صوتی آلودگی اور اسلامی تعلیمات

محمد صابر حسین ندوی

 اللہ رب العزت نے اس دار فانی کا نظام دن اور رات پر قا ئم رکھا ہے، دن محنت و مشقت اور رات راحت و آرام کیلئے بنائی گئی ہے’’وجعلنا نومکم سباتاوجعلنا اللیل لباساًوجعلناالنھارمعاشا‘‘(نبأ:۹تا۱۱)لیکن عصر حاضر کی برق رفتار ترقی، مشینری کی کثرت،گاڑیوں ، سواریوں کی بھر مار، ٹرانسپورٹ و ایکس پورٹ کی ضرورت، کار خانے، تیز میوزک،ریڈیو، ٹیلی ویزن وغیرہ کے شور و شغب نے انسانی سکون و راحت کو بے چینی وبیقراری میں بدل دیا ہے ؛بلکہ ماحولیات کو بھی صوتی آلودگیوں سے دوچار ہو ناپڑ رہا ہے، نتیجتاً سردرد، بے چینی، چڑچڑاہٹ کی شکایت عام ہوتی جا رہی ہے، قوت سماعت، آپسی کمیو نیکیشن،بلڈ پریشراور بلڈ شوگر،اخلاف قلب کی شکایت، دل کی دھڑکن کا بے ضابطہ ہو جانا، نیند نہ آناجیسی مشکلوں نے آگھیرا ہے۔ ظاہر ہے جب نظام قدرت کے ساتھ کھلواڑ ہو گا اور اپنے آپ کو استطاعت سے زائد کا مکلف بنا یا جا ئے گا؛تو دشواریاں پیش آنی ہی ہیں ، کہتے ہیں کہ آواز کو ناپنے کے لئے ڈیسی بیلس(DECIBELS )کا یونٹ استعمال کیاجاتا ہے؛ جس کا مخفف DB ہے،انسانوں کے درمیان عام گفتگو ۶۰ ڈیسی بیلس کے آس پاس ہوتی ہے جبکہ جیٹ ہوائی جہاز یا آتش بازی کے بڑے پٹاخوں کی آواز 140db تک پہونچتی ہے، اسی طرح کار کے ہارن 110،جہاز اڑتے وقت 120dbاور بندوق کی گولی کی آواز 140dbہو تی ہے، جبکہ انسانی کان کی قوت برداشت 80سے85ڈیسی بیلس تک ہوتی ہے ؛وہ بھی چند گھنٹوں کے لئے، اگر اتنی آواز مستقل کانوں میں آئے تو سماعت اور ذہنی سکون اور پھر اس کے سبب سبھی جسمانی افعال متاثر ہوتے ہیں ۔ ( ملخص :ماحول؛ایک تعارف ص:۶،۷ وغیرہاز: اسلم پرویزصاحب)

حالانکہ عالمی پیمانے پر صوتی آلودگی کی فکر کی جاری ہے، اورمختلف قوانین و ضوابط عمل میں  لائے جارہے ہیں ، ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ۱۹۹۶؁ء میں پاس ہوئے دفعہ 48-Aاور دفعہ 51-Aکے تحت فضائی آلودگی نہ کرنے کیلئے ہر ایک شہری کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، اور سیکشن ۱۳۳ کوڈ کرمنل کے تحت باشندگان کو تکلیف دینے کے جرم میں ؛ایکٹ 2-A  ۱۹۹۹؁ء کے زیر ؛خواہ وہ بلند آواز ہی کیوں نہ ہو مجسٹریٹ کورٹ کو حق حاصل ہے کہ ملزم کے تئیں کاروائی کرے، چونکہ ضابطہ 25(1)اور 26(B) کے تحت مذہبی امور میں آزادی ہونے کی وجہ سے مشرقی بنگال کے ایک جج نے ۱۹۹۹؁ء میں اذان کو مستثنی کرتے ہوئے رات کے ۹ سے صبح کے ۶ بجے تک کسی بھی قسم کے شور کو منع کیا گیا، خود سپریم کورٹ نے نے اسے قبول کیا ہے ؛کیونکہ اذان عین مذہب ہے نہ کہ ڈھول نگاڑے وغیرہ اور مذاہب،اس کے علاوہ سیکشن 2(c)  ۱۹۸۶؁ء کے تحت باقاعدہ تحفظات ماحولیات میں کسی بھی قسم کی آلودگی کو شامل کیا گیا ہے، تو وہیں زیادہ تیز ہارن رکھنے یا بیجا استعمال کرنے پر پولس ٹریفک کو چالان بنانے اور اس کا لائسنس رد کرنے کا بھی حق ہے۔۔۔۔۔(۔ipleader.in،اور دیکھئے:encyclopedia of sound )

