اخوانو فوبیا اور متحدہ عرب امارات

ذوالقرنین حیدر سبحانی

اخوان اور امارات کے تعلقات کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود متحدہ عرب امارات کے اپنے وجود کی۔ 1971 میں امارات کو باقاعدہ خودمختاری حاصل ہوئی۔ ایک طرف برطانیہ کے تسلط سے آزادی ملی دوسری طرف تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کا ایک اتحاد وجود میں آیاجس کا نام متحدہ عرب امارات رکھا گیا۔ گویا عرب امارات کی جدید تاریخ محض چھیالیس سال پرانی ہے جبکہ اخوان المسلمون کی تاریخ تقریباً پچاسی سالہ طویل جد و جہد اور عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔عرب امارات کو دنیا کی توجہ اس وقت حاصل ہوئی جب 1962 میں قراصنہ کے ساحل پر تیل کا انکشاف ہوا۔ اس سے پہلے عرب امارات کا تہذیب و ثقافت اور علم و معرفت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے عرب امارات کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔آزادی کے عزائم بھی بلند ہوئے اور تہذیب و ثقافت کا شعور بھی عام ہوا۔ نئی تاریخ اور نئے دورکا تقاضا تھا کہ ملک کی تشکیل نو کے وقت علم و ثقافت سے آراستہ لوگوں کا بھی انتظام کیا جائے کہ نئے دور میں آزادی اور خود مختاری کا تعلق بڑی حد تک علم و ثقافت سے تھا۔ یہ وہ دور تھا جب طاقت کا تصور بھی تبدیل ہو رہا تھا۔ طاقت کے پیمانے اسلحے اور مادی ذرائع کے بجائے علم اور ثقافت قرار دیئے جا رہے تھے۔

دوسری طرف دینی علوم کے تعلق سے بھی عرب دنیا میں غیر معمولی بیداری اور توجہ پیدا ہوچکی تھی جس کاتمام تر سہرا جمال الدین افغانی ، عبدالرحمان الکواکبی، محمد عبدہ وغیرہ اور ان کے جانشینوں کے سر بندھتا ہے۔ چنانچہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو مصر اور کویت بھیجا گیا کہ وہ اعلی تعلیم سے آراستہ ہوں ۔ ستر کی دہائی کے اواخر میں یہ لوگ تعلیم سے آراستہ ہوکر وطن واپس آئے، تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے دل و دماغ میں اک نیا اسلامی فکر اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ جس کا تعلق اسلامی بیداری اور عظمت اسلام کی بحالی سے تھا ۔ جس کے لیے امام حسن البنا شہید مصر اور پھر اس کے بعد پوری عرب دنیا میں باقاعدہ ایک تحریک برپا کر چکے تھے ، ایسی تحریک جس نے انتہائی مختصر سی مدت میں پورے عالم اسلام اور پورے عالم عرب میں اپنے ماننے والوں کا ایک بڑالشکر تیار کر لیاتھا۔ مصر اور کویت سے واپس آنے والے علمی وفود کو وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کام کو منظم اور مستحکم بنانے کے لیے باقاعدہ ایک جماعت تشکیل دی جائے۔چنانچہ سب سے پہلے1974 میں دبئی میں جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے دبئی کے حاکم راشد بن سعید آل مکتوم نے باقاعدہ منظوری دی اور اپنا بھرپور تعاون پیش کیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا کہ ابو ظبی کے امیر زاید بن آل نھیان نے بھی جماعت کا مرکز کھولنے کے لیے زمین الاٹ کی اور ابو ظبی میں بھی اس کی ایک شاخ قائم کر دی گئی۔ راس الخیمہ میں بھی وہاں کے حاکم طبقے کے بعض با اثر لوگوں جیسے سعید سلمان اور سلطان بن کاید القاسمی کی سرپرستی میں اس کی شاخ قائم ہوئی۔ اس تحریک کا نام جمعیۃ الاصلاح و التوجیہ الاجتماعی رکھا گیا۔ یہ جماعت گرچہ اسی فکر پر قائم ہوئی تھی جس فکرپر اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی گئی تھی مگر یہ اپنے شروط و ضوابط کے لحاظ سے ایک مستقل تحریک تھی۔ اس کا رسمی طور پر اخوان المسلمون سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کا مقصد لوگوں میں اسلامی شعور بیدار کرنا اور ایک خوبصورت اسلامی معاشرہ قائم کرناتھا۔ایک ایسا معاشرہ جس کی بنیاد فکر اسلامی ہو اور جس کے ہر ہر گوشے میں اسلام چلتا پھرتا نظر آئے۔

