سلمہ بن دینار ؒ 

افتخارالحسن مظہری
ابو حازم سلمہ بن دینارؒ مدینہ کے امام و پیشوا تھے۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے حدیث حاصل کی۔ زہدوتقویٰ اور جرأتِ اظہارِ حق میں صحابہ کا نمونہ تھے۔ جو علماء بادشاہوں کے تقرب پسند تھے، ان سے بیزار رہتے، لیکن جرأتِ اظہار حق میں یکتا ہونے کے باوجود مصاحبین سلطنت ان کی قربت کے دلدادہ رہتے۔ لیکن وہ خود اپنی دینداری کی حفاظت کے خیال سے ان سے دور رہتے۔ اسی لئے علماء کے درمیان وہ اجنبیت محسوس کرتے، یہ اجنبیت اپنے شہر کے لوگوں میں اور دوسرے لوگوں کے درمیان بھی محسوس کرتے۔ وہ کہتے تھے: دین و دنیا کے بارے میں بوجھل ہوں۔ پوچھا گیا: وہ کیسے؟ فرمایا: دین کے معاملہ میں کوئی معاون و مددگار نہیں ملتا۔ اور دنیا کی جس چیز کی طرف ہاتھ بڑھائیے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بدکار اس سے پہلے اس کو ہاتھ لگا چکا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: 6؍97)
ان کے نظام تربیت کا نچوڑ ان کی اس ایک بات میں آگیا ہے جو انھوں نے ایک امیر کے مدعو کرنے پر اس سے کہی:
سب سے اچھا امیر وہ ہے جو علماء سے محبت کرے اور سب سے برا عالم وہ ہے جو امراء سے محبت کرے۔ (سیر اعلام النبلاء: 6؍101)
دنیا برتنے کا ان کا طریقہ 
دنیاوی زیب و زینت کی چیزیں ہوں یا دوسری پاک و صاف چیزیں اور کھانے پینے کی چیزیں ، وہ بذات خود حرام نہیں ہیں، لیکن جب وہ اللہ کے ذکر میں حارج ہوں ، دینی فرائض و واجبات میں رکاوٹ کا سبب بننے لگیں تو اس وقت وہ مضر و پر خطر ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ان سے بچنے اور دور رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ ان کی محبت دل سے نکل جائے اور وہ بذات خود انسان کا مقصد و مدعا نہ بننے کے بجائے ایسا وسیلہ بن جائے جو عبادت الٰہی میں اس کی معاون بن جائیں۔
وہ چیزیں اللہ نے انسان ہی کے لئے پیدا کی ہیں۔ انسان کا ان کو استعمال کرنا اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرناجائز و حلال ہے اگر انسان ان کو کام میں لانے کا صحیح طریقہ اپنائے۔ دنیا کو برتنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ امام ابو حازم نے اس کے کچھ اصول و قواعد منضبط کیے ہیں جن کی رعایت کی جائے اور جن پر عمل کیا جائے تو اپنے نفس کی تربیت میں مومن کے لئے بڑے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
[1] دنیا کی محبت:
ابو حازم کے ایک شاگرد عبد الرحمن بن زید بن اسلم ان کے پاس آئے اور اپنی ایمانی کمزوری کا ان سے شکوہ کیا۔ ان کو اپنے استاد کے دین و علم پر بڑا اعتماد تھا اس لئے انھیں امید تھی کہ استاد ایمانی کمزوری کا کوئی علاج بتائیں گے۔ چنانچہ انھوں نے ان سے عرض کیا: کبھی کبھی ایسے خیالات آتے ہیں جن سے دل لرز اٹھتا ہے۔ ابو حازم نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ عرض کیا: دنیا کی محبت۔ انھوں نے فرمایا: دیکھو دنیا کی محبت انسان کی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے اس لئے دنیا سے محبت پر میں اپنے نفس کو سرزنش نہیں کرتا، یہ محبت تو اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اس پر شکوہ کیسا؟ ہاں اگر یہ محبت ہمیں اللہ کی ناپسندیدہ چیزوں تک لے جائے تو یقیناًخطرناک بات ہے۔ اس لئے ہمیں صرف اس بات کا دھیان رکھنا چاہئے کہ دنیا کی محبت ہمیں کسی برائی کی طرف نہ لے جائے۔ اگر دنیا سے ایسی محبت ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (سیر اعلام النبلاء: 6؍99)
