سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں اور ان کا توڑ

 ڈاکٹر احید حسن

13 دسمبر 1493ء میں استنبول میں ڈیوڈ بن سیموئیل ابن نہمیاس نے پہلی بار پرنٹنگ پریس قائم کیا اور عربی میں موجود ایک یہودی کتاب Turim عبرانی زبان میں شائع کی۔اگر یہ اتنا بڑا کفر اور حرام تھا تو اس وقت کی سلطنت عثمانیہ اور مولوی طبقہ یہ پرنٹنگ پریس کھولنے ہی نہ دیتے جب کہ اس کی مخالفت کی کوئی دلیل ہمیں نہیں ملتی۔کچھ لوگوں کے مطابق یہ پرنٹنگ پریس 1503ء یا 1504ء میں کھلا تھا۔1519-1523ء کے درمیان سلطنت عثمانیہ کے ایک صوبے اور موجودہ بوسنیا ہرزیگوینا میں چرچ آف سینٹ جارج نے کتابیں پرنٹ کرنا شروع کی لیکن یہاں بھی ہمیں اس وقت کی سلطنت عثمانیہ یا مذہبی طبقے کی طرف سے اس کی مخالفت کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔1567ء میں قسطنطنیہ یعنی استنبول میں ایک آرمینیائی باشندے نے آرمینیائی گرائمر کی ایک کتاب پرنٹ کی لیکن یہاں بھی ہمیں اس وقت کی سلطنت عثمانیہ یا مذہبی طبقے کی طرف سے مخالفت کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔

1584ء میں سلطنت عثمانیہ کے صوبے لبنان میں پرنٹنگ پریس شروع کیا لیکن یہاں بھی ہمیں اس وقت کی سلطنت عثمانیہ یا مذہبی طبقے کی طرف سے مخالفت کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔1610ء میں لبنان میں ایک اور پرنٹنگ پریس لگایا گیا۔1734ء میں لبنان میں عربی پرنٹنگ کے لیے پہلا پریس قائم کیا گیا۔1729ء میں عربی پرنٹنگ کے لیے استنبول میں پہلا پرنٹنگ پریس قائم کیا۔کہا جاتا ہے کہ خطاطوں اور علماء نے اس کی مخالفت کی لیکن اس کی کوئی مستند دلیل نہیں۔یہ 1742ء تک چلا جب روسی ترک جنگوں کے بعد یہ بند ہوا۔سوال یہ ہے کہ اگر پرنٹنگ پریس اتنا بڑا ہی گناہ تھا تو 1493ء سے ہی سلطنت عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس کیوں کھلنا شروع ہوئے۔یہاں تک کی کئ مورخین کے مطابق یورپ سے بھی بہت پہلے عرب پرنٹنگ کے کام سے واقف تھے اور اس پہ کئ تحقیقات جیسا کہ Enigmatic charms: medieval Arabic block printed amulets in American and European libraries and museums / by Karl R. Schaefer. Leiden; Boston: Brill, 2006 شائع ہوچکی ہیں۔1700ء کے بعد لبنان میں عبداللہ بن زخریا زاخر عربی کتابوں کی پرنٹنگ کے لیے پرنٹنگ پریس شروع کر چکے تھے اور 1819ء میں مصر کے حکمران محمد علی پاشا پرنٹنگ پریس قائم کرکے مصر میں یورپ کی جدید سائنس کے عربی زبان میں ترجمے اور پرنٹنگ کا کام شروع کر چکے تھے۔

اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ پرنٹنگ پریس پہ اسلامی حکومت یعنی خلافت عثمانیہ نے اس لیے پابندی عائد کی کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کا ایک خراد یعنی مشین سے گزر کر پبلش ہونا قرآن کی توہین تھی اور اس لیے عرب 18 ویں صدی تک پرنٹنگ پریس حاصل نہ کر سکے۔اس پہ مجھے دو اعتراض ہیں۔پہلا اعتراض پیش کرتا ہوں۔

اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ عربی کی پبلشنگ کے لیے پرنٹنگ پریس مولویوں اور سلطنت عثمانیہ کی زبردست مخالفت کی وجہ سے 1483ء سے 1729ء تک خلافت عثمانیہ میں جگہ نہیں پا سکا اور پرنٹنگ کی سزا موت تھی۔اعتراض کرنے والوں کے پاس اس کے دو حوالہ جات ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

