سعودی حکومت کی خاموشی منصوبہ بندہے!

ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6سمبر2017 کی رات یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھا۔ان کا کہنا تھا یہ فیصلہ ایک اتحادی کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے احکامات دیتا ہوں ۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ بہت عرصے پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے میں نیا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ بات بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ چاہے جوبھی پارٹی امریکہ میں برسراقتدار آئے اور جیسا بھی صدر ہو اس کی خارجہ پالیسی میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی،البتہ پالیسی کے نفاذ میں وقت وحالات کے مطابق نرمی یا سختی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔لہذا یہ امریکہ کا دیرینہ منصوبہ تھا اورمناسب موقع ہاتھ لگتے ہی انکل سام نے اس کا اعلان کردیا۔اب آپ یہ سوال کرسکتے ہیں ٹرمپ کو یہ موقع مناسب کیسے لگا اور کیسے اس نے عالم اسلام کی نبض ٹٹول لی اور یکلخت اپنا فیصلہ صادر کردیا۔

اس کے لئے تھوڑا ضبط وتحمل اور ایمانداری کے ساتھ کسی بھی قسم کے نظریاتی اور مسلکی عقیدتمندی سے اوپر اٹھ کر آپ کو صورت حال  پر نظر ڈالنی ہوگی تو معاملہ زیادہ پیچیدہ بھی نہیں ہے اور چند سطور میں سارا منظر نامہ آئینہ کی طرح صاف ہوجائے گا۔دنیا حجاز مقدس پر خاندان سعود کے غاصبانہ قبضہ کے بعد مسلسل دیکھتی آ رہی ہے کہ امریکہ ویوروپ کا سب سے بڑا اتحادی اور حلیف ملک خلیج عرب میں صرف سعودی عرب ہی رہا ہے۔اور یہ اتحاد کوئی نیا بھی نہیں ہے، بلکہ اس کی عمرلگ بھگ سوبرس کو تجاوز کرچکی ہے۔ذرا اس آمرانہ اقتدار کے نہاخانے میں غیر جانبداری سے جھانکئے۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے  تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ 1938 میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔یہ معاہدہ اسی شرط پر طے ہوسکا تھا کہ شاہ خاندان کے تحفظ کا نگہبان برطانیہ اور امریکہ سمیت پورا یوروپ رہے گا۔جبکہ مشرق وسطیٰ میں ہر محاذ پر شاہ خاندان مغربی ممالک کے مفادات کو قوت پہنچاتا رہے گا۔

اب ذرا سعودی حکومت کی اسلام کے تحفظ والی چال پربھی تجزیاتی نظرڈال لیجئے۔ اس ملک پر غاصبانہ طریقے سے قابض سعود خاندان اسلام سے زیادہ اپنے اقتدار کے استحکام اور تحفظ کو ہمیشہ اہمیت دیتا آیا ہے۔اگر اس کے اقتدار کی کرسی میں معمولی جنبش کا احساس بھی ہوا تو اس نے اپنے امریکی و مغربی آقاؤں کی مدد سے جمہوریت کے بارے میں سوچنے والے مسلمانوں کی کھوپڑی سے دماغ کو ہی نکال لینے میں ذرہ برابر تاخیر نہیں کی۔ 1991کی خلیجی جنگ اور حال ہی میں پڑوسی ملک مصر میں عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی مرسی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے کس طرح سعودی حکومت نے مصری فوج کا کرایے کے غنڈہ کی طرح استعمال کیا اور کئی ہزار ارب ریال کی سپاری دے کر جناب مرسی کو عقوبت خانے میں چنوا دیا، یہ سارے ثبوت اس بات کیلئے کافی ہیں کہ آل سعود کوصرف اقتدار چاہئے، اسلام کا نمبر اس کے نزدیک چوتھے یا پانچویں درجے میں آ تا ہے۔آج جب ٹرمپ نے عالم انسانیت کے پیٹھ میں خنجر گھوپنے کی حماقت کی ہے تو ہم کیوں سعودی عرب کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ کیا سعودی عرب کو اپنے اقتدار سے زیادہ مسلمانان عالم کے جذبات و احساسات عزیز ہوسکتے ہیں ؟اسے کیا غرض ہے کہ اپنے اقتدار کی عیاشی کا سوادا کرکے وہ مظلوم فلسطینیوں کی اشک شوئی کا مؤ منانہ فریضہ ادا کرے گا۔

اس وقت دنیا بھرکے مسلمانوں میں یہ سوال گہراتا جارہاہے کہ یروشلم معا ملے میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سعودیوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کردیے توعالم اسلام کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی کا کیا ہوگا؟ یہ سوال شاید اتنا بے تکا ہے نہیں جتنا کہ یہ لگتا ہے۔