  اسلام چودہ سوسال قبل بادہ و صحراء میں ایک امی پر اترا ہوا کامل ومکمل شریعت ہے، جس میں الی یوم القیامہ کی برآمدات پریشانیوں اور مسائلوں کا حل ہے، اس نے بیسویں صدی میں اٹھنے والی صوتی آلودگی پر بھی بخوبی روشنی ڈالی ہے ؛چنانچہ قرآن کریم نے حضرت حکیم لقمان ؑ کی زبانی اپنے بیٹے کو نادر و نایاب نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے نقل کیا ہے ’’واغضض من صوتک ان انکر الاصوات لصوت الحمیر‘‘(لقمان:۱۹)کہ اے بیٹے! اپنی آواز پست رکھو اس لئے کہ سب سے نا پسندیدہ آواز گد ہے کی ہوتی ہے، نسائی؛ ابوہریرہ سے اسکی تفسیر یوں روایت کرتے ہیں کہ ؛حضور ؐ نے فرمایا:جب تم مرغ کی پکار سنو تو اللہ سے فضل کا سوال کرو اور جب تم گدہے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ چاہو کیونکہ وہ شیطان دیکھتا ہے’’ان سمعتم صیاح الدیکۃ فاسئلواللہ من فضلہ، واذا سمعتم شہیق الحمیر فتعوذوا بااللہ من الشیطان فانھا رأت شیطانا‘‘(روی النسأی عند تفسیر الآیۃ،لقمان:۱۹)،اسکی تفسیر کرتے ہوئے قتادۃ اور مجاہد کا کہنا ہے کہ ؛گدہے کی آواز سب سے قبیح وبری ہوتی ہے اس کا اول زفیر اور آخر شہیق ہے (قباحت کی شدت مراد ہے)،(فتح القدیر للشوکانی عند تفسیر الآیۃ،لقمان:۱۹)ابو بکر الجزائری کا کہنا ہے :کہ لوگوں کے نزدیک اسکی آواز سب سے بری و متنفر ہوتی ہے، اس لئے کہ اس کا اول زفیر اور آخر شہیق ہے(الیسر التفاسیر لکلام العلی الکبیرعند تفسیر الآیۃ،لقمان:۱۹)،علامہ ابن کثیر اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :کہ اس جملہ کے ذکر کا مقصود یہ ہے کہ بلا ضرورت بلند آواز کر نے سے روکاجائے، لہذاکہا کہ :سب سے قبیح آوازگدہے کی ہوتی ہے اس لئے کہ اسکی آواز بہت بلند ہوتی ہے۔۔۔‘‘(ابن کثیر:۶؍۳۳۷،دیکھئے:3roos.com)۔

