اسلامی عبادتوں میں اجتماعی آداب کی جھلک اور نمونہ

اسلامی زندگی کا وہ شعبہ جسے عرف عام کے لحاظ سے ’عبادتی شعبہ‘ کہنا چاہئے۔ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں  اجتماعیت کی رسائی کا تصور بھی مشکل سے کیا جاسکتا ہے۔ عبادت الٰہی کا نام لیجئے، ذہن آپ سے آپ گوشوں  اور تنہائیوں  کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ خیال ہونے لگتا ہے کہ عبادت خالصتاً دین کا اور آخرت کا کام ہے، کسی پہلو سے بھی دنیا کا کام نہیں ۔ پھر اسے کسی طرح بھی سامانِ جلوت کیسے بنایا جاسکتا ہے! گھر کی، محلے کی، بستی کی، پورے ملک کی زندگیاں  اجتماعی نظم کی محتاج ضرور کہی جاسکتی ہیں ، مگر خدا کو یاد کرنے کیلئے بھی کسی اجتماعیت کی ضرورت محسوس کی جائے، یہ بات کچھ سمجھ میں  آنے والی نہیں ۔

یادِ الٰہی اور عبادت کی تو فطرت ہی گرد و پیش سے بے تعلقی چاہتی ہے۔ غرض عبادت گاہیں  اور ریاضت کدے وہ مقامات ہیں  جہاں  ما سوا کا تصور بھی گوارا نہیں  کیا جاتا۔ اب اگر کوئی دین، عبادات کے اندر کچھ اجتماعی آداب کو لازم ٹھہراتا ہے تو کہنا چاہئے کہ اس نے اجتماعیت کو اہمیت دینے میں  سب سے آخری قدم اٹھا دیا ہے۔ ایسی حالت میں  اس امر کا اندازہ لگانے کیلئے اس دین میں  اجتماعیت کو کس درجہ کی اہمیت ملی ہوئی ہے، ان آداب اجتماعی سے زیادہ فیصلہ کن اور کوئی چیز نہیں  ہوسکتی جنھیں  اس نے اپنی عبادتوں  میں  ملحوظ رکھنے کا حکم دے رکھا ہو، یہ آداب شمار میں  جتنے ہی زیادہ ہوں  گے اور انھیں  جتنا زیادہ ضروری ٹھہرایا گیا ہوگا، کوئی شک نہیں  کہ اس دین میں  اجتماعیت کا حاصل شدہ مقام اتنا ہی اونچا قرار پائے گا۔

 جہاں  تک اسلام کا تعلق ہے تو بالقین وہ ایک ایسا ہی دین ہے جس کی عبادتوں  میں  اجتماعی آداب سموئے ہوئے ہیں ۔ کس حد تک اور کس اہمیت کے ساتھ سموئے ہوئے ہیں ؟ اس امر کا تفصیلی جائزہ ذیل کی سطروں  میں  ملاحظہ کیجئے:

 نماز: اس سلسلے میں  ہمیں  قدرتی طور پر سب سے پہلے نماز کو لینا چاہئے، کیونکہ ساری عبادتوں  میں  وہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ پورے دین کا مغز اور بندگی کا سرچشمہ ہے اور اسے اسلام کا شاہ ستون (عِمَادُ الدِّیْن) فرمایا گیا ہے۔ اس عبادت کو جن شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں  یہ امور بھی شامل ہیں :

 (1): نماز ادا کرتے وقت ہر مسلمان کا رخ ایک ہی خاص مقام (کعبہ) کی طرف ہونا چاہئے۔ ’’وَحَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ‘‘(بقرہ)۔ کسی کا مسلمان تسلیم کیا جانا موقوف ہے اس بات پر کہ وہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے (من صلی صلوٰتنا واستقبل قبلتنا و اکل ذبیحتنا فذالک المسلم… الخ )، (بخاری، جلد اول، 56)۔ ایک ہی خاص مقام کی طرف رخ کرنے کا ایسا تاکیدی حکم اس حقیقت کے باوجود ہے کہ نماز جس اللہ کی یاد کا نام ہے وہ ہر جگہ اور ہر طرف ہے، کسی خاص جگہ یا کسی خاص سمت میں  محدود نہیں  ہے، جیسا کہ خود قرآن مجید نے اس کا اعلان کیا ہے اور واضح ترین لفظوں  میں  کیا ہے (فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ، بقرہ)۔

