نمرہ اور نمل!

عالم نقوی

نمرہ احمد اپنے قبیلے کے ہر فن کار سے میلوں آگے ہیں۔ انسان شناسی اور کائنات فہمی یوں تو ادب اور فلسفے کے بنیادی موضوع ہیں لیکن اس راہ میں لوگ بھٹکتے زیادہ اور منزل پر کم ہی پہونچتے ہیں لیکن  ان کی سب سے بڑی خصوصیت  ہمارے نزدیک یہی ہے کہ وہ انسان اور اس کے نفس کو پہچاننے کی اپنی سعی جمیل میں کامیاب ہو چکی ہیں۔

انسان جسے ’’اس (اللہ )نے  ایک ذرا سی بوند(نطفے) سے پیدا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ صریحاًایک جھگڑالو ہستی بن گیا (النحل۔ 4)اور ’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو اینٹھتا ہے اور پیٹھ موڑ لیتا ہے اور جہاں ذرا  کوئی مصیبت پڑی تو مایوس ہو نے لگتا ہے (بنی اسرائل۔83)واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے (بنی اسرائل۔ 100)بے شک انسان بڑا لالچی، تھڑ دلا، چھوٹے دل والا پیدا ہوا ہے جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو بے قرار ہو کر فریادی بن جاتا ہے اور جب مال مل جاتا ہے تو بخل سے کام لیتا ہے (المعارج 19۔21)

نمل کا ایک کردار (دس گیارہ سال کا ایک لڑکا )جنوں (جنات )سے ڈرتا ہے تو مصنفہ نمرہ  احمد ایک دوسرے کردار  (اس کی پھپھو) کی زبانی کہتی ہیں :’’تمہیں پتہ ہے کہ انسان جنوں اور فرشتوں سے زیادہ اشرف۔یعنی۔ زیادہ نوبل ہے ! ‘۔ مجھے پتہ ہے۔ اُس نے دینیات میں پڑھ رکھا تھا۔ اشرف ا لمخلوقات۔ ’’ تو انسان زیادہ نوبل اس لیے ہوتے ہیں کہ ہم وہ بھی کر سکتے ہیں جو، جِن نہیں کر سکتے ‘‘ ’’جن غائب ہو سکتے ہیں پھپھو‘‘۔ہا ں ! لیکن ہمیں چھپنے کے لیے غائب ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ آرام سے پریشانی اوراندر کا خوف چھپا کر خود کو نارمل ظاہر کر لیتے ہیں ‘‘۔’’مگر وہ اُڑ بھی سکتے ہیں ‘‘اسے جنوں کی تحقیر پسند نہیں آ رہی تھی۔ ’’اور ہمیں اوپر جانے کے لیے پیروں کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارا کردار ہمیں بلند کرتا ہے۔ ہم زیادہ مضبوط ہیں کیونکہ ہم اپنی فیملی کا مشکل اور پریشانی میں ہاتھ تھامتے ہیں ‘‘۔ ’’جنوں سےنہ ڈرا کرو ۔ ۔ایٹم بم نہ انہوں نے بنائے تھے، نہ برسائے تھے۔ انسان زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ‘‘۔(لیکن ) ’’انسان کو انسان بننے کے لیے بہادر بننا پڑتا ہے!‘‘ (نمل ص ص 232۔233)

حضرت علی ؑ کاقول ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا (من عرف نفسہ عرف ربہ )ان کا یہ عظیم  ناول ’نَمَل ‘جو شاید سب سے زیادہ ضخیم (چار جلدیں اور دو ہزار سے زائد صفحات  پر مشتمل ) ہے، اُن کے گزشتہ دو شاہکار ناولوں ’مُصحف ‘ اور ’ جنت کے پتے ‘ کی ’توسیع اور تفسیر ‘ ہے !

اللہ انہیں  اپنے سیدھے راستے پر اسی طرح پا مردی اور استقامت کے ساتھ تادیر سلامت رکھے !جو باتیں اس طرح کی تآ ثراتی یا تبصراتی تحریروں میں سب کے آخر میں کہی جاتی ہیں وہ ہم شروع ہی میں لکھ دینے پر خود کو مجبور پا رہے ہیں کہ ہمارے قارئین چاہے ہماری یہ تحریر بعد میں پڑھیں منشورات دہلی (ای اٹھاسی اے، ابوا لفضل انکلیو، جامعہ نگر  9810450228 [email protected]  سے رابطہ کر کے کتاب کے حصول کو پہلے یقینی بنا لیں۔

 ناول کا نام قرآن کریم کی ستائیسویں  سورۃ ’النمل‘سے مستعار ہے جو انیسویں پارے سے شروع ہوکر بیسویں میں تمام ہوتی ہے جس میں  دیگر قصوں کے علاوہ حضرت سلیمان  پیغمبر ؑاور ملک ِسبا کی ملکہ بلقیس  کا قصہ ہے۔ نمل کے معنیٰ ہیں ’چینٹیاں ‘The Ants اور یہی اس ناول کا تھیم ہیں۔