  حقیقت تو یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے دعاء و استغفار اور عبادات میں بھی بلند آواز کو پسند نہیں کیا اور فرمایا:’’ادعوا ربکم تضر عاً وخفیۃ انہ لا یحب المعتدین‘‘(اعراف:۵۵)کہ اپنے رب سے گڑ گڑا کر اور چھپ کر مانگا کرواور اللہ تعالی حد سے تجاوز کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے!،ابن جریر طبری نے ’’لایحب المعتدین ‘‘ کا مطلب یہ بتلایا کہ اللہ رب العزت ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو اپنی دعاوں میں حد سے زیادہ آواز بلند کرے ’’ان ربکم لا یحب من اعتدی فتجاوزحدہ الذی حدہ لعبادہ فی دعائہ ورفعہ صوتہ فوق الحد الذی حد لھم فی دعائھم وفی غیر ذلک من لامور‘‘(تفسیر ابن جریر ۱۲؍۴۸۶)،ایک غزوہ خیبرکے موقع پر جب صحابہ کرام کسی وادی پر تشریف لائے تو بآواز بلند تکبیر وتھلیل کرنے لگے،آپؐ نے گرفت کی اور فرمایا:اے لوگوں اپنی آوازیں پست کرو کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکا ررہے ہو بلکہ تم ایسی ذات کو پکار رہے ہو جوسننے والا اور قریب ہے( بخاری مع الفتح :۷؍۳۶۳،مسلم:۱۷؍۲۵)،علا مہ ابن جریج کہتے ہیں :کہ دعا میں چیخ و پکار اور بلند آواز نا پسند کیا گیا ہے،اور انکساری و تضرع کا حکم ہے ’’یکرہ رفع الصوت والنداء والصیاح فی الدعاء ویومر باتضرع والاستکانۃ‘‘(ابن کثیر:۲؍۲۲۱)،حضور اکرم ؐ نے بھی خاص طور سے فرمایا تھا:کہ ایک دوسرے پر خواہ صلاۃ و قرات ہی کے لئے کیوں نہ ہو آواز بلند نہ کیا کرو اور لوگوں کو تکلیف نہ دیا کرو ’’عن ابی سعید الخدری عنہ انہ قال:اعتکف رسول اللہؐ فی المسجد فسمعھم یجھرون بالقرائۃ فکشف الستر وقال:ألا ان کلکم مناج ربہ فلا یؤ ذین بعضکم بعضا، ولا یر فع بعضکم علی بعض فی القرائۃ‘‘(سنن ابی داود:۱۳۳۲،مؤطا:۸۱، جامع الاصول:۵؍۳۵۶)،حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ:’’لاتجھر بصلاتک ولاتخافت بھا‘‘(اسراء:۱۱۰) کا مطلب یہ ہیکہ دعاؤ ں میں اپنی آواز بلند نہ کیا کرو (الفتح الباری:۸؍۴۷۲۳)،ابن مسعود کا کہنا ہے کہ: ہر حامل قرآن کی صفت غم و بکاء،حکمت وحلم،اور سکینت والی ہونی چاہئے، اس کے لئے درست نہیں کہ وہ ترش،غافل،چیخ وپکار کرنے والا اور سخت ہو(الفوائد:۴۴)،علامہ قرطبی نے ’’لصوت الحمیر‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ؛عرب زمانہ جاہلیت میں بلند آواز کر نے کو فخر سمجھتے تھے ا ور پست آواز والے کو ذلیل سمجھتے ؛لہذا اسلام نے سختی سے اسکی تردید کی اور قرآن نے خود کہا کہ بین بین کی راہ اختیار کی جائے (ملاحظہ ہو:تفسیرقرطبی سورہ اسراء:۱۱۰)،ابن زید تو یہاں تک کہتے ہیں کہ: اگر بلند آواز میں ذرا بھی خیر ہوتی تو اللہ اسے گدہے سے تشبیہ نہ دیتا (۔الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:عند تفسیر الآیۃ،لقمان:۱۹)،بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ: ابومحذورۃ نے اذان دیتے ہوئے اپنی طاقت سے زائد پر تکلف آواز بلند کی تو حضرت عمر نے فرمایا :مجھے خوف ہے کہ تم اپنے مریطاء(سینے سے لیکر ناف کا حصہ ) کو نہ پھاڑ لو (دیکھئے:المھذہب فی فقہ الامام الشافعی۔ ص:۱۱۳)۔

حتی کہ اگر اسلامی تعلیمات پر غور کیا جائے تو بلند آواز کے مقابلے پست آواز کو سنت ومستحب قرار دیا گیا، یہاں تک کہ جہری نمازوں میں درمیان کی راہ اپنانے کی تلقین کی ہے،قتادہ ؓ کی روایت ہے کہ حضوراکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر ؓ سے (بہت زیادہ پست قرات کی بناپر)فرمایا:اپنی آواز تھوڑی بلند کرو اور حضرت عمر ؓسے (بہت زیادہ بلند آواز کی بناپر)فرمایا:اپنی آواز تھوڑی پست کرو (ابوداود:۱۳۲۹،ترمذی:۴۴۷)،اسی لئے ابن عباس ؓ کی بھی ایک روایت ہے کہ نمازمیں آپ ؐ کی قرائت بس اس قدر ہوتی تھی کہ گھر والے سن پائیں ’’کانت قراء ۃ النبیؐ علی قدر مایسمعہ من فی الحجرۃ وھو فی البیت‘‘ (ابوداود:۱۳۲۷)،خیال رہے کہ آپؐ کا حجرہ دو آدمیوں کے سونے کیلئے بھی کافی نہ ہوپاتھا،چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں ’’اس کا مطلب یہ ہے آپؐ  آواز نہ زیادہ بلندکرتے تھے اور نا ہی اتنا پست کرتے کہ کوئی بھی نہ سننے پائے اور معاملہ رات کی نماز کا تھا اور اگر مسجد میں نماز پڑھتے تو آواز بلند (متوسطانہ )رکھتے تھے(مرقاۃ المفاتیح:۳؍۹۱۱)،امام شوکانی متوسط آواز کو مستحب قرار دیتے ہیں ’’أکثر الأحادیث۔ ۔۔تدل علی أن المستحب فی القراء ۃ فی صلاۃ اللیل التوسط بین الجھر والاسرار‘‘(نیل الأوطار:۳؍۷۳)،اسی پیش نظر علامہ ابن باز نے یہ اصول بتلایا کہ ؛اگر بلند آواز بھی ہوتو ایسی نہ ہو جو دوسروں کیلئے تکلیف دہ ہو’’المقصود أنہ اذا جھر یتحری الجھر الخفیف الذی لاتیأذی بہ مصل ولانائم‘‘(فتاوی نور علی الدرب:۱۰؍۸۷)۔

