سر سیداحمد خاں: صحافتی اخلاقیات  کے داعی

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   کے بانی سر سید احمد خان  کی پوری زندگی ایک تحریک سے عبارت ہے، انہوں نے اردو زبان کی آبیاری جدید طرز پر کی، انشاء پردازی کو نیارخ دیا، زبا ن و بیان میں ایسی چاشنی پیدا کی کہ مخالفین بھی ان کےشیدائی ہو گئے۔ انہوں نے جس کام کا بھی بیڑا اٹھایا اسے ایک تحریک کی شکل دیدی۔ جس نے برصغیر کے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا۔ علمی، تعلیمی، صحافتی، ادبی، ثقافتی، سماجی، سیاسی، غرض ہر ہر شعبے میں ان کی اپنے زمانے سے آگے کی سوچ نے ایک عظیم الشان فکری انقلاب برپا کیا۔

انیسویں صدی عیسوی میں جب ہندوستان انگریزوں کے زیرنگیں آگیا۔ تو انہوں نے یہاں پر اپنی پالیسیوں اور خیالات کا پرچار کرنے کے لئے اخبارات نکالے  جو زیادہ تر انگریزی میں تھے۔ اسی زمانے میں ہندوستانی زبانوں میں بھی صحافت کی ابتداء ہوئی، دیسی زبانوں میں اردو کے اخبارات و رسائل بھی بڑی تعداد میں نکالے گئے لیکن اس زمانہ میں چونکہ صحافتی شعور مکمل طور پر بیدار نہیں ہو پایا تھا اس لئےخبروں کی صداقت میں احتمال پایا جاتا تھا۔ سر سید احمد خاں پہلے شخص تھے جنہوں نے صحافتی اقدار کی پاسداری کی اور صحافت کو اخلاقیات کا پابند بنایا۔

ماہ اکتوبر چونکہ سر سید احمد خان کی پیدائش کا مہینہ ہے اسی مناسبت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  سے شائع ہونے والےسہ ماہی تحقیقی جرنل "فکر ونظر”نے۴۰۰سے زائد صفحات پر مشتمل سر سید نمبرشا ئع کیا ہے جس میں سرسید احمد خاں کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرنے والےتحقیقی مقالات مشاہیر اہل قلم کے ذریعہ تحریر کئے گئے ہیں۔ اس شمارے میں سر سید کی صحافتی بصیرت کو واشگاف کرنے والا بہت ہی اہم مقالہ "سر سید اور صحافتی اخلاقیات "ہے جسے ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نےتحریر کیا ہے  جو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور طب یونانی میں گریجویٹ بھی ہیں، جن کی تقریباً نصف درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں سے بیشتر کتابوں کا تعلق صحافت اور فن صحافت سے ہے۔

مذکورہ مقالہ اہل دانش کی آنکھیں کھولنے والا ہے جس میں فاضل مقالہ نگار نےسر سید احمد خاں کی اس مہم کا احاطہ کیا ہے جوانہوں نے اپنے اخبارات سین ٹی فک سوسائٹی گزٹ، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے ذریعہ معاصراخبارات میں شائع ہونے والی خبروں، مضامین، تبصروں میں پائی جانے غیرمصدقہ اطلاعات کی اشاعت کی بیخ کنی کے لئے چلائی تھی۔ سر سید نے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے لئے سب سے پہلے اصول یہ بتایا کہ کوئی بھی ایسی خبر شائع نہیں ہونی چاہئے جو جھوٹ پر مبنی ہو، سر سید نے اپنے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے لئے احساس ذمہ داری دیانت وصداقت کو اولین ترجیح دی۔ فی زمانہ جب  Fake News کی اشاعتوں نےپوری دنیا بالخصوص ہمارے ملک کے اندر ایک انتشار پیدا کر رکھا ہے، اور جس نے اقوام کے درمیان غلط فہمیوں کا ایک جال بن دیا ہے۔ جس سے نجات پانے کے لئے سر سید کی ہدایات کافی سود مند ہیں۔ سرسید جھوٹ پر مبنی یا غیر مصدقہ  خبروں کو حاصل کرنے والے نامہ نگار کو ہی اس کا اصل قصور وار نہیں مانتے تھے بلکہ وہ اس کا ذمہ دار اخبار کے مدیران کو بھی سمجھتے تھے۔ سرسید نے اخبار میں شائع ہونے والے مضامین لکھنے والوں کو اپنی بات صاف اور واضح انداز میں کہنے کی گزارش کی، وہ مانتے تھے کہ کالم نگار کا کام قارئین کو الفاظ کے پیچ و خم میں الجھانا نہیں ہے بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ  وہ لوگوں کو نیک صلاح دیں، معاشرے کی تربیت کریں، صرف حکومت پر تنقید ہی نہ کریں بلکہ اچھے کاموں کی ستائش کریں، حکومت کے غلط امور پر اپنی بات کہنے میں کوئی تعمل بھی نہ کریں۔

سرسید نے صحافتی اخلاقیات کے ضمن میں اس بات کی طرف پوری توجہ دی کہ ان کے اخبار میں اگر کوئی ایسا مضمون شائع کیا جائے جو پہلے کسی دوسرے اخبار میں چھپ چکا ہو تو اس کو مکمل حوالہ کے ساتھ شائع کیا جائے۔ سرقہ بازی سے پرہیز کیا جائے کسی کی تحریری امانت میں خیانت نہ کی جائے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات  کا  پورا خیال رکھا، اس لئے وہ اپنے اخبار میں اردو میں لکھے گئے مضمون یا کسی دیگر زبان مثلاً انگریزی اخبار ات کے مضمون کے تراجم پورے حوالہ کے ساتھ شائع کرتے تھے۔

سر سید نے صحافت کو ایک معتدل پیشہ کے طور پر اپنانے پر زور دیا، وہ ایسے اخبارات کے بہت خلاف  تھےجو کسی   کی بھی مدح سرائی یا ہجو میں پیش پیش رہتے تھے وہ اسے لغو اور صحافت کے لئے بہت مضر خیال کرتے تھے۔ سر سید نے اپنے اخبارات کے ذریعہ نو وارد صحافیوں کی کافی تربیت کی، انگریزی اخبارات میں صحافت کے تعلق سے کوئی بھی ایسامضمون شائع ہوتا جس سے تربیت مقصود ہوتی اسے وہ ترجمہ کرکے اپنے اخبارات میں ضرور شائع کرتے۔ انہوں نے معاصر انگریزی اخبارات کے دیسی زبانوں کے تئیں معاندانہ رویہ اور اخلاقی گراوٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے میں کوئی دریغ نہیں کیا۔

فی زمانہ جب صحافت کی معروضیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں، اور اسے جمہوریت کا ستون کہنے کے بجائے گودی میڈیا کہا جانے لگا ہے۔ سرسید کی صحافتی اخلاقیات کے فروغ میں کی گئی کوششوں کا مطالعہ کافی سود مند ہوگا۔ اسعد فیصل فاروقی کا مقالہ سرسید کی اسی فکر کو وا کرتا ہے جو انہوں نے صحافت میں آنے والے خطرے کو پہلے سے بھانپ لیا تھا اور جس کی  بیخ کنی کے لئے اپنی تحریروں اور اخبارات  کے ذریعہ توجہ دلائی تھی۔ اہل علم، صحافیوں اورصحافت کے طلبہ اور سرسید کے افکار کے خوشہ چینوں کو اس مقالہ کاضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