صابئہ مندائیہ (گزشتہ پیوستہ)

مولانا انیس احمد مدنی

صابئہ  کی مقدس کتابیں
صابئہ  کے یہاں مقدس کتابیں بارہ ہیں۔یہ سامی زبان میں لکھی ہوئی ہیں جو سریانی زبان سے ملتی جلتی ہیں۔
1۔کنزاربّا: اس کے لغوی معنی ہیں ’’عظیم کتاب‘‘ صابئہ  کا اعتقاد ہے کہ یہ اصلاً آدم علیہ السلام کو دئے گئے آسمانی صحیفے ہیں، اس کے محتویات اور عناوین متنوع ہیں۔ تخلیق کائنات ، مخلوقات کا حساب و کتاب ، دعائیں اور مختلف قصوں پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ عراقی میوزیم میں اس کا مکمل نسخہ موجود ہے۔ 1815ء میں یہ کتاب کوپنہاجن سے اور 1867ء میں یہ کتاب لایبزیغ سے شائع ہوئی ہے۔
2۔دراشہ ادیہیا: یعنی یحییٰ علیہ السلام کی تعلیمات ۔ یہ کتاب یحییٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح حیات اور آپ کی تعلیمات پر مشتمل ے ہے۔
3۔الفلستا: عقد نکاح کی کتاب، اس کتاب میں عقد شرعی ، خطبۂ نکاح اور مختلف دینی جشنوں کا بیان ہے۔
4۔سدرۃ اِدنشاما: اس کتاب میں بپتسمہ، تدفین ، سوگ کے مسائل اور روح کے عالم اجساد سے عالم انوار تک جانے کی کیفیت کا بیان ہے، عراقی میوزیم میں اس کا ایک جدید نسخہ پایاجاتاہے جو مندائی زبان میں لکھا ہواہے۔
5۔کتاب الدیونان: اس میں مختلف قصے اور بعض روحانیوں کی سوانح حیات مع تصاویر درج ہیں۔
6۔کتاب اِسفرملواثۃ: اس کے لغوی معنی سفرالبروج کے آتے ہیں، علم نجوم کے ذریعہ مستقبل کے امور و حادثات کی معرفت کے ذرائع اور طریقوں کے بیان پر یہ کتاب مشتمل ہے ۔
7۔کتاب النیانی: اس کے معنی ہیں ترانے اور دینی اوراد ۔ عراقی میوزیم میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔
8۔کتاب قماھاذہیقل زیوا: دو سو سطروں پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ اسے حجاب بھی کہاجاتا ہے۔ اس کے بارے میں صابئہ  کا یہ اعتقاد ہے کہ جو شخص اس کو اٹھائے ہوئے ہو،اس پر آگ یا ہتھیار موثر نہیں ہوتا۔
9۔تفسیر بغرہ: انسانی جسم کی ساخت اور اس کی بناوٹ پر مشتمل ہے اور ہرطبقہ کے لئے مناسب غذاؤں کا تذکرہ کیاگیاہے۔
10۔کتاب ترسسرألف شیالہ: بارہ ہزار سوالوں پر مشتمل کتاب۔
11۔دیوان طقوس التطہیر: تعمید، بپتسمہ کے مختلف طریقوں کے بیان پر مشتمل ہے۔
12۔کتاب کداواکدفیانا: پناہ اور تعوّذ کی کتاب
علماء کے مراتب اور ان کے فرائض
مذہبی رہنما بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ شخص جسمانی لحاظ سے صحیح سالم اور اس کے حواس خمسہ بالکل درست ہوں۔ شادی شدہ اور بااولاد ہو، ختنہ شدہ نہ ہو ۔ صابئہ  کے یہاں پرسنل لاء میں انھیں کے علماء کا سکہ چلتاہے (جیسے پیدائش، بچے کا نام رکھنا، بپتسمہ، شادی، نماز، ذبح اور جنازہ وغیرہ) ان کے چھ مراتب ہیں۔