حقیقت یہ ہیکہ: اسلام میں علو و بر تری خواہ وہ آواز ہی کی کیوں نہ ہو نا پسند کیا گیا ہے، سوائے یہ کہ کوئی مظلوم ہو یا اشد ضرورت ہو قرآن کہتا ہے ’’ولایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم‘‘ (الفتح الربانی من فتاوی الامام الشوکانی:عند تفسیر الآیۃ :النساء:۱۴۸، قال قتادۃ:لایحب اللہ رفع الصوت مما یسوء غیرہ المظلوم۔۔۔۔۔۔) یہی وجہ ہیکہ فقہاء نے ’’لا ضرر ولا ضرار ‘‘ کا قاعدہ ضبط کیا اور ’’الامور بمقاصدہا یعنی انما الاعمال با النیات ‘‘یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے کی پابندی لگاکر تمام رفع صوت کی بیخ کنی کر دی، باالخصوص جب جبکہ رفع صوت پوری انسانیت یعنی ماحولیات کے لئے بھی خطرہ ثابت ہو چکی ہے، اور نسل انسانی مختلف امراض سے دوچار ہورہی ہے، جس سے دوسروں کو تکلیف بھی ہوتی حالانکہ کسی کو ایذا پہونچانا خواہ وہ مسلم ہو یا ٖغیر مسلم حرام ہے قرآن کریم کا اعلان ہے’’ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئأ وان کان مثقال حبۃ من خردل أتینا بھا وکفی بنا حاسبین ‘‘(الأنبیاء:۴۷) ایسے میں رفع صوت مقاصد شریعہ کے بھی مخالفاور امانت میں خیانت کے مترادف ٹھہرے گا اور اس سے بچنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہو گا ؛بدیگر صورت یہ ایمان کے مغائر اور سنت وشریعت کا معارض سمجھا جائے گا۔

 انسانوں کے لئے یہ بالکل جائز ہے کہ وہ ترقیوں کی سیڑھیاں چڑھیں ،آسمان و ستاروں پر کمندے ڈالیں ، سیاروں کو اپنا اسیر بنا ئیں ؛لیکن انسانی بقا اور اسکے سکون کو خطرہ میں ڈال کر نہیں اسی طرح،عبادتیں بھی کیجئے لیکن اسے رسم ورواج بنا کر اور ڈھول تاشے کے مثل شور وشغب اور ضعیف وناتواں اور بچوں ، بوڑھو اور عورتوں اور ساتھ ہی برادران وطن کیلئے زحمت نہ بنئے، کیا ہم نہیں جانتے کہ معاشرے میں اگر ایک طبقہ عبادت کا مکلف ہوتا ہے تو وہیں ایک بڑا طبقہ عباد ت سے معذور بھی ؛کیا ایسے میں روا ہے کہ عبادت کا غوغا کیا جائے؟، کا ش کہ ہم شریعت کی لطافت وپاکیزگی کا خیال رکھتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ غیر ہمیں شریعت اور مقاصد شریعت پر غور کرنے پر مجبور کردیں ،چنانچہ ہماری راتوں کی طویل ترین محفلیں اور مجلسیں جس کی بنا پر فجر متاثر ہو ؛بھلا کس نے اجازت دی؟حالانکہ فقہاء کی بحثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام کام جو فجر متاثر کرتی ہو غیر درست ہے، قابل غور امر ہے کہ حضورؐ کا شب بھر عبادات کی حرص وطمع رکھنے کے باوجود آپ کو بھی حکم تھا کہ رات کے بعض حصوں ہی میں عبادت کی جائے ’’قم اللیل الا قلیلاً‘‘(مزمل:۲)صحابہ کرام بھی اسی شوق وجذبہ کے حامل تھے لیکن آپ ؐ نے سختی سے فرمایا :کہ تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے’’ان لعینیک علیک حقاً‘‘(۔صحیح بخاری:۱۰؍۴۶۱،۴۶۲، مسلم:۲۶۴۰)

تبصرے بند ہیں۔