نئے سال کی آمد سرد مہری کی نذر!

لقمان عثمانی

وقت کے گزرنے، سورج چاند کے گردش کرنے اور روز و شب کے مسلسل سفر کرنے نے، ایک اور سال کی مسافت طے کرلی اور ماہ "ذی الحجہ” کو عبور کرتے ہی ہم 1438ھ  سے 1439ھ میں داخل ہوگئے؛ لیکن نا تو کسی نے مبارکبادی پیش کرنے میں سخاوت دکھائی، نا ہی ”ہیپی نیو ایئر“ کی صدا کاری میں گرم جوشی کا مظاہرہ کیا؛ نا تو کسی کو سالِ نو کی آمد کے انتظار میں بے چین و بے قرار  پایا اور نا ہی کسی کی پیشانی پر وہ شوخی نظر آئی؛ جو عموما عیسوی سال نو کے موقع پر دیکھی جاتی ہے ـ

میں اسکی قطعا حمایت نہیں کررہا ہوں کہ: عیسوی سالِ نو کے آغاز میں جس طرح کی بیہودگی و بے حیائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، عیاشی و اوباشی کے راستے ہموار کیے جاتے ہیں، مستی و نفس پرستی کا بازار گرم کیا جاتا ہے، شراب نوشی و نشہ بازی کی مجلسیں قائم کی جاتی ہیں اور محفلِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا ہے؛ اسلامی سالِ نو کی آمد پر بھی اسی بے غیرتی و بے وحدتی اور طوفان بدتمیزی کے ساتھ اسکا انتظار و استقبال کیا جائے؛ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہجری کیلنڈر کے تئیں جس بے رخی و بے توجہی کا احساس کرایا جاتا ہے، بے حسی و بے مروتی سے کام لیا جاتا اور سرد مہری و بے التفاتی کا برتاؤ کیا جاتا ہے وہ قابل صد مذمت و افسوس اور اک لمحۂ فکریہ ہے ـ

مسلمانوں میں اک بڑی تعداد تو ان لوگوں کی ہے جنہیں اسلامی سال کے، رمضان و محرم جیسے اک آدھ مہینے کے علاوہ تمام مہینوں کے نام بھی معلوم نہیں ہیں؛ چہ جائیکہ اسلامی کیلنڈر کی ابتدا اور اسکی تاریخ کی کچھ جھلکیاں بھی معلوم ہوں؛ لیکن جو لوگ واقف ہیں، انہوں نے بھی دوسری قوموں کی نقالی میں عیسوی تاریخ کی پابندی شروع کردی اور اپنی اسلامی تاریخ کو پس پشت ڈال کر اسے فراموش کردیا اور خود کو غیروں کی غلامی کے جال میں پھانس کر اپنی تشخص و شناخت کو مجروح کر لیا ـ

یہی وجہ ہے کہ عیسوی سالِ نو کی آمد پر آسمان سر پر اٹھا لینے والے، اپنی نیندوں کو قربان کرکے 12 بجنے کا انتظار کرنے والے اور "نیو ایئر وِش” کرنے میں سبقت لے جانے والے مسلمانوں کو ہجری سالِ نو کی آمد کا احساس تک نہیں ہوتا: نا تو کسی کو چاند کے دیدار کیلیے پریشان دیکھا جاتا ہے، نا ہی کسی کے چہرے سے خوشیاں جھلکتی ہیں؛ نا تو ہجرت نبوی کی یاد آتی ہے اور نا ہی اسلامی کیلنڈر کی بنیاد رکھنے والے عظیم صحابۂ کرام کی ـ

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے کیلنڈر کی اہمیت کا اندازہ نہیں؛ جبھی ہجری کیلنڈر کے نام پر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ـ
عیسوی کیلنڈر میں نہ جانے کتنی تبدیلیاں ہوتی چلی آئی ہیں اور ابھی بھی وہ کتنے ہی تنازعات کا شکار ہے اور اسکے بر عکس ہجری کیلنڈر ہمیشہ سے ہی تمام اختلافات سے پاک ہے؛ اسکے باجود بھی ہم نے خود کو ہر سرکاری و غیر سرکاری کاموں اور دیگر ضروریات میں بھی صرف عیسوی تاریخ کا ہی عادی بنا لیا ہے ـ

غرضیکہ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک مسلمان غیروں کی اتباع اور انکی اندھی تقلید میں جوں جوں حد سے گزرتے چلے جا رہے ہیں، انکے قلوب سے ایمان کی شعاعیں مدھم ہوتی چلی جا رہی ہیں اور شعائر اسلام سے بے اعتنائی و بے رغبتی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ـ

اس پر فتن دور میں، جبکہ ہر طرح سے شعائر اسلام پر حملے کیے جارہے ہیں اور انہیں کالعدم کردینے کی سازشیں کی جا رہی ہیں؛ ہمیں خود ہی انکی تحفظ و بقا کیلیے کوشاں ہونے اور اسلامی تعلیمات و دینی احکام کی پاسداری کیلیے کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے ـ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