’’کیا تم جانتی ہو، حشرات ا لا رض میں سب سے زیادہ زہریلا کیڑا کون سا ہوتا ہے ؟‘‘۔۔’’چیونٹی Maricopa Harvester Ant دنیا کا سب سے زہریلا کیڑا ہے۔ اس کیڑے کو انتقام پر نہیں اکسانا چاہیے ورنہ اس کے کاٹے سے طاقتور سے طاقتور انسان بھی مر جائے۔ پتہ ہے ایک دفعہ کسی نے مجھ سے یہ بات کہی تھی کہ تم ساری عمر چیونٹی رہوگی (علیشیا حنین سے کہہ رہی تھی ) مجھے وہ بات پہلے بہت بری لگی، پھر اچھی لگنے لگی کیونکہ میں چیونٹی ہی تو ہوں ! سب کمزور اور بے بس لوگ چینٹیوں ہی کی طرح تو ہوتے ہیں۔ ‘‘(نمل ج 1 ص403)

’’دیکھو باقی جتنی بھی سورتیں ہیں (قرآن کی ) حشرات ا لارض کے نام پر ‘‘(سعدی حنین سے کہہ رہا تھا )’’ وہ (سب) واحد ہیں۔ العنکبوت یعنی ایک مکڑی۔ النحل یعنی ایک شہد کی مکھی۔ لیکن چینٹیوں کی سورۃ’جمع‘ کے صیغے میں ہے۔ پتہ ہے کیوں ؟(اس لیے کہ ) اکیلی چیو نٹی ہوتی ہی نہیں ہے۔ کبھی دیکھی اکیلی چیونٹی؟۔چینٹیاں ہمیشہ اپنی قطار میں، اپنے خاندان کے ساتھ ہوتی ہیں اکیلی ہار جاتی ہے، پاؤں تلے مسلی جاتی ہے۔ اور جو اکٹھی ہوتی ہیں، وہ کبھی نہیں ہارتیں۔ ۔‘‘( نمل ج 1ص421)

اور سعدی جب قرآن پڑھنے بیٹھا تو اس نے اپنی پسندیدہ سورۃ ا لنمل کھول لی۔ وہ حسب عادت اپنے اللہ سے باتیں کر رہا تھا :’’جب میں ابو کے ساتھ مسجد جاتا تھا تو وہ مجھے چینٹیوں کی قطار دکھایا کرتے تھے۔ تب میں سوچتا تھا کہ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں سے کیوں ملایا جائے ؟ مگر بہت دنوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ ’نَمَل ‘ کیڑے مکوڑوں کی سورۃ نہیں، یہ ’’فیملی ‘‘ کی سورۃ ہے ! خاندان کو کیسے جوڑ کر رکھنا ہے، مجھے ( اے اللہ ) آپ نے یہ اس  سورۃ سے سکھایا۔۔طٰسٓ تلک آ یٰت ُا لقرآن و کتاب  مبین (سورۃ النمل۔ ۱)۔یہ آیات ہیں قرآن کی، اُس کتاب کی جو روشن ہے !

’’یہ کتاب مبین والی بات آپ نے کتنی دفعہ بتائی ہے قرآن میں، پھر کچھ سورتوں کے  بعد یہی آیت کیوں لے آتے ہیں آپ ؟۔۔(لیکن ) ہر مرتبہ اس آ یت کا ایک نیا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ روشن کتاب۔ یعنی۔ ۔اس کے علاوہ مجھے دنیا کی کسی چیز سے کوئی روشنی نہیں ملے گی۔ کہیں سکون نہیں ملے گا۔ کہیں خوشی نہیں ملے گی۔ مجھے اس روشن کتاب  کے علاوہ اور کوئی نہیں بتائے گا کہ مجھے کب  کیا کرنا ہے (اس روشن کتاب کے سوا ) کوئی نہیں جو مجھے انگلی پکڑ کے صحیح فیصلے کرنا سکھائے۔ میرے دل کی بات سمجھ کر اللہ کی بات مجھے اس کے سوا اور کوئی نہیں سمجھائے گا۔ ھد ی ً و بشرٰ ی للمؤمنین۔ ہدایت اور خوشخبری ہے مؤمنین کے لیے ( سورہ النمل۔ 2)

خوشخبری !؟ تو یہ کتاب پڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ ہمیں فیصلہ کرنا سکھاتی ہے۔ ۔مگر کیا یہ خوش خبری میرے لیے بھی ہے ؟ مجھے تو خود نہیں پتہ کہ میں مؤمن ہوں یا نہیں ! اگر خود کو مؤمن سمجھوں تو خود پسندی ہے (اور ) عُجب (گھمنڈ) بھی اور اگر خود کو منافق سمجھوں تو یہ مایوسی ہے۔ ۔تو مجھے کیسے پتہ چلے کہ میں مؤمن ہوں ؟۔ ۔

