڈائر یکٹر، سرسید اکیڈمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے سرسید کے نظریۂ دین و دنیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سرسید مذہب کو عقائد تک محدود رکھنا چاہتے تھے اور وہ اس خیال کے حامل تھے کہ امور دنیا سے مذہب کا تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرسید کا ایک اہم ترین کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے  مذہب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور وہ اندھی تقلید کے قائل نہ تھے بلکہ تغیر پسندی اور سماجی ارتقا کے علمبردار تھے۔

اس موقع پر فرانس کے معروف مستشرق اور اردو زبان کے مشہور اسکالر پروفیسر آلیں دزولیئر نے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں کا تصور زبان و ادب اور نظریۂ مذہب و تہذیب کی معنویت اور افادیت اکیسویں صدی میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا سرسید کے افکار و نظریات کا مطالعہ نئی تحقیق و تنقید کی روشنی میں ضروری ہوگیا ہے۔ اس موقع پر ڈین فیکلٹی برائے انسانی علوم و السنہ پروفیسر وہاج الدین علوی نے سرسید کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر تعلیمی اور اصلاحی تحریک کو مذہب، تہذیب، تاریخ اور زبان و ادب کے شعبوں میں مؤثر ترین اجتہادی کارنامے سے تعبیر کیا۔

استقبالیہ کلمات میں صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہپررسول نے تمام بیرون اور اندرون ملک سے تشریف لائے ہوئے مندوبین کا خیر مقدم کرتے ہوئے قوی امیدظاہر کی کہ اس سمینار کے اگلے دو دنوں میں دانشوروں اور ماہرین کے مقالوں میں سرسید کی عصری معنویت روشن ہوگی۔ افتتاحی اجلاس میں شعبۂ اردو کے سالانہ مجلہ ’’ارمغان‘‘ کے تازہ شمارے کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ یہ شمارہ کلاسیکی شعری اصناف کی تحقیق و تنقید پر مشتمل ہے۔ نیز شعبہ کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز کی تازہ شائع شدہ کتابوں کی رسم رونمائی بھی عمل میں آئی۔

ان میں پروفیسر کوثر مظہری کی کتاب’’ارتسام‘‘، ڈاکٹر ندیم احمدکی کتاب ’’ترقی پسندی جدیدیت اور مابعد جدیدیت‘‘ اور ’’سنو کہانی سنو کہانی‘‘،( مرتبہ ڈاکٹر ندیم احمد، غزالہ فاطمہ)،ڈاکٹر نوشین حسن کی کتاب ’’اردو کے منتخب انشائیے‘‘ اور غزالہ فاطمہ کی کتاب ’’معصوم جذبوں کی جمالیات‘‘ شامل ہیں۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض سمینار کے کنوینر پروفیسر احمد محفوظ نے انجام دیتے ہوئے کہا کہ یہ سمینار اپنے موضوع، مقالہ نگار اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پروگرام کا آغاز حافظ نوراللہ کی تلاوت کلام پاک اور اختتام پروفیسرشہزاد انجم کے کلمات تشکر پر ہوا۔

اس یاد گار موقع پر معروف بین الاقوامی ڈراما نگار اور داستان گو جاوید دانش (کینیڈا)، پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر انیس اشفاق، پروفیسر الطاف احمد ُاعظمی،پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر شہنازا نجم، پروفیسر اسحق احمد، پروفیسر اقتدار محمد خاں، ڈاکٹر رشید اشرف، ڈاکٹر عقیل احمد، ڈاکٹر وسیم راشد، ڈاکٹر شمع افروز زیدی، ڈاکٹر نگار عظیم، تسنیم کوثر، ڈاکٹر ابو بکر عباد، ڈاکٹر شاہینہ تبسم، مریم سکندر (لندن)، ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر محمد ارشد، پروفیسر عبدالحلیم اخگر، پروفیسر درگا پرشاد، پروفیسر ہارون سجاد، ڈاکٹر محمد سہراب، ڈاکٹر مشتاق قادری، ڈاکٹر شاہ عالم،ڈاکٹر سہیل انجم، جناب شبیر علوی، ڈاکٹر رحمان مصور، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد اور ڈاکٹر سید تنویر حسین کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں اساتذہ اور طلبا موجود تھے۔

(تصویر میں دائیں سے بائیں: پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر افتخار عالم خاں، پروفیسر طلعت احمد، پروفیسر آلیں دزولیئر، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر احمد محفوظ)

تبصرے بند ہیں۔