 (2) : فرض نماز کو … ان فرض نمازوں  کو جو تمام نمازوں  کے درمیان فی الواقع اصل نماز ہیں … اکٹھے مل کر ادا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اور نماز باجماعت کا ثواب، اس نماز کے مقابلے میں  ستائیس گنا بتایا گیا ہے جو اکیلے پڑھ لی گئی ہو، (بخاری، جلد 1)۔

 نماز کی یہ باجماعت ادائیگی جس حد تک ضروری ہے اس کا اندازہ صرف اسی ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں  کے بارے میں ، جو کسی عذر کے بغیر نماز باجماعت سے غیر حاضر تھے، فرمایا ’’میرا ارادہ ہوتا ہے کہ کسی کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کیلئے مقرر کردوں ، پھر ان لوگوں  کے پاس جاؤں  جو نماز باجماعت میں  حاضر نہیں  ہوتے، اور حکم دوں  کہ لکڑیوں  کے گٹھر ڈال کر ان کے سمیت ان کے گھروں  کو پھونک دیا جائے‘‘ (مسلم، جلد 1)۔

 یہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں  جو رحم و شفقت کا پیکر تھا۔ اس کے باوجود تارکِ جماعت کے بارے میں  آپؐ کی زبان سے ایسے سخت اور دہشت بھرے الفاظ کا نکلنا بتاتا ہے کہ باجماعت نماز پڑھنا کوئی معمولی کوتاہی نہیں  بلکہ ایک سنگین معصیت ہے۔

(3): نماز کو اکٹھے مل کر اور باجماعت ادا کرنے کے سلسلے میں  صرف اتنی ہی بات کافی نہیں  ہے کہ لوگ اپنے گھروں  سے نکل کر ایک جگہ جمع ہوجائیں  اور پھر اپنے اپنے طور پر اللہ کی یاد میں  مشغول ہو رہیں ؛ بلکہ ضروری ہے کہ سب لوگ صفیں  باندھ کر اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں  اور صفیں  تیر کی طرح سیدھی ہوں ، (بخاری، جلد 1)۔ پھر سب میں  سے ایک اہل تر شخص پوری جماعت کا امام ہو، جو سب کے آگے کھڑا ہو اور سب لوگ اس کی اقتداء میں  یہ فریضہ ادا کریں ۔ اقتداء ایسی کامل ہو کہ پوری جماعت کی ایک ایک حرکت امام کی حرکت کے تابع ہو۔ پوری جماعت امام ہی کے ساتھ کھڑی ہو، اس کے ساتھ جھکے،  اس کے ساتھ سجدے میں  جائے، اسی کے ساتھ قعدہ کرے، جس وقت وہ قرأت کر رہا ہو پوری خامشی اور یکسوئی کے ساتھ اس کی سماعت کرے۔ نماز کی ادائیگی میں  اگر وہ کسی بھول چوک کا مرتکب ہورہا ہو تو بھی اس کی اقتداء سے علاحدگی اختیار کرلینے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ بس ’سبحان اللہ‘ کہہ کر اسے اس غلطی پر متنبہ کر دیا جائے۔

 یہ دونوں  باتیں  … صف بندی اور امام کی پیروی … محض فضائل نماز کا مرتبہ نہیں  رکھتیں  بلکہ وہ نماز با جماعت کی شرطوں  میں  داخل ہیں ۔ ان میں  اگر نقص رہا تو یہ نقص نماز کو بھی ناقص بلکہ بے سود بنا کر رکھ دیتا ہے اور اس سے صرف آخرت ہی نہیں ، دنیا کی زندگی بھی تباہیوں  کے خطرات میں  جاگھرتی ہے۔ ایک شخص کا سینہ صف سے ذرا باہر نکلا ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی:

 ’’اللہ کے بندو! اپنی صفوں  کو ضرور ہی درست اور سیدھی رکھو، ورنہ اللہ تمہارے رخ ایک دوسرے کے خلاف کر دے گا‘‘ (مسلم، جلد 1)۔

 ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص نماز کی کسی صف کو جوڑے گا اسے اللہ جوڑے گا اور جو کسی صف کو کاٹے گا اسے اللہ کاٹ دے گا‘‘ (ابو داؤد، جلد اول)۔

 اسی طرح امام کی اقتداء کے سلسلے میں  آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’جب تم میں  سے کوئی شخص امام سے پہلے ہی (مثلاً رکوع سے) اپنا سر اٹھا لیتا ہے تو کیا اسے اس وقت اس بات کا ڈر نہیں  رہتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سرکو گدھے کا سر بنا دے گا‘‘ (مسلم، جلد 1)۔

