میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

علی نیشاف/ زیگانیشاف، سوویت یونین، روس

زندگی ایک خواب ہے ، لیکن ایسا خواب جس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ میں اپنی زندگی میں واقع ہونے والے تغیرات پر جب غورکرتاہوں تو گمان گزرتاہے کہ خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن میرے حواسِ خمسہ میرے خواب کی تردید کرتے ہیں۔ میں بھی سوچتاہوں کہ کھلی ہوئی آنکھوں سے خواب کیسے دیکھاجاسکتاہے۔ جوکچھ گزرگیا، وہ ایک حقیقت تھی اور اب جو کچھ گزررہاہے، وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ میرے والدین ملحد تھے۔ ملحدانہ ماحول میں میری پرورش ہوئی تھی ، اس لئے میں کسی غیر مرئی یا غیبی طاقت سے واقف نہیں تھا، البتہ میرے والدین اور میرے اکثر دوست مجھ سے کہتے تھے کہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو کسی مافوق الفطرت ہستی کے وجود کو مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دنیا کو اسی مافوق الفطرت ہستی نے بنایاہے۔ میں جب اپنے والدین سے اس موضوع پر گفتگو کرتاتھاتو وہ کہتے تھے یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ ان کی دلیل ہوتی تھی کہ جب انسان کے پاس علم نہیں تھا تو وہ تو ہمات سے اپنے خیال کی دنیا کو آبادرکھتاتھا، لیکن جب کارل مارکس نے دنیا کو معاشی ضرورتوں کا احساس دلایا، تو قدیم سرمایہ دارانہ نظام منہدم ہوگیا۔ کارل مارکس نے بتلایا کہ سرمایہ داروں نے ایک فرضی مافوق الفطرت ہستی کی تخلیقی کرلی ہے ۔ دنیا میں اس مافوق الفطرت ہستی کو مختلف ناموں سے پکارا جاتاہے۔ اس نام کا سہارا لے کر سرمایہ دار غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ پیداواری ذرائع پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے ۔ غریبوں کی مجبوری اور ان کی بے کسی کا سہارا لے کر سرمایہ دار خزانوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے تغذیہ پرستی کی ایک تھیوری ایجادکرلی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مافوق الفطرت ہستی نے غریبوں کو فاشہ کشی دی ہے ، یہ محض ایک فریب ہے اور فاقہ کشوں کی بے کسی سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ کارل مارکس نے اپنے دوست اینگلزکی مدد سے فریب کا پردہ چاک کیا اور غریبوں اور فاقہ کشوں کے پیداواری ذرائع پر قابض سرمایہ دار موت کی نیند سوگئے۔ میں جس تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہاتھا، وہاں الحاد کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیاجاتاتھا۔ کمیونزم کی اسی مادر درسگاہ میں ہزاروں نوجوانوں کو اسٹالن کے فرمودات رٹائے جاتے تھے۔ ۲۵؍سال کی زندگی پوری ہونے تک میں ایک مردِ آہن کمیونسٹ بن چکاتھا، زیگانیشاف کے نام سے مجھے اچھی شہرت حاصل ہوچکی تھی ۔ مجھے تقریر کرنے کے فن میں ماہربنادیاگیاتھا۔ میں دنیا کے مختلف ملکوں میں جاکر الحادی نقطۂ نظر سے گفتگو کرتاتھا۔
لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ میں بعض مرتبہ چونک جاتاتھا، ازخود میری طبیعت میں یہ خیال پیداہونے لگا کہ جب از خود میں نے وجودحاصل نہیں کیاتو پھر یہ کائنات از خود وجود میں کیسے آگئی؟ مجھے محسوس ہونے لگا کہ روزی روٹی ہی میری زندگی میں سب کچھ نہیں ہے ، بلکہ میرے جسم میں روح بھی موجود ہے۔ آخریہ روح کیاہے؟ میں کبھی کبھی خوش کیوں ہوجاتاہوں اور افسردہ و غمگین کیوں ہوتاہوں؟ آہستہ آہستہ مجھے کائنات کے راز ہائے سربستہ معلوم ہونے لگے۔ بڑے سے بڑے رہنما سے جب میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہارکرتاتو انھیں مکمل طور پر جہلِ مجسم پاتا۔ ایک دن اپنے والد سے جب میں اپنے خیالات کے تعلق سے گفتگو کررہاتھا تو وہ مجھ سے سخت ناراض ہوگئے اور انھوں نے کہاکہ میں کسی مافوق الفطرت ہستی کے اثرمیں آگیاہوں۔ انھوں نے اپنے اثرات سے کام لیتے ہوئے مجھے روس سے باہر بھیجنے کا ایک پروگرام بنوادیا، ان کا خیال تھا کہ روس سے باہر جاکر جب مجھے مذہب پرستوں کو دیکھنے کاموقع ملے گا تو مجھے اندازہ ہوجائے گا کہ کمیونزم کس قدر دنیا کے لئے بہترین نظام ہے۔
بس یہی وہ زندگی کا موڑتھاجس نے میری زندگی کو ایک عظیم انقلاب سے دوچار کردیا۔ خفیہ انقلابیوں کو مدد دینے کے لئے ایک گروپ تشکیل دیاگیا، میں اس گروپ کا لیڈرتھا۔ شام اور مصر میں جوالحادی موجود تھے، ان سے ہمیں رابطہ قائم کرناتھا، لیکن ان ممالک میں پہنچ کر مجھے ایسالگا کہ میرے قیام کی اصل جگہ یہی ہے اور یہاں کے رہنے والے مسلمان زمین کی بہترین مخلوق ہیں۔ جب اذان کی آوازمیرے کانوں میں آتی تھی تو مجھ پر وجدان کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ مسجدوں میں جب نمازیوں کو آتے جاتے دیکھتاتھاتو مجھے اپنے بارے میں سوچناپڑتاتھاکہ میں کون ہوں اور میں یہ سب کچھ کیوں نہیں کرسکتا، جو مسلمان کرتے ہیں۔
میں کمیونزم سے مسلمانوں کو متعارف کرانے گیاتھا، لیکن مسلمانوں سے متعارف ہونے کے بعد میں اسلام کا گرویدہ ہوگیا۔ جب مجھے یہ معلوم ہواکہ مساوات اسلام کے بنیادی عقیدوں کے مطابق ایک اہم خصوصیت ہے، تومیں حیرت زدہ رہ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ اب تک میں یہ سمجھتاتھاکہاسلام سرمایہ دارانہ نظام کا حامی ہے، لیکن جب مجھ پر اسلام کی اس خوبی کا انکشاف ہواتومیری دلچسپی اسلام میں بہت زیادہ ہوگئی اور میں نے طے کرلیا کہ اسلام کا مطالعہ کرکے میں حقیقتِ حال کا علم حاصل کروں گا۔ میں نے علماء سے رابطے قائم کئے اور ان سے گفتگو کرکے اسلام کے بارے میں گراں قدر معلومات حاصل کیں۔ میرامطالعہ اسلام کے بارے میں جس قدر وسیع ہوتاجارہاتھا، اس کے مطابق جذبات کا تلاطم میرے سینے میں موجزن ہوتاجاتاتھا۔ قاہرہ میں چند ماہ قیام کے دوران میں نے دنیا کی بہترین اسلامی تصانیف کا مطالعہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کارل مارکس اور اینگلز کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، بلکہ انسانوں کے مابین یکساں حقوق اور مساوات کا تصوراسلام کی دین ہے۔ اسلام کے آئینِ زندگی ہی سے دنیا کے دوسرے مفکرین نے نتائج اخذکرکے فلسفے پیدا کرلئے ہیں۔ ایک شب میں نے خواب دیکھا کہ مارکس اور اینگلز مجھ سے ملاقات کے لئے آئے ہیں۔ دونوں کی داڑھیاں بہت بڑھی ہوئی ہیں، ان کی آنکھیں سرخ ہیں، بدحواسی ان کے چہروں سے نمایاں ہے، دونوں کے ہاتھوں پر کچھ لکھاہواہے، لیکن زبان ایسی ہے جس کو پڑھنے سے میں قاصرہوں، میرے پوچھنے پر دونوں نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ ان کے ہاتھوں پر فرشتوں نے گمراہ لکھ دیاہے۔ دونوں کا کہناتھاکہ انھوں نے اسلامی مساوات کو اپنے فلسفے کی بنیاد بنایا اور خدا بے زاری پیداکرکے انسانی نسل کو گمراہ کیا، اس لئے وہ شیطانی دنیا کے باس بنادئے گئے ہیں۔ انھوں نے مجھے انجام بد سے بچنے کے لئے اسلام قبول کرنے کے لئے کہا۔
