سرور تیرے پیغام کو ہم پھر سے بھلا بیٹھے!  

شارقہ ندا

رنگینی دنیا میں یوں خود کو ہی گھلا بیٹھے

سرور تیرے پیغام کو ہم پھر سے بھلا بیٹھے

راہیں ہیں اذیت سے بھری آج  ہماری

آہوں  میں سمٹتی ہے وہ بیچینیاں ساری

بیچیں ن سی ہے کیفیت اس روح پی طاری

آواز لگاتی ہے وہ خاموشی ہماری

دنیا کی حسین لوریوں سے دل کو سلا بیٹھے

سرور تیرے پیغام کو ہم دل سے بھلا بیٹھے

قرآن بھی کبھی ساتھی منزل تھا ہمارا

راہوں میں اندھیروں کی وہ تھا اپنا ستارہ

جسکو کبھی سینوں میں تھا ہم نے بھی اتارا

اب روح لرزتی ہے جو کھویا وہ کنارہ

دنیا کے رواجوں میں یوں قران کو تلا بیٹھے

سرور تیرے پیغام کو ہم دل سے بھلا بیٹھے

انسان نے کچھ یوں بھی یہ مذہب کو بنا ہے

جس میں ہے نفع  دل کو وہ سنّت کو چنا ہے

کہتے ہیں یہ وہ لوگ جو حکمت کے بنا ہیں

ایسے ہی اجر پائنگے یہ ہم نے سنا ہے

اپنے ہی عمل سے یہ تکالیف بلا بیٹھے

سرور تیرے پیغام کو ہم دل سے بھلا بیٹھے

رازی ہو خدا ہم سے بھی ہوتی تھی صدائیں

دیدار خدا کے لئے ترسی تھی نگاہیں

خواہش کی لگن ایسی کے بدلی یہ فضائیں

اب دولت وشہرت کے لئے ساری دعائیں

طاقوں میں سجے اپنے مسللے کو رلا بیٹھے

سرور تیرے پیغام کو ہم پھر سے بھلا بیٹھے

یا رب تیرے اس عرش کے سایے  میں جگہ دے

یا رب ہمیں اپنے گرہبان میں پناہ دے

یا رب ہمیں کھوئی ہی منزل بھی دکھا دے

ٹہری ہوئی  اس کشتی کو ساحل سے ملادے

جھولوں میں شکنجوں کی خواہش کو جھلا بیٹھے

سرور تیرے پیغام کو ہم دل سے بھلا بیٹھے

تبصرے بند ہیں۔