نہایت مختصر سی مدت میں جمعیۃ الاصلاح نے اتنا زبردست کام کیا اور تعلیم و ثقافت کے ایک ایک شعبے پر ایسا غیر معمولی اثر چھوڑا کہ حکومت کا کوئی بھی شعبہ ان سے بے نیاز نہ رہ سکا۔ ان لوگوں کی شناخت میں واضح طور سے تحریک کا انتساب شامل تھا پھر بھی ان لوگوں کو وزارتوں اور دیگر کلیدی مناصب سے دور رکھنا ممکن نہ رہا۔1971 کے بعد متحدہ عرب امارات کی آزاد حکومت کی پہلی ہی میقات سے بعض اہم وزارتیں جمعیۃ الاصلاح کے اعلی قائدین کے حصے میں آئیں ۔ الاصلاح کی راس الخیمہ شاخ کے بانی سعید سلمان کو پہلی میقات میں وزیر برائے شہری ترقی اور پھر اگلی میقاتوں میں وزیر تعلیم و تربیت اور امارات یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ملک کی خدمت اور حکومت کے ساتھ تعاون کا موقعہ ملا۔ عبدالرحمان البکر جو الاصلاح کے بنیادی ارکان میں سے تھے ، انہیں وزیر اوقاف ، وزیر عدل اور وزیر برائے اسلامی امور کے فرائض انجام دینے کا موقعہ ملا۔ شیخ سلطان بن کائد القاسمی جو جمعیۃ الاصلاح کے اہم قائدین میں سے جانے جاتے ہیں انہوں نے سات سال تک ملک کی نصاب کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔1978 میں جمعیۃ الاصلاح کے ترجمان کے طور پر الاصلاح نامی ایک میگزین کا اجراء ہوا جو اپنی تاثیر اور اپنی اشاعت کے لحاظ سے عرب امارات کا سب سے مقبول میگزین بن گیا۔اسی (80) کی دہائی شروع ہوتے ہوتے جمعیۃ الاصلاح عرب امارات کی سب سے مقبول آواز اور سب سے بااثر جماعت بن گئی۔ تعلیم و تعلم کے مراکز ہوں یا نصابی امور اور تصنیف و تالیف کے ادارے ، قرآنی حلقے ہوں یا مساجد کا انتظام، ہر طرف انہی کا بول بالا تھا۔

عرب امارات میں اخوان المسلمون یا اس کی ہم فکر جمعیۃ الاصلاح کی اس قدر مقبولیت کے پیچھے جو اہم وجوہات تھیں ان میں سے ایک وجہ جمعیۃ الاصلاح کا غیر معمولی طور پر صلاحیتوں سے مالا مال ہونا اور لوگوں کے لیے منفعت سے بھرپور ہونا تھا۔ سماج کو تعلیم و تہذیب سے آراستہ اور ترقی یافتہ بنانے کا غیر معمولی جذبہ تھا۔ ساتھ ہی ان کی پوری توجہ معاشرے کی سماجی و اخلاقی اصلاح اور علمی و فکری ترقی پر مرکوز ہونا اور سیاسی کشمکش سے خود کو دور رکھناتھا۔ تیسری اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ آزادی کے بعد ملک میں تین بڑے رجحانات کے ماننے والے سامنے آئے تھے۔ ایک قومیت کے علمبردار اور دوسرے کمیونزم کے حامی تھے۔ ان دونوں کی مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ یہ دونوں جدید دنیا کے افکار سے بے حد متأثر تھے اور وہ شخصی اور خاندانی حکومتوں کے لیے اپنے دلوں میں کوئی گنجائش نہیں رکھتے تھے اور اس کے مخالف تھے۔ ان دونوں کے بر عکس اسلامی جماعتیں اور تحریکیں مغربی نظریات اور مغربی نظام حکومت سے سخت نالاں اور تشخص کے رد عمل کے نتیجے میں آسانی سے جذباتیت کے بہائو میں بہنے کے لیے تیار تھیں ۔ مسلم حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کو ان کے اندر اپنے لیے کافی گنجائش نظر آئی۔ انہوں نے اپنی حکومتوں کو مضبوطی فراہم کرنے اور شرعی تائید حاصل کرنے کی غرض سے اسلامی جماعتوں کو سپورٹ دیا۔ اسی طرح اخوان اور اس کی ہم نوا جماعتوں کے مقبول ہونے کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ دور جدید میں دینی تعلیم کے مراکز اور دینی علوم پر انہی کا غلبہ تھا۔ چنانچہ عرب ممالک کو جب اپنے یہاں دینی علوم کی یونیورسٹیاں قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کو اخوان المسلمون سے وابستہ علماء و ماہرین سے رجوع کرنا پڑا اور بالآخر تعلیمی عمل کے دوران ان کی فکر کو عوام تک پہنچنے اور پھیلنے کا بھر پور موقعہ ملا۔

کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ عرب امارات کے حاکم طبقے کو یہ محسوس ہو ا کہ جمعیۃ الاصلاح کی دعوت اور ان کا فکر آیندہ کبھی ان کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔حالانکہ جمعیۃ الاصلاح نے کبھی بھی حکومت کوئی چیلنج نہیں کیا اور نہ ہی ملکی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ ظاہر کیا، تاہم اصولی طور سے اس فکر میں بھی ڈکٹیٹرشپ کے لیے کسی طرح کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی اور اس فکر کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ڈکٹیٹرشپ کے لیے خطرات کا پیدا ہونا یقینی تھا۔ اس بات کا اندازہ کچھ ہی عرصے بعد عرب حکومتوں کو ہو گیا تھا۔ چنانچہ ان متوقع خطرات کا سد باب کرنے کی تدابیر بھی شروع ہو گئیں ۔سب سے پہلے تعلیم کو ماڈرن بنانے کی تحریک چلائی گئی۔ اور جدیدیت کے نام پر مغربی افکار اور مغربی نظام تعلیم کو رواج دینے کی کوششیں کی جانے لگیں ۔ اور اسی جدیدیت کی آڑ لے کر آہستہ آہستہ جمعیۃ الاصلاح کے لوگوں کو پیچھے کیا جانے لگا، اور ان پر لگام کسی جانے لگی۔ جمعہ کے خطبے جو  جمعیۃالاصلاح کی دعوت اور اس کے فکر کے پھیلنے کا سب سے مؤثر ذریعہ تھے ان کو نشانہ بنایا گیا،ان پر پہلے یہ پابندی لگائی گئی کہ ان خطبوں میں اختلافی مسائل سے پرہیز کیا جائے ، اور پھر 1988ء میں حکومت کی طرف سے آزاد خطبوں پر پابندی لگا دی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام مسجدوں کے لیے جمعے کے خطبے حکومت کی جانب سے تیار کر کے دیے جائیں گے۔ آج بھی اکثر عرب ممالک میں جمعہ کے خطبوں کا یہی معاملہ ہے ۔اس کے بعد ان کی توجہ جمعیۃ الاصلاح کے نمایندہ میگزین الاصلاح کی طرف گئی، جس نے بہت کم عرصے میں اپنا دائرہ بہت وسیع کر لیا تھا۔