واقعات تو بہت طویل ہیں، لیکن میں نے اپنے ماضی کو نظرانداز کرتے ہوئے اسلام قبول کرنا، طے کرلیا۔مجھے اس حقیقت کا ادراک تھاکہ اسلام قبول کرنے کی صورت میں مجھے بے انتہا مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرناپڑے گا، الحاد کے طرف دار مجھے موت کی نیند سلاسکتے تھے، لیکن اسلام جس کے دل میں جگہ بنالیتاہے اس کے لئے وہ جان سے بھی زیادہ عزیز ہوجاتاہے، چنانچہ میں نے قاہرہ میں مسلمانوں کے درمیان اسلام قبول کرلیا۔ میں زیگانیشاف سے علی نیشاف بن گیا یعنی اسلام قبول کرنے کے ساتھ میں نے اپنی روسی شناخت کو قائم رکھاتاکہ میں روس میں داخل ہوسکوں، لیکن جلاوطنی میری تقدیرکاحصہ ہے۔
یہ کس قدر عجیب و غریب بات ہے کہ میں مسلمانوں میں الحادی خیالات کو فروغ دینے کے لئے بھیجاگیاتھا۔ مجھے یہ زعم بھی تھا کہ میں روشن دماغی سے کام لیتے ہوئے نوجوانوں کو کمیونزم کے رنگ میں رنگ دوں گا، لیکن مسلمانوں کے درمیان جاکر میں اسلام کے نور سے شرابورہوگیا اور آج الحمدللہ میں مسلمان ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں ذرابھی عار نہیں ہے کہ عالمِ اسلام کے علمی حلقوں سے میرے رابطے بہت اچھے ہیں۔ کمیونزم کے خلاف میں نے قلمی جہاد شروع کردیاہے، مجھے اس بات سے بہت زیادہ مسرت ہے کہ میں نے کمیونزم کے تعلق سے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس سے کمیونسٹ حلقے اور الحادی خیالات کے مافیا پسپا ہوچکے ہیں، میری دلیلوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
اسلام کی برتری اسی میں ہے کہ وہ محض روٹی کپڑا اور مکان کی بات ہی نہیں کرتا ، بلکہ اسلام کے نزدیک یہ زندگی کی بے حد سطحی ضروریات ہیں۔ اس سے بڑی ضرورت کردارسازی کی ہے ۔ اسلام سب سے زیادہ کردارسازی پر زوردیتاہے۔ اسلام دنیا کا پہلامذہب ہے جواخلاقی اقدار پرزوردیتاہے۔ زندگی کاکوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں واضح احکامات اسلام نے صادر نہ کئے ہوں، عدل و مساوات کی جو نظیراسلام نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے ، وہ چمکتے ہوئے سورج کی طرح ہے ۔ الحاد کے علم برداروں کے پاس نہ علم کا کوئی تصورہے اور نہ ان کی کتابوں میں اخلاقیات کی کوئی گنجائش ہے۔
کمیونزم یا الحادی حامیوں نے انسانی نسلوں کو بھی چوپایوں کی نسل سمجھ لیاہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا جو چارٹ الحادیوں نے مرتب کیاہے، وہ اصل میں انسانی حقوق کی پامالی ہے، جہاں خواتین کی نسوانیت سے ہی انکار کردیاگیاہے۔ الحادی معاشرے میں مرد جس طرح چاہیں خواتین کا استعمال کرسکتے ہیں، حلال و حرام کا کوئی تصورالحادیوں میں موجود نہیں ہے، جبکہ اسلام ہرقدم پر دنیا کی رہنمائی کرتاہے۔ اگراسلام نہ آتاتو دنیا ایک گہرے اندھیرے غار کی طرح ہوتی۔ میں نے اپنی کتاب’’اسلام بہ مقابلہ مذاہب عالم‘‘ میں واضح کیاہے کہ فرضی مذاہب دیرپانہیں ہوسکتے۔ ڈنڈے یا اندھے عقیدوں کی بنیادپر کچھ نسلوں کو وہ متاثرتو کرسکتے ہیں لیکن ابدالآبادتک وہ اپناوجودبرقرارنہیں رکھ سکتے، لیکن اسلام قیامت تک کے لئے ہے ۔ کرۂ ارض پر رہنے والی نسلوں کو وہ ایک نظام عطاکرتاہے۔ زمان و مکان کی قیود سے یہ بالاترہے، جب کہ الحادی نظام نے اپنی ناکامی کا اعلان کردیاہے۔
بہر حال آج میں پختہ عقیدے کا مسلمان ہوں۔ اگرمیری جان کے دشمن مجھ سے سوال کریں گے کہ میں اپنا ایمان بچانے کے لئے جان عزیز رکھتاہوں یا موت، تومیرا جواب ہے کہ میں موت کوبہ خوشی گلے لگالوں گا، لیکن اپنا ایمان جانے نہیں دوں گا۔(ان شاء اللہ)

تبصرے بند ہیں۔