یہ اہم ترین قاعدہ اور اصول ہے۔ چاہئے کہ ہر عبادت گزار زاہد اس پر عمل کرے۔ ابوحازم اس قاعدہ میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا کی محبت بذات خود معیوب نہیں کیونکہ یہ محبت اللہ کی دی ہوئی ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے دنیا ہماری ضرورت ہے۔ اس لئے اس سے محبت ہونی ہی چاہئے۔ اصل چیز یہ دیکھنے کی ہے کہ دنیا کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہے؟ دنیاکی محبت کے باوجود اگر ہم اس کو صحیح ڈھنگ سے شریعت کے اوامر و احکام کے مطابق برتیں تو یہ مطلوب ہے اور اگر غلط طریقہ سے اس کو برتیں تو یہ معیوب و نقصان دہ ہے۔ مثلاً شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، ان کی پرورش و پرداخت کرنا، ایسے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ کیونکہ یہ چیزیں بندگی کے سفر میں اس کے لئے سہارے کا کام کرتی ہیں۔ لیکن یہی چیزیں اگر اللہ کی رضا کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرنے لگیں تو مذموم ہوجاتی ہیں۔ ان سے بچنا اور دور رہنا واجب ہوجاتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’ انّ من أزواجکم و أولادکم عدواً لکم فاحذروھم و ان تعفوا وتصفحوا و تغفروا فانّ اللّٰہ غفور رحیم ‘‘ (التغابن: 14)
یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی جب کچھ عورتوں نے اپنے شوہروں کو جہاد میں شریک ہونے سے منع کردیا۔ انھوں نے ان سے کہا: آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کے جارہے ہیں؟ آخر عورتوں کی محبت نے ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں اور وہ جہاد کے لئے نہ جا سکے۔ حالانکہ دنیا کی محبت اللہ کی رضا سے مشروط تھی۔ جہاں اس کی رضا پر حرف آئے وہاں دنیا کی محبت تج دی جائے گی۔
[2] دنیا کی مشغولیت:
دنیا کی جو چیزیں اللہ نے انسان کے لئے مباح قرار دی ہیں ان کو حاصل کرنا اور ان میں مشغول و مصروف رہنا حرام نہیں ہے۔ لیکن یہ مشغولیت حد سے زیادہ ہوگی تو قیامت کے دن افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ کیونکہ یہ مشغولیت زیادہ ہوگی تو نیکی کے کام متاثر ہوں گے۔ امام ابو حازم دین کی دعوت دینے والوں کو یہی بتانا چاہتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں:
تھوڑی سی دنیا آخرت کی بڑی دولت سے محروم کر دیتی ہے۔
جب تھوڑی سی دنیا کی مصروفیت آخرت کی بڑی دولت سے محروم کر دیتی ہے تو جب دنیا کی مصروفیت زیادہ ہوگی تو کتنا بڑا اخروی خسارہ ہوگا۔ اس لئے داعیانِ دین کو یہ نکتہ ہمیشہ پیش نگاہ رکھنا چاہئے اور انھیں اپنا مقصد تخلیق کبھی بھولنا نہیں چاہئے۔ ورنہ زیادہ دولت سمیٹنے کی مصروفیت، بچوں کے ساتھ دل گلی کی مصروفیت اور قیل و قال کی مصروفیت ایسی ہے جس سے آخرت کا بہت بڑا خسارہ وابستہ ہے۔
ابو حازم نے سچ ہی کہا جو دنیا گزر گئی وہ خواب ہے، جو باقی ہے وہ آرزو ہے۔
[3] اصلاح حال کی فکر:
مومن کو اس بات کی ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ جو چیز اس کی اصلاح نفس میں معاون ہو اس کو اپنائے اور جو چیز اصلاح نفس میں حارج ہو اور اللہ کی قربت کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرے اس سے دور رہے۔ کیونکہ اللہ سے جوڑنے والی اور اس سے قریب کرنے والے امور میں جتنی کمی ہوگی اتنا ہی دنیا و آخرت کا خسارہ ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دنیا پرست اپنی دنیا بنانے و سنوارنے کے لئے اصول و اخلاق کے ساتھ دوستوں، بیویوں اور بچوں کو ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ تو پھر دعوت دین کا کام کرنے والے دین کے لئے اور اللہ کی رضا کے لئے دنیا کو کیوں نہ ٹھوکر مار دیں۔ کیونکہ آخرت کی کامیابی کا انحصار اصلاح نفس پر ہے اور اصلاح نفس واجب و ضروری ہے۔ اور واجب دنیا کو ٹھوکر مارے بغیر پورا نہ ہو تو دنیا کو ٹھوکر مارنا بھی واجب ہی ہوگا۔ امام ابو حازم اسی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ لکھتے ہیں: جس میں تھوڑی اصلاح نفس ہو، اس پر عمل کرو، چاہے لوگ اسے بگاڑ ہی سمجھیں۔ اور جس چیز میں نفس کا بگاڑ نظر آئے اسے تج دو، چاہے اس میں لوگوں کو بھلائی ہی نظر آئے۔ (سیراعلام النبلاء: 6؍98)
[4] نعمت کا احساس:
دنیاوی مال و اسباب کی فراوانی اللہ کے خوش ہونے کی دلیل نہیں ہے، نہ ہی کسی کی فقیری و محتاجی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے ناخوش ہے۔ خوشحالی اور محتاجی دونوں آزمائش ہیں۔ اللہ کسی کو خوشحالی دے کر آزماتا ہے تو کسی کو فقیری و محتاجی دے کر آزماتا ہے۔ بندہ مومن کی شان یہ ہے کہ اللہ جس حال میں بھی اسے رکھے خوش رہے۔ محتاجی ہو تو اس پر بھی صبر و شکر کے ساتھ خوش رہے اور یقین رکھے کہ اسی میں خیر ہے اور تونگری و کشادہ دستی ہو تو بھی اس کو نہ بھولے اور اس کی بندگی کے تقاضوں سے آنکھیں نہ بند کر لے۔ یہ ہرگز نہ گمان کرے کہ اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے فقر آتی ہے اور اس کی خوشی سے مالداری اور تونگری ملتی ہے۔ دنیا کو برتنے میں اس اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ وہ فرماتے ہیں:
اللہ نے جو نعمت مجھے عطا کی ہے وہ اس نعمت سے بڑی ہے جو مجھ کو نہیں ملی کیونکہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اس نعمت کو پاکر ہلاکت میں پڑ گئے۔ (سیر اعلام النبلاء: 6؍98)
یہ بات وہ صرف دل کی تسلی کے لئے نہیں کہتے تھے بلکہ ان کو اس بات کا کامل یقین تھا کہ اللہ جس کو جو چاہتا ہے دیتا ہے۔ دعوت کے میدان میں جو لوگ سرگرم عمل ہیں اگر ان کو اس بات کایقین و ایمان حاصل ہوجائے تو دنیاوی مال و اسباب کا فقدان ان کے دعوتی کاموں میں حارج و مانع نہ بنے۔
غرور کا علاج 
غرور نفس کی بہت بڑی بیماری ہے۔ تابعین کرام اس کی خطرناکیوں اور ہلاکت آفرینیوں سے بہت خائف رہتے تھے۔ وہ اس بات سے ہمیشہ ڈرتے رہتے کہ کہیں گھمنڈ و غرور ان کے اعمال کو غارت نہ کردے۔ اسی لئے ابو حازم اس کو بندے کی سب سے بڑی مصیبت سمجھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں
بندہ نیکی کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ لیکن جو برائی اللہ نے پیدا کی ہے وہ اس نیکی سے زیادہضرر رساں ہے۔ بندہ برائی کرتا ہے تو مغموم ہوتا ہے لیکن جو نیکی اللہ نے پیدا کی ہے وہ اس سے زیادہ نفع بخش ہے۔ وہ اس طور کہ نیکی کرتے وقت اس میں دوسروں پر برتری کا احساس ہوتا ہے، جو اس کی بہت ساری نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔ اور برائی کرتا ہے تو مغموم ہوتا ہے اور اللہ اسکے دل میں خوف پیدا کر دیتا ہے اور اللہ سے ملتا ہے تو خوف اس کے دل میں باقی رہتا ہے۔ (صفۃ الصفوۃ: 2؍164)
اس بات سے تابعین کے نظام تربیت کا یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ نیک کام کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں یہ اللہ کے نزدیک کسی غرور کی وجہ سے کالعدم نہ ہوجائے۔ نیکی کرنے پر غرور کا احساس عام طور پر لوگوں میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کی صورت صرف یہ ہے کہ نیکی کا کام کرنے کی جو توفیق اسے ملی ہے اسے اپنا کمال نہ سمجھے بلکہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے کہ اگر وہ توفیق نہ دیتا تو کبھی یہ نیکی وہ انجام نہیں دے سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ کہا کرتے تھے: اے اللہ مجھے میرے نفس پر مت چھوڑ، مجھے لمحہ بھر کے لئے بھی مرے نفس کے حوالے مت کر، کیونکہ آپ کو ڈر لگا رہتا تھا کہ نیکی کا غرور نہ پیدا ہوجائے۔
دنیا سے روانگی کی یاد
تربیت نفس کا ایک اہم ترین اصول یہ ہے کہ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے کہ دنیا چھوڑ کر ایک دن جانا ہے، یہاں کی زندگی چند روزہ ہے۔ اور صرف تنہائی کے لمحات میں ہی اس پر غور نہ کیا جائے بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر یہ بات ذہن میں تازہ رکھی جائے۔ تاکہ یہ بات پختہ عقیدہ کی طرح دل میں بیٹھ جائے اور اس سے اصلاح نفس کا خاطر خواہ فائدہ محسوس ہونے لگے۔ ایک بار ابو حازم ایک قصاب کے پاس گئے اور اس نے کہا؛ یہ گوشت لے لیجئے ، یہ بہت فربہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بروقت مرے پاس ایک ہی درہم ہے۔ قصاب نے کہا دوسرے دن دے دیجئے گا۔ انھوں نے کہا دوسرے دن کیا پتہ میں زندہ رہوں یا نہ رہوں؟ (رواہ احمد)
موت ان کو ہر وقت یاد رہتی تھی۔ اس لئے انھوں نے قصاب کی مہلت قبول نہ کی کیونکہ موت تو کسی کو مہلت نہیں دیتی۔ (صفۃ الصفوۃ: 2؍165)
نفس مطمئنہ کسے ملتا ہے؟
’’ یا أیتھا النفس المطمئنۃ ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے حسن بصریؒ نے فرمایا: اللہ جب چاہے اس کو اٹھا لے۔ وہ اللہ سے مطمئن اللہ اس سے مطمئن۔ وہ اللہ سے خوش، اللہ اس سے خوش، اس نے اس کی روح قبض کرکے اس کو جنت میں پہنچا دیا اور اپنے نیک بندوں میں اس کو شامل کر لیا۔ (شرح السنۃ للبغوی : 5؍262)
نفس کا یہ اطمینان اللہ کی رضا کی بشارت کا نتیجہ ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ عبادہ بن صامت سے مروی ہے؛ جو اللہ کی ملاقات کا مشتاق ہوتا ہے اللہ بھی اس کی ملاقات کا مشتاق ہوتا ہے۔ (بخاری: 3088، الرقاق)
اور کبھی کبھی یہ اطمینان اس وجہ سے نفس کو حاصل ہوتا ہے کہ دنیا میں اوامر ہی کی بجا آوری سے اسے طبعی مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اکثر تابعین کو دیکھا گیا کہ موت کے وقت ان کے چہروں پر بشاشت و طمانیت کا نور روشن تھا۔ مطرف بیان کرتے ہیں کہ موت کے وقت ہم ابو حازم کے پاس گئے۔ ہم نے پوچھا آپ کیسے ہیں؟ فرمایا بخیر ہوں۔ اللہ کی رحمت کا امیدوار ہوں۔ میرا گمان ہے کہ وہ میرے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا۔ جو شخص موت آنے سے پہلے اپنی آخرت کو آباد کر لیتا ہے وہ دنیا سے جاتا ہے تو آخرت اس کی ہوتی ہے اور وہ آخرت کا ہوتا ہے اور جو شخص دنیا کو دوسروں کے لئے آباد کرکے جاتا ہے آخرت کے لئے کچھ نہیں کرتی اس کو آخرت میں کیا ملے گا۔ (سیر اعلام النبلاء: 6؍89)

تبصرے بند ہیں۔