اس پر شروع میں کچھ جزوی پابندیاں عائد کی گئیں جیسے محض سماجی اور غیر سیاسی قسم کی تحریریں شائع کرنے کی اجازت دی گئی اور پھر سرے سے اسے بند کر دیا گیا۔نوے (90) کی دہائی میں جمعیۃ الاصلاح پر یہ چارج بھی لگایا گیا کہ وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کو اپنے یہاں بلا کر ملک کے خلاف سرگرمیاں چلا رہے ہیں چنانچہ اسی موقع سے تحریکی دنیا کے نامور مفکر اور مشہور ترین تحریکی انجینئر علامہ محمد احمد الراشد کو جو کہ پہلے عبدالمنعم العلی کے نام سے جانے جاتے تھے ایک سال کی جیل کاٹ کے امارات کو الوداع کہنا پڑا۔ مخالفت یہاں تک پہنچی کہ 1994ء میں عرب امارات کی حکومت نے جمعیۃ الاصلاح کے نظم اور ان کے ممبرشپ کے طریقے کو نشانہ بناتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ ان کا بیعت کا سسٹم ملک کے خلاف خروج اور بغاوت کے ہم معنی ہے۔کیونکہ بیک وقت دو بیعتیں نہیں ہو سکتیں اور اسی کو بہانہ بناتے ہوئے جمعیۃ الاصلاح مکمل طور سے ایک غیر قانونی جماعت قرار دے دی گئی اور ان سے وابستگی کو ملک کے ساتھ خیانت اور ملک کے خلاف بغاوت کا جرم قرار دیا گیا۔ خفیہ طور پر جمعیۃ الاصلاح کی سرگرمیاں جاری رہیں اور لوگوں میں مقبولیت کا گراف بھی بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ 2001ء میں9؍11 کے واقعے کے فوراً بعد جمعیۃ الاصلاح پر پھر سے سختیوں اور پابندیوں کا دور شروع ہوا اور جمعیت کے ممبروں کے خلاف قید و بند اور ملک بدر کرنے کی کارروائیاں ہونے لگیں اور اس کے ممبران کو حکومت کے اہم مناصب اور ذمہ داریوں سے بے دخل کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈے جانے لگے۔ 2003 میں تعلیمی نظام کے فروغ اور تجدید کے حوالے سے جمعیۃ الاصلاح کے ممبران اور قائدین کی نا اہلی اور کوتاہی کا بہانہ بنا کر یکبارگی دو سو کے آس پاس ممبران کو وزارت تعلیم وتربیت کے اہم مناصب سے سبکدوش کر دیا گیا۔

اس دوران محمد بن زاید کو جو ابو ظبی کے حاکم زاید بن آل نھیان کا بیٹا ہے، جمعیۃ الاصلاح کا زور توڑنے کے لیے اچھی تربیت حاصل کرنے کی غرض سے لندن بھیجا گیا تھا۔لندن میں اس نے سینڈ ہرسٹ ملیٹری اکیڈمی(Sandhurst Military Academy London) میں تربیت حاصل کی۔ اور یہ عرب امارات کے امیروں میں لندن میں تربیت پانے والا پہلا فرد تھا۔یہ اس وقت عرب امارات کا ولی عہد اور نائب وزیر دفاع اور فوج کا سپریم کمانڈر ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق عرب امارات کی حکومت کا اصل کرتا دھرتا یہی ہے۔ 1979ء میں اس نے لندن میں سینڈہرسٹ اکیڈمی میں داخلہ لیا ،اسے دوران تربیت اس بات کا اندازہ ہوا کہ جمعیۃ الاصلاح امارات کے نظام حکومت اور طرز حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کا خاتمہ کرنا تعلیم اور تعلیمی نظام کو تبدیل کیے بغیر مشکل ہوگا۔محمد بن زایدکی پوری توجہ جمعیۃ الاصلاح کے اثر کو توڑنے کے لیے ایک مضبوط علمی و فکری ڈھانچہ کھڑا کرنے پر تھی۔اس کا یہ ماننا تھا کہ جمعیۃ الاصلاح کی پوری ترقی اور تاثیر کے پیچھے ان کی علمی و فکری سرگرمیاں اور اس کا نہایت مضبوط نظم ہے۔چنانچہ اس نے 2005ء میں مجلس ابوظبی للتعلیم (Abu Dhabi Education Council) کی بنیاد ڈالی۔اس کے تحت ابو ظبی کے سارے اسکولوں کے نصاب اور نظام تعلیم کو کنٹرول کیا جانے لگا۔ 2009ء میں باقاعدہ تمام سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کے لیے ایک نیا نصاب تعلیم تیار کیا گیا اور بڑے پیمانے پر مغربی ممالک سے اساتذہ و ذمہ داران کا تقرر کیا گیا۔ اس کا پورا مقصد روشن خیالی اور آزاد خیالی کے افکار و رجحانات کو فروغ دینا اور تحریکی کاموں کے اثر کو زائل کرنا تھا۔