Suraiya Faroqhi, Subjects of the Sultan: culture and daily life in the Ottoman Empire, pp, 134-136, I.B.Tauris, 2005, ISBN 1-85043-760-2, ISBN 978-1-85043-760-4;The Encyclopaedia of Islam: Fascicules 111-112 : Masrah Mawlid, Clifford Edmund BosworthWatson 1968, p. 435; Clogg 1979, p. 67اعتراض کرنے والوں کے اپنے لنک کے پہلے پیراگراف کا حوالہ یہ ہے article by Muhsin Mahdi, From the manuscript age to the age of printed books, in The Book in the Islamic World, ed. G.N.Atiyeh, State University of New York Press (1995), pp.1-16.  اب اس حوالے نے کس کے حوالے سے یہ بات کی۔اس کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی تاکہ اس مستند ہونے یا اس کی بات کی سند پہ مزید تحقیق اور بات ہوتی۔ خود ان تین حوالوں نے یہ بات ترکی کی کس تاریخی کتاب سے اخذ کی۔اس کا کوئی جواب ان حوالہ جات نے فراہم نہیں کیا۔

دوسری طرف ان  کا اپنا لنک کہ رہا ہے کہ the true cause was, that great numbers of themselves earned a considerable income by transcribing those books, which would be at once destroyed, if suffered to be printed.’  یعنی پرنٹنگ پریس پہ پابندی اگر سچ مان بھی لی جائے تو اس کی وجہ کسی مولوی کا فتوی نہیں بلکہ وہ لوگ تھے جو کتابیں لکھنے کا کاروبار کرتے تھے اور پرنٹنگ پریس سے ان کا سارا کاروبار تباہ ہوجاتا۔اب  یہ لنک خود ہی کسی مولوی کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے رہا بلکہ اس کی وجہ معاشرے کے دوسرے طبقے کو قرار دے رہا ہے۔بذات خود یہ بات بھی تاریخی طور پہ غلط ہے کہ خطاط اس میں رکاوٹ تھے۔یہ اور بات ہے کہ خطاطی کے معاشرے میں فروغ کی وجہ سے پرنٹنگ پریس تاخیر سے مقبولیت حاصل کر سکا لیکن کسی بھی مستند تاریخی حوالہ سے یہ ثابت نہیں کہ اس میں خطاط شریک تھے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ اور مولوی طبقہ کہتا تھا کہ قرآن کی پرنٹنگ قرآن کی توہین ہے اور پھر عثمانی بادشاہ بایزید دوم نے سلطنت عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس پہ پابندی لگا دی اور پرنٹنگ کی سزا موت تھی۔ویکی پیڈیا کے مطابق سلطنت عثمانیہ میں سب سے پہلے پرنٹ شدہ قرآن 1537/38ء میں اٹلی کے شہر وینس میں پرنٹ ہوا۔اب میرا سوال یہ ہے کہ اگر سلطنت عثمانیہ کی طرف سے عربی کی کتابوں اور قرآن کی پرنٹنگ پہ پابندی تھی تو پھر اسی سلطنت میں وینس میں پرنٹ شدہ قرآن کیسے آرہے تھے۔اس کا مطلب ہے کہ پابندی کی بات ہی جھوٹ ہے۔

یہ کونسی پابندی تھی جس میں دوسرے ممالک سے پرنٹ شدہ قرآن آرہے تھے اور اپنے ملک میں پرنٹنگ پریس پہ پابندی تھی۔دوسرے ممالک سے اس عرصے میں پرنٹ شدہ قرآن کا سلطنت عثمانیہ میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ پرنٹنگ کو قرآن کی توہین کا فتوی دے کر پرنٹنگ پہ پابندی کی بات ہی جھوٹ ہے۔اگر یہ بات سچ ہے تو کیا دوسرے ممالک سے آنے والے پرنٹ شدہ قرآن کے نسخے قرآن کی توہین نہیں تھے؟اس کا مطلب ہے کہ یہ بات ہی جھوٹ ہے۔