(4): نماز کو جماعت کے ساتھ اور ایک امام کی اقتداء میں  ادا کرنے کا یہ حکم عام، ظاہر ہے کہ ’محلہ داری‘ نوعیت کا ہے، یعنی اس حکم کا منشاء یہ ہے کہ بستی کے ہر محلہ کے لوگ اپنی پانچوں  فرض نمازیں  اپنے محلے کی مسجد میں  باجماعت ادا کریں ؛ لیکن اس سلسلے میں  شریعت اسی پر بس نہیں  کرتی بلکہ ابھی اور آگے جاتی ہے اور ہدایت دیتی ہے کہ ہفتہ میں  ایک نماز اس طرح پڑھی جائے کہ بستی کے تمام باشندے ایک ہی مسجد میں  اکٹھے ہوجائیں  اور پوری بستی ایک جگہ، ایک امام کے پیچھے، ایک ساتھ اپنے رب کے حضور جھکے۔ یہ جمعہ کی نماز ہے۔ اس نماز کی عظمت اور اہمیت سورۂ جمعہ کا نظم کلام یہ بتاتا ہے کہ امت مسلمہ اپنا فرض منصبی اسی وقت ٹھیک ٹھیک ادا کرسکتی ہے جبکہ اس کا طرز فکر و عمل کا اپنی حقیقی شان کے ساتھ باقی رہنا جن باتوں  پر موقوف ہے ان میں  سے ایک یہ نماز جمعہ کی اقامت بھی ہے۔ اگر مسلمانوں  نے اس نماز کا حق نہ ادا کیا تو وہ بھی اسی قانونِ خداوندی کی زد میں  آسکتے ہیں  جس کی زد میں  آکر پچھلی ملتیں  (خصوصاً ملت یہود) ذلت کی موت مرچکی ہیں ۔ کچھ ایسی ہی ہدایت اور تنبیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے۔ آپؐ کا صریح ارشاد ہے کہ ’’لوگوں  کو جمعہ کی نماز چھوڑنے سے باز ہی آجانا چاہئے، ورنہ ایسا ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں  پر مہر کر دے گا اور پھر وہ حق سے غافل ہوکر رہ جائیں  گے‘‘ (مسلم، جلد 1)۔

(5): نماز میں  جو کچھ پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے، اس میں  کثرت سے جمع کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں ، مثلاً ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ (خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں ) ’’اِیّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ (ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں ) ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ (ہمیں  سیدھی راہ چلا) ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ (اے ہمارے پروردگار! حمد تیرے ہی لئے ہے) ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ‘‘ (سلامتی ہو ہم سب پر اور اللہ کے سارے بندوں  پر) وغیرہ … اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نماز ادا کرتے وقت لوگوں  کو جس طرح ظاہری طور پر اکٹھے اور صف بستہ ہو رہنے کی ہدایت ہے، اسی طرح ذہنی طور پر بھی باہمی وحدت اور یگانگی کا احساس رکھنے کا حکم ہے۔

  یہ امور ایسے ہیں  جن کے بغیر نماز، نماز ہوتی ہی نہیں ۔ واضح طور پر یہ سب اجتماعی آداب ہیں ، اور ان کا منشا اس کے سوا اور کچھ نہیں  کہ نماز کو شعورِ اجتماعیت اور احساس نظم و انضباط کا بھی سرچشمہ بنا دیا جائے، مسلمان جس وقت پوری توجہ سے بلکہ اپنے پورے وجود سے اللہ تعالیٰ کی طرف کھنچا ہوا ہوتا ہے اس کیلئے اس وقت بھی ایک جماعت کا جزو ہونے کی واقعیت ناقابل فراموش ہو، وہ حضوری کے ان مخصوص ترین لمحات میں  بھی اپنے کو ایسامستقل اور بے ہمہ فرد نہ تصور کرے جو اپنے فرائض، اپنے مقصد حیات اور اپنے مفادات کے لحاظ سے دوسرے تمام اہل ایمان سے بالکل الگ تھلگ ہو، اور ان فرائض کی تکمیل اور ان مقاصد و مفادات کی تحصیل میں  ان سے نہ کوئی ربط رکھتا ہو نہ اس ربط کی کوئی ضرورت محسوس کرتا ہو۔ اس کے بخلاف وہ اپنی دعاؤں  اور گزارشوں  تک سے بھی یہ حقیقت بار بار نمایاں  کرتا رہے کہ اس کے سامنے اپنی انفرادیت کا استقلال بھی ہے اور جماعت کا ناقابل فراموش ارتباط بھی۔ وہ خشکی کا مسافر نہیں  ہے کہ اکیلے ہی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا، بلکہ کشتی کا مسافر ہے جو عام حالات میں  سارے اہل کشتی کے ساتھ ہی ساحل مراد پر قدم رکھ سکتا ہے۔