 محمد بن زاید نے جمعیۃ الاصلاح کا اثر زائل کرنے اور اس کی شکل بگاڑنے کے لیے ایک کوشش یہ بھی کی کہ جمعیۃ الاصلاح کے ذریعے پیش کی جانے والی تعلیمات کو’ سیاسی اسلام‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ’معتدل اسلام‘ اور ’صوفی سیاست‘ کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس کے لیے محمد بن زاید نے عرب امارات سے لے کے یورپ اور امریکہ تک معتدل اسلام اور صوفی اسلام کو پروموٹ کرنے کی مہم چلائی۔ بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی۔ سیمینار اور کانفرنسیں کرائیں ۔دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ صوفی اسلام موجودہ وقت کے لیے اسلام کی مناسب ترین اور سب سے بہتر شکل ہے ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی نیکسن سینٹر امریکہ میں ایک کانفرنس بعنوان ـ’امریکی سیاست میں صوفی اسلام کا رول‘ تھی جس میں ہشام قبانی اور برنارڈ لیوس جیسے بڑے مفکرین اور دانشوروں نے صوفی اسلام کی موجودہ دور سے مطابقت اور ہم آہنگی پر زور دیا اور سیاسی اسلام کے خطرات سے دنیا کو آگاہ کرانے کی کوشش کی۔ محمد بن زاید نے اپنی انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ’طابۃ‘ نامی ایک فائونڈیشن قائم کی جس کا مرکز مسجد ابوظبی کے پاس بنایاجس کا مقصد صوفی سیاسی اسلام اور معتدل اسلام کے ماننے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا۔ اس فائونڈیشن کی سرپرستی کی ذمہ داری بھی خود محمد بن زاید نے لی۔ اس کے تحت بڑے اور مشہور علماء و مفکرین کی خدمات حاصل کی گئیں جن میں شام کے مشہور عالم دین محمد بن سعید رمضان البوطی ، لندن کے عبداللہ بن بیہ ،مصر کے سابق مفتی عام علی جمعہ اور اردن کے سابق مفتی عام محمد نوح القضاۃ قابل ذکر ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ محمد بن زاید نے روشن خیال علماء و مفکرین کو بھی پروموٹ کیا جن کے مطابق اسلام کی تشریح و تفسیر کے نہ کوئی حدود ہیں نہ ہی کوئی ضوابط۔ عدنان ابراہیم اور محمد شحرور اس فہرست میں قابل ذکر ہیں ۔چنانچہ ایک طرف تو سیاسی اسلام کا دم توڑنے کے لیے سیاسی تصوف کو آگے بڑھایا جو ڈکٹیٹرشپ کے لیے ایک بہترین سپورٹ کا کام کر رہے تھے اور دوسری طرف روشن خیال اور جدت پسند مفکرین کو بھی پروموٹ کیا تاکہ وہ تحریکات اسلامی کا مذاق اڑائیں ، ان کو دین کی تجارت کرنے والا قرار دیں اور ان کے ذریعے پیش کی جانے والی اسلامی تعلیمات کو من مانی اور شیطانی تاویل کا نام دیں ۔ اس کے علاوہ محمد بن زاید نے مجلس حکماء المسلمین کی بھی بنیاد ڈالی تاکہ مسلمان اہل علم کو تحریکات اسلامی خصوصا جمعیۃ الاصلاح کے خلاف اکٹھا کیا جائے۔ میڈیا اور کمیونیکیشن کی اہمیت دیکھتے ہوئے محمد بن زاید نے ’راند ‘نامی ایک فائونڈیشن کی بنیاد رکھی جس کے تحت ’معتدل اسلام‘ پیش کرنے والے چینل بنائے اور فروغ دئے جاتے ہیں ۔