1۔حلالی: اسے ’الشماس‘بھی کہتے ہیں، جنازے کی رسموں کو انجام دیتاہے ، ذبح کی سنتوں کو قائم کرتاہے۔اسے کنواری لڑکی سے ہی شادی کا حق ہے، شادی شدہ سے نہیں۔ اگر شادی شدہ عورت سے شادی کرلے تو یہ اپنے مقام کو کھودے گا اور اسے اپنے فرائض کو انجام دینے سے روک دیاجائے گا اور اس غلطی کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اور اس کی بیوی 360بار بہتی نہر میں غسل کریں۔
2۔الترمیدہ: حلالی جب دونوں مقدس کتابوں(ادنشاما اور النیانی) پر عبور حاصل کرلے تو عبادت گاہ میں موجود پانی میں غسل کرے اور سات دن بیدار رہے ، ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھ نہ جھپکے کہ مبادا احتلام نہ ہوجائے تو وہ حلالی کے مقام سے ترقی کرکے ترمیدہ کے مقام پر پہنچ جائے گا۔ اس کی ذمہ داری صرف کنواری لڑکیوں کا عقد کرانا ہے۔
3۔الأبیسق: وہ ترمیدہ جو بیوہ عورتوں کا عقد کرائے ، وہ ترمیدہ سے اُبَیْسَق کے مقام پر پہنچ جاتاہے اور پھر ہمیشہ اسی مرتبہ پر قائم رہتاہے۔
4۔الکنزبرا: وہ فاضل ترمیدہ جس نے کبھی بیوہ عورتوں کا عقد نہ کرایا ہو اور اپنی مذہبی کتاب ’کنزاربا‘ اس نے یاد کرلی ہو ، وہ اس مقام پر پہنچ جائے گا اور اسے اپنی مقدس کتاب ’کنزاربا‘ کی تفسیر کا حق حاصل ہوجائے گا۔ نیز اسے بہت سارے اختیارات مل جائیں گے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی قوم کے کسی فرد کو قتل کردے تو اس سے قصاص نہیں لیاجائے گا۔ کیونکہ وہ خدا کی جانب سے اپنی قوم پر وکیل بنایاگیاہے۔
5۔الریش أمۃ: یعنی رئیس امت اور وہ جس کا کلمہ امت میں نافذ العمل ہوتاہے۔ صابئہ  کے یہاں عصرحاضر میں کوئی رہنما اس مقام پر نہیں پہنچ پایاہے ، کیونکہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے وافر علم اور ممتاز قدرت و صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔
6۔الربانی: صابئہ  مذہب کے مطابق اس مقام پر صرف یحییٰ علیہ السلام ہی پہنچ سکے ہیں، نیز اس مقام پر بیک وقت دو افراد نہیں پہنچ سکتے۔ ربانی عالم انوار میں رہتاہے اور اپنی امت کو دین کی تعلیم و تبلیغ کے لئے زمین پر اترتاہے اور پھر دوبارہ اپنے نورانی عالم میں پہنچ جاتاہے۔
عبادات اور اس کے طریقے
مندی: صابئہ  کی عبادت گاہ کو ’’مندی‘‘کہتے ہیں، یہیں ان کی مقدس کتابیں رکھی جاتی ہیں اور مذہبی رہنماؤں کا بپتسمہ بھی اسی کے اندر انجام پاتاہے۔ ’مندی‘بہتی ہوئی دریاؤں کے داہنے ساحل پر تعمیر کیاجاتاہے اور ایک نہر دریا سے اندر لائی جاتی ہے ۔ اس میں صرف ایک ہی دروازہ جنوبی سمت میں ہوتاہے تاکہ عبادت گاہ میں داخل ہونے والے کا رخ قطب شمالی کے ستارہ کی جانب رہے۔ عبادت گاہ میں عورتیں داخل نہیں ہوسکتیں۔ عمل اور عبادت کے لمحوں کے دوران عبادت گاہ کے اوپر ’’یحییٰ‘‘ کے جھنڈا کا لہرانا لازمی ہے۔