اور اگر پرنٹنگ پریس مکمل طور پہ ہی گناہ اور کفر کا کام تھا تو خلافت عثمانیہ کے تحت خود اس کے دارالحکومت قسطنطنیہ یعنی استنبول میں یہودیوں کے کئ پرنٹنگ پریس کیسے کام کر رہے تھے جن میں سے کئی 1498ء میں یعنی خود بایزید دوم کی حکمرانی میں قائم ہوئے جس کے بارے میں الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے مولویوں کے کہنے پہ پرنٹنگ پریس کو حرام قرار دے کر اس پہ پابندی لگادی تھی اور پرنٹنگ کی سزا موت تھی۔اگر یہ بات سچ ہے تو پھر خود استنبول یعنی سلطنت کے دارالحکومت میں کیسے یہودیوں کے پرنٹنگ پریس اور سلطنت کے حصے  مشرق وسطی میں عیسائیوں کے پرنٹنگ پریس کام کر رہے تھے جن کو پوپ جولیس نے 1503ء سے 1512،ء کے درمیان متعارف کرایا تھا؟ اگر پرنٹنگ پہ واقعی پابندی تھی تو خود سلطنت کے دارالحکومت اور اس کے دیگر صوبوں جیسا کہ مشرق وسطی میں پرنٹنگ پریس کیسے چل رہے تھے؟ اس کا مطلب ہے کہ پابندی کی بات ہی جھوٹ ہے۔

اگر واقعی مولوی لوگ پرنٹنگ پریس پہ قرآن کی پرنٹنگ کے خلاف تھے تو وہی مولوی وینس سے پرنٹ شدہ قرآن کے نسخے کیوں منگوا رہے تھے۔اعتراض کرنے والے اس بات کا کیا جواب دیں گے۔ یہ عین ممکن ہے کہ محدود ٹیکنالوجی اور اس کے ماہر افراد کی کمی کی وجہ سے نسخے باہر سے منگوایا جائیں لیکن باہر سے منگوانا ظاہر کر رہا ہے کہ پابندی اور توہین کی بات جھوٹ ہے۔اگر پرنٹنگ کی سزا موت تھی تو پرنٹ شدہ قرآن منگوانے کی سزا موت کیوں نہیں تھی۔خود اعتراض کرنے والوں کے  اپنے حوالہ جات میں تضاد ہے۔

اس وقت بھی پوری اسلامی دنیا میں جگہ جگہ پرنٹنگ پریس لگے ہوئے ہیں….. تو پھر آج کیا مسئلہ ہے مسلمانوں کو ؟ آپ کے بیانئے کی روح سے اگر پرنٹنگ پریس نہ لگانا مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا سبب تھا تو پھر تو آج مسلمانوں کو چاند پر پہنچ جانا چاہئیے تھا….

تو اب کس نی روکا ہے ؟ یہی تو میرا سوال ہے ؟ وہ چین اور جاپان جو 1948 تک ہم مسلمانوں سے بھی بتر تھے اگر وہ 50 سال میں پوری اسلامی دنیا سے آگے نکل سکتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے ؟ اب تو پرنٹنگ پریس بھی گلی گلی موجود ہیں….کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ مولوی لوگ مدرسے میں دین پڑھاتے ہیں اسلیۓ دنیاوی تعلیم میں ہم پیچھے رہ گئے, اور ہمارے یہاں سائنسدان بھی پیدا نہیں ہو رہے, جب ان سے پوچھا جاۓ کہ مولوی نے کب کہا کہ دنیاوی تعلیم حرام ہے…?? یاجو بچے مدرسے میں نہیں پڑھ رہے انھیں کیوں اعلی دنیاوی تعلیم نہیں دلاتے اور سائنسدان کیوں نہیں بناتے..? تو ان کے پاس جواب نہیں ہوتا.(یہ پیراگراف ایک دوست کے تبصرے سے اخذ کیا گیا ہے)۔

عملی وجوہات بھی کردار ادا کرتی ہیں.1550ء میں پرتگالی پہلی برصغیر میں پہلی بار پرنٹنگ پریس لائے اور اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پرتگالیوں اور عیسائی مشنریوں کی طرف سے پرنٹ شدہ کتابوں کی اشاعت کے باوجود یہاں کی کسی مسلم حکومت یا مولوی نے یہ نہیں کہا کہ یہ کفر اور حرام ہے۔  ,انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی، مثال کے طور پر، 1675 میں سورت میں ایک پرنٹر لایا گیا ، لیکن کمپنی کی طرف سے ہندوستانی اسکرپٹ یعنی طرز تحریر اور زبانوں میں کسی میں قسم کا مواد نہیں پرنٹ کیا گیا نہیں تھا، لہذا یہ کام ناکام رہا۔