گرچہ 2001ء سے ہی محمد بن زاید نے جمعیۃ الاصلاح کے اوپر کھلی سختیاں اور پابندیاں عائد کر دی تھیں ۔ لیکن چونکہ اس وقت تک الاصلاح کی آواز امارات کے کونے کونے تک پہنچ چکی تھی ، امیروں ، رئیسوں کے بعض اہل خانہ تک اس کے افکار سے بے حد متأثر ہو چکے تھے ۔ عوام کی اسی فیصد آبادی جمعیۃ الاصلاح کے لیے اپنے دل میں محبت و احترام کے جذبات رکھتی تھی اس وجہ سے اس کو دبا دینا اس قدر آسان نہ تھا ۔ چنانچہ 2003ء میں محمد بن زاید نے الاصلاح کے تین بڑے قائدین کے ساتھ ایک ملاقات رکھی اور معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی، لیکن چونکہ اس ملاقات میں محمد بن زاید کی پوری کوشش الاصلاح کو حکومت کے حوالے کردینے اور موجودہ قیادت کو بالکل بے اثر کر دینے کی تھی لہٰذا ملاقات بالکل ناکام رہی اور جمعیۃ الاصلاح نے بھی دوبارہ ایسی کسی ملاقات کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔2009ء میں جب اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کی غرض سے پہلی بار غزہ پر حملہ کیا تو امارات نے بھی حماس ، اخوان المسلمون اور جمعیۃ الاصلاح کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتے ہوئے ان سب کے خلاف اعلان دشمنی کر دیا۔ جمعیۃ الاصلاح کی بنیاد اس قدر قوی اور پائدار تھی کہ ان تمام سختیوں کے باوجود بھی اس کی سرگرمیاں تھمنے کا نام نہیں لیتی تھیں ۔ 2001ء میں امارات کے ایک سو تینتس اہل علم جن میں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز سے لے کر اسکالرز اور طلبہ تک شامل تھے اور حقوق انسانی کے لیے کوشش کرنے والے ایکٹیوسٹس نے جن میں بڑی اکثریت الاصلاح کے ارکان کی تھی حکومت کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں اس بات کا کھلا ہوا مطالبہ تھا کہ ملک کے امور طے کرنے کے لیے ایک المجلس الوطنی الاتحادی یعنی نیشنل اسمبلی کا انتخاب عام کرایا جائے۔ محمد بن زاید کے لیے یہ واقعہ ایک ڈرائونے خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور سزائوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسی سلسلے میں اپریل 2012ء میں جمعیۃ الاصلاح کے سات بڑے قائدین سے ملک چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا اور اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں انہیں قید کر دیا گیا۔2012ء ہی کے اخیر میں جمعیۃ الاصلاح کے 94 ممبران کو گرفتار کیا گیا جن میں سے ۶۹ کو سات سے پندرہ سال کے لیے جیل کی سزا سنائی گئی۔2013ء میں راس الخیمہ کے بڑے قائد سلطان بن کاید القاسمی جو امیروں کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں نظر بند کر دیا گیا اور تا حال وہ قید کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

 محمد بن زاید کے تعارف میں یہ بات بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اس نے اپنے خصوصی مشیروں کے طور پر جن لوگوں کا انتخاب کیا یا جن سے مدد طلب کی ان میں پہلے شخص ٹونی بلیئر سابق وزیر اعظم برطانیہ ہیں جن کا ظالمانہ اور مفسدانہ رول عراق اور افغانستان جنگ میں بالکل واضح رہا ہے۔دوسرا نام محمد دحلان کا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس کے قائدین اور ممبران کو نہایت بے دردی سے سزائیں دینے کی ذمہ داری نبھائی تھی اور اب امارات کی طرف سے مصر کے سینائی علاقے میں ایک فوج تیار کرنے کی ذمہ داری لی ہے جس کا استعمال فلسطین کے حوالے سے امارات اور اسرائیل کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ایک تیسرا نام محمد شفیق کا ہے جس کا منفی کردار مصر میں صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرنے اور وہاں کی جمہوریت کا گلا گھونٹنے میں کسی سے مخفی نہیں ہے۔

حالیہ چند سالوں کے تناظر میں محمد بن زاید کا ناپسندیدہ کردار تحریکات اسلامی بالخصوص اخوان المسلمون کے تعلق سے مزید ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ حال ہی میں محمد بن زاید نے ۸۲ جماعتوں پر مشتمل ایک لسٹ کا اعلان کیا جن کو امارات کی حکومت کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا گیا اور دنیا بھر سے یہ مطالبہ کیا کہ ان کو دہشت گرد مانتے ہوئے ان کا مکمل بائیکاٹ ہو اور ان کے خلاف سخت سے سخت رویہ اختیار کیا جائے، اور اس میں اخوان المسلمون ، حماس اور جمعیۃ الاصلاح کو بھی شامل کیا گیا حالانکہ اس لسٹ میں کوئی واضح اور متعین تعریف یا پیمانے نہیں تھے جن کی رو سے کسی کو دہشت گرد قرار دیا جائے یادہشت گردی سے بری قرار دیا جائے۔

