سماج پر سوشل میڈیا کے اثرات 

عبدالباری شفیق السلفی

 افراد کے ملنے سے سماج اور معاشرہ بنتاہے سماج اور معاشرے میں مختلف قسم کے افراد بود وباش اختیار کرتے ہیں ،سب کے رجحانات ،احساسات وخیالات ایک دوسرے سےمختلف ہوتے ہیں ،سب کے رہنے اور جینے کا طریقہ الگ ہوتاہے، ان میں سے کچھ لوگ اچھائیوں کے خوگر ہوتے ہیں توکچھ ا س کے برعکس،البتہ  اچھائیوں بھلائیوں اور امربالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے قابل ستائش اور لائق مبارکباد ہوتے ہیں ،اور ایسے ہی لوگ دنیا وآخرت میں ترقی وکامرانی سے ہم کنار ہوتے اور کامیابی قدم بوس ہوتی ہے۔

آج جب ہم انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی بات کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ جدید ٹکنالوجی کے اس دورمیں سوشل میڈیا آپسی رابطے کاایک مؤثرترین ذریعہ بن چکا ہے، جملہ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہورہا ہے،ایک آدمی اپنے گھر بیٹھے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چندسیکنڈوں میں اپنا پیغام پہنچاسکتا ہے۔ موبائل میں بآسانی نیٹ کی سہولت دستیاب ہونے کے باعث پڑھے لکھے لوگ تو کجا ان پڑھ بھی سوشل میڈیا  کا استعمال کرنے لگے ہیں، ہرطبقہ یہاں پر اپنا اچھا خاصا وقت صرف کررہاہے، بالخصوص نوجوان نسل کے ذہن ودماغ پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکاہے، دن بھر کی لاکھ تھکاوٹ اورتکان ہو جب تک اس پر اپنا کچھ وقت بتا نہیں لیتا اسے نیند نہیں آسکتی۔

 دور جدید کی ٹیکنالوجی ترقیات کی وجہ سے دنیا ایک گائوں کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں انٹر نیٹ اور میڈیا نے معاشرے وسماج پر کافی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، چاہے اس کا تعلق سیاست سے ہو ،معاشرت سے ہو یااقتصادیات سے، انٹر نیٹ آج نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بنا ہواہے۔ گوگل اس میدان میں کافی اہمیت کا حامل ہے جس نے اپنے دو مقبو ل سائٹس یو ٹیوب اور آرکٹ(Orkut)کا آغاز کیا تھا۔ لیکن فیس بک کے آغاز کے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت کی بناء پر Orkutمیں نوجوانوں نے دلچسپی کھودی اور فیس بک دھیرے دھیرے اس میدان کا لیڈر بن گیا۔ فیس بک کے علاوہ اس میدان میں اور بھی دوسرے سائٹس داخل ہوئےہیں جیسے Twitter، My Space، Linkedon،اور whats app وغیرہ۔ لیکن آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ  استعمال ہونے والی سائٹس میں facebook، یوٹیوب اورTwitterکا شمار ہوتا ہے۔جب اس کی مقبولیت کا جائزہ لیتے ہیں تو بہت وجوہات سامنے آتے ہیں۔

٭ پہلی چیز تو یہ ہے کہ اس کا مفت استعمال تقریباً تمام سوشل میڈیا سائٹس پر دستیاب ہے۔اور کنندگان کو کسی قسم کی کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔

٭ دوسری وجہ ویب سائٹس نیٹ ورکنگ سہولیات کا پایا جانا ہے۔جو 3Gاور 4Gنیٹ ورکس کی بدولت موبائل آلات پر بھی آسانی سےدستیاب ہے جس سے جب جہاں اور جس وقت آپ چاہیں مستفید ہوسکتے ہیں۔

٭ تیسر ی وجہ اسکا آسان استعمال ہے ۔یعنی فیس بک،وہاٹس ایپ، Twitter،یو ٹیوب، گوگل وغیرہ کا استعمال کسی بھی عمر کے افراد بآسانی کرسکتے ہیں۔ Twitterنے اپنے مختصر میسیج کی سہولت کے بناء پر سیاست دانوں، فلمی اداکاروں، سماجی کارکنوں وغیرہ میں بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کرلی ہے اور بہت ہی قلیل مدت میں دیگر سائٹوں سے کافی مقبول ہوگیاہے۔