1516 فیز مراکش میں یہودی پناہ گزین ربی جو لزبن یعنی پرتگال میں میں پرنٹر  کے لئے کام کر چکے تھے،پرنٹر مراکش میں لائے لیکن تاریخ میں اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ وہاں کی مسلم حکومت نے اس کی مخالفت کی ہو۔
1798ء میں قاہرہ یعنی مصر میں نپولین پرنٹنگ پریس لایا۔اگرچہ بعد میں سلطان محمد علی پاشا نے نپولین کو مصر سے نکال باہر کیا لیکن اس کے لائے ہوئے پرنٹنگ پریس کو وہاں کی مسلم حکومت کی طرف سے خوشی سے اپنایا گیا جس کے بعد مصر میں پرنٹنگ کا  سلسلہ شروع ہوا۔ اور نہ ہی مراکش یا مصر کے مولوی طبقے نے یہ کہا کہ پرنٹنگ حرام اور کفر ہے۔

اگر سلطنت عثمانیہ اور عرب ممالک میں میں پرنٹنگ پریس کے تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ مسلم حکومت یا مولوی طبقے کی طرف سے مخالفت تھی تو خود ان مسلم ممالک میں بھی پرنٹنگ پریس بہت تاخیر سے شروع کیوں ہوا جہاں سلطنت عثمانیہ کی حکومت نہیں تھی۔مراکش میں سپین سے آنے والے پناہ گزین یہودی 1513ء میں ہی پرنٹنگ پریس لا چکے تھے لیکن پھر بھی اس علاقے میں عربی پرنٹنگ تاخیر سے شروع کیوں ہوئی جب کہ اس علاقے کی مسلم حکومت یا مولوی طبقے کی طرف سے اس کی  مخالفت کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی مراکش کبھی سلطنت عثمانیہ کے ماتحت رہا۔انڈونیشیا جیسے مسلم ملک میں پرنٹنگ پریس 1818ء میں یعنی بہت دیر سے شروع ہوا جب کہ یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت نہیں تھا اور نہ ہی اس کی مسلم حکومت یا مولوی طبقے کی طرف سے تاریخ میں اس کی مخالفت کی کوئی دلیل ہمیں تاریخ میں ملتی ہے۔جب کہ خود منیلا یعنی فلپائن جیسے ملک  میں جو اس وقت سپین کے زیر اہتمام تھا،پرنٹنگ پریس 1590ء میں یعنی یورپ کی نسبت بہت تاخیر سے آیا۔اس کا مطلب ہے کہ پورے مشرق میں ہی پرنٹنگ پریس یورپ کی نسبت بہت تاخیر سے شروع ہوا۔صرف مسلم دنیا میں اس کے تاخیر سے شروع ہونے کو مذہبی طبقے اور مولویوں یا مسلم حکومت کی طرف سے مخالفت سے منسلک کرنا بالکل غلط ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مستند تاریخی ثبوت ہے۔

ایران میں پہلا پرنٹنگ پریس 1636ء میں اصفہان میں قائم ہوا جب کہ تہران میں 1820ء میں یعنی سلطنت عثمانیہ کے بھی تین سو سال بعد۔جب کہ ایران سلطنت عثمانیہ کے ماتحت نہیں تھا بلکہ الٹا شیعہ  ایران کی سنی سلطنت عثمانیہ سے سخت مخالفت تھی۔پھر یہاں تو کوئی حکومت کی مخالفت نہیں تھی اور نہ ہی کسی مولوی کی تو پھر یہاں پرنٹنگ پریس اپنی ایجاد کے بعد اتنی تاخیر یعنی ساڑھے تین سو سال بعد کیوں شروع ہوا۔اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اسلامی ممالک سمیت پورے غیر مسلم ایشیا،افریقہ   میں پرنٹنگ پریس تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ کسی مولوی کی مخالفت نہیں بلکہ عمومی طور پر پورے ایشیا کا سائنسی جمود تھا جو اسلامی اور غیر اسلامی پورے مشرق پہ برابر جاری تھا۔