عرب بہار یا عرب بیداری کی لہر کے تعلق سے محمد بن زاید کا جو موقف سامنے آیا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس نے اخوان اور تحریکات اسلامی کا زور توڑنے کے لیے بے دریغ دولت لٹائی۔ مصر ، شام اور لیبیا سے لے کر اردن اور یمن تک اس کا یہی موقف مختلف شکلوں اور صورتوں میں سامنے آیا ہے۔ مصر میں صدر محمد مرسی کی حکومت کو گرانے کا جب معاملہ آیا تو اس نے بارہ بلین ڈالر جنرل سیسی کو ارسال کیے جو کہ امارات کی طرف سے 1971ء سے 2014ء تک ہونے والی کل امداد سے بھی زیادہ رقم تھی۔ لیبیا میں جنرل حفتر کے لیے محمد بن زاید نے دل کھول کے دولت لٹائی۔ یمن میں الاصلاح کو شکست دینے اور ناکام کرنے کے لیے اس نے اپوزیشن پر بے انتہا دولت صرف کی۔ اردن میں اخوان کے نائب مرشد عام کی محض ایک پوسٹ پر جو انہوں نے امارات کی حرکتوں کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھی تھی۔ اس ایک پوسٹ کے جرم میں وہاں کی حکومت کو انہیں قید کرنے پر مجبور کر دیا۔ صدر محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو گروانے کے بعد محمد بن زاید اور اس کے سکریٹری خلدون مبارک نے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم کو یہ دھمکی دی کہ اگر وہ اخوان کو دہشت گرد جماعت نہیں قرار دیتے ہیں تو وہ برطانیہ کے ساتھ ہونے والی اسلحوں کی ایک بڑی ڈیل کو کینسل کر دیں گے۔اور اسی مقصد کے لیے امریکہ میں اماراتی سفیر یوسف العتیبہ نے وہاں کے پارلیمانی امور کے سکریٹری فیل جورڈن کے پاس خطوط کی بھرمار لگا دی اور اس میں بھی اسلحوں کی خریداری کا حوالہ دیا۔ترکی میں اپنے مشیر خاص دحلان کے ذریعے فتح اللہ گولن کی مدد کر کے اردوگان کی حکومت کے خلاف فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی جو عوام کے حوصلوں اور جمہوریت کے تئیں ان کی محبت کے سامنے کامیاب نہ ہو سکی۔اس سلسلے کی بالکل تازہ کڑی قطر کے مکمل بائیکاٹ کا معاملہ ہے۔ اخوان اور حماس کا ہوا کھڑاکر کے جس طرح امارات اور اس کے ہم نوا ممالک نے جن میں سعودیہ، بحرین اور کویت سرفہرست ہیں ۔ انہوں نے جس طرح کا ہنگامہ برپا کیا اور قطر کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی وہ اس کی اسلام دشمنی کی واضح ترین مثال ہے۔ حال ہی میں ایک برطانوی سفیر نے جو برسوں امارات میں برطانوی سفارت کی ذمہ داری نبھاتا رہا ، ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس زمین پر محمد بن زاید اخوان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ محض ایک بیان نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ، نہایت تلخ حقیقت کہ اسلامی کاز کے لیے وقت کی سب سے بڑی اور منظم تحریک کو سب سے زیادہ دشمنی کا سامنا کسی مغربی یا غیر اسلامی ملک سے نہیں کرنا پڑ رہا ہے بلکہ صرف اور صرف ان کی طرف سے کرنا پڑ رہا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان اور اپنی حکومتوں کو مسلم یا اسلامی حکومت کہتے ہیں ۔ عرب امارات کا ولی عہد محمد بن زاید اور سعودیہ کا ولی عہد محمد بن سلمان اس سلسلے میں ساری حدوں کو پار کر تے جارہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ڈکٹیٹرس کا مذہب صر ف اور صرف ظلم و فساد ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