سلطنت اور دین کا تعلق – (تیسری قسط )

تحریر: سید سلیمان ندوی ۔ ترتیب:عبدالعزیز

سلطنت و ملکیت کی حقیقت: اب دین کی تشریح کے بعد حکومت و سلطنت و ولایت کی تھوڑی تشریح کی ضرورت ہے۔ عام لوگ حکومت و سلطنت کو عیش و تنعم کے ایوانِ زر نگار، تاج اور زمردیں تخت کی روشنی اور زریں کمر بند غلاموں کے جھرمٹ میں تلاش کرتے ہیں یا جلال و جبروت اور قہر و ہیبت کی تلواروں کے سائے میں، لیکن اسلام نے جس حکومت کی تعلیم دی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کی جو عملی مثال پیش کی ہے وہ ان تمام مناظر سے قطعاً خالی ہے۔
اسلام نے ملک کے الفاظ ترک کردیئے: سلطنت و حکومت اور ولایت و ریاست کا رائج الوقت تخیل اسلام کے قانون میں اصلاً نہیں ہے بلکہ اسلام نے سلطنت، حکومت اور بادشاہی و شہنشاہی کے الفاظ کو بھی جوہر زبان میں رائج تھے، قطعاً چھوڑ دیا، سب سے عام لفظ ملک کا تھا اور اس سے اونچا لفظ شہنشاہ کا تھا، ایران کے شہنشاہ کسریٰ اور روم کے امیر قیصر کہلاتے تھے، مگر تعلیم محمدیؐ نے ان سب لفظوں سے جو جبر و قہر اور ظلم و ستم کے مظہر تھے، پرہیز کیا، الملک کے مادہ میں ملکیت اور ماملکیت کا تصور ہے جو اسلامی عقیدہ کے سراسر منافی ہے، اس لئے اس لفظ سے بھی پرہیز کیا، اسلام کی تعلیم میں حقیقی مالک اور حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہے اس لئے ’الملک‘ ہونے کا استحقاق اسی کو ہے، چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا یہ وصف بار بار بیان ہوا ہے۔
’’کہوکہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں، لوگوں کے حقیقی بادشاہ کی، لوگوں کے معبود برحق کی‘‘ (الناس:1)۔
’’اَلْمَلِکُ الُقُدُّوْسُ السَّلَامُ ’’بادشاہ حقیقی، پاک ذات (ہر عیب سے) امن و امان والا‘‘ (حشر:3)۔
فَتَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ’’تو خدا جو سچا بادشاہ ہے‘‘ (مومنون:6)۔
اَلْمَلِکُ الُقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ’’بادشاہ حقیقی، پاک ذات، زبردست حکمت والا‘‘ جمعہ:1)۔
یہ آیت قرآن پاک میں چھ جگہ آئی ہے اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ ہی کو ’الملک الحق‘ یعنی بادشاہ برحق فرمایا گیا ہے، یہاں ایک نکتہ خاص طور سے لحاظ کے قابل ہے، ان آیتوں میں کہیں بھی تنہا ’الملک‘ نہیں آیا بلکہ اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی صفت اور اضافت ضرور لگائی گئی ہے، مثلاً اوپر کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کو ’ملک الناس‘ (لوگوں کا بادشاہ) کہا گیا تو ساتھ ہی اس سے پہلے ’رب الناس‘(لوگوں کا پالنہار) بھی کہہ دیا گیا ہے تاکہ اس کی ربوبیت کا بھی اظہار ہو۔ دوسری آیت میں ’الملک‘ کے ساتھ اول ’القدوس‘ (مقدس وپاک) اور پھر ’السلام‘(امن و امان والا) کہا گیا تاکہ اس کے ساتھ اس کی پاکی و سلامتی ظاہر ہوجائے۔ تیسری آیت میں الملک کے ساتھ الحق (برحق) کی صفت آئی ہے۔ چوتھی آیت میں الملک کے ساتھ القدوس (پاک)، العزیز (غالب)، الحکیم (حکمت والا) کی صفتیں آئی ہیں۔ ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الملک کے لفظ کے اندر ظلم و سفاکی، قہر و جبر اور بے رحمی و سخت دلی کا ایسا مفہوم ذہن انسانی میں پیدا ہوگیا تھا کہ اس لفظ کے ساتھ کسی نئی صفت کے بڑھائے بغیر اس مفہوم کا ازالہ نہیں ہوسکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاں جہاں اپنے لئے اس لفظ کا استعمال کیا ہے، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی صفت ضرور لگا دی ہے۔
لفظ ملک الملوک کی ممانعت: عربی میں ملک الاملاک یا ملک الملوک اور فارسی میں شاہنشاہ یعنہ شاہ شاہاں بولا جاتا تھا اور اس کا تصور بادشاہوں کے تعلق سے ہر زبان میں مبالغہ کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ اسلام میں شاہِ شاہاں، شہنشاہ، ملک الملوک صرف ایک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف ارشاد فرمایا:
