سمندر کو ابالا جا رہا ہے 

عمران فاروقی

 سمندر کو ابالا جا رہا ہے

زمیں کا دم نکالا جا رہا ہے

ترے ٹوٹے ہوے خوابوں کا ملبہ

میرے بستر پہ ڈالا جا رہا ہے

اندھیرا کر رہا ہے رہبری اور

تعاقب میں اجالا جا رہا ہے

کمی تو ہے نیولوں کی جہاں میں

مگر سانپوں کو پالا جا رہا ہے

فرشتے چھوڑنے آےُ ہیں بس تک

کوئی اللہ والا جا رہا ہے

خردمندوں کو دینے دعوت کیف

صراحی اور پیالہ جا رہا ہے

بدن کو دھوپ کے پگھلا کے عمرانؔ

میرے سائے میں ڈھالا جا رہا ہے

2 تبصرے
  1. عبدالرحیم اشہر کہتے ہیں

    مختصر بحر میں بہت عمدہ غزل کہی آپ نے بہت خوب جناب۔۔لیکن پوری غزل میں املا کی غلطیاں در آءی ہیں‌جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے

    1. مضامین ڈیسک کہتے ہیں

      املا کی غلطیوں کی نشان دہی کے لیے شکریہ۔ درست کردی گئی ہیں۔ سلامت رہیں۔

تبصرے بند ہیں۔