سر سید کی بصیرت کاعصری مفہوم

عالم نقوی

ڈاکٹر اقتدار فاروقی نے اپنی کتاب دنیائے اسلام کا عروج و زوال میں مولانا ابو ا لکلام آزاد کا یہ قول  نقل کیا ہے  کہ ’’علم کی بساط سولہویں صدی کے بعد لُٹ سی گئی ،مسلمانوں نے یورپی اقوام کا غیر علمی طریقہ اپنانا شروع کردیا اور یورپ نے مسلمانوں کا علمی طرز عمل ۔۔غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہو چکی ہیں ۔خدا کے لیے اب بستر مدہوشی سے سر اُٹھا کر دیکھیے کہ آفتاب کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ آپ کے ہمسفر کہاں پہونچ گئے ہیں اور آپ کہاں پڑے ہوئے ہیں ‘‘ ظاہر ہے کہ یہ بات انہوں نے آزادی سے قبل کہی تھی جبکہ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تو حالات اُس نہج تک پہنچ چکے ہیں جن کی نشاندہی رسول کریم ﷺ کی متعدداحادیث  میں ان الفاظ میں موجود  ہے ،مثلاً، حضرت علی نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نےفرمایا : قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا دور آئے گا جس میں اسلام برائے  نام  باقی رہ جائے گا اور قرآن بھی محض رسم کی طرح باقی رہے گا مسجدیں تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی ۔اور اس دور کے علما آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے اور وہ فتنے انہیں پر لَوٹیں گے (رواہ البیہقی فی شعب ا لا یمان)۔

حضرت عمر نے حضرت کعب سے پوچھا : صاحبان علم کون ہیں ؟کعب نے کہا :جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔پوچھا عمر نے: کیا چیز علم کو علما کے قلب سے نکال دیتی ہے ؟ کعب نے جواب دیا : لالچ۔ (رواہ ا لدارمی )جناب اسرار عالَم نے اپنی کتاب ’سرسید کی بصیرت ‘ میں (صفحہ 203۔207)مسند احمد ،جلد 5 مرویات ابو امامہ الباہلی کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول ﷺ میں بیان کردہ نکات کا خلاصہ اِن اَلفاظ میں درج کیا ہے: اُمتِ مسلمہ پر زوال آئے گا جو دائروی ہوگا ۔یہ زوال اوپر سے آئے گا اور اصلاً یہ قیادت کا زوال ہوگا ۔اُمت میں پھیلنے  والےفساد کا مَنبَع اَصلاً قیادت ہوگی لیکن ،با لآخر ،اُمت میں اِصلاح آئے گی جو ’اِظہار دین‘ پر منتج ہوگی۔یہ اِصلاح بھی اُوپر ہی سے آئے گی اور فی الواقع  قیادت کی اِصلاح ہوگی ۔یعنی  فساد کی طرح صالحات کا منبع بھی قیادت ہی ہوگی۔ نبی آخرا لزماں ﷺکے مطابق اُمت مسلمہ محمدیہ کی ساری خرابیوں کا منبع اور محرک خواص ہوا کریں گے۔ چنانچہ ایک روایت ہے کہ ’حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ مجھ سے عمر نے دریافت کیا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سی چیز  اسلام کومنہدم کردے گی؟ میں نے کہا : مجھے نہیں معلوم ۔ تو حضرت عمر نے فرمایا: عالِم کی ہَوَس، منافق کا کتا ب اللہ کے بارے میں جھگڑا کرنا اور گمراہ حکمرانوں کی حکمرانی۔

یہ زمانہ جو عام آدمی یا عوام الناس کے لیے (جن میں بلا تفریق ،ہر مذہب و ملت ،ہر رنگ و نسل اور ہر ملک و قوم کے  لوگ شامل ہیں )بالعموم اور مسلمانوں کے لیے  (خواہ وہ جنوبی ایشیا میں ہوں یا وسطی و مغربی ایشیا میں یا دنیا کے کسی بھی حصے میں )با لخصوص وجود ،بقا اور  جان ،مال اور  عزت  کے تحفظ کے مسائل کا زمانہ بن چکا ہے ،سائنسی نشا ۃ ثانیہ کا متقاضی ہے جس کے لیے سر سید کی بصیرت کا احیا و استفادہ لازمی ہے ۔ علم کی  غیر اسلامی دینی و دنیوی  تقسیم سے چھٹکارہ حاصل کیے بغیر اور علمِ نافع ، عدل ِ اجتماعی ،اِنفاق فی سبیل ا للہ  فلاح  ِانسانیت اور خدمت  ِخلق کے قرآنی منہج کو اپنائے بغیر اب  دنیائے انسانیت کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں اور سر سید  کی فکر اور سر سید کی بصیرت اس کا واحد عصری حوالہ ہے۔

