طلباء اور ان کے ذمہ داروں سے چند گذارشات!

مولانا خواجہ فرقان قاسمی 

مارچ کا مہینہ گزرچکاجو عصری مدارس و جونیر کا لجوں میں بڑا اہم ہوتا ہے، عصری مدارس میں دسویں اور جونیر کالجس میں گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات کا موسم ہوتا ہے، اساتذہ کی سال بھر کی کوششیں ، طلباء کی اب تک کی محنتیں ، اور والدین کی بہت ساری امیدیں اور نیک توقعات کا موقع ہوتا ہے، اس موقع سے طلباء جہاں دن رات محنتیں کرتے ہیں وہیں نمازوں کا بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور دعائوں کا بھی، والدین بھی اپنی اولاد کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے، یقینا یہ ایک بہت خوش آئند بات ہے کہ نونہالان امت کا یہ یقین ہے کہ ہم چاہے جتنی محنتیں کرلیں لیکن کامیاب کرنے والی ذات اللہ ہی کی ہے، اور والدین کا بھی دعائوں پر یقین اور اس کے کرنے کا اہتمام بہت اچھا عمل ہے، ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سارے طلباء و طالبات کو اعلیٰ نمبرات سے کامیابی نصیب فرمائیں ۔ اس موقع سے چند باتیں طلبا ء سے اور کچھ گذارشات والدین سے کرنی ہیں ۔

طلباء سے چند باتیں :

 عزیزطلباء! آپ جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ جی جان سے حاصل کریں ، محنتوں اور کوششوں کا یہی وقت ہے، وقت کو ضائع ہرگز بھی نہ ہونے دیں ، اس لئے کہ یہ وقت اگر گزر جائے تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتا، اور یہی وقت آپ کے مستقبل کو سنوارے گا، بنائے گا، اور آپ کو قابل لوگوں کی صف میں لاکر کھڑا کرے گا۔ کیونکہ تعلیم ایک ایسا زیور ہے جس کے ذریعہ آدمی کی پہچان بنتی ہے، سب سے پہلے اپنی زندگی کا مقصد طئے کریں کہ آپ کو کس فن میں مہارت حاصل ہے اور کس لائن میں دل چسپی ہے، اس لحاظ سے والدین و اساتذہ سے مشورہ کریں اور اپنا مقصد بنا کر اس پر محنتیں کریں ، اور اپنا مقصدحاصل کریں ،جہاں تک ہوسکے اچھے سے اچھے معیار پر پہنچیں اور اپنا مقام بنائیں ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ آپ کو کچھ اور اہم چیزوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی قیمتی ترین نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا ہے، جس کے تئیں ہمارے اوپر چند حقوق عائد ہوتے ہیں ،اور بحیثیت مسلمان ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔

 لہذا آپ حسب ِضرورت جتنا دین کا علم حاصل کرنا ہے وہ حاصل کریں ،دین کی بنیادی عبادتوں میں نماز کا سب سے پہلا مقام ہے،اور نماز ایک ایسی عبادت ہے جو مؤمن اور غیر مؤمن میں فرق کرنے والی ہے، نماز مسلمان کی پہچان ہے، لہذااسے کبھی نہ چھوڑیں ، اور اس کے متعلق ضروری معلومات اپنے محلے کی مسجد کے امام یا جس کسی عالم دین سے تعلق ہو لازمی حاصل کریں ،جہاں بھی جائیں اور کہیں بھی رہیں پر علماء کرام سے ربط ضرور رکھیں ، اس لئے کہ علماء کرام سے ربط جہاں آپ کی دینی ترقی کا باعث ہوگا وہیں آپ کے بہت سارے دنیوی امور جیسے تعلیمی معاملات تجارتی و معاشی معاملات میں بھی شریعت کے مطابق رہنمائی حاصل ہوگی،نیزذہن میں پیدا ہونے والے ہر قسم کے سوالات بھی دلائل کی بنیاد پر ختم ہوں گے۔ یاد رکھیں آپ کواپنی تعلیم میں مہارت اور فن میں دل  چسپی پیدا کرنے سے پہلے ایک سچا اور پکا مسلمان بننا ہے، آپ کو معاشرہ کا ایک بہترین فرد بن کر دکھانا ہے،آپ ایک طالب علم سے پہلے ایک بیٹے ہیں ، ایک بھائی ہیں ، ایک دوست ہیں اور سب سے پہلے اللہ تعالی کے بندے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں ، لہذا ان سب کے جو حقوق ہیں وہ آپ کو ادا کرنا ہوگا۔