’’یہ ہدایت اور خوشخبری ہے ان مؤمنین کے لیے جو نماز قائم کرتے ہیں ( سورہ النمل 3) ‘‘اور اس کے دل سے کوئی سِل سی ہٹنے لگی۔ ۔یعنی اگر مجھے قرآن کی خوشخبریوں سے اُمید رکھنی ہے تو مجھے کبھی نماز نہیں چھوڑنی چاہیے۔ جس وقت کی (نماز)چھوڑوں گا، اُس وقت آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔ مگر نماز صرف پڑھنے سے  تو اِفاقہ نہیں ہوتا !نمازقائم رکھنا اصل چیز ہے۔ ۔میں نماز نہیں چھوڑتا مگر جس دن یہ سوچوں کہ نہیں چھوڑتا اُسی دن کوئی نہ کوئی قضا ہو جاتی ہے۔ ۔

’’اور وہ جو اپنی زکوٰۃ  ادا کرتے ہیں اور وہ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ( سورہ ا لنمل۔ 3)‘‘۔۔’’میں یہ تینوں کام کرتا ہوں پھر بھی مجھے اپنے اچھے (مؤمن )ہونے کا کوئی یقین نہیں۔ شاید یہی بہتر بھی ہے۔ جب تک ہمارے گناہوں کا احساس (گِلٹGuilt )ہمارے ساتھ رہے، ہم کم از کم توبہ تو کرتے رہتے ہیں، اپنی عبادتوں پر غرور تو نہیں پیدا ہوتا۔ ۔پھر بھی مجھ سے گناہ سر زد ہوجاتے ہیں۔ اللہ ! لوگ جب مجھے نیک کہتے ہیں تو مجھے بہت گِلٹ ہوتا ہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہر نیک سے نیک آدمی بھی۔ ہزار مرتبہ۔ خود کو گناہ کرنے سے روکتا ہے۔ اور کئی بار نہیں بھی  روک پاتا۔ کتنا مزہ آتا کہ ایمان ایک ہی بار میں خرید لینے کی کوئی چیز ہوتی اور پھر ساری عمر کی گارنٹی۔ یہ روز روز اپنے آپ سے جنگ۔ جرم، گناہ اور توبہ کا چکر  !۔۔ یہ۔ ۔ زندگی اتنی پیچیدہ کیوں۔ ۔ ہے ؟ ‘‘ (نمل ج 1  ص639۔641)

لیکن ’’زندگی کا تھرل شاید مستقبل کو نہ جاننے ہی میں ہے (نمل ج 1  ص 519)‘‘

انسان، تبدیلی اور قرآن

بظاہر ایک جیسے ہونے کے باوجود انسانوں کا فکری، عقلی، اختیاری، عملی، مزاجی، خصائلی اور جذباتی ’’تنوع ‘‘ہی انسانوں کی سب سے بڑی صفت ہے  اور یہی’’ انسان قرآن کا بنیادی موضوع ہے‘‘(نمل ج 3 ص 1164) جسے اللہ جلَّ جلالہ نے  اسی لیے اپنی تمام مخلوقات سے ’اَشرَف ‘ قرار  دے کر اُسے زمین میں ’خلیفہ ‘بنا کے اُتار دیا ۔ خلیفہ اُسے کہتے ہیں جو کسی کی مِلک (ملکیت ) میں اُس کے نائب کی حیثیت سے اُس کی منشا کے مطابق اُس کے تفویض کردہ اِختیارات کا اِستعمال کرے (تلخیص ِ تفہیم ا لقرآن۔ البقرہ آیت۳۰ کاحاشیہ ص 30) لیکن۔ اِن ہی  اَشرَف ُا لمخلوق  میں سے ا گر ایک طرف  کوئی مسجودِ ملائک (البقرہ 34) اور کوئی  رَحمت لِلعالمین (الا نبیا 107) ہے تو دوسری طرف  اُن میں ’ ظالم اور جاہل ‘بھی ہیں  ’’ہم نے اس (بارِ ) امانت ( خلافت ) کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اُس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اُسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے (الا حزاب 72)

نمرہ احمد  نے  ’نمل‘ کے  پیش لفظ میں لکھا ہے کہ اِس میں ’’ آپ کو مختلف اَقسام کے لوگ ایک جگہ جمع نظر آئیں گے اور وہ سب ہماری زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اِن سب میں برائیاں اور اچھائیاں دونوں موجود ہیں۔ نمل کے اچھے کردار اتنے اچھے نہیں ہیں اور برے مکمل طور پر برے نہیں ہیں۔ ہمیں اِن سُرمئی کرداروں کی اچھائیوں کو اپنانا ہے اور اُن کی برائیوں سے سبق حاصل کرنا  ہے۔ اُن کے دُکھوں سے( اپنے جذبات کی نکاسی کے ذریعے )  اپنی کتھارسس کرنا ہے اور اُن کی کامیابیوں سے اپنے لیے وہ راستہ متعین کرنا ہے جس پر فی الواقع ہمیں چلنا چاہیے۔