پروفیسر صغیر افراہیم نے تہذیب ا لا خلاق (ستمبر 2017 ص5۔6) کے اداریے میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ سر سید اور رفقائے سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اقتدار کی ہوس اور باہمی رقابت نے ملک و ملت کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ معاشرے میں عدم تحفظ  کے احساس کی شدت ،اتحاد و اتفاق کے فقدان اور مذہبی و مسلکی تفریق کا فوری علاج وہی ہو سکتا ہے جس کا  راستہ سر سید اور اُن کے مخلص رُفَقا ،محمد حسین آزاد ،ڈپٹی نذیر احمد ،مولوی ذکا ا للہ ،مولوی سمیع ا للہ ،خواجہ الطاف حسین حالی ،محسن ا لملک وقار ا لملک، مولوی چراغ علی، مولانا شبلی نعمانی(اور اکبر الہ آبادی ) نے سو سال پہلے دکھایا تھا ۔اسی طرح مولوی محمد کریم ،سید امداد علی، راجہ جے کشن، نواب اسمٰعیل  خاں، زین ا لعابدین ،سید محمود اور وحید ا لدین سلیم وغیرہ نے سر سید کی قربت میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے نئی نسل کو سنوارنے ،سجانے کا دائرہ روز بروز وسیع کیا۔ ایسا اس لیے ممکن ہو سکا کہ یہ سبھی بزرگ وسیع النظر اور وسیع ا لقلب تھے۔ انانیت ،تنگ نظری اور تعصب جیسی بیماریوں سے دور رہتے ہوئے خدمت ِخلق ہی اُن کا نصب ا لعین تھا۔اور اُنہیں کامیابی اِس لیے ملی کہ وہ اَپنے گھریلو مسائل اور نجی زندگی کی کلفتوں میں گھرے ہونے کے باوجود دوسروں کی فکر کرتے تھے ۔ وہ سائنس کے آدمی نہ ہونے کے باوجود سائنسی فکر رکھتے تھے ۔اُن کے پاس جتنا بھی علم تھا وہ ہمیشہ اُس سے زیادہ جاننے کی فکر میں سرگرداں رہتے تھے۔

بیشتر اپنے میدان کے ماہر ہونے کے ساتھ مقرر مترجم مصنف  اورسب سے بڑھ کے مفکر اور مدبر  بھی تھے۔وہ اپنے چھوٹوں (اور زیر دستوں )کو صرف نصیحت ہی نہیں کرتے تھے،بلکہ اُن کی خوبیوں کا بر ملا اظہار (اور اعتراف )بھی کرتے تھےاور  متاثر ہوکر کھلے دل سے انہیں قبول بھی کر لیتے تھے ۔وہ ان کے علم و فضل کا اعتراف کرنے میں عمر اور منصب کو حائل نہیں ہونے دیتے تھے ۔اس لیے کہ سر سید اور ان کے رفقا کے سامنے پوری قوم کی سر بلندی کا نظریہ تھا ۔ وہ جس فکر کا اظہار کرتے اُس میں تاثیر ہوتی جو دل سے نکلتی اور سیدھے  دل پر اثر کرتی تھی ۔جبکہ فی زمانہ قائدین کی خود غرضی اور مفاد پرستی جگ ظاہر ہے ۔نئی نسل کے پاس کوئی منظم منصوبہ نہیں اسی لیے صبر و تحمل ہے نہ عزم مصمم۔کل خلوص ،نیک نیتی اور صاف گوئی عام تھی آج مصلحت بہت ہے ۔قائدین کے ذاتی مفادات قومی مسائل کے حل پر غالب آجاتے ہیں۔

جامعہ ہمدرد کے سابق چانسلر سید حامد(مرحوم)نے اقتدار فاروقی کی کتاب ’دنیائے اسلام کا عروج و زوال ‘ ( لکھنؤ۔2011) کے پیش لفظ(ص9۔13) میں لکھا ہے کہ’’۔۔سر سید کا کہنا تھا کہ قدرت خدائے بزرگ و برتر کا عمل ہے اور قرآن اُس کا قول۔ اِس لیے دونوں میں باہم کوئی اِختلاف ہو ہی نہیں سکتا ۔۔وہ مذہب جو فطرتاً توانائی سے اِسقدر بھر پور تھا اور جس نے ہر قدم پر مذہب سے طاقت اَخذ کی تھی جیوں ہی وہ اپنی بنیادوں سے ہٹے گا زوال کی زد میں آجائے گا ۔۔(مسلمانوں ) کے لیے سب سے زیادہ مضرت رساں یہ رَوِش تھی  کہ اُنہوں نے آئے دن ہونے والے تغیرات کو نظر انداز کر دیا اور اُن سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش نہیں کی ۔۔ترک ِاِجتہاد کا انجام جمود تھا پھر بھی علما اجتہاد کے دروازے کھولنے پر راضی نہیں ہوئے ۔۔ہمارے علما کے رُخ اور رَوِش کو تبدیلی کی شدید ضرورت ہے ۔۔جو فاصلہ مسلمانوں نے اپنے اور سائنس اور ٹکنالوجی کے درمیان حائل کر لیا ہے وہ ایک بہت بڑی محرومی ہے ۔۔متبادلات واضح ہیں علم حاصل کرو یا فنا ہو جاؤ ۔‘‘

   برسوں قبل ماہنامہ سائنس کی دنیا (نئی دہلی ) میں مولانا علی میاں، مولانا ڈاکٹر کلب صادق، مولانا مجاہد ا لا سلام قاسمی، مولانا مرغوب ا لرحمن، مولانا مجیب ا للہ ندوی، مولانا سید کاظم نقوی، مولانا مقتدیٰ احسن ازہری، مولانا توصیف رضا خان، مولانا سید جلال الدین عمری اور مفتی محمد عبد ا لقیوم کے دستخط سے ایک متفقہ اپیل شایع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اسلام میں دینی علم اوردُنیاوی علم کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ حصول ِعلم کا بنیادی مقصد اِنسان کی سیرت و کردار کی تشکیل، اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت ہے ۔لہٰذامسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ دینی اور عصری تعلیم میں کسی تفریق کے بغیر ہر مفید علم کو ممکن حد تک حاصل کریں ۔‘‘

یہی سر سید کی بصیرت ہے اور یہی اس کی عصری معنویت بھی۔

تبصرے بند ہیں۔