سلطنت اور دین کا تعلق – قسط (1)

تحریر: سید سلیمان ندوی ۔۔۔ ترتیب:عبدالعزیز
دنیا میں اس دو قسم کی سلطنتیں ہیں: ایک وہ جس میں سلطنت کو مذہب سے قطعاً علاحدہ رکھا گیا، اور یہ کہا گیا ہے کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔ اس تعلیم میں قیصر اور خدا دو متقابل ہستیاں ہیں جن میں سے ایک کا حکم دوسرے سے بالکل الگ ہے، اسی پر یورپ کی موجودہ سلطنتیں قایم ہوئی ہیں اور اسی کی بنا پر دین و دنیا کی دو علاحدہ حدیں بنائی گئی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ سلطنتیں خدا پرستی، دین داری، صداقت اور اخلاصِ نیت کے ہر منظر سے عاری اور خالی ہوکر رہ گئی ہیں۔
دوسری قسم کی سلطنت وہ ہے جس میں مذہب کو اس سے الگ نہیں رکھا گیا ہے، لیکن مذہب کی لطیف و نازک روح کو سلطنتی قوانین و آئین و ضوابط کی رسیوں میں اس طرح جکڑ دیا گیا کہ مذہب کی لطافت جاتی رہی اور رسوم و قوانین کی خشکی نے اس کی جگہ لے لی، یہودیت اور برہمنیت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
اصل دین الٰہی ایک ہی ہے، ایک ہی رہا ہے، اور ازل سے ابد تک ایک ہی رہے گا، اور وہ اسلام ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ (خداکے نزدیک دین اسلام ہے)۔ اس دین کی جامعیت کی تشریح مختلف پہلوؤں سے کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے، انہی میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ سلطنت اور دین کا معتدل مجموعہ ہے، وہ ایسی سلطنت ہے جو ہمہ تن دین ہے یا ایسا دین جو سرتاپا سلطنت ہے، مگر سلطنت الٰہی، اس جمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس سلطنت الٰہی میں قیصر کا وجود نہیں ہے، اس میں ایک ہی اعلیٰ حاکم و آمر مانا گیا ہے، وہ حاکم علی الاطلاق اور شہنشاہ قادرِمطلق اللہ تعالیٰ ہے، جل شانہٗ و تعالیٰ اسمہٗ بادشاہی اسی کی ہے، حکم اسی کا ہے، فرمان صرف اسی کا صادر ہوتا ہے، دوسرے مجازی حاکموں اور آمروں کا حکم اسی وقت مانا جاتا ہے جب وہ عین حکم الٰہی ہو یا اس پر مبنی ہو اور کم از کم یہ کہ اس کے مخالف نہ ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصل دین کے سب سے آخری داعی، نبی اور پیغمبر تھے اور وہی اس سلطنت کے سب سے پہلے امیر، حاکم اور فرماں روا تھے، آپ کے احکام کی بجا آوری عین احکام خدا کی بجا آوری ہے۔
وَمَنْ یُّطِعُ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، اس نے خدا کی اطاعت کی‘‘ (نسا:11)
آپ کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے آپ کے جو جانشین اور خلفاء ہوئے ، ان میں بھی دین و دنیا کی یہی جامعیت تھی وہ جس طرح مسلمانوں کے امیر و حاکم اور ان کی سلطنت کے فرماں روا تھے، اسی طرح وہ دین کے پیشوا، امام اور مجتہد تھے اور ان کے احکام کی تعمیل بھی عین خدا اور رسول کے احکام کی تعمیل تھی، اور اب بھی مسلمان بادشاہوں کے وہ احکام جو خدا اور رسول کے حکم کے خلاف نہ ہوں، ہر مسلمان پر واجب التعمیل ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس نے میرے امیر کا کہا مانا، اس نے میرا کہا مانا، جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی‘‘(صحیح بخاری، کتاب الاحکام)۔
