سقہ بچہ : دو ھزار سولہ کی آخری کہانی

ایم.اے. فاروقی

مغلیہ خاندان کے مشہور بادشاہ ہمایوں کی زندگی بڑے نشیب و فراز سے گزری، فراز دیکھنا تو کم نصیب ہوا، ہان نشیب کی سیاحی اس نے خوب کی، در بدری اس کا مقدر بنی رہی، شیر شاہ سوری کے آسیب نے کبھی چین سے نہ بیٹھنے دیا، بھائی برادران یوسف کے بھیس میں اس کی ہر مہم کو ناکام کرتے رہے، مگر وہ بیچارہ محبت کا مارا باپ کی وصیت کو سینے سے لگائے ان کی ہر شرارت اور خباثت کو نظر انداز کرتا رہا۔

مورخین نے اس کی زندگی کا ایک دلچسپ قصہ بیان کیا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ درباری مورخین اور شاہی وقائع نگاروں کے ہر بیان کی توثیق نہیں کی جا سکتی ہے، ان کا حال بھی ھندوستانی میڈیا کی طرح تھا، وہی لکھتے تھے جس سے بادشاہ خوش ہوجائے اور انعامات و اکرامات سے ان کا گھر بھر دے، یہ مورخین بڑے ڈپلومیٹ اور مصلحت کوش ہوا کرتے تھے، شاہی فرامین کے فوائد کی پبلسٹی میں آج کے چینلز سے بھی آگے تھیہماری مجبوری یہ ہے کہ اس دور کے واقعات جاننے کا وہی واحدذریعہ ہیں،

آمدم بر سرے مطلب ہمایوں کا ایک درباری اور مقرب سقہ کے لقب سے معروف تھا، اس کے نام میں اختلاف ہے کوئی اس کا نام ابراھیم بتلاتا ہے کوئی نظام اور کوئی مورخ سنبل سقہ لکھتا ہے، گلبدن بیگم نے ہمایوں نامہ میں سقہ کے واقعہ کا ذکر بڑی حقارت اور نا پسندیدگی سے کیاہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمایوں کی ناک کا بال اور بڑا وفادار تھا، وقائع نگار اور مغلیہ تاریخ کے ماہرین اسے سقہ ضرور کہتے اور لکھتے ہیں، لیکن اسے سقہ گیری کرتے کسی نے دیکھا نہیں تھا، یہ اس کی کسر نفسی تھی کہ اس نے کبھی سقہ گیری کی تردید نہیں کی، اس کے بر عکس کبھی اپنی زندگی کی داستان سناتا تو کہتا دیکھو ایک سقہ بچہ اپنی ذہانت اور صلاحیت کے بل بوتے تم لوگوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ہمایوں بنگال، چنار اور بنارس سے بھاگا تو چوسر پہنچا، دریا اپھان پر تھا مگر شیر خاں کا خوف ایسا طاری تھا کہ گھوڑا دریا میں ڈال دیا، ممکن تھا کہ دریا کی طغیانی اسے نگل جاتی اور نسل تیموری کا خاتمہ ہوجاتا کہ اچانک سقہ غیبی فرشتہ کی طرح نمودار ہوا اورہمایوں کو بھنور سے باہر نکال لیا۔

ہمایوں سقہ کے اس احسان تلے دب گیا، سوری خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا اس کے باوجود اس کی شوخ طبیعت معجونی محفل سجانے سے باز نہ آئی، اسی محفل میں ہمایوں نے سقہ کو دو دن کے لئے تخت و تاج کا مالک بنا دیا نیز درباریوں اور عسکریوں کو اس کے احکام ماننے کا پابند کر دیا، ہمایوں کی اس حرکت سے شاہی خاندان کے افراد ناراض ہو کر واک آؤٹ کر گئے، کچھ محققین کا موقف ہے کہ ہمایوں کی یہ حرکت محض تفریح طبع تھی، پہلے ہی دن سقہ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جو نہایت پیچیدہ تھا، خازن نے یہ ہولناک اطلاع دی کہ بادشاہ سلامت! خزانہ خالی ہو چکا ہے، عسکریوں کو تنخواہ نہیں ملی تو وہ ملازمت چھوڑدیں گے، درباری امرا بھی پر تول رہے ہیں، سقہ پہلے تو گھبراگیا اور سیدھا ہمایوں کے پاس پہنچا اور عرض کی:” حضور!میں باز آیا ایسی حکومت سے، آپ اپنی مملکت سنبھالیں، میں غریب آدمی کہاں سے پیسوں کا انتظام کروں ؟” بادشاہ نے اسے تسلی دلاسا دیااور کچھ راز و نیاز کی باتیں کیں، سقہ مطمئن ہو کر واپس چلا گیا

دوسرے دن سقہ نے ایک ٗعظیم الشان دربار منعقد کیا، جس میں انواع واقسام کے کھانے کا انتظام تھا، مے نوشی اور رقص و موسیقی کا بھی اھتمام تھا اس دربار مین شہر کے معززین بھی مدعو تھے گھنٹوں یہ پروگرام چلا، آخر مین سقہ نے ایک پرجوش اور پر سوز تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس وقت ہماری حکومت کا وجود خطرے میں ہے، وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی حکومت کو بچانے اور اپنے باشاہ کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کریں ہمارا خزانہ خالی ہے ہم ہتھیار نہیں خرید سکتے، دشمن ہم کو نگل لینا چاھتا ہے، ہم نے بادشاہ کا نمک کھایا ہے ہم سر کٹا سکتے ہیں سر جھکا سکتے نہیں، تقریر کے بعد اس نے امرا کے سامنے ایک دل کش تجویز رکھی کہ آپ لوگ اپنی وسعت کے مطابق اپنی رقم سرکاری خزانے مین جمع کردیں، ہم آپ کو بطور سند ایک چرمی وثیقہ دیں گے، بحران کے خاتمے کے بعد ہم نہ صرف آپ کی رقم واپس کر دیں گے بلکہ بطور انعام دو گنی رقم اس مین اضافہ کریں گے، لوگوں نے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، خزانہ بھر گیا اور توقع سے زیادہ رقم ہاتھ میں آگئی۔

سقہ کی مدت حکومت اسی شام کو ختم ہوگء، ہمایوں نے دوبارہ کاروبار مملکت سنبھال لیا، شب میں جاسوسوں نے خبر دی کہ غنیم سر پر آگیا ہے، ہمایوں نے ڈیرہ ڈنڈا اٹھایا اور سیدھا لاہور کا رخ کیا، اپا دھاپی میں شاہی خاندان کی کئی خواتین بھی گم ہوگئیں، ہمایوں لٹے ہوئے مسافر کی طرح لاہور پہنچا، دم بھی نہ لینے پایا تھا کہ آندھی طوفان کی طرح شیر خاں وہاں بھی پہنچ گیا، ھمایوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا:” شیر بھیا اب تو پیچھا چھوڑ دو میں نے تمھارے لئے پورا ہندوستان چھوڑ دیا۔” شیر خاں نے دریا دلی سے جواب دیا:” لاہور چھوڑ دے میں نے تجھے کابل بخش دیا، ”تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سقہ اور شاہی خزانہ کہاں گیا؟ مگرہمایوں کے عزم و استقلال کی ضرور داد دینی پڑیگی کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے چند وفادار رفقا اور اہل خانہ کے ساتھ ایران پہنچا اور ایرانیوں کی مدد سے ۵۵۵۱ء میں دوبارہ ہندوستان پر قابض ہوا۔

تبصرے بند ہیں۔