’’سب سے بدتر نام اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ کو شہنشاہ کہے‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الادب)۔
معانی جن الفاظ سے ادا کئے جاتے ہیں اگر ان کی اصلیت محفوظ ہو تو معلوم ہوگا کہ الفاظ کے اندر بڑی حقیقت چھپی رہتی ہے، اسلام کی زبان میں اپنی طرزِ حکومت کے فرد عامل کا نام خلیفہ اور اس کی حکومت کا نام خلافت ہے۔ ’خلیفہ‘ عربی زبان میں قائم مقام اور نائب کو کہتے ہیں، اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خود حاکم و فرماں روا نہیں بلکہ وہ اس حکومت میں کسی کا نائب اور قائم مقام ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس کی نیابت کرتا ہے اور کس کا قایم مقام ہے؟
حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ قرآن مجید اور توراۃ دونوں صحیفوں میں مذکور ہے، مگر دونوں کے نتیجے الگ الگ ہیں۔ توراۃ میں یہ بیان صرف حضرت آدمؑ کے آغاز پیدائش کی تاریخ کی حیثیت سے ہے لیکن قرآن کا یہ بیان اسلام کے دینیات اور سیاسیات کا ایک بنیادی پتھر ہے، اسلام میں ایک طرف تو انسان کا مکلف ہونا، اس کا اصلی مقام بہشت ہونا، جزا و سزا کا راز، رسالت و نبوت کی ضرورت اور پیغمبروں کے آنے کی مصلحت اس قصہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ دوسری طرف کائنات میں انسان کے اصلی مقام و مرتبہ کی تعیین، دنیا میں اس کے فرائض، احکام الٰہی کی بجا آوری کی صورت اور خدا کی دوسری مخلوقات کے ساتھ اس کے برتاؤ کی حیثیت واضح ہوتی ہے، پہلی چیز اسلام کے اساسی عقاید ہیں اور دوسری چیز اسلامی سیاسیات کے بنیادی مبادی ہیں ۔
قرآن پاک میں اس قصہ کا آغاز ان لفظوں سے ہوا ہے:
’’اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ (بقرہ:4)۔
یہ خلیفہ حضرت آدمؑ تھے، جو تمام بنی آدم کے قایم مقام ہوکر اس شرف سے ممتاز ہوئے، اس لئے دوسرے موقعوں پر آدمؑ کے بجائے سارے بنی آدم کو اس شرف سے مفتخر اور ممتاز فرمایا گیا ہے، چنانچہ فرمایا:
’’ہم نے آدمؑ کے بیٹوں (بنی آدم) کو عزت بخشی، اور ان کو خشکی اور تری میں ہم اٹھائے ہیں اور ان کو پاک چیزیں روزی کیں، اور ہم نے ان کو اپنی بہتیری مخلوقات پر بزرگی دی‘‘ (قرآن)۔
اور اسی شرف و امتیاز کی بنا پر آدمؑ بنی آدم کے ساتھ ملا کر صیغۂ جمع استعمال فرمایا گیا ہے: ’’تم سب بہشت سے نیچے اتر جاؤ، اب اگر تم لوگوں کے پاس میری طرف سے کوئی پیغمبرانہ رہنمائی آئے تو جومیری رہنمائی کی پیروی کریں گے تو ان کو نہ کوئی ڈر ہوگا اور نہ وہ غم اٹھائیں گے‘‘ (بقرہ:4)۔
سورہ اعراف میں ارشاد الٰہی ہے: ’’اور ہم نے زمین میں تم کو قدرت بخشی اور اس میں تمہارے لئے زندگی بسر کرنے کے معاشی طریقے بنائے، تم بہت کم میرے احسان کی قدر کرتے ہو اور ہم نے تم کو وجود بخشا، پھر تمہاری صورتیں بنائیں، پھر فرشتوں سے ہم نے کہاکہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں نہ تھا‘‘ (اعراف:2)۔
ان آیتوں سے ظاہر ہوا کہ حضرت آدمؑ کو جو عزت اور سرفرازی ملی وہ ان کی وراثت سے تمام بنی آدمؑ کے حصہ میں آئی، اس لئے حضرت آدمؑ کو زمین کی خلافت کی جو سعادت عطا ہوئی وہ پورے بنی نوع آدم کو نصیب ہوئی۔ سورہ انعام کے آکر میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اور وہی (خدا) وہ ہے جس نے تما (انسانوں) کو زمین میں خلیفہ بنایا اور (تم میں سے) ایک کا دوسرے پر درجہ بڑھایا، تاکہ تم کو جو دیا اس میں تم کو آزمائے، بیشک تیرا پروردگار جلد سزا دینے والا ہے اور بے شبہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ (انعام:2)۔
یہاں پہنچ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی آدم کو یہ خلافت یا نیابت کس کی عطا کی گئی ہے؟ قرآن پاک میں ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو نیابت اور جانشینی عطا ہوتی رہی ہے، جیسے عاد کی قوم کو حضرت نوحؑ کی قوم کا جانشیں فرمایا:
’’اور یاد کرو اللہ نے تم کو نوحؑ کے بعد جانشینی بخشی‘‘ (اعراف:9)۔
’’اور یاد کرو جب تم کو عاد کے بعد نیابت بخشی‘‘ (اعراف: 10)۔
حضرت ہودؑ اپنی قوم کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر تم نے اللہ کی فرماں برداری نہ کی ’’تو میرا رب تمہارے علاوہ کسی اور قوم کو خلافت بخشے گا‘‘ (ہود:5)۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ارشاد ہے: ’’اور خدا چاہے گا تو تم کو لے جائے گا اور تمہارے بعد جس کو چاہے خلافت و نیابت دے، جس طرح تم کو دوسرے لوگوں کی نسل سے پیدا کیا‘‘ (انعام: 16)۔
یا مسلمانوں سے وعدہ فرمایا: اللہ نے تم میں سے ان سے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، وعدہ کیا کہ ان کو زمین میں خلافت بخشے گا، جس طرح تم سے پہلوں کو خلافت بخشی‘‘ (نور:7)۔
قرآن پاک کی چار آیتوں میں کچھ قوموں کو دوسری قوموں کا خلیفہ اور جانشین ہونا بیان فرمایا گیا: ’’اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین کا جانشین بنایا‘‘ (انعام:20)۔
سورہ یونس میں تصریح ہے: ’’اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو، جب انھوں نے ظلم اختیار کیا، ہلاک کرچکے ہیں اور ان کے پاس پیغمبر کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے، ہم گنہگار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں، پھر ہم نے ان کے بعد تم لوگوں کو ملک میں خلیفہ بنایا تاکہ دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو‘‘ (یونس:2)۔
اس کے بعد نوح کی قوم کی تباہی کے بعد ارشاد ہے: ’’لیکن ان لوگوں نے ان (نوحؑ ) کی تکذیب کی تو ہم نے ان (نوح) کو اور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے سب کو (طوفان سے) بچالیا اور انھیں (زمین میں) خلیفہ بنادیا‘‘ (یونس:8)۔
سورۂ فاطر میں سارے انسانوں کو خلیفہ اور جانشین فرمایا گیا: ’’وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں (پہلوں کا) جانشین تو جس نے کفر کیا، اس کے کفر کا ضرر اسی کو ہے‘‘ (فاطر:4)۔
حضرت داؤدؑ کو خلافت بخشی گئی: ’’اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں جانشین بنایا ہے، تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو‘‘ (ص:1)۔
یہ لفظ خلیفہ خلف سے مشتق ہے جس کے معنی ’پیچھے کے‘ ہیں۔ اس لئے ایک کی غیر موجودگی میں خواہ وہ اس کی موت کے سبب سے ہو یا غیبوبت کے سبب سے ہو یا آنکھوں سے بظاہر اوجھل ہونے کی صورت میں ہو، اس کی طرف سے اس کے پیچھے جو نمائندہ ہوکر آئے وہ اس کا خلیفہ کہلاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ’’تو ان کے بعد ان کے جانشین آئے‘‘ (اعراف: 21 و مریم :7)۔
یہ موت کے بعد کی جانشینی کی صورت ہے، دوسری آیت ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے طور (پہاڑ)پر جاتے وقت حضرت ہارونؑ سے فرمایا: ’’میری قوم میں میرے جانشین یا نائب بنو‘‘ (اعراف:16)۔
یہ زندگی ہی میں جانشینی کی ایک شکل ہے۔ ’’اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتوں کو بناتے جو زمین میں خلافت کرتے‘‘ (زخرف:6)۔
اوپر کی تین آیتوں میں خلافت کا لفظ ذرا ذرا سے فرق سے تین معنوں میں آیا ہے۔ پہلی آیت میں ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کے آنے کے ہیں۔ دوسری آیت میں ایک کے کہیں چلے جانے کے بعد دوسرے کے آنے کے ہیں۔ اور تیسری آیت میں خلافت کے معنی میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہاکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو تمہاری جگہ فرشتوں کو بناتا جو تمہارے جانشین ہوتے۔ بعض نے کہاکہ تمہاری جگہ فرشتوں کو زمین پر آباد کر دیتا اور تیسرا قول یہ ہے کہ تمہاری جگہ فرشتوں کو بناتا جو زمین میں ایک دوسرے کے جانشین ہوتے چلے جاتے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