سلطنت اور دین کا یہ اتحاد اسلام کا سب سے بڑا نصب العین ہے، احکام الٰہی کے مطابق سلطنت کا جو کام بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی غرض سے کیا جائے وہ عین دین اور عین عبادت ہے، یہاں تک کہ امراء کا اپنی رعایا کی خدمت کرنا اور رعایا کا اپنے امراء اور حکام کی اطاعت کرنا بھی اطاعت الٰہی ہے بشرطیکہ دونوں کی نیت اور غرض اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجالانا ہو، غرض اسلام کی نظر میں سلطنت اور دین میں تفریق کاموں کی غرض و نیت سے ہے، خدا کیلئے اور خدا کی خوشنودی کے حصول کیلئے سیاست و سلطنت سے متعلق جو کام بھی حسب حکم الٰہی کیا جائے، وہ دین ہے۔ امام کی امامت، خلیفہ کی خلافت، راعی کی رعیت، والی کی ولایت، امیر کی امارت، حاکم کی حکومت، رعایا کی نگرانی، قاضی کی دادگری، عمال کا عمل، سپاہی کا قتال، مجاہد کا جہاد، محاصل کی ادائی، امراء کی واجبی اطاعت، غرض سلطنت کے تمام متعلقہ شعبوں سے متعلق جو کام بھی حسب احکام الٰہی اللہ کیلئے کیا جائے، وہ سب دین اور اطاعت اور موجب قربت ہے، سلاطین اگر اپنی سلطنت اور امراء اپنی امارت اور اسی طرح دوسری مفوضہ خدمات کے ذمہ دار اگر اپنی ذمہ داریوں اور خدمتوں کو چھوڑ کر شب و روز کسی گوشہ میں بیٹھ کر صرف یادِ الٰہی میں مصروف رہیں، جب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے فرائض سے غافل قرار پائیں گے، فرائض و واجبات و موکدات کی بجا آوری کے بعد ان کی بہترین عبادت یہی قرار دی گئی ہے کہ وہ خلوص کے ساتھ اپنے محولہ فرائض کی بجا آوری میں مصروف رہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا جو قصہ ’سورہ ص‘ میں ہے جس میں چند داد خواہوں کا دیوار پھاند کر حضرت داؤدؑ کے عبادت خانہ میں داخل ہوجانے اور ایک مقدمہ کے پیش کرنے کا ذکر ہے، قصہ خوانوں نے اس کو ایک بیہودہ کہانی بنا دیا ہے، حالانکہ وہ ان کی تنبیہ اس باب میں ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد خلیفہ کی سب سے بڑی عبادت رعایا کی خدمت ان کے معاملات کی دادگری اور ان کے کاموں کی نگرانی ہے، اور یہی احساسِ فرض ہے جس پر حضرت داؤد علیہ السلام کو متنبہ کیا گیا۔
’’اور داؤد نے سمجھا کہ ہم نے (یعنی خدا نے) ان کو آزمایا ہے، تو اپنے پروردگار سے انھوں نے معافی چاہی اور رکوع میں گر گئے اور رجوع کیا، تو ہم نے ان کو معاف کردیا اور ان کو ہمارے ہاں قرب کا درجہ اور پھر آنے کی اچھی جگہ حاصل ہے۔ اے داؤد!ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکم کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تم کو اللہ کے راستہ سے ہٹا دے گا‘‘ (ص:2)۔
آگے پیچھے کی آیتوں کے درمیان ربط و نظم سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام سلطنت کے فرائض اور مقدمات کے فیصلوں کو چھوڑ کر اپنے عبادت خانہ کے دروازہ کو بند کرکے خدا کی عبادت میں مصروف رہنے لگے، تو اس پر اللہ کی طرف سے ان کو تنبیہ کی گئی اور بتایا گیا کہ خلیفہ کا فرض یہ ہے کہ حسب احکام الٰہی فرائض خلافت کی ادائیگی میں مصروف رہے۔
جامع ترمذی اور مستدرک حاکم میں ایک حدیث ہے جو گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’جو امام و حاکم ضرورت مندوں سے اپنا دروازہ بند کرلیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کے وقت آسمان کا دروازہ بند کرلے گا‘‘ (ترمذی، ابواب الاحکام:227)۔
’’جو شخص مسلمانوں کے معاملہ کا ذمہ دار ہونے کے بعد ان کی ضرورت کے وقت اوٹ میں ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ضرورت و احتیاج کے وقت اوٹ میں ہوجائے گا‘‘ (مستدرک حاکم، کتاب الاحکام، ج4، ص93، حیدر آباد)۔
خلفائے راشدینؓ نے ان احکام کی پیروی یہاں تک کی کہ انھوں نے اینٹ اور چونے کی کوئی چہار دیواری بھی اپنے لئے نہیں کھڑی کی اور اپنی حق طلب رعایا کے بیچ میں ان کیلئے اجازت حاصل کرنے والے غلاموں کے سوا کوئی اوٹ قایم نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے جو کوفہ کے والی تھے، اپنے رہنے کیلئے ایک محل بنوایا اور اس میں پھاٹک لگایا، جب حضرت عمرؓ کو اس کی خبر پہنچی تو انھوں نے خاص طور سے مدینہ سے محمد بن مسلمہؓ کو اس لئے بھیجا کہ اس پھاٹک میں آگ لگاکر چلے آئیں، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی، وہ سیکڑوں میل کی مسافت طے کرکے وہاں گئے اور پہنچنے کے ساتھ اس پھاٹک میں آگ لگا دی۔ حضرت سعدؓ ابن ابی وقاص نے ان کو اپنے پاس ٹھہرانا چاہا اور زادِ راہ دینا چاہا تو اس کو بھی قبول نہیں کیا اور سیدھے مدینہ واپس چلے آئے۔ (ابن حنبل، ج1، ص54، مصر)
حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے زمانہ میں حملہ آوروں کے خوف سے جب محل میں لوگوں کی آمد و رفت پر روک ٹوک قایم کی اور ایک صحابی نے ان کو اس حکم نبویؐ سے باخبر کیا تو انھوں نے یہ تدبیر کی کہ پھاٹک پر ایک آدمی کو اس غرض سے مقرر کیا کہ جو اہل حاجت پہنچے تو اس کی ضرورت سن کر ان کو مطلع کردے۔ (ترمذی، ابواب الاحکام)
قرآن پاک میں بار بار حکام کو عدل و انصاف سے کام لینے اور اپنے ذمہ دارانہ فرائض کی بجا آوری کی تاکید کی گئی ہے، خصوصیت کے ساتھ ذیل کی آیتیں اپنے معنی کے عموم کے لحاظ سے فرائض حکومت کی پوری توضیح کرتی ہیں۔
’’امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے، بیشک خدا سنتا (اور) دیکھتا ہے، مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو اور جو کوئی تم میں صاحب حکومت ہیں، ان کی بھی، اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے‘‘ (نساء: 8) ۔
یہ آیتیں اسلامی سلطنت کے آئین کے باب میں اساسی حیثیت رکھتی ہیں، جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی، آیت کا پہلا ٹکڑا اپنے معنی کے لحاظ سے اہل تفسیر کی تصریح کے مطابق اس کا اطلاق حکام پر بھی ہوتا ہے، اور یہ بات کہ ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کیا جائے، امانت کا اعلیٰ درجہ اور حکومت کا پہلا فرض ہے۔
وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرْوا الْمِیْزَانَ ’’اور تول کو انصاف کے ساتھ قایم کرو، اور میزان میں کمی نہ کرو‘‘ (رحمن: 1)۔
یہ اور اس معنی کی اور آیتیں اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ حقوق کی ادائیگی میں پورا انصاف برتا جائے، اور جس پیمانہ سے تم دوسروں کیلئے تولتے ہو، اسی پیمانہ سے اپنے لئے بھی تولو۔
’’پھٹکار ہو ان تول میں بے ایمانی کرنے والوں پر جو لوگوں سے تول کر لیں تو پورا پورا لیں، اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا دیں‘‘ (مطففین)
یہ تول میں گھٹانا اور بڑھانا انصاف کے خلاف ہے، اور خلاف انصاف کرنے والا اللہ کی رحمت سے محروم رہے گا، اللہ کی محبت کے مستحق منصف اور عدل پرور ہی ہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ’’اور اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پیار کرتا ہے‘‘ (مائدہ، حجرات:6) ۔
اس آیت کی وسعت میں ہر طبقہ کے انصاف کرنے والے داخل ہیں۔ اس کے برخلاف کرنے والوں کے متعلق ارشاد ہے:
وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ’’اور اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (آل عمران:14-6)۔
اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ’’بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (شوریٰ:4)۔
’’ظلم‘‘ کے معنی کسی دوسرے کے حق کو دبانے کے ہیں، چاہے وہ اپنے ہی نفس کا ہو، یا عام بندوں کا ہو، یا خدا تعالیٰ کا ہو، ان آیتوں سے مقصود یہ ہے کہ حکومت اور اس کے فرائض اسلام میں دین کی حیثیت رکھتے ہیں، جس سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونا ثواب اور اس میں قصور گناہ ہے اور بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونا یہی ہے کہ وہ احکام الٰہی کے تحت ادا ہوں۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