تمام شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ دیگر مسلم ملکوں بالخصوص ترکی، ایران اور پاکستان کے برعکس سعودی عرب خاموشی کے ساتھ یروشلم کے کم از کم ایک حصے کو اسرائیل کو دینے کی حمایت کرتا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کی بھی تجویز دیتا رہا ہے۔اور بدلے میں سعودی عرب کو کیا چاہئے اپنی کرسی کا استحکام اور بادشاہت کی بقاکی ضمانت۔۔۔۔اب ایک نظر اس یہودی ریاست پر جو امریکہ کے ساتھ زیادہ ترترقی یافتہ ممالک کا چہیتا ہے۔19ویں صدی سے پہلے سارے عالم میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے یہودیوں ساہو کاروں میں بالآخریہ فکر گھر کر گئی کہ ان کا بھی اپنا وطن ہونا چاہئے اور اس کے لئے مقبوضہ بیت المقدس سے مناسب اور موزوں اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی تھی جہاں اس شاطر قوم کے آثار وباقیات ساری تاریخ میں محفوظ ہیں ۔روس اور نازی جرمن میں چن چن کر نشانہ بنایے جارہے یہودیوں کو جب ہر طرف تاریکی نظر آنے لگی تو وہ آخرمیں اسی فکر میں تن من سے سرگرم عمل ہوگئے کہ انہیں اب باضابطہ طور سے اپنا ایک الگ ملک بنانا ہے۔ اس نظریے کے تحت جرمنی کے ایک ہنگری نژاد نظریاتی یہودی دانشور تھیوڈور ہرزل نے 1895 میں ’’صہیونیت‘‘  (Zionism)  کے نام سے ایک تحریک شروع کی اور بالآخر 27 اگست 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں اس تنظیم کو منظم تحریک میں تبدیل کرنے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے اپنا الگ وطن بنائے گی اور وہاں مقیم مسلمانوں اور عیسائیوں کو بے دخل کیا جائے گا۔

اس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے یہودیوں نے اپنی صلاحیتوں کو غیرمعمولی حد تک بڑھایا۔ تھیوڈور ہرزل نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر اپنا ملک بنانا ہے تو اپنی صلاحیتوں کو غیرمعمولی حد تک بڑھانا ہوگا۔ تھیوڈور ہرزل کے اس مشورے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے یہودیوں نے علم و ہنر، سائنس اور ٹیکنالوجی، عالمی سیاست پر گرفت اور دنیا کے تمام شعبوں میں انتہائی تیزی سے ترقی کی، جبکہ مسلمانوں کی اکثریت، یا یوں کہا جائے کہ حکمران طبقہ عیش و عشرت اوراپنی حکومتوں کو محفوظ کرنے کی کوششوں میں لگارہا، اپنی سلطنتوں کو بچانے کیلئے اپنی مرضی کے فتوے جاری کیے گئے، ایسے علماء کو درباروں میں شامل کیا گیا جو دین کے مقابلے میں حکمران خاندانوں کا تحفظ کرنے لگے۔ آج جب میں یہ سطور لکھ رہاہوں تو مجھے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ اسی یہودی سازش کے طفیل سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ منتشر کیاگیا اور اقتدار کا مزہ لوٹنے کیلئے بیتاب موجودہ سعودی حکمرانوں کے اجداد کے ہاتھوں حرمین شریفین کے تقدس کو طاق پر رکھ کر بے گناہ مسلمان عوام کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔یہ اسلامی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس سے انکار چڑھتے سورج کے وجود سے انکار جیسا جھوٹ کہلائے گا۔

کہنے کا منشاء یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کیلئے  تھیوڈور ہرزل کی طرح اپنے ماننے والوں سے یہ نہیں کہا گیا کہ اگر تمہیں تابناک ماضی سے اپنا رشتہ استوار رکھنا ہے تو وقت کی نباضی کے فن پر طبع آزمائی کرو اور اپنی صلاحیتوں کو مثبت کاموں میں لگاکر خود کواتنا پرکشش بنالو کہ تمہیں قبول کرنا اور تمہاری صلاحیتوں اور قابلیت سے استفادہ کرنا دنیا کی مجبوری بن جایے۔جیساکہ ہم قیام اسرائیل کے پس منظر میں دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کو ان کی اپنے ملک کی تشکیل اور دنیا پرحکومت کیلئے بنائی جانے والی تنظیم اور اس کانفرنس کے مندرجات کچھ عرصے بعد منظرعام پر آئے جس کو مسلمانوں سمیت بین الاقوامی برادری کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن یہودیوں کی علمی قابلیت اور شاطر ذہانت اور بین الاقوامی امور میں یہودیوں کی ضرورت کے پیش نظر عالمی طاقتیں ، تنظیمیں اور مسلمان یہودیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ یوں وہ اپنے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا رہے اورساری دنیا کی مذمت طعن وتشنیع جھیلنے کے با وجود کامیاب رہے اورآج صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل اسی ارتقائی سفر پر گامزن ہے،جس کے نتیجے میں وہ ساری دنیا کی نظروں کا تارا بنا ہوا ہے۔

آج ایک بار پھر امریکہ کی یہ چال اسرائیل کی اہمیت کا احساس دلارہی ہے اور شاہ خاندان کی مجرمانہ خاموشی اسی جانب اشارہ کررہی ہے کہ اس وقت سعودی عرب میں اقتدار کی منتقلی کی روایت اور قانون کے برخلاف شاہ سلمان اپنے بیٹے کو حجاز مقدس کا آمر بنانا چا ہتے ہیں اور اس کیلئے ضروری یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے معاملے میں امریکہ کی چاپلوسی کریں اور مسلمانان عالم کو ٹھینگا دکھاتے رہیں ۔میں نے مضمون کے شروع میں ہی نشاندہی کی ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ ہمیشہ نمایاں رہا ہے اور وہ اپنی پالیسیوں کے نفاذ کیلئے جلد بازی کے بجائے موقع محل اور مصلحت پسندی سے کام لیتا رہا ہے۔آج اس کیلئے یہ غنیمت موقع تھا کہ اس وقت شاہ سلمان کو اپنے بیٹے کی گدی نشینی کیلئے کوئی مضبوط محافظ اور ضامن چاہئے، جبکہ امریکہ کو اپنے اس منصوبہ کے نفاذ کیلئے سعودی حکومت کی خموشی درکار تھی۔ لہذا غنیمت موقع ملا اور امریکہ نے اسرائیل سے  کئی دہائی پہلے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا۔

تبصرے بند ہیں۔