سعید احمد منتظرؔ کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی نشست کا انعقاد

 معروف شاعر سعید احمد منتظرؔ کے سانحۂ ارتحال پر بزم کے دفتر ’’گلِ فرقان‘‘ جمال پور علی گڑھ میں بزمِ نویدِ سخن علی گڑھ کی جانب سے ایک تعزیتی نشست کا انعقاد عمل میں آیا جس میں بزم سے تعلق رکھنے والے شعراء و ادباء نے سعید احمد منتظرؔ کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں خراجِ محبت پیش کیا۔ پروگرام کی صدارت استاذالشعراء اور بزم کے سرپرست ڈاکٹر الیاس نویدؔ گنوری نے کی جب کہ نظامت کے فرائض سید بصیرا لحسن وفاؔ نقوی نے انجام دئے۔

سعید احمد منتظرؔ ایک با کمال منفرد لب و لہجے کے شاعر: ڈاکٹر الیاس نویدؔ گنوری

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر الیاس نویدؔ گنوری نے کہا کہ’’مرحوم سے میری پہلی ملاقات سعودی عرب کے شہر جبیل کے ایک مشاعرے میں ہوئی اس کے بعد وہ میرے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوئے۔ وہ ایک خلیق اور خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے ان کے یہاں انسانیت کا درد، معاشرے کے دکھ سمجھنے کا سلیقہ روایت کی پاسداری اور اسلام کے پیغام پر عمل کرنے کا جذبہ بدرجۂ اتم تھا وہ نہ صرف ایک اچھے انسان تھے بلکہ ان کی فکر ان کے کلام ان کی شاعری میں بھی نمایاں تھی یہی وجہ تھی کہ وہ خالص ادبی حلقوں میں خاصے مقبول تھے۔ وہ جہاں خوبصورت اور ادب کے تمام تر تقاضوں پر کھری اترتی ہوئی شاعری کرتے وہیں ان کے یہاں بہترین ترنم بھی پایا جاتا تھا وہ جب غزل سرا ہوتے تھے تو محفل میں ایک سماں بندھ جاتا تھا اور لوگ ان کی شاعری کی دنیا میں خود کو گم کر لیتے تھے۔

انھوں نے دنیائے ادب کو کئی مجموعۂ کلام دئے جس پر سنجیدہ تنقید نگاروں اور ادب کی باریکیوں کو سمجھنے والے افراد نے اپنی رائے پیش کی۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک باکمال منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ اﷲان کے ساتھ رحمت کے معاملات فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں مقام ملے‘‘۔ جاوید ؔوارثی نے کہا کہ’’مرحوم کی شاعری نے اہلِ ادب کو خاصہ متاثر کیا ہے وہ اپنے کلام کو بناوٹ اور ثقالت سے دور رکھتے تھے ان کی سادگی اور سلاست نہ صرف ان کی شاعری کی پہچان تھی بلکہ ان کے مزاج کی بھی آئینہ دار تھی۔ ان کا اس دنیاسے کوچ کرنا بزمِ نویدِ سخن علی گڑھ کے اراکین کی آنکھیں نم کر گیادعا ہے کہ اﷲان کی مغفرت فرمائے‘‘۔

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی نے کہا کہ’’ مرحوم سے میری پہلی ملاقات علی گڑھ کے ایک مشاعرے میں ہوئی جو ان کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔ وہ کئی شعراء کے ساتھ دہلی سے علی گڑھ آئے تھے ان سے مل کر دلی مسرت ہوئی تھی کیوں کہ ان کے یہاں انکساری اور خلوص پایا جاتا تھا جب ان کی شاعری اور ان کا مسحور کن ترنم سنا تو دل عش عش کر اُٹھا۔ انھوں نے اپنے کلام سے محفل کو بہت متاثر کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے دہلی میں ایک مشاعرے کی دعوت دی جہاں ان کے مزاج کو سمجھنے کامزید موقع فراہم ہوا۔ الغرض وہ ایک پر خلوص اور مشفق شخص تھے‘‘۔

سید محمد عادل فرازؔ نے کہا کہ’’کسی فنکار کا دنیا سے چلے جانا اہلِ ادب کے لئے دکھ کا سبب ہوتا ہے۔ سعید احمد منتظر بلا شبہ ایک اچھے انسان اور ایک منفرد شاعر تھے ان کی شاعری میں غزل کے لغوی معانی کی تصاویر بخوبی ملتی ہیں۔ وہ غزل کے جدید دور میں بھی غزل کے روایتی رنگ کے علمبردار تھے‘‘۔ کلیم ثمرؔ بدایونی نے کہا کہ’’ سعید احمد منتظرؔ ہمارے استاد بھائی تھے انھوں نے ہمیشہ محبت اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بزم کے ہر رکن کی حوصلہ افزائی کی بلکہ وہ جس ادیب یا شاعر سے ملتے تھے اس کو اپنا بنا لیتے تھے ان کا انتقال ادب کا نقصان ہے‘‘۔

طالب علی شیداؔ نے کہاکہ’’ سعید احمد منتظر ؔ اس دنیا سے چلے جانا ہمارے رنج و غم کا باعث ہے انھوں نے جس لب و لہجے کی شاعری کی وہ آسان نہیں کیونکہ آسان شعر کہنا نہایت مشکل ہے۔ بظاہر تو ان کی شاعری سہلِ ممتنع کی عکاس ہے لیکن اس میں جو تہہ داری ہے وہ اپنی مثال آپ ہے‘‘۔ تفسیر بشرؔ نے کہا کہ’’ شاعری تک بندی کا نام نہیں سعید احمدمنتظرؔ نے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے صرف اور صرف ادبی شاعری کی اور عوامی مشاعروں سے گریز کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عوامی مشاعروں میں ادبی اشعار کی پزیرائی ممکن نہیں۔ لہٰذا وہ ادبی نشستوں میں مقبول رہے اور چونکہ ان کا وطن دہلی تھا اس لئے وہاں کی تہذیب اور تمدن کو بھی انھوں نے اپنی شاعری کا خاصہ بنایا‘‘۔

عتیق سحرؔ نے کہا کہ’’سعید احمد منتظرؔ دہلی دبستان سے تعلق رکھتے تھے ڈاکٹر الیاس نویدؔ گنوری کے شاگرد ہونے کی وجہ سے ان کا سلسلۂ شاعری استاد داغؔ دہلوی سے ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں زبان کا چٹخارہ اور صنائع، بدائع اور روایت کی پاسداری کے عناصر خوب ملتے ہیں۔ ان کا انتقال اہل ادب کے لئے باعثِ تاسف ہے‘‘۔ پروگرام میں شامل ہوے والوں میں نسیم طیبؔ، حیدر رضا کامل، یوسف ہاتفؔ، مبارک حسین اور ریشمہ طلعت وغیرہ پیش پیش رہے۔

تبصرے بند ہیں۔