کہانیوں میں دل دُکھا دینے  والے واقعات (اَلَمیوں۔ Tragedies) کی منظر کشی اِسی لیے کی جاتی ہے کہ زندگی میں ہمہ دَم  آگے بڑھتے  ہوئے قاری کے سینے میں آج  جو دل برف بنتا جا رہا ہے،  سخت  سے سخت تر ہوتا جارہا ہے اُسے دِل دُکھانے والے  اِن واقعات کے کلہاڑے سے توڑا جا سکے۔ وہ ٹوٹے گا تو اندر روشنی اور تپش داخل ہوگی جبھی وہ پگھل کے نرم پڑے گا اور اپنے جذبوں کو اُن کی حقیقی شدت سے محسوس کر سکے گا۔ اگر ’نمل ‘جیسے ناول نہ لکھے جائیں اور نہ پڑھیں جائیں تو دنیا کے دُکھ، دَھکّے، نِت نئی مصیبتیں اور تکلیفیں ہمیں اور زیادہ سخت دل، اور زیادہ شقی اور زیادہ بے حس بناتی چلی جائیں گی اور نرمی، نیکی، سعادت و رافت اور نعمت و رحمت سے ہم اُتنا ہی دُور ہوتے چلے جائیں گے ۔

’نمل‘ جیسی کتابیں  دل کے اِمراض کو پہچاننے اور اپنے خون کے رِشتوں سے واپس جڑ جانے، قطع رحمی چھوڑ کر صلہ رحمی کرنے، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور ظالم کے بجائے مظلو م کا ساتھ دینے کا حوصلہ اور طاقت بہم پہنچاتی ہیں۔ (نمل ج ۱ پیش لفظ ص ۷)کیونکہ ’’وہ لوگ جو ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور غیر جانبدار رہتے ہیں، چاہے خود بھی کوئی غلط کام نہ کرتے  ہوں، اللہ انہیں، اُن کی نمازوں اور صدقات کے باوجود عذاب سے محفوظ نہیں رکھے گا۔ (نام نہاد ) غیر جانب دار رہنے والوں کوفلاح و بقا کی ساری امید ترک کردینی چاہیے کیونکہ جب عذاب آئے گا تو وہ صرف اُن لوگوں پر نہیں آئے گا جو برے کام کرتے تھے۔ ’’اللہ نے نہیں بنائے کسی آدمی کے سینے میں دو دل ‘‘اگر آپ کا دل اچھے لوگوں کے ساتھ نہیں ہے تو وہ برے لوگوں کے ساتھ ہے‘‘ ’’انسان کو اس کی غیر جانبداری جہنم میں ضرور پہنچا تی ہے ‘‘(نمل ج 3 ص 1080۔1081۔1129)کیونکہ قرآن میں دنیا والوں کے دو ہی گروہوں کا تذکرہ ہے۔ ایک حزب ا للہ اور دوسرے حزب ا لطا غوت۔ Fence Sitters کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ آپ اگر حق کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر باطل کے ساتھ ہیں۔ آپ بیک وقت حسین ؑاور یزید دونوں کا ساتھ کھڑے نہیں رہ سکتے۔ یہ فیصلہ تو آپ کو کرنا ہی پڑے گا کہ آپ اس معرکہ حق و باطل میں کدھر ہیں ؟

ویسے تو حقیقت یہی ہے کہ ’’انسان نہیں بدلا کرتے۔ لاکھوں میں سے ایک دو تو بدل سکتے ہیں، مگر ہر کوئی نہیں بدلتا‘‘ (نمل ج 3 ص 1185) لیکن یہ بھی حقیقت ہے انسان چاہے تو خود کو، اپنے آپ کو بدل سکتا ہے مگر ہم ہیں کہ اپنے گرد و پیش کی دنیا کو تو بدلنے کی شدید خواہش رکھتے  ہیں اور اُس کے لیے نام نہاد کوشش بھی کرتے ہیں مگر خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے جو ہمارے اختیار میں ہے اور اللہ سبحا نہ تعالیٰ نے قوموں کی تبدیلی کا راز بھی اُسی عمل سے مشروط کر   رکھا ہے ’’اللہ اُس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ اس کے افراد خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے ‘‘(الرعد۔ 11) اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ ہر انسان کے لیے بس اُتنا ہی ہے جتنی اُس نے کوشش  کی ہے اور اُس کی کوشش عنقریب اُس کے سامنے پیش کر دی جائے گی اور اُسے اُس کی کوشش کا پورا بدلہ دے دیا جائے گا (سورہ النجم 38۔41)

نمرہ احمد کا بنیادی وصف قرآن سے محبت اور دوسروں کو قرآن سے  ہدایت  طلب کرنے کی طرف راغب کرنا ہے ’’دین کی تبلیغ کے لیے صرف تقریر کافی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کو متآ ثر بھی کرنا ہوتا ہے جیسے حضرت سلیمان ؑ نے  ملک ِ سَبا کی ملکہ بلقیس کو اپنے معجزوں سے متآ ثر کیا۔ ۔شیشے کے محل اور جنات کے لشکر، اڑنے والے  اور پلک جھپکنے میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر لینے والے تخت، وغیرہ مگر ہمارے پاس تو یہ معجزے نہیں ہیں !