اگر سلطنت عثمانیہ میں عربی کتابوں اور قرآن کی پرنٹنگ کے راستے میں سلطنت عثمانیہ کی حکومت اور مولوی طبقے کی مخالفت تھی تو پھر ان مسلم ممالک میں بھی عربی پرنٹنگ اور قرآن کی پرنٹنگ کیوں صدیوں بعد شروع ہوئی جو نہ تو سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھے اور نہ ہی کسی مولوی کی مخالفت تھی وہاں اور نہ ہی ان ممالک کے حوالے سے ہمیں اس بات کی کوئی دلیل ملتی ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ سلطنت عثمانیہ اور اس کے مولوی طبقے پہ لگایا جانے والا یہ الزام مکمل طور پہ جھوٹ اور بہتان ہے اور کچھ نہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں سلطان سلیم نے پرنٹنگ پریس کا احیا کرنے کی کوشش کی لیکن اسے اپنی ینی چری فوج کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جب کہ اس بات کا کوئی مستند ثبوت یہ کہنے والوں کی طرف سے فراہم نہیں کیا گیا۔چیمبرز ایڈنبرگ جرنل( 1848ء) کے صفحہ 44 کے تحت یہ دعوی کیا گیا ہے کہ 1483ء میں سلطان بایزید دوم نے ترکوں کی طرف سے پرنٹ شدہ کتابوں کے استعمال پہ پابندی لگا دی اور اس کی سزا موت مقرر کی اور یہ پابندی 1720ء تک جاری رہی۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں یورپی غلبے کے دور میں مسلم تواریخ کو بہت بری طرح سے مسخ کیا گیا اور اپنے اس الزام کا 1848ء کے چیمبرز ایڈنبرگ جرنل نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی ہمیں سلطنت عثمانیہ پہ عائد کیے جانے والے اس الزام کا کسی غیر جانبدار حوالے سے کوئی مستند تاریخی ثبوت ملا ہے۔اس کے لیے ہم نے اس عنوان پہ لکھنے والی تیس سے زائد ویب سائٹس اور حوالوں کا مطالعہ کیا لیکن ہمیں ایسی کوئی بات نہیں ملی۔جان پال گوبریل کی ایک تحقیق کے مطابق اس کہانی کا کوئی مستند تاریخی حوالہ موجود نہیں۔ اس کے دو حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں۔1585ء کا ایک حوالہ Nicolas de Nicolay, The navigations, peregrinations and voyages, made into Turkie by Nicholas Nicholay Daulphinois, Lord of Arfeuile. conteining sundry singularities which the author hath there seene and observed;devided into foure books, with threescore figures, naturally set forth as well of men as women, according to the diversitie of nations., T. Washington trans. (London, 1585). p.130 یہ لکھتا ہے
…Maranes [Marranos] of late banished and driven out of Spaine & Portugale, who to the great detriment and damage of the Christianitie, have taught the Turkes diverse inventions, craftes and engines of warre, as to make artillerie, harquebuses, gunnepouder, shot, and other munitions: they have also there set up printing, not before seene in those countries, by the which in faire characters they put in light divers bookes in divers languages, as Greek, Latin, Italian, Spanish, and the Hebrewe toungue, being to them natural, but are not permitted to print the Turkie or Arabian tongue.’

اس حوالے کے مطابق عیسائیوں کے ظلم کی وجہ سے سپین سے نکالے جانے والے  میرانو یعنی کوئی ہَسپانوی یہودی جِس نے قُرُونِ وُسطیٰ کے اواخَر میں ہَسپانوی عدالَتِ احتساب کے دَباو کے تحت بَرسَرِ عام رومَن کیتھولِک مَذہَب اِختیار کَر لیا ہو لیکن خُفیہ طَور پر اپنے یہودی مَذہَب پَر قائم رہا،کو سلطنت عثمانیہ میں ترکوں کے لئے اسلحہ بارود اور توپ خانے کے حوالے سے کام کرنے کی اجازت تھی اور لاطینی،سپینی اور عبرانی میں کتابیں پرنٹ کرنے کی اجازت تھی لیکن انہیں ترکی اور عربی زبان میں کوئی چیز پرنٹ۔ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

اس کا ایک اور سب سے قدیم تاریخی حوالہ

The Life and Letters of Ogier Ghiselin de Busbecq By Ogier Ghislain de Busbecq, tr. Charles Thornton Forster, Francis Henry Blackburne Daniell. Published by C. K. Paul, 1881.  Volume 1
ہے جس کے صفحہ 44 پہ یہ تحریر موجود ہے۔

No nation in the world has shown greater readiness than the Turks to avail themselves of the useful inventions of foreigners, as is proved by their employment of cannons and mortars, and many other things invented by Christians. They cannot, however, be induced as yet to use printing, or to establish public clocks, because they think that the Scriptures, that is, their sacred books – would no longer be scriptures if they were printed, and that, if public clocks were introduced, the authority of their muezzins and their ancient rites would be thereby impaired