٭نئےاور انجان اشخاص سےملنے اور دوستانہ تعلقات کابہترین ذریعہ ہے۔ فیس بک اس معاملے میں کافی حساس واقع ہوا ہے اور وہ لوگوں کو اپنی دلچسپی، مصروفیات وغیرہ کی مناسبت سے ہم مشرب لوگوں سے خود بخود جوڑ دیتا ہے۔ نوجوان نسل میں اس چیزنے کافی مقبولیت حاصل کی ہے اور انھیں اصل دنیا (Real world)کے بالمقابل یہ دنیا کافی پرکشش محسوس ہوئی ہےجہاں آپ بوریت کا شکار ہوئے بغیر اپنے ہی طرح کے لوگوں کے درمیان اپنا وقت گزار سکتے ہیں۔

٭ اپنے افکار وخیالات شیئر کرنے کے وسیع تر مواقع کی سہولت ہے۔ جس کا دنیا میں لاکھوں لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں ۔اس نےنئےو پرانے دوستوں کو جوڑنے کا کام بہت اچھی طرح انجام دیا ہے۔

 اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے ایک نیا اسلوب جنم دیا ہے۔ لمبی تقریروں یا لمبے مضامین کے بجائے آسان اور سہل انداز اور کم از کم الفاظ میں اپنی بات کو ادا کرنے کا ہنر سوشل میڈیا نے بہتوں کو سکھایا ہے۔ بالخصوص Twitterا س معاملے میں اپنی جداگانہ پہچان رکھتا ہے۔ چبھتے تبصرے، تیکھے جواب اور ذومعنیٰ بیانات یہ ٹویٹرکے پیغام (ٹویٹس)کا خاصہ ہیں ۔اورسوشل میڈیا آج کل کسی بھی بڑی تنظیم (سیاسی، سماجی وغیرہ)کے لئے اپنے پیغام کی وسیع تر اشاعت کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ہندوستان میں کئی سیاسی جماعتوں نے اس کا مؤثر استعمال کیاہے۔ زعفرانی وزارت عظمیٰ کے دعویدار کا سبز نعرہ  اسی نے لگا کر کرسی اقتدار تک پہنچایاہے۔

اسی طرح سوشل میڈیا نے انسانی اخلاق پر بھی بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں، اس لیے تمام طرح کے برے جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ، چاہے وہ جسم فروشی کا دھندا کرنے والے ہوں، چاہے پورنوگرافی کا کاروبار کرنے والےہوں، سب لوگ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ جس کے اثرات آج بچوں اور نوجوانوں پر صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔

 اسی طرح آج سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو اپنی تجارت اور کاروبارکو فروغ دینے میں کافی مدد ملتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج کاروباری حضرات نئے نئے پروڈیکٹ کا مفت اشتہار دے کر اپنے سامان کو مارکیٹ میں اتارکراپنی دوکان چمکارہے ہیں اور اچھا خاصا منافع حاصل کررہے ہیں ۔لیکن افسوس جب ہم اغیار اور باطل مذاہب اورگمراہ فرقوں کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتاہے وہ سوشل میڈیا کے سہارے دین کے بازارمیں کھوٹے سکوں کو خوب خوب رائج کرکے دین اسلام کے خلاف مختلف قسم کےپروپیگنڈے کررہے ہیں اور یہود ونصاری اورمتعصب ہندو تنظیموں نے اسلام کے خلاف شبہات پھیلانےاور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کی  ہے،اور آج شرارت اس حد تک پہنچ چکی ہےکہ سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی نئی نسل میں طرح طرح کے شبہات پھیلاتے رہے ہیں تاکہ ان کو اسلام سے بدظن کرسکیں، آج اسلام اور انسانیت دشمن طاقتوں کا ایک گروہ سماج میں بے حیائی،فحاشی،عریانیت اوررقص وسرور کے وہ گل کھلارکھا ہےکہ گمان ہونے لگتاہے وہ انسان نہیں جانوروں سے بدترکوئی مخلوق ہے، تفریح کے نام پرمسلمانوں کی نئی نسل کو بدلنے کی منظم پلاننگ ہوچکی ہے۔یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنکا صحیح استعمال انسان کو کامیابی کی طرف اور غلط استعمال تنزلی کی طرف لے جاتاہے۔

