ایران سقوط حلب اور اتحاد امت کا کھوکھلا نعرہ

پچھلے سال کے آخر میں شام کے شہر حلب کا سقوط امت مسلمہ کیلئے تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ عرب بہار کی خوشبو جب سارے عرب میں پھیلنے لگی تو اس سے شام بھی اچھوتا نہیں رہا۔ تقریبا تین دہائی سے زیادہ سے اسدی خاندان کے جبر کے سائے میں جینے والے شامی عوام نے بشار الاسد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ قریب تھا کہ بشار شام چھوڑ کر اپنے آقا روس یا اسرائیل میں پناہ لیتا کہ ایران نے وہاں مداخلت کی اور اس طرح بشار کی ظالمانہ حکومت کو پائوں جمانے کا موقعہ مل گیا۔ لیکن ایران کی مداخلت اور اس کی طاقتور ملیشیا کو بھی شامی عوام نے دھول چٹا دی تو ایران کی دعوت پر روس آدھمکا اور اس نے وہاں بڑے پیمانے پر عوامی مقامات پر بمباری کی جس سے شہرہ آبادی کھنڈرات میں تبدیل ہونے لگے۔ آخر کار حلب میں بھیانک قتل و غارتگری کے بعد بشاری فوج نے اس پر قبضہ کرلیا۔ دنیا کی بیشتر حقوق انسانی کی تنظیموں نے حلب میں بھیانک جنگی جرائم کی نشاندہی کی ہے جس میں ایران بھی ملوث ہے۔ یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ حلب یا اس طرح کے دوسرے قصبات اور شہروں میں جو بھیانک قتل عام ہوا اس میں مرنے والے یا ظلم کا نشانہ بننے والے کون لوگ ہیں۔ یہ سب کے سب سنی مسلمان ہیں۔ بشار کے باپ حافظ الاسد نے بھی حماۃ نام کے ایک شہر کو بمباری کرواکے اسے کھنڈر میں بدل دیا تھا جس میں اسی ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

بیٹے نے بھی باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ انسانی خون پینا اس کا خاندانی مشغلہ ہے۔ بہر حال یہ تمہید بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ممبئی میں ایران اور ایران نوازوں کی جانب سے دو روزہ سمینار کا انعقاد کیا تھا جس کا عنوان اتحاد امت تھا۔ اس موقعہ پر ایران کے قونصل جنرل آغا مسعود خالقی نے ایران کی جانب سے کہا کہ ’’اسلامی انقلاب ایران نے بین المسالک  اتحاد کیلئے اپنی کوششیں ترک نہیں کی ہیں ‘‘۔خالقی کے مطابق ایران میں کل 31 صوبے ہیں ان میں سے 4 صوبوں میں اہل سنت کا غلبہ ہے۔ یعنی وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایران کے تعلق سے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ سنی مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتتا ہے وہ غلط ہے۔ نیز آغا خالقی نے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ’’ہم سبھی مسلک کے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آئیں ایک ساتھ ہوجائیں ‘‘۔بھلا مسلمانوں کے کسی فرقہ یا طبقہ کو اس بات سے کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ مسلمان متحد ہو جائیں۔ میرے خیال میں کوئی بھی اس سے رو گردانی نہیں کرے گا۔ لیکن سوال یہ کہ اتحاد کن بنیادوں پر کس کے ساتھ اور کس قیمت پر قائم ہو گا۔ ممبئی یا ہندوستان کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں آکر اتحاد امت کی بات کرنے والا ایران ہی ہے جس نے شام میں عوامی تحریک کو طاقت کے بل پر کچلنے کی کوشش کی ہے جس میں چھ لاکھ سے زیادہ معصوم انسانوں کا قتل عام ہوا۔ اس قتل عام کیلئے جس قدر بشار الاسد ذمہ دار ہے اتنی ہی ذمہ دار ایران بھی ہے۔