1560ء کا حوالہ کہتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں وحی کی کتابیں پبلش کرنے کی اجازت نہیں تھی اور کیوں تھی 1585ء کا حوالہ اس کی مزید تفصیل بتا رہا ہے اور یہ دونوں حوالے یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ پابندی صرف یہودیوں پہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی کتابیں پرنٹ نہیں کر سکتے اور وہ اس لیے کہ پرنٹنگ کے دوران وہ ان میں تبدیلی نہ کر سکیں۔دونوں حوالوں میں کہیں پہ یہ بات مذکور نہیں ہے کہ یہ پابندی تمام علوم اور سائنسی کتابوں کے پرنٹ کرنے پہ تھی لیکن الزام لگانے والوں نے اس کہانی کو اس طرح بنا دیا کہ سلطنت عثمانیہ میں ہر طرح کی کتابوں کی پرنٹنگ پہ پابندی تھی اور یہی وجہ تھی کہ سلطنت عثمانیہ سائنسی طور پہ زوال کا شکار ہوگئ۔یہ بات جھوٹ اور بہتان ہے جس کی حمایت پابندی کے حوالے سے قدیم ترین یہ دو حوالے بھی نہیں کر رہے۔

یہ بات صاف ظاہر کر رہی ہے کہ یہ پابندی صرف یہودیوں پہ تھی کہ وہ عربی اور ترکی کتابیں پرنٹ نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے ان کی طرف سے مذہبی کتابوں میں ملاوٹ کا اندیشہ تھا لیکن پرنٹنگ پہ سلطنت عثمانیہ میں عمومی پابندی نہیں تھی لیکن تاریخ بولنے والوں نے یہ الزام لگا دیا کہ سلطنت عثمانیہ میں یہودی کیا مسلمان بھی کوئی کتاب پرنٹ نہیں کر سکتے تھے اور اس کی سزا موت تھی اور یہی بات جان پال گوبریل نے کی ہے۔

1493ء میں ہی استنبول میں ایک یہودی پرنٹنگ پریس کام کر رہا تھا۔جب کہ 1567ء میں آرمینیائی باشندوں نے ایک اور پرنٹنگ پریس قائم کیا۔1587ء میں سلطان مراد سوم نے یورپ میں پرنٹ شدہ عربی،فارسی اور ترکی کتابوں کی سلطنت عثمانیہ کی حدود میں خرید و فروخت کی اجازت کا حکم نامہ جاری کیا۔اگر سلطنت عثمانیہ اور مولوی طبقے  کی طرف سے پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی بات درست ہے تو پھر عربی کتابیں اور وہ بھی یورپ میں پرنٹ شدہ کتابوں کی سلطنت عثمانیہ میں خرید و فروخت کی خلیفہ کی طرف سے اجازت کیوں دی گئی۔یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ سلطنت عثمانیہ اور اس کے مولوی طبقے کی طرف سے پرنٹنگ پریس پہ پابندی کی بات تاریخی جھوٹ،بہتان،دغا بازی اور تاریخی منافقت ہے اور کچھ نہیں۔

سلطنت عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس ترقی کیوں نہ کر سکا،اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے پرنٹنگ پریس پہ پابندی تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ترک پرنٹ شدہ کتابوں کی نسبت ہاتھ سے لکھی گئی کتابیں پسند کرتے تھے جو خطاطی  اور سونے کی ایک تار کے ساتھ والی جلد کا اعلی شاہکار ہوتی تھیں۔خود نیویارک میں پرنٹنگ پریس باقاعدہ طور پہ ترکی سے 36 سال پہلے شروع ہوا۔وہاں کونسے مولوی اور سلطنت عثمانیہ تھی جس نے پابندی لگا رکھی تھی۔