نماز: نماز دن میں تین بار طلوع آفتاب سے کچھ پہلے، زوال آفتاب کے وقت اور غروب سے چند لمحے پہلے ادا کی جاتی ہے ۔ اتوار کے دن اور تیوہاروں کے موقعہ پر جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی مستحب ہے۔ نماز، قیام و قعود، رکوع اور جلسہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ البتہ اس میں سجدہ نہیں کیاجاتا۔ تقریباًسواگھنٹے تک جاری رہتی ہے ۔ اس میں نمازی ننگے قدم، پاک لباس میں سات قرأت کرتاہے جس میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کے ساتھ عالم انوار سے جاملنے کی راہ آسان کرنے کی خصوصی دعابھی شامل ہوتی ہے ۔
روزہ: صابئہ  روزہ کوحرام مانتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک روزہ رکھنا حلال اشیاء کو حرار قرار دینا ہے جو کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہے ۔ البتہ ان کے یہاں پہلے دوطرح کا روزہ مشروع تھا۔
1۔بڑاروزہ: اس سے مراد کبائر سے اجتناب اور گندی خصلتوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے۔
2۔چھوٹاروزہ: اس میں وہ سال بھر میں منتشر32دنوں میں حلال گوشت کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔
ابن الندیم (385ھ) نے اپنی کتاب ’’الفہرست‘‘میں اور ابن العبری(685) نے ’’تاریخ مختصرالدول‘‘ میں لکھاہے کہ قدیم زمانے میں صابئہ  ہرسال تیس دن کے روزے رکھتے تھے۔
طھارت: طہارت مردوعورت سب پر فرض ہے ۔ طہارت و پاکی اس پانی سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے جواپنے طبعی و فطری منبع سے منقطع نہ ہواہو۔ غسل جنابت کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کی نیت سے تین بارپانی میں ڈبکی لگائے اور قطب شمالی کے ستارہ کی جانب رخ کرکے وضو کرے، ان کے یہاں وضوکاطریقہ مسلمانوں کے وضو سے ملتاجلتاہے۔ وضو کے دوران متعدد دعاؤں کا التزام کیاجاتاہے۔
نواقض وضو میں پیشاب، سنڈاس اور ہوا کا خروج ہے۔ حائضہ اور دم نفاس میں مبتلا عورت کو چھونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتاہے۔
فقہ صابئی کے اہم احکام و مسائل
دوشیزگی کی تحقیق و تفتیش: ہرکنواری دولہن کو دولہے کے حوالہ کرنے سے پہلے اور اس کو بپتسمہ دینے کے بعد اپنی دوشیزگی کا ثبوت دینا پڑتاہے جس کی تفتیش کنزبرا کی والدہ یا بیوی انجام دیتی ہے۔
حد زنا: زانیہ عورت کو قتل نہیں کیاجاتاہے بلکہ چھوڑدیاجاتاہے اور اس کے لئے توبہ ممکن ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بہتے ہوئے پانی میں غسل کرے۔
طلاق: صابی مذہب میں طلاق غیرمشروع ہے، اگرشوہریابیوی میں شدید اخلاقی گراوٹ پائی جائے تو ایسی صورت میں کنزبراکے توسط سے زوجین کے درمیان تفریق کرادی جاتی ہے۔
مندائی سال: مندائی سال 12ماہ اور تین سو ساٹھ دن کا ہواہے۔ ہرماہ میں تیس دن ہوتے ہیں ۔ البتہ یہ لوگ ہجری تاریخ کو بھی صحیح مانتے ہیں اور اس کو استعمال کرتے ہیں، کیونکہ محمدعربیﷺ کی آمد کی پیش گوئیاں ان کی مقدس کتابوں میں مرقوم ہیں۔
اتوارکی تقدیس: عیسائیوں کی طرح اتوار کے دن کی تقدیس کے قائل ہیں اور اس دن وہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیتے۔