پھر ہمارا، اِس اُمت کا معجزہ کیا ہے ؟یہ معجزہ ہے قرآن جسے امت کے بڑے حلقے نے ’’مہجور ‘‘ بنا رکھا ہے ہمیں اسی قرآن سے دوسروں کو مسحور و متآ ثر کرنا ہوگا۔کبھی قرآن سنا کر اور  کبھی، بلکہ بیشترخود چلتا پھرتا قرآن بن کر جبھی ہماری  باتیں، ہماری نصیحتیں  مؤثر ہوں گی اور  ہماری تبلیغ دھیان سے سنی جائے گی (نمل ج 3 ص 1101)

’’سعدی کہتا تھا ’’کبھی مجھے بہت سا وقت ملے تو میں ایک کتاب لکھوں گا قرآن پر۔ حنین نے پوچھا، تفسیر لکھوگے ؟ وہ کہتا میں تفسیر کیسے لکھ سکتا ہوں ؟ بہت تفاسیر موجود ہیں پہلے ہی سے۔میں صرف قرآن پر غور و فکر کر کے آیات سے ملنے والے اسباق لکھنا چاہوں گا کہ میں نے  اِس آیت سے کیا سمجھا اور کیا سیکھا۔ حنین اُسے ڈراتی، بھائی ! فتوے لگ جائیں گے، لوگ کہیں گے آپ کو قرآن پر کچھ لکھنے کی اجازت کس نے دی ؟ اَہلیت کیا ہے آپ کی ؟ (کس مدرے میں پڑھا ہے آپ نے ؟ جبکہ مدرسہ تو کیا آج تک کسی دار ا لعلوم میں بھی قرآن بہ حیثیت ایک نصابی کتاب As a Text Book  مکمل، از الحمد تا الناس نہیں پڑھایا جاتا ! یاد کرانے کو پڑھانا نہیں کہتے اور وہ بھی بغیر سمجھے یاد کرنا اور کرانا )تو وہ ہنس کر کہتا، مجھے نہ اُن کی اِجازت کی ضرورت ہے، نہ مجھے اُن کے فتووں سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ مجھے قرآن پر غور و فکر کرنے کا حق اللہ نے دیا ہے۔ مجھے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی تاکید اللہ نے کی ہے۔ ۔ کوئی مجھ سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔ ہم اللہ کا کنبہ ہیں۔ ہم اللہ کے مددگار ہیں ہم تو بھئی ڈنکے کی چوٹ پر قرآن کا پیغام عام لوگوں تک پہنچائیں گے عام اور سادہ زبان میں (نمل ج 3 ص 1200۔1201)

 جب بھی کوئی ہمارے پاس اللہ کی بات لے کر آتا ہے، قرآن کی بات کرتا ہے تو، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اُس کےفرقے، اُس کے عقیدے، اُس کے خاندان کو زیر بحث کیوں لے آتے ہیں ؟ ہم ایسی قوم کیوں بنتے جارہے ہیں جو برائی پھیلانے والوں (اَن تَشیعَ ا لفا حِشَۃ۔النور۔ 19) کو تو ٹی وی کے آگے جم کر بیٹھ کر دیکھتی ہے مگر نیکی کا حکم دینے والوں اور قرآن کی بات کرنے والوں پر فوراً فتوے لگا دیتی ہے ؟ (نمل ج 3 ص 1205)

شکر،دعا اور توبہ

’’اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقیناً جو میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔ اللہ ہی وہ ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پیدا کیا ہے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو اور دن کو روشنی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ فضل و کرم کرنے والا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس کا شکر ادا نہیں کرتی۔ (سورہ غافر 60۔61)

’’کہا اس شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں لاؤں گا  (ملک سبا کی ملکہ بلقیس کے )اس (تخت ) کو تیرے پاس پلک جھپکنے سے بھی پہلے، پھر جب دیکھا سلیمان نے اُس  تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا تو کہا  کہ یہ میرے رب کا فضل ہے کہ تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اُس  کاشکر ادا کرتا ہوں یا نا شکری کرتا ہوں۔ اور جو شکر کرتا ہے تو یقیناً وہ شکر کرتا ہے اپنی ذات کے لیے اور جو کفر (یعنی نا شکری یا کفرانِ نعمت ) کرتا ہے تو میرا پالنے والا تو بڑا بے نیاز اور بڑی عزت والا ہے (سورہ نمل۔ 40)