اور جب 1727ء میں ابراہیم آغا نے پیرس سے واپسی کے بعد وہاں کے چھاپہ خانوں سے متاثر ہوکر خلافت عثمانیہ کے وزیر سے باقاعدہ پرنٹنگ پریس شروع کرنے اور اس کے فوائد بیان کیے تو سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام عبداللہ رومی افندی نے فتوی دیا کہ کوئی بھی ایسا شخص جو پرنٹنگ کے کام میں ماہر ہو اور منطق،فلسفہ، فلکیات اور اس طرح کی دیگر کتابوں کی پرنٹ شدہ نقلیں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو یہ بات بہت مفید ہے اور اسلام اس کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے لیے لازمی ہے کہ کتاب کے پرنٹ ہونے سے پہلے اور بعد ماہر لوگ کتاب کی صحت کی تصدیق کریں۔اس کے بعد ترکی کے وزیر اعظم کے مشورے پہ عثمانی خلیفہ سلطان احمد سوم نے کتابوں کے پرنٹ کرنے کی اجازت کا سرکاری حکم نامہ جاری کیا۔اس پرنٹنگ پریس کی پرنٹ شدہ کتابیں آج بھی استنبول کی پبلک یونیورسٹی کی پبلک لائبریری میں موجود ہیں۔یورپی کہتے ہیں کہ اس پرنٹنگ پریس کی اجازت کے بعد خطاطی کرنے والے لوگ اپنے قلم لے کر کفن پہن کر نکلے اور اس کے خلاف احتجاج کیا۔لہذا مذہبی کتابوں کی اشاعت ان کے حوالے کر دی گئی۔بارون ڈی ٹوٹ جو اس وقت استنبول میں تھا دعوی کرتا ہے کہ عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ پرنٹنگ پریس بند کر دیا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف مختصر عرصے کے لیے ترکی روس جنگوں کی وجہ سے بند کیا گیا تھا اور اس کی ستر فیصد پرنٹ شدہ کتابوں کی خرید و فروخت ابراھیم آغا کی زندگی میں ہوئی۔لہذا عدم دلچسپی کی بات بے بنیاد ہے۔بعد میں جب اس کی وفات کے بعد فرانسیسیوں نے اس پرنٹنگ پریس کو خریدنا چاہا تو اسے غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچانے کے لیے راشد اور واصف افندی نے اسے خرید لیا اور جب 1798ء میں یہ بند ہوا تو ملک میں تین نئے پرنٹنگ پریس قائم کیے گئے۔سلطان محمود دوم کے عہد میں پرنٹنگ پریس نے مذہبی کتابیں شائع کرنا بھی شروع کر دیں۔

اگرچہ سلطنت عثمانیہ میں بہت سے پرنٹنگ پریس قائم ہوچکے تھے لیکن ابراھیم آغا کا پرنٹنگ پریس اسلامی دنیا کا پہلا پرنٹنگ پریس تھا جو اسلامی دنیا میں سرکاری سرپرستی میں قائم ہوا۔یہ اعزاز بھی سلطنت عثمانیہ کو حاصل ہے کہ اس نے سرکاری سرپرستی میں اسلامی دنیا کا پہلا پرنٹنگ پریس قائم کیا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس پرنٹنگ پریس کو مذہبی کتابیں پرنٹ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فتوے میں اس بات پہ زور دیا گیا تھا کہ پرنٹ شدہ کتابیں مستند اور غلطیوں سے پاک ہونی چاہیے۔نصابی کتابوں کو ترجیح دی گئی جب کہ پابندی کسی چیز پہ نہیں تھی لیکن الزام لگانے والوں نے بغیر سند و تحقیق کے یہ کہ دیا کہ باقی کتابوں کی اشاعت کے باوجود مذہبی کتابوں کی پرنٹنگ پہ پابندی تھی۔

سلطنت عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس بہت پہلے سے موجود تھا لیکن اس زمانے کی کتابوں جیسا کہ وسیلۃ الطبع س ے صاف ظاہر ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے وزیروں کی طرف سے اس کی ضرورت محسوس کیے جانے کے باوجود اس کے تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کام کے ماہر افراد کی کمی تھی اور اس کام کو محنت طلب کام سمجھا جاتا تھا اور حکومت کو اس کام کے قابل افراد نہیں ملے جو یہ کام کر سکتے ہو اور جب ابراہیم آغا نے اس کا باقاعدہ آغاز کیا تو یہ مشکل بھی دور ہوگئ اور سلطنت عثمانیہ میں باقاعدہ طور پہ پرنٹنگ پریس کا کام شروع ہو گیا۔ کئ مغربی مستشرقین اور لبرل سیکولر طبقے کے مطابق اسلامی دنیا میں پرنٹنگ پریس کے تاخیر سے شروع ہونے پہ بہت اعتراض کرتے ہیں لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں خطاطی اور کتابوں کی ہاتھ سے طباعت کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک موجود تھا جس سے ہزاروں خاندان وابستہ تھے۔لہذا پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد یہ سب کچھ ایک رات میں نہ بدل جاتا۔اس پہ کچھ عرصہ لگا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سائنسی کتابوں کو صرف ترکی زبان میں پرنٹ کرنے کی اجازت تھی لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ان کے پاس۔جو سلطنت عثمانیہ دو سو سال پہلے 1567-1587ء کے درمیان یورپ سے درآمد شدہ عربی ترکی فارسی کتابوں کی اپنی سلطنت میں خرید و فروخت کی اجازت دے چکی تھی وہ اپنے ملک میں عربی زبان میں پرنٹنگ سے کیوں روکتی۔یہ وہ تضاد ہے جو اعتراض کرنے والوں کے دلائل میں پایا جاتا ہے۔ خود کئ مورخین کے مطابق اس دور کے مذہبی طبقے کا پرنٹنگ پریس کے خلاف ہونا واضح یا ثابت نہیں اور ان کے نزدیک سولہویں،سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے سلطنت عثمانیہ کے مولوی حضرات پرنٹنگ پریس کے خلاف نہیں تھے۔ یہ وہی مولوی سائنس کی کتابیں پرنٹ کرنے کا فتوی دے رہے ہیں جن کے بارے میں مستشرقین اور لبرل سیکولر طبقہ الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے ترکی میں سلطنت عثمانیہ کی طرف سے پرنٹنگ پریس پہ پابندی لگوادی تھی۔یہ ہے اس جھوٹ کی اصل حقیقت جس میں کہا جاتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس کو گناہ اور کفر کا کام سمجھا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے مسلمان سائنس میں یورپ سے صدیوں پیچھے ہوگئے۔