اب نماز کے ان سارے اجتماعی آداب کو اور ان کے پیچھے کام کرنے والے اس منشا کو سامنے رکھ کر اندازہ لگائے کہ اس عبادت میں  اجتماعیت کی روح کس زور و قوت کے ساتھ رچا بسا دی گئی ہے اور اس سے اسلام میں  اجتماعیت کا مقام کتنا عظیم دکھائی دینے لگتا ہے! لیکن اندازہ صحیح اور مکمل نہ ہوگا جب تک کہ نماز کے بنیادی مقصد اور اس کی اصل غرض و غایت پر ان آداب کی مناسبت کا حال بھی نظر میں  نہ ہو۔ نماز کی اصل غرض خدا کے دربار کی حاضری اور اس کا ذکر ہے اور اس ذکر کی جان، دل کا عاجزانہ جھکاؤ ہے۔ یہ دونوں  جانی بوجھی حقیقتیں  ہیں ۔ غور کیجئے کہ نماز کے اس اصل مقصود کو حاصل کرنے کیلئے کون سا مقام زیادہ سازگار ہوسکتا ہے؟ گوشۂ تنہائی یا مجمع عام؟ یادِ الٰہی کا استغراق، خلوت کا سکون چاہتا ہے یا جلوت کی ہماہمی؟ دل کو خشوع کی دولت زیادہ آسانی کے ساتھ سنسان فضا میں  میسر آیا کرتی ہے یا محروم سکوت ماحول میں ؟ اس سوال کا جواب کوئی شک نہیں  کہ صرف ایک ہی ہوگا۔ ہر شخص یہی کہے گا کہ اللہ کی یاد، دل کی کامل یکسوئی چاہتی ہے اور دل کی کامل یکسوئی، تنہائی کا سکوت مانگتی ہے… اب ایک طرف تو نماز کا یہ اصل مقصد، اور اس مقصد کے حاصل ہوسکنے کی یہ مطلوبہ شکل دیکھئے، دوسری طرف شریعت کا یہ فرمان سنئے کہ فرض نمازوں  کیلئے اجتماع ضروری ہے اور تنہائی ناقابل معافی جرم، پھر اجتماع بھی اجتماع محض نہیں  بلکہ انتہائی معیاری اور پوری طرح کسا بندھا اجتماع۔ صفیں  باندھنا ضروری، صفوں  کو تیر کی طرح سیدھا رکھنا ضروری، لوگوں  کا باہم مل کر اور جڑ کر کھڑا ہونا ضروری، ایک شخص کا امام اور باقی تمام لوگوں  کا اس کا مقتدی ہونا ضروری، امام کی پیروی میں  اور اس کے اشاروں  کے مطابق ہی سب کا ایک ساتھ کھڑا ہونا، ایک ساتھ جھکنا، ایک ساتھ سجدہ کرنا، ایک ساتھ بیٹھنا اور پھر ایک ہی ساتھ نماز ختم کرنا سب ضروری!!!

 بات بظاہر کتنی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ نماز کی اقامت ایسے آداب و شرائط پر موقوف ہو جو دل کی یکسوئی اور باطن کے خشوع میں  رہ رہ کر خلل ڈال سکتے ہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں  کیا گیا؟ اور جو چیزیں  نماز کے اصل مقصد تک میں  خلل ڈال سکتی ہوں  انھیں  فعل نماز کے اندر گوا را ہی نہیں  بلکہ الٹا ضروری تک کیسے قرار دے دیا گیا ہے؟ اس غور وفکر کے بعد آپ جس نتیجہ پر بھی پہنچیں ، اس کے اندر یہ حقیقت بھی لازماً داخل ہی ہوگی کہ شارع اسلام کو مسلمانوں  کے اندر منظم اجتماعیت کا شعور بیدار اور مستحکم رکھنا انتہائی اور غیر معمولی حد تک عزیز تھا، اتنا عزیز کہ نماز کے اصل مقصد تک کے حصول میں  دشواریاں  پیدا ہوجانے کے کھلے ہوئے عملی امکان پر اس نے اس شعور کی بیداری اور استحکام کو ترجیح دی۔ بلا شبہ یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ ملت میں  منظم اجتماعیت کے شعور کو بیدار رکھنا بجائے خود اقامت نماز کا ایک ذیلی مقصد ہے۔

تحریر: مولانا صدر الدین اصلاحیؒ… ترتیب:  عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