’’پلک جھپکتے میں ہزاروں میل کا فاصلہ عبور کر کے تخت آجاتا ہے سلیمانؑ کے پاس، اور وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ میرے رب کا فضل ہے ‘‘! اور ہمارے پاس جب پلک جھپکتے میں ہزاروں کلومیٹر دور سے کوئی ای میل، کوئی فیکس، کوئی ویڈیو کال آجاتی تو ہم کہتے ہیں، یہ سائنس کا فضل ہے۔ (ایمو اور ) اسکائپ کا فضل ہے، وائی فائی کا فضل ہے ! ایسا نہیں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ ا لسلام نے اس شخص کی  تعریف نہ کی ہو۔ یقیناً اس کی محنت کو سراہا ہوگا اس کی تیزی اور پھرتی کی ستائش کی ہوگی مگر  سب سے پہلے، اور پہلی تعریف انہوں  نے اللہ کی بیان کی اور اس کا شکر ادا کیا مگر ہم، اس کے برخلاف پہلی تعریف اللہ کی نہیں، سائنس، اسکائپ اور وائی فائی کی کرتے ہیں !۔ ۔اللہ ہمیں نعمتوں سے اس لیے  نہیں نوازتا کہ ہم بہت نیک ہوتے ہیں، بلکہ یہ  دیکھنے کے لیے نوازتا ہے کہ  ہم اس کے بعد بھی نیک رہتے ہیں یا نہیں ؟

 اللہ کا ذکر نعمتوں کی حفاظت کرتا ہے اور اللہ کا شکر نعمتوں کو بڑھاتا ہے ! یہاں اللہ سبحانہ نے ’ناشکری ‘ کے لیے ’کفر ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ ناشکروں سے بے نیاز ہے، اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ بندوں کی تعریف اور شکر کے بغیر بھی اتنا ہی صاحب اختیار اور صاحب عزت ہے۔ (نمل ج 3 ص 1099)

’’اور سلیمان نے کہا کہ انجان طریقے سے اس کا تخت اس کے سامنے رکھ دو، دیکھیں وہ سمجھتی ہے یا ان لوگوں جیسی ہوتی ہے جو راہ راست کو نہیں پاتے۔ جب ملکہ حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟اس نے کہا ’یہ تو گویا وہی ہے ‘ہم تو پہلے ہی سمجھ گئے تھے اور ہم نے سر اطاعت جھکا دیا تھا

(دراصل ) اس کو (حضرت سلیمان ؑ کے سامنے حاضر ہو نے سے قبل) جس چیز نے ایمان لانے سے  روک رکھا تھا وہ ان معبودوں کی عبادت تھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی (النمل 41۔43)

’’روک رکھا تھا ‘ سعدی چونکا۔ اللہ کی عبادت سے آپ کو کیا چیز روکتی ہے ؟ فجر کے  وقت  آپ کی آنکھوں پر کیا چیز بوجھ ڈالتی ہے اور اٹھنے نہیں دیتی ؟ صرف نیند میں اتنی طاقت نہیں ہوتی۔ یہ وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی آپ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں۔ عبادت کہتے ہیں عاجزی اور انکساری سے کسی کے سامنے جھک جانے کو۔ ۔ایک جگہ قرآن میں بتوں کی عبادت کرنے والوں کے  لیے بھی یہ لفظ استعمال کیے ہیں کہ ’’کیوں ہو تم ان کے آگے جم کر بیٹھنے والے۔ ‘‘تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم جس چیز کے آگے بھی مبہوت و مسحور سے جم کر بیٹھتے ہیں  وہ ایک طرح سے ہمارے معبود کی جگہ لے لیتے ہیں خواہ وہ ٹی وی اسکرین ہو یا کمپیوٹر اور اب تو موبائل فون جو ہمارے ہاتھوں سے کبھی الگ ہوتا ہی نہیں ! اور جتنی زیادہ ان ’معبودوں ‘ کی مداخلت ہماری زندگی میں بڑھے گی اُتنی ہی عبادت کم ہوگی۔ یہ تو طے ہے (نمل ج 3 ص 1100)

حنین نے پوچھا ’’اور جب زندگی سب کچھ چھیننے پر آجائے تو کیا کرنا چاہیے ؟‘‘شیخ نے کہا ’’دعا۔ ‘‘دعا کیا کرتی ہے ؟ ’’آنے والی مصیبتوں کو روکتی ہے اور جو مصیبت اتر چکی ہو اس کو ہلکا کرتی ہے۔ یہ مؤمن کا ہتھیار ہے۔ دین کا ستون ہے۔ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ۔دعا مصیبت سے کمزور ہے تو مصیبت حاوی ہو جائے گی۔ دعا مضبوط ہے تو دعا حاوی ہوگی ‘‘اور اگر دونوں ہی ایک جتنی مضبوط ہوں تو ’’دعا قیامت تک اس مصیبت سے لڑتی رہے گی ‘‘ یعنی۔ ’اگر دعا چھوڑ دی  یا دعا کی شدت میں کمی کردی تو مصیبت کا پلہ بھاری ہوجائے گا‘۔