نیلارنگ: نیلے رنگ سے انھیں شدید نفرت ہے ، نیلے رنگ کو یہ مطلقاًنہیں چھوتے۔
غیرشادی شدہ شخص کا حکم: شادی ہر صابئی پر فرض ہے ، اگرکوئی شخص مجردرہے ، شادی نہ کرے تو ایسے شخص کو نہ تو دنیامیں جنت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی آخرت میں اسے جنت ملے گی۔
کاہنوں کا مقام: صابئہ  کے یہاں کاہنوں کا مقام کافی بلند ہے ۔ علم نجوم کے ذریعہ مستقبل کے حادثات کی پیشن گوئی کو مذہبی تقدس حاصل ہے ، اسی لئے نوجوان مرد اور عورتیں شادی سے پہلے اور تجارت وغیرہ کے لئے نکلنے سے پہلے کاہنوں کے پاس جاتے ہیں تاکہ شادی اور سفر کے مبارک دن کا پتہ حاصل کرسکیں۔ کاہن انھیں علم نجوم کے ذریعہ اس کی خبردیتے ہیں۔
تعداد ازواج: مرد کے لئے حسب استطاعت جتنی وہ شادی کرنا چاہتاہے ،جائزہے۔
دوا کی حرمت: یہ لوگ دوا نہیں پیتے، البتہ تیل و مرہم وغیرہ کے استعمال پر کوئی حرج نہیں۔
ذبیحہ اور اس کا طریقہ: یہ لوگ صرف اسی ذبیحہ کو کھاتے ہیں جسے عالم دین نے ذبح کیا ہو، اس کا طریقہ یہ ہے ذبح کرنے والا پہلے خود وضوکرتاہے پھر جانور کو تین بار پانی میں ڈبوتاہے اور اس دوران چنددینی اذکار کی تلاوت کرتاہے اور پھر شمال کی جانب رخ کرکے اسے اس طرح ذبح کرتا ہے کہ اس کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑجائے۔ غروب آفتاب کے بعد یا طلوع آفتاب سے قبل جانور کو ذبح کرنا حرام ہے۔ البتہ عید پنجہ کے دن جائز ہے۔
مخصوص لباس: ہردینی مجلس کے لئے مخصوص لباس متعین ہے اور ہر مرتبہ کے عالم کا لباس بھی ممتاز اور جدا ہے۔
بے اولاد شخص کا مسئلہ: اگرکوئی شخص بے اولاد مرجائے تو اسے ’’مطہر‘‘ پاکی حاصل کرنے کی جگہ سے گزارا جاتاہے تاکہ وہ وہاں چند روزرہ کر عالم انوار میں منتقل ہوسکے اور پھر وہ ان کے عقیدہ کے مطابق جسمانی روپ میں تشریف لاتاہے کیونکہ اس کی روح کوئی جسمانی روپ دھار لیتی ہے ، چنانچہ وہ شادی بھی کرتاہے اور بچے بھی پیدا کرتاہے۔
ترکہ: ترکہ صرف بڑے بیٹے کا حق ہے ، البتہ مسلمانوں کے پڑوس میں رہنے کی بناپرانھوں نے اسلامی قوانین میراث کو اپنالیاہے۔
اصطباغ اور اس کی قسمیں: اصطباغ یعنی بپتسمہ [توبہ کی نیت سے تروتازہ پانی میں غوطہ لگانا]اس مذہب کی اہم ترین رسم ہے،جو زندہ پانی میں ہی کیاجاسکتاہے۔ کوئی بھی عبادت یا رسم اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی خواہ گرمی کا موسم ہویاسردی کا۔ البتہ عصرحاضر میں ان کے مذہبی رہنماؤں نے اب غسل خانوں میں بھی اس رسم کی ادائیگی کی اجازت دے دی ہے اور چشموں کے پانی سے بھی اب اس رسم کو اداکیاجاسکتاہے۔
بپتسمہ کی یہ رسم مذہبی رہنما کے توسط سے ہی انجام دی جاسکتی ہے۔
بپتسمہ کی قسمیں: پیدائش، نکاح ، تیوہاروں کی مناسبت سے اصطباغ ضروری ہے، جس کی مختصرروداد درج ذیل ہے ۔