     مسلمانو!ایسےناگفتہ بہ حالات میں سوشل میڈیا کی خطرناکی پر آنسو بہانا، اسے برائیوں کا سرچشمہ قرار دینا اوراس سے پیچھا

چھڑانے کی نصیحت کرنادوراندیشی کی علامت قطعاً نہیں ہوسکتی ۔آج ہم لاکھ سر پیٹیں اور اپنی نااہلی کا رونا روئیں لیکن ہماری نئی نسل اس سے دور نہیں ہوسکتی، کیونکہ میڈیا کا استعمال ہمارے ذہن و دماغ میں اس طرح رچ بس گیاہے کہ اس کے بغیر نہ ہم رات میں چین وسکون کی نیند سو سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے بغیر کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں ۔اس لئے میرے بھائیو ! اگر ہمارے دشمن انہی جدید آلات و ٹکنالوجی کو ہمارے خلاف استعمال کرکے ہمارے بچوں کو گمراہ کررہے ہیں تو کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھےدیکھتے رہیں ؟کیا ہم انہی آلات کا صحیح استعمال کرکے ان کی تعمیر وترقی میں نہیں کرسکتے؟ ان کے سامنے دین کا صحیح پیغام نہیں پہنچا سکتے؟قوم وملت اور ملک وسماج کی اصلاح نہیں کرسکتے،کتاب و سنت کی تعلیمات پوری دنیا میں عام نہیں کرسکتے، یہ ایک قابل غور امرہے جس پر ہمیں گہرائی وگیرائی سے سوچنا چاہئے اور حالات کا جائزہ لے کر اس کا کوئی مثبت حل نکالنا چاہئے تاکہ یہ جدید آلات ہمارے لئے مفید ثابت ہو سکیں۔

جب کہ افسوس اس بات کا ہے کہ آج مسلم نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا کا غلط استعمال کررہی ہے، جس سے بچوں کا کیرئیر خراب ہورہا ہے، معاشرے میں بے حیائی فروغ پارہی ہے،جس پر قدغن لگانا اور سماج کی اصلاح کرنا ہمارادینی فریضہ ہے اسلئے ہرمکتبہ فکر کے حاملین کو چاہئےکہ سوشل میڈیا کا استعمال اپنے مقاصد کی تکمیل اور کتاب وسنت کی بالادستی قائم کرنے کی خاطر کریں اور آفاقی دین کے حاملین اپنے دین کے محاسن اورآفاقیت کو فروغ دینے کےلئے کریں اور سوشل میڈیا کو دعوت کے فروغ کے لیے نعمت غیرمترقبہ سمجھتےہوئے شر کا مقابلہ خیر سے کرتے ہوئے اس کا استعمال خیرکے فروغ اوردعوت کے کاموں میں کریں، اسلام کی عالمگیریت اورآفاقیت سے غیرمسلموں کومتعارف کرائیں۔ بلاشبہ وہ سارے بھائی اوربہن قابل مبارک باد ہیں جو سوشل میڈیا کااستعمال خیرکے فروغ میں کررہے ہیں، ایسے لوگوں کو دیکھ کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلکتے ہیں، اوران کے حق میں زبان سے دعائیں نکلتی ہیں لیکن افسوس کہ ایسے لوگ بہت کم بلکہ نہ کے برابرہیں۔