سمینار میں ممبئی شہر کی معروف علمی و دینی شخصیت جو سماجی اور ملی کاموں میں بہت متحرک رہتے ہیں میری مراد حافظ سید اطہر علی سے انہوں نے اتحاد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اس وقت زیادہ خوشی ہوتی کہ یہاں پر اہل دیوبند، اہل حدیث کے نمائندے بھی آتے ‘‘۔خواہش بری نہیں ہے۔  بہت ہی مبارک ہے لیکن یہ شکوہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس سے قبل یہ لوگ اتحاد امت کے کیلئے کسی بھی کوشش میں پیچھے نہیں رہے۔ اس بات کا گواہ راقم بھی ہے کہ اہل حدیث اور اہل دیوبند کے نمائندے بھی شامل ہوتے رہے ہیں بلکہ وہ اب بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ایران یا ایران نوازوں کی دعوت پر ان کی عدم شمولیت کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ امت مسلمہ کے سینے، حلب میں ایرانی کردار سے چھلنی ہیں۔  ایسے میں وہ اس بناوٹی اور منافقانہ کوشش میں شامل کیوں ہوتے۔ کیا اب بھی کسی کو شبہ ہے کہ حلب میں ایران نے کتنا ظالمانہ کردار ادا کیا ہے۔ کیا اس وقت ایران کو اتحاد امت عوامی جذبات کا احساس نہیں تھا۔  جب اس کے فوجی اور اس کے بمبار طیارے نہتے شامہ عوام کا قتل عام کررہے تھے۔ اس نے کن بنیادوں پربشار الاسد کی حکومت پشت پناہی کی اور اس کی اس حرکت کی وجہ سے چھ لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ایران یا ایران نواز خواہ اب جتنی کوشش کرلیں لیکن ان کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ یہ کیسے اتحاد امت کی کوشش ہے کہ شام میں سنی مسلمانوں کا قتل عام ہو حلب کو کھنڈر بنادیا جائے اور اس بنیاد پر جب ایران پوری دنیا خصوصا عالم اسلام میں ملامت کا مصداق ٹھہرے تو عوام الناس کو گمراہ کرنے کیلئے ہندوستان میں آکر اتحاد کا کھوکھلا نعرہ دیا جائے۔

سمینار میں شامل کسی بھی سنی عالم یا سنی اقامت دین کی تنظیم کے نمائندہ نے شام کے مسئلے پر کھل کر ایران کے کردار کی مذمت نہیں کی۔ انہوں نے صرف افسوس کا اظہار کیا۔ ابھی پچھلے مہینہ ہی ایک گوگل گروپ پر جماعت اسلامی کے تعلق سے بحث نے زور پکڑا تھا تو اس پر کسی نے سوال اٹھایا تھا کہ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے حلب کے مسئلے پر جو پریس کیلئے بیان جاری کیا تھا اس میں ایران کا کہیں پر نام نہیں تھا۔  مہاراشٹر میں جماعت اسلامی کے ایک شعبہ کے سکریٹری اسلم غازی نے کہا تھا کہ جماعت اسلامی نے ایران کی مذمت کی تھی۔ وہ ایک پریس کانفرنس کا حوالہ دے رہے تھے۔ خیر انہوں نے مہاراشٹر کی سطح پر ایسا کیا۔

ایران کی حلب میں قتل عام کیلئے مذمت کن الفاظ میں کی گئی وہ مجھے ابھی یاد نہیں۔ لیکن ایک مسلمان کو حسن ظن رکھنا چاہئے اس لئے میں نے اس پر یقین رکھا۔ گوگل گروپ پر بھی میں نے جماعت اسلامی کی حمایت کی۔ لیکن ایران نوازوں کے ذریعہ منعقد کئے گئے سمینار میں اسلم غازی کا شامل ہونا پھر سے نئے سوال کھڑے کرتا ہے کہ کیا ایران نے حلب میں اپنی مداخلت کیلئے اور چھ لاکھ سے زائد افراد کے قتل عام کیلئے افسوس کا اظہار کیا، یا معافی مانگی یا اس نے بشار الاسد کی حمایت ترک کی۔آج تک کی اطلاع کے مطابق ایران نے ان میں سے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ کسی گروہ کسی ملک یا کسی تنظیم کا محض اتحاد امت کیلئے تقریروں اور سمیناروں میں کچھ بولنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ اتحاد امت کا خواہاں ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس کا عملی ثبوت دے۔