1۔پیدائش: بچہ جب 45دن کا ہوجائے تو پیدائش کی گندگی سے پاک کرنے کے لئے اس کو بپتسمہ دیاجاتاہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ بچہ کو گھٹنے تک بہتے ہوئے پانی میں داخل کیاجاتاہے اس حال میں کہ اس کا رخ قطب شمالی کے ستارے کی جانب ہو اور اس کے ہاتھ میں کی بنی ہوئی ایک سبز رنگ کی انگوٹھی رکھی جاتی ہے۔
2۔نکاح: شادی کی مناسبت سے یہ رسم اتوار کے دن ترمیدہ اور کنزبرا کی موجودگی میں انجام دی پاتی ہے۔ مخصوص لباس میں فلستا کے چند حصوں کے پڑھنے کے ساتھ تین بار غوطہ لگایاجاتاہے پھر دونوں ایک برتن سے جس میں نہر کا پانی ہوتاہے پیتے ہیں اسے’’ ممبوھہ‘‘کہتے ہیں پھر دونوں ’’بہثہ‘‘نامی ایک کھانا کھاتے ہیں پھر دونوں کی پیشانی کی سرسوں کے تیل سے مالش کی جاتی ہے پھرسات دن دونوں الگ الگ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھونہیں سکتے کیونکہ ان ایام میں وہ ناپاک تصورکئے جاتے ہیں۔ شادی کے سات دن کے بعد پھر سے ان کو پانی میں غوطہ لگوایا جاتا ہے اور ان سات دنوں میں جن رکابیوں، پلیٹوں اور ہانڈیوں میں ان دونوں نے کھایا یا پیا ہوتاہے انھیں دھلاجاتاہے۔
اجتماعی بپتسمہ: ہرسال عید پنجہ کے موقع پر اجتماعی طور پر جملہ مردوں اور عورتوں پر بپتسمہ لینا لازم ہے۔ عید پنجہ کے پانچوں دن کھانے سے پہلے تین بار پانی میں غوطہ لگانا ضروری ہے۔ جس کا مقصود سال گزشتہ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہوتاہے۔ عید پنجہ کے موقعہ پر دن و رات کسی بھی وقت اصطباغ کیاجاسکتاہے جبکہ بقیہ ایام میں یہ رسم صرف دن میں ادا کی جاتی ہے۔
میت اور اس کے احکام
صابی شخص جب جاں کنی کے عالم میں ہوتاہے تو روح نکلنے سے پہلے بہتی نہرمیں لے جاکربپتسمہ دلایاجاتاہے ، اگر وہاں لے جانے سے پہلے ہی انتقال ہوگیاتو وہ نجس مانا جاتاہے اور اس کو چھوناحرام ہوتاہے۔
جاں کنی کے عالم میں مبتلا شخص کو قطب شمالی کے ستارہ کی جانب رخ کرکے غسل دلایاجاتاہے اور پھر گھر واپس لاکر بسترپر ستارہ کی جانب رخ کرکے بیٹھایا جاتاہے ، یہاں تک کہ اس کی روح قبض ہوجائے۔
مرنے کے تین گھنٹہ کے بعد اس کی تجہیز و تکفین کی جاتی ہے ۔ جس مقام پر اس کا انتقال ہوا ہے وہیں تدفین ضروری ہے ، کسی اور جگہ منتقل کرنا جائز نہیں۔صابی کو قبر میں پشت کے بل لٹایاجاتا ہے ، اس حال میں کہ اس کا چہرہ اور اس کے دونوں پیرکی جانب ہوتے ہیں تاکہ جب وہ دوبارہ زندہ کیاجائے تو اس کا چہرہ ستارہ کی جانب ہو۔
میت کے منھ میں قبرکھودتے وقت کے پہلے پھاوڑے کی تھوڑی سی مٹی بھی رکھی جاتی ہے، انتقال کے موقعہ پر رونا اور نوحہ کرنا مطلقاً حرام ہے ۔ موت کا دن ان کے لئے فرح و سرور کا موقعہ ہوتا ہے جیساکہ یحییٰ علیہ السلام نے اپنی بیوی کو اس کی وصیت کی تھی ۔جس شخص کا اچانک انتقال ہوجاتا ہے ، اسے نہ توچھواجاتاہے اور نہ ہی غسل دیاجاتاہے اور مذہبی رہنما’کنزبرا‘اس کی جانب سے بپتسمہ کی رسم ادا کرتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