اب رہا یہ سوال کہ  دعا کیا کرتی اور کیا کر سکتی ہے تو  یہ دعا ہے جو ’’ قضا وقدر کو رد کر سکتی ہے، ویسے ہی جیسے نیکی عمر بڑھاتی ہے اور گناہ رزق میں کمی کرتے ہیں یا اس سے محروم بھی کر سکتے ہیں ‘‘

’’ اور اگر وہ ’جلد بازی ‘ نہ کرے تو دعا ہر شخص کی قبول ہوتی ہے۔ ‘‘جلد بازی کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر (جو بذات خود کفر ہے ) یہ کہنے لگے کہ میں نے تو بہت دعا کی ، چونکہ میری کوئی دعا قبول ہی نہیں ہوتی اس لیے میں اب دعا مانگنا چھوڑ دیا ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کی کوئی بات جس سے مایوسی کا اظہار ہوتا ہو نہ کہے یا  نہ  کرے  تو دعا بے شک قبول ہو کر رہے گی۔

کچھ لوگوں کی دعا بہت جلدی قبول ہوجاتی ہیں تو کیا اس لیے کہ بہت نیک ہوتے ہیں ؟ ’’ایسا بھی ہو سکتا ہے ‘‘۔مگر دعا کی قبولیت کا اصل راز دعا مانگنے والے کے طریقے  میں مضمر  ہے۔ یعنی وہ دعا مانگتا کیسے ہے  اور کتنی شدت سے مانگتا ہے ! ‘‘(نمل ج 2 ص 666۔667)

’’انسان اپنی دعاؤں سے پہچانا جاتا ہے۔ بے اختیاری میں منہ سے نکلی دعائیں اندر کی کشمکش کی عکاس ہوتی ہیں (نمل ج 3 ص 1205)

جناب ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ جناب سارہ جو حضرت اسحٰق علیہ السلام  اور تمام بنی اسرائل کی ماں ہیں، جب ان کو فرشتوں نے فرزند کی بشارت دی تو وہ بہت بوڑھی (اور بانجھ) تھیں۔ اور ان سے بھی پہلے جناب زکریا علیہ السلام کی اہلیہ بھی بانجھ تھیں، جب انھوں نے دعا کی ’’ یہ زکریا کے ساتھ تمہارے پروردگار کی مہر بانی کا  ذکر ہے جب انہوں نے اپنے رب کو دھیمی آواز سے پکارا۔ کہا کہ میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے کی آگ سے بھڑک اٹھا ہے اور۔ ۔۔میری بیوی بانجھ ہے۔ ۔زکریا ہم تمہیں ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے۔ ۔(سورہ مریم۔ ابتدائی سات آیات کا خلاصہ ) ’’اور زکریا کو یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑ دیناکہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے تو ہم نے ان کی دعا کو بھی قبول کیا اور انہیں یحییٰ جیسا فرزند عطا کر دیا۔ ۔(سورہ انبیا 89۔90)’’ اور ابراہیم کے پاس ہمارے نمائندے بشارت لے کر آئے اور سلام کیا تو ابراہیم نے بھی سلام کیا اور تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بھنا ہوا بچھڑا لے آئے اور جب دیکھا کہ ان لوگوں کے ہاتھ ادھر نہیں بڑھ رہے ہیں تو تعجب کیا اور ان کی طرف سے خوف محسوس کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ابراہیم کی زوجہ (سارہ ) اسی جگہ کھڑی تھیں یہ سن کر ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحٰق کی بشارت   دی اور اسحٰق کے بعد پھر یعقوب کی بشارت دی تو انہوں نے کہا کہ اب میرے یہاں بچہ ہوگا جب کہ میں بھی بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں۔ ۔تو فرشتوں نے کہا کہ تمہیں حکم الٰہی میں تعجب ہو رہا ہے (جبکہ ) اللہ کی رحمت اور برکت تم گھر والوں پر ہے اور وہ (اللہ ) قابل حمد اور صاحب مجد و بزرگی ہے ( سورہ ھود 69۔73)