لیکن ایران نے تو جو بھی عملی ثبوت پیش کیا اس میں اتحاد امت کہیں نظر نہیں آتا۔ کیا شام میں چھ لاکھ سے زائد افراد کے قتل عام میں معاون بننا اتحاد امت کی خواہش کا اظہار اور عملی ثبوت ہے ؟اسلم غازی نے بھی سمینار میں ایران کی تعریف کے ڈونگرے برسائے اور کہا کہ حلب کے مسئلہ پر غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب بھی اس مقام پر آکر اگر کوئی کہے کہ غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے تو پھر یہی کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ انہوں نے ایران کی محبت میں اپنے آپ کو اتنا غرق کرلیا ہے کہ جب اس کے گناہ لوگ دن کے اجالے میں بھی دیکھ رہے ہوں اور سن رہے ہوں تو یہ محبت کے مارے اور عشق میں مبتلا اپنے محبوب کی برائی نہ دیکھ پائیں اس لئے اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی چڑھالی ہے اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں تاکہ اس کے خلاف کوئی بات ان کی سماعت سے نہ ٹکرائے۔ افسوس ہے !

ایران سے ایک سنی عالم دین بھی تشریف لائے ہیں جنہوں نے حافظ اطہر علی کی اس بات کو غلط کہا جس میں انہوں نے کہا تھاکہ ایران میں سنی مسجدیں اور سنی مدارس نہیں ہیں۔ تقریبا دو ہفتہ قبل ایک اردو اخبار میں بھی ایران کے تعلق سے کسی نے لکھا تھا وہاں اتنی مساجد اور اتنے مدارس ہیں۔ اس پر میرے دوست نے کچھ سوالات کھڑے کئے تھے لیکن وہ مضمون اس اخبار میں ناقابل اشاعت ٹھہرا۔ بہر حال آج واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کے دور میں آپ کسی کی باتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یوں ان کا مضمون عوام تک پہنچ گیا۔ میں یہاں حافظ سید اطہر علی کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ انہوں نے برسر محفل وہ بات کہنے کی جرات کی جسے کہنے میں عام طور پر لوگ ہچکچاتے ہیں۔جس کا جواب ایران کے سنی عالم دین نے یہ دیا کہ ’’اہل سنت کے جو نمائندے یہاں موجود ہیں اور انہیں جو شکایت اسے دور کرنے کیلئے سنی عالم دین و اہل سنت کے عالموں کو ایران دورہ کرائیں اور وہاں خود دیکھ لیں کہ وہاں اہل سنت کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں ہوتا ہے‘‘۔میرے خیال میں بھی اس سے بہتر عمل نہیں ہوسکتا کہ اگر ایران اتنا ہی روادار ہے تو وہ اہل سنت کے نمائندوں کو آزادانہ طور پر ایران کے دورہ کی دعوت دے وہاں ان پر کہیں آنے جانے پر کوئی پابندی نہ ہو۔ لیکن اس کے برعکس ایران کے ذریعہ جن لوگوں کو دورہ کی دعوت دی جاتی ہے انہیں حکومت کے ذریعہ مقررہ جگہوں پر ہی لے جایا جاتا ہے۔

ایران کے دورہ سے واپس آنے والے کسی بھی شخص نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ وہ آزادانہ طور پر کہیں جاکر خود سے حالات کا جائزہ لے سکتا تھا۔ اس لئے اس طرح کی بے فیض اتحادی کوششوں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔ ضرورت ہے کہ جس کی شکایت پائی جاتی ہے اسے دور کیا جائے۔ یہ نہیں کہ ایران امت کے کچھ گروہ کو اپنا ہمنوا بنا کر امت کے ہی کسی ایک خاص گروہ کو یک و تنہا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ اتحاد کی کوشش نہیں منافقت ہے۔ آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حلب کے سقوط اور قتل عام میں ایران کے ملوث ہونے سے وہ عالمی پیمانے پر جس طرح بدنام ہوا ہے اس سے امت کے عام خیال کو بھٹکانا چاہتا ہے۔  یہی سبب ہے کہ اس کے تنخواہ دار ایران کی رو سیاہی کو نام نہاد اتحاد کے نعروں سے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔  یہ مضمون تحریر کرتے وقت ایک ہم پیشہ نے کہا کہ تمہیں اتحاد امت اس قدر گراں کیوں گزرتا ہے ؟کیا تم نہیں چاہتے کہ امت میں اتحاد ہو ؟ اس پر میرا مختصراً جواب تھا کہ میں اتحاد امت نہ مجھ پر گراں گزرتا اور نا ہی میں اس کا مخالف ہوں لیکن میں اتحاد کے نام پر دوغلے پن کے خلاف ہوں جو ایران کا وطیرہ رہا ہے اور اب بھی وہ اسی پر کاربند ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