اس لیے جن احباب نے اب تک سوشل میڈیا کا استعمال ذہنی تفریح کے لیے کیا ہے،ان کوچاہیے کہ اپنی زندگی میں وقت کی قدرو قیمت کو سمجھیں، اپنے ذہن ودماغ میں اسلام کی عظمت اورآفاقیت کو بٹھائیں، دعوت کے فروغ میں سوشل میڈیا کے کلیدی رول کوپیش نظر رکھیں اوراس کے لیے منظم پلاننگ کریں ،اگر ہمارے اندر دعوتی شعور آگیا تو فی الواقع سوشل میڈیا کے ذریعہ دعوت کا  کام اعلی پیمانے پر ہوسکتا ہے۔ اگراللہ پاک نے آپ کوتحریری اورتقریری صلاحیت دے رکھی ہے تو سوشل میڈیا  کااستعمال کرکے تعارف اسلام پر مبنی صفحہ کھولیں ،خود سے اسلام کا تعارف کرائیں ، دوتین منٹوں پر مشتمل آڈیوز اور ویڈیوز ریکارڈ کرکے انہیں اپلوڈ کریں ، اس سلسلے میں تجربہ کار دعاۃ سے رہنمائی حاصل کریں ، اگر تقریری یاتحریری قابلیت نہیں تو جولوگ سوشل میڈیا پردعوتی کام کررہے ہیں ان کے دعوتی مواد کو شیئر کریں ان پرستائشی تبصرے اور ہمت افزائی کے کلمات لکھیں، اپنے وال پرمستند دعوتی ویب سائٹس کے لنکس شیئرکریں، منتخب قرآنی آیات اوراحادیث نبویہ پوسٹ کریں ۔یہ اتنا آسان اور سہل کام ہےکہ سوشل میڈیا  کا شعور رکھنے والا ہرمسلمان اسے استعمال کرکے دین کی تبلیغ اور نشر واشاعت کرکے اللہ کے یہاں سروخرو ہوسکتا ہے اور قوم کے نونہالوں نیز معاشرے وسماج کی اصلاح کرسکتاہے، ور نہ وہ دن دور نہیں جب باطل طاقتیں انہیں آلات وٹکنالوجی کا استعمال کرکے ہمارے دین کو بگاڑ کر ہماری نئی نسل کے سامنے پیش کریں ،اور قوم نوح کی طرح ہمیں اور ہماری نسلوں کو شرک وبت پرستی اور بدعات وخرافات میں ملوث کرادیں۔

 اسلئےہمیں بھی ان جدید ٹکنالوجی کاصحیح اور بھر پوراستعمال کرکے دین کی نشرواشاعت میں کرناچاہئے اور سماج سے برائیوں بےحیائیوں اور فحاشیوں نیز شرک وبدعات کے خاتمے کی حتی الامکان کوششیں کرنی چاہئے۔ اللہ ہمارا حامی وناصرہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    عورتوں کے سر ننگے، بازو ننگے، ٹانگیں ننگی، کمر ننگی، یا تو ننگے سینے یا پھر اتنا چست لباس کہ سینے کے ابھار نمایاں، پیٹ ننگے صرف آزادی کے نام پر … کیا عورتیں اس قسم کا ہیجان انگیز شیطانی لباس پہن کر کالجوں، یونیورسٹیوں، بازاروں اور سیر گاہوں میں تہجد پڑھنے یا تسبیح پڑھنے آتی ہیں یا مردوں کے جذبات کو ابھار کر زنا کی ترغیب دیتی ہیں؟
    یا جنسی جذبات بڑھکاتیں فلمیں، ڈرامے یا آدھے ننگے جسموں سے بھر پور ٹی وی کمرشلز یا خبریں پڑھتی عورتیں ہیں جو مردوں کو للچا لچا کر زنیا کی ترغیبت دیتی ہیں؟
    یا موبائل کمپنیاں ہیں کہ جنہوں نے سستے پیکج کرکے رات بھر لڑکے گلیوں میں اور لڑکیاں کمروں میں یا باتھ روم میں چھپی شیطانی اور سیکسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔
    جب یہ سب کچھ ہوگا تو زنا ہر جگہ ہوگا! زنا ایک قرض ہے، آج آپ کسی کے ساتھ کرتے ہیں کل آپ کی فیملی میں سے کسی عورت کے ساتھ یہ زنا کرکے قرض چکائے گا۔ یہی قانون قدرت ہے۔ آئیے اسلام میں واپس آجائیں بھول جائیں مغرب کی گندی اقدار کو.
    اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جس پہ چل کر انسان جنت کا مستحق بن سکتا ہے اور زندگی میں کامیابی اور سکون حاصل کر سکتا ہے

تبصرے بند ہیں۔