جناب ابراہیم و زکریا علیہم ا لسلام کی بیویوں کے یہاں صرف اس لیے اولاد نہیں ہوئی کہ وہ پیغمبروں کی زوج تھیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اس کے لیے دعا کی تھی۔ اللہ دعا رد نہیں کرتا لیکن دعا میں یقین ہونا چاہیے۔ ۔شدید پریشانی کی حالت میں دعائیں بھی شدید مانگنی ہوتی ہیں۔ یہ پانچ وقت کی نماز کے بعد روٹین کی طرح دعا مانگنا کافی نہیں ہوتا۔ جتنی بڑی آزمائش ہے اتنا ہی  زیادہ اپنی دعاؤں کو بھی بڑھائیں یہ وہی اللہ ہے جو جناب ابراہیم و زکریا علیہم ا لسلام اور ان کی بوڑھی اور بانجھ بیویوں کا اللہ تھا۔ ۔بندوں کی آزمائش بھی بلاوجہ نہیں ہوا کرتی۔ ٹھیک ہے کہ۔ ۔،جن کے رُتبے ہیں سِوا اُن کو سِوَا مُشکل ہے۔ ۔لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ اپنے کسی بندے کو اس کے کسی عمل کی جزا کے طور پر اسے  کوئی اونچا درجہ عطا کرنا چاہتا ہےلیکن اس کے اعمال اتنے زیادہ نہیں ہوتے یعنی وہ اچھا ہوتا ہے لیکن بہت زیادہ نیکیاں نہیں کر رہا ہوتا۔ ۔تو  اللہ اُس پر پریشانیاں ڈالتا ہے تا کہ اس کے گناہ جھڑ سکیں۔ جیسے جیسے اس کے گناہ جھڑتے جاتے ہیں اس کا درجہ بلند ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ مطلوبہ مقام تک پہنچتے ہی اس کی آزمائش، اس کا امتحان  سب ختم  ہو جاتے ہیں۔ ۔حدیث میں آتا ہے کہ انسان کو کوئی چیز ملنے والی ہوتی ہے تو کبھی اس کے گناہ آڑے آ جاتے ہیں۔ ‘ اس لیے گناہوں سے بچیں اور زیادہ سے زیادہ اچھے اعمال کرنے کی کوشش کریں۔ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’کشادگی کا انتظار بہترین عبادت ہے ‘ لہٰذا ہر شخص کو اپنی تنگی اور اپنے ’عُسر ‘ میں اپنی کشادگی اپنے ’ یُسر ‘ کا انتظار کرنا چاہیے۔۔بے اولادی یا اولاد کی ذہنی یا جسمانی معذوری عذاب اور CURSE  نہیں، اللہ ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جن کو آزمانے کے لیے وہ انہیں بڑے دکھ دیتا ہے۔ (نمل ج 2 ص 1052۔1053)

  اور رہی ’توبہ ‘ تو وہ صرف گِلٹ Guiltمحسوس کرنے اور ’آئی ایم سوری ‘‘ کہہ دینے  اور مجھے معاف کر دیجیے یا میں معافی چاہتا ہوں، کہہ دینے کا نام نہیں ہے۔ توبہ یہ بھی نہیں کہ گناہ کا ڈپریشن لے کر ہر شے تیاگ کر بیٹھ جایا جائے۔ توبہ ’ مایوسی اور خود اَذِیَّتی ‘ کا نام بھی نہیں۔ توبۃُ النَّصوح کا مطلب ہے انسان کو احساس ِگناہ ہو، پھر ندامت ِ گناہ ہو پھر وہ معافی مانگے اور اگر اس معافی کا کوئی کفارہ ہے تو وہ  بھی ادا کرے۔ پھر دوبارہ وہ کام، وہ غلطی، وہ گناہ کبھی نہ کرنے کا عہد کرے۔ اور پھر ہمیشہ اچھے کام کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اپنے گناہوں کو جسٹی فائی کرنا ہر گناہ سے بڑا گناہ ہے۔ (نمل ج2 ص 943)

توبہ نام ہے راستہ بدلنے کا۔ سبھی غلط کاموں کو چھوڑ دینے کا۔ اور پوری نیک نیتی کے ساتھ پھر سے ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرنے کا ! اپنے ہر ’’غلط ‘‘ کو ’’صحیح اور درست ‘‘ کرنے کا۔ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔ اگر انسان بڑے گناہ چھوڑ دے تو اس کی چھوٹی چھوٹی بری عادتیں   وہ رحیم و کریم آقا  خود چھڑوا دیتا ہے۔ گناہوں پر صرف ’’افسوس کا اظہار ‘‘ توبہ نہیں ہے ’شرمندگی اور ندامت ‘ بھی ضروری ہے۔ افسوس اور شرمندگی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ گناہوں پر سچی ندامت کے بغیر اصلاح کا کوئی امکان ہی نہیں۔ اور اصلاح کے بغیر کوئی توبہ، توبہ نہیں۔ ہاں اگر انسان واقعی اپنے گناہوں اور اپنے کرتوتوں پر نادم ہو اور وہ خود کو بدلنا چاہتا ہو اور خود کو بدلنے کی ایمانداری سے کوشش بھی کرے تو کوشش کی کامیابی یا ناکامی نہیں کوشش کی نیت اور کوشش کا اخلاص دیکھا جائے گا۔ (نمل ج 3 ص 1165۔1166)

تبصرے بند ہیں۔