برصغیر کے مسلم اور غیر مسلم حضرات نے بھی کافی تاخیر سے پرنٹنگ پریس اختیار کیا اور باقاعدہ پرنٹنگ انیسویں صدی میں شروع ہوئی۔سلطنت عثمانیہ پہ الزام لگانے والے بتا سکتے ہیں کہ مسلم تو دور کی بات یہاں تک کہ غیر مسلم برصغیر اور باقی پورے ایشیا اور افریقہ میں پرنٹنگ اتنی تاخیر سے کیوں شروع ہوئی جب کہ یہاں تو کسی مولوی طبقے نے اس کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی کسی مسلم حکومت نے اس کے خلاف کوئی حکم دیا۔ پورے مشرق اور اسلامی دنیا میں پرنٹنگ پریس کی تاخیر سے مقبولیت کی وجہ مورخین یہ بیان کرتے ہیں کہ عمومی طور پر ان ممالک میں ادبی و سائنسی ترقی کا فقدان تھا لہذا کتابوں کی کم مانگ کی وجہ سے پرنٹنگ پریس کی ضرورت بھی کم تھی۔

دوسری وجہ ان اسلامی اور مشرقی ممالک کا معاشی زوال تھا جس نے جدید سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی اور ایجادات میں پیشرفت سست کر دی اور مشرق عمومی طور پر اور اسلامی دنیا کے خصوصی طور پہ سائنسی زوال کی یہ وجوہات اج بھی جاری ہیں۔اگرچہ ۔اسلامی دنیا میں ایک بار پھر شرح خواندگی بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی اسلامی دنیا نے قابل اور نامور سائنسدان پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے مسلمانوں میں ان کے ماضی کے بارے میں جھوٹ اور مایوس کن تبصرے پھیلانے کی بجائے امت کے ذہین افراد کی قدر کی جائے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے تاکہ اسلامی دنیا ایک بار پھر اپنا وہ سائنسی عروج حاصل کر سکے جس میں یہ یورپ اور باقی ساری دنیا کی استاد تھی۔

حوالہ جات:

Angus Maddison: Growth and Interaction in the World Economy: The Roots of Modernity, Washington 2005, p.65
History of Science-Printing, accessed 2009/05/04
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Global_spread_of_the_printing_press
http://www.roger-pearse.com/weblog/2009/03/07/printing-banned-by-islam/
https://www.google.com/amp/s/www.dailysabah.com/feature/2015/06/08/myths-and-reality-about-the-printing-press-in-the-ottoman-empire/amp
William J. Watson, “İbrāhīm Müteferriḳa and Turkish Incunabula”, Journal of the American Oriental Society 88 (3): 435–441 (1968)
Miroslav Krek, “The Enigma of the First Arabic Book Printed from Movable Type”, Journal of Near Eastern Studies 38 (3): 203–212 (1979)
Richard Clogg,  “An Attempt to Revive Turkish Printing in Istanbul in 1779”, International Journal of Middle East Studies 10 (1): 67–70 (1979)
http://exhibits.library.yale.edu/exhibits/show/arabicprinting/printing_history_arabic_world
http://icraa.org/ottomans-and-the-printing-press-answering-misconceptions/
Hidayat Y. Nuhoglu, ‘Müteferrika’s Printing Press: Some Observations’, in: Kemal Çiçek (ed.), The Great Ottoman-Turkish Civilisation. Volume 3 (Ankara, 2000) pp. 85-88

تبصرے بند ہیں۔