اللہ تعالی کے بندے ہونے کے ناطے سب سے پہلی اس کی اطاعت اور ہمیشہ کے لئے اس کی نافرمانی سے بچنا ہوگا، اب آپ کا بچپن ختم ہوچکا ، آپ کا کئے جانے والا ہر عمل لکھا جارہا ہے، کراماً کاتبین آپ کے اعمال کے رجسٹر کو لکھتے جارہے ہیں ، اب یہ آپ کو طئے کرنا ہے کہ آپ کے نامہ اعمال میں نیک اعمال کی کثرت ہو یا برے اعمال کی؟ نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ بنتا ہے کہ ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کریں ۔ اس لئے کہ یہ ایمان کے مکمل ہونے کی شرط ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہ وَ وَلَدِہ وَالنَاسِ اَجْمَعِیْن۔ (بخاری :۴)یعنی تم میں سے کوئی اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین ، اولاد اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں ۔ اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے جس کی جگہ جگہ قرآن میں تعلیم دی گئی ہے، نبی کی سنتوں کو اپنائیں اور ان سے اپنی زندگی کو سجائیں اور کامیاب بنائیں ۔

  بیٹا اور بیٹی ہونے کی حیثیت سے والدین کے کچھ حقوق ہمارے اوپر عائد ہوتے ہیں ، اور اولاد کی ذمہ داری ہوتی کہ ان کے مقام و مرتبہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے زندگی بھر ان کی خدمت کو اپنے لئے کامیابی سمجھیں ، جس کو رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ  : وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلّاَ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانَاً الی رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبّیَانِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل :23،24)  یعنی اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو،اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تع انہیں اُف تک نہ کہو،اور نہ انہیں جھڑکو،بلکہ ان  سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو،اور ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے ہوئے اُن کے سامنے اپنے آپ کو انکساری کے ساتھ جھکاؤ، اور یہ دعا کرو یا رب !!

جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے،آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجئے۔ ان دو آیتوں میں والدین کے حقوق اور ان کے مقام نیز ان کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے تفصیل سے بتایا گیا ہے،حضور اکرم ﷺ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے حقوق سے متعلق تنبیہ فرمائی ہے، اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کی رضامندی والدین کی رضامندی میں اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔علماء کرام نے لکھا ہے کہ والدین کی نافرمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کا وبال دنیوی زندگی بھی برباد کردیتا ہے ۔ اسی طرح بھائی یا بہن ہونے کے ناطے اپنے سے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ اپنائیں ۔ وہ اساتذہ جن سے آپ نے علم سیکھا ہے ان کا ادب ملحوظ رکھیں ۔ سر دست اگر چھٹیاں ہیں کچھ وقت دین کا ضروری علم حاصل کرنے میں صرف کریں ۔

والدین سے کچھ گذارشات :

 دنیا میں اولاد یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت کی قدر ان سے پوچھیں جن کے گود اولاد کی خوشیوں سے خالی ہیں اور جن کے آنگن اولاد کے نہ ہونے کی وجہ سے سونے ہیں ۔ بچے مستقبل کی امید اور امیدوں کا مستقبل ہیں ، بچے امت کا قیمتی اور بیش بہا سرمایہ ہیں ، یہی بچے کل کوخود کے بچوں کے ماں باپ بنیں گے،اسی لئے بچوں کی تربیت بے حد ضروری ہے،اور صحیح تربیت کے لئے بچپن کا زمانہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ شاخ جب تک ہری اور نرم ہو تو جس طرف چاہیں اس کو موڑ سکتے ہیں ، مگر جب شاخ سخت ہوجائے تو اس کو موڑنا ممکن نہیں رہتا، اگر اس وقت موڑنے کی زیادہ کوشش کی جائے تو شاخ ٹوٹ تو سکتی ہے مگر سیدھی نہیں ہو سکتی، اولاد کی پیدائش سے ہی والدین ان کی تعلیم کے خواب دیکھنے لگتے ہیں کہ ہم اپنے نور نظر کو خوب اعلی تعلیم دلوائیں گے، اور جب اولاد والدین کی نظروں کے سامنے پرورش پاکر جب اس عمر تک پہنچ جائیں کہ دسویں اور گیارہویں اور بارہویں کی جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں تو اولاد سے محبت کے ساتھ ساتھ توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں ، ایک فکر لاحق ہوتی ہے کہ کسی طرح میری اولاد پڑھ لکھ کر قابل بن جائے اور وہ تمام ترقیوں کو دیکھیں جوہمارے کبھی خواب ہوا کرتے تھے،ترقی ان کا مقدر بنے اور کامیابی ان کے قدم چومے، دنیا میں خوب نام کمائیں اور ہمارا نام روشن کریں ،اور روشن و تابناک مستقبل کے مالک ہوجائیں ۔ دنیا کے تمام والدین کا یہ خواب ہوتا ہے اور اس کے لئے اولاد کو بچپن سے تیار بھی کرتے ہیں ، مہنگے اسکولوں میں تعلیم دلوانے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے چاہے ان کی فیس اور دیگر تعلیمی اخراجات  کے لئے کتنی ہی مشقتیں اٹھانی پڑے، اور تمام ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی چیز تعلیم کے حاصل کرنے میں رکاوٹ نہ بنے، اور موقع ملنے پر تعلیم کی اہمیت کے سلسلہ میں نصیحتیں بھی کی جاتی ہیں اور محنت و لگن کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔

یقینا ایسا ہونا چاہئے اور اولاد کی تعلیم کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے، والدین اپنی اولاد کو جو سب سے قیمتی اور پیارا تحفہ دے سکتے ہیں وہ اچھی تعلیم کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور کام بھی ہیں جن کا کرنا ان سب سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ وہ ہے اولاد کی صحیح تربیت،اور یہ عمل بچپن سے کیا جانے والا عمل ہے، بغیر تربیت کے تعلیم چاہے جتنی اعلی ہووہ ایسا ہی ہے جیسے بغیر خوشبو کے پھول۔ مذہب اسلام نے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بار بار والدین کو آگاہ کیا اور انکی ذمہ داری یاد دلائی۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں کا ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے سلسلہ میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری :۸۴۹) اس حدیث میں پیغام ہے کہ کل قیامت کے دنوالدین سے ان کی اولاد کے سلسلہ میں سوال ہوگا۔ اسی لئے صحیح تربیت والدین کی سب سے پہلے ذمہ داری ہے، اس سلسلہ میں قرآن مجید کی بہت ساری آیتیں ہیں جو بتلاتی ہیں کہ گھر کے ذمہ دار کی کیا ذمہ داریاں ہیں ۔

اپنے اہل و عیال کو جھنم کی آگ سے بچاؤ !

رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں اہل ایمان سے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا سورۃ تحریم کی آیت ہے کہ   یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَاراً   (ا لتحریم : 6) یعنی اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جھنم کی آگ سے بچاؤ۔  اس آیت میں خود کو بھی جھنم سے بچنے اور اپنے اہل و عیال کو اس سے بچانے کی تلقین کی گئی۔

اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم کرو!

نماز کی اہمیت اور گھر کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت کوبتاتے ہوئے رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا  :  وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا۔ ( طہٰ: 123) یعنی  اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم کرو اور اس پر قائم رہو۔ اور حضور اقدس ﷺ نے نماز سے متعلق بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں یہ حکم نافذفرمایا : حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز چھوڑنے پر ان کو سزا دو ۔ (ابو داؤد:416)

بیٹے کی تربیت کے سلسلہ میں حضور ﷺ کی نصیحت !

 حضور اقدس ﷺ نے لڑکے کی تربیت کے سلسلہ میں باپ کی ذمہ داری کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ: کوئی باپ اپنے لڑکے کو اچھی تہذیب و ادب سے بہتر کوئی اور چیز نہیں دیتا۔ (ترمذی:1871) اس حدیث میں باپ کو صحیح تربیت کی تلقین کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ سب سے بہتر چیز جو تم اپنی اولاد کو دے سکتے ہو وہ اچھی تربیت ہے۔

 بچوں کو قرآن مجید کی تلاوت کی تلقین کریں !

 بچوں کو قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کرنا یہ بہت اہم ذمہ داری ہے،قرآن ہماری مقدس کتاب ہے اور اللہ کا کلام بھی، اس کی تلاوت پر ثواب کا وعدہ اور اس کے مطابق عمل کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔ اور قرآن مجید کی تلاوت سے عذاب قبر اور جھنم کی ہولناک  گھاٹیوں سے راحت نصیب ہوگی۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے کسی آدمی سے کہا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی حدیث کا تحفہ نہ دوں جس سے تم خوش ہوجاؤ؟ اس نے کہا کیوں نہیں ضرور ایسا تحفہ عنایت ہو، آپ ؓ نے فرمایا یہ سورت پڑھو :  تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر (الملک:۱) اور یہ سورت اپنے گھر والوں کو بھی سکھا دو، اسی طرح اپنی تمام اولاد ،اپنے گھر کے بچوں اور اپنے پڑوسیوں کے بچوں کو سکھا دو، کیونکہ یہ سورت ملک عذاب سے نجات دلانے والی ہے۔ اور یہ سورت قیامت کے دن پڑھنے والے کے لئے قیامت کے دن پروردگار کے سامنے جھگڑے گی، اور مطالبہ کرے گی کہ اس شخص کو جھنم کے عذاب سے نجات عطا کردو،اس کی برکت سے اس کا پڑھنے والا عذاب قبر سے نجات پائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لَوَدَدْتُ انَّھَا فِیْ قَلْبِ کُلِّ اِنْسَانٍ مِنْ اُمّتِیْ۔(تفسیر ابن کثیر)  یعنی میری خواہش ہے کہ یہ سورت میری امت کے ہر فرد کے دل میں ہو۔

خلاصہ :

  یہ چند باتیں ہیں اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں ہیں جن کا خیال رکھنا والدین کے لئے ضروری ہے، ورنہ کل قیامت کے دن سوال ہوگا کہ ہم نے تمہیں تمہاری اولاد کا ذمہ دار بنایا تھا۔اگر ہم اولاد کی دینی تربیت کے معاملہ میں تساہل برتیں اورتوجہ نہ دیں اور محض دنیوی فکر پر ہی اکتفا کریں تو یاد رکھیں کل قیامت کے دن ہم ہی مجرم ٹہریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