سنگھ کی پیش قدمی اور ہمارا طرز عمل

وصیل خان

یوں تو مسلمان ساری دنیا میں ذلیل و خوارہورہے ہیں لیکن وطن عزیز میں جو فی الوقت حالات ہیں وہ نہ صرف ناگفتہ بہ ہیں بلکہ دن بدن مزید خراب ہوتے جارہے ہیں، ہر صبح کا سورج اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ نئی افتاد کے ساتھ آتا ہے کہ کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے، قرآن کہتا ہے کہ وانتم الاعلون ان کنتم مومنین، تمہیں سربلند رہوگے اگر تم مومن ہوجاؤ،اسی طرح حدیث رسول ہے کہ اتقوابفراست المومن کانہ ینظربنوراللہ یعنی مومن کی فراست سے ڈروکیونکہ اس کی نگاہیں اللہ کے نور سے روشن ہوتی ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ زمین و آسمان اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں لیکن خدا اور رسول کے قول میں نہ کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے نہ ہی اس کی عدم صحت پر کوئی کلام کیا جاسکتا ہے۔

 ایسی صورتحال میں ہمیں اس بات پر غور کرنا ضرور ی ہوجاتا ہے کہ پھر یہ جو ہماری حالت زار ہے اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں،اس کے تدارک کیلئے اقدامات بھی ہمیں ہی اٹھانے ہوں گے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ بند ہ اگرمیری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں  اس کی جانب ایک ہاتھ آگےآجاتا ہوں۔ آج ہم مسلکوں اور فرقوں میں بنٹ کر آپس میں ہی برسر پیکار ہیں، ایک دوسرے کو کافرومشرک کہہ کرجہنمی قرار دے رہے ہیں، شاعرمشرق نے ٹھیک ہی لکھا ہے ’بجلیاں جن میں ہوں آسودہ و ہ خرمن تم ہو ‘ مذہب پر تو قائم ہیں لیکن اس کی روح سے نا آشنا ہیں، اس کے اصول و ضابطوں کو درکنار کرکے اپنی خواہشات اور من مانیوں میں مصروف ہیں، کوئی بتائے کیا یہی اللہ اور اسکے رسول کی تابعداری ہے اور اگر ہے تو پھرذلت ورسوائی کا سامنا کیو ں۔ ہم اپنے اعمال سے مسلسل اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں اورکتنی بے شرمی سے اس کی عنایات کے منتظر ہیں ہم نے دین سے ناطہ توڑااسلاف سے دوری بنائی اور اب صورتحال یہ ہے کہ؎

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں 

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جیسے کل ہی کی بات ہو کیسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ صوفی عبدالرحمان پانی پتی ؒنے دیکھا کہ رمضان نامی ( بھنگی ) سے لوگ مسجد کے اندر غیر انسانی سلوک کررہے ہیں وضو کےبرتن چھپا دیئے جاتے تو کبھی صف بندی کے دوران ساتھ کھڑے ہونے سے کراہت کا اظہار کرتے، صوفی صاحب کو اس عمل سے تکلیف ہوئی۔حسب معمول ایک دن عصر کےبعد لوگ ان کے پاس رکے، دوران گفتگو آپ نے پیاس کی شدت کا اظہار کرتے ہوئے رمضان سے پانی طلب کیا وہ ہچکچایا لیکن مولانا کےاصرار پر تیزی سے کٹورہ بھرلایا ستم یہ کہ اس کا انگوٹھا پانی میں ڈوبا ہوا تھا، آپ نے کہا بھئی رمضان پانی تو لبالب ہے آدھا تم پی لو رمضان گھبرایا لیکن جب اصرار بڑھا تو تھوڑا پانی پی لیا پھر صوفی صاحب نے سب کے سامنےوہی پانی پیا،لوگ دنگ رہ گئے، انہیںاپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم لوگ رمضان کے ساتھ اس کے پیشے کے سبب اچھا سلوک نہیں کرتے تھے صوفی صاحب کے اس عمل نے ان کی سوچ بدل دی سب نے اللہ کے حضور توبتہ النصوح کرلی۔ اسلاف کے اعلیٰ ترین کردار کی یہ ادنیٰ سے مثال ہے اور کتنا عظیم سبق اس میں پوشیدہ ہے۔

 اللہ صوفی صاحب کی مرقد پر نور کی بارش فرمائےان کی زندگی اسوہ ٔ رسول کا بہترین نمونہ تھی۔ مولانا اسحاق سنبھلی ؒجمعیۃ علماء کے فعال رکن تھے لیکن سیاسی سطح پر کمیونسٹ سے وابستہ رہے اور ممبر اسمبلی بھی رہے لیکن انہوں نے سواد اعظم سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒسلفی جماعت کے مشہورعالم دین تھے لیکن زندگی بھر جمعیۃ علمائے ہند اور اس کے اکابرین سے جڑے رہےاور کبھی مسلک کا کوئی معاملہ حائل نہیں ہوا۔ لیکن اب ساری جماعتیں افتراق و انتشار کا ماحول بنارہی ہیں۔

 زیادہ عرصہ نہیں گزرا الہ آبا د کی مشہور خانقاہ دائرہ اجمل شاہ کے سجادہ نشین اور مشہورسنی عالم دین مولانا شاہد فاخری جمعیۃ علماء سے تا حیات وابستہ رہے اور بلا تفریق مسلک دین و ملت کی آبیاری کرتے رہے۔ سلام ہو ان پاکیزہ روحوں پر جو سواداعظم کی روح کا عرفان رکھتی تھیں ان کے دل ایمان و یقین سے روشن تھےیہی  وجہ تھی کہ انہوںنے مسلک پردین حنیف اور ملت کی سرخروئی کو ترجیح دی۔ لیکن آج ایسا نہیں ہورہا ہے ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے محض اپنے ذاتی سواد کے حصول میں لگا ہوا ہے اسے اس با ت کا قطعا ً احساس نہیں کہ اس کے عمل سے ملت کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔ نتیجے کے طورپر آج اسلام اور مسلمان دونوں پر شدید حملے جاری ہیں اور ہم لڑنے میں مصروف ہیں۔

 اغیار کو ایسے ہی مواقع کا انتظار رہتا ہے وہ بڑے منظم طریقے سے مسلمانوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں اور فضا کو مسموم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہے ہیں ہمارے مابین اسی اختلاف و انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ آئےدن نئی نئی مصیبتیں کھڑی کررہے ہیں اور ملت کی پوری اکائی ہزاروں خانوں میں منقسم بے حسی اور بے چارگی کی تصویر بنی سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ ضرورت تھی کہ ایسے نازک موڑپر تو آنکھیں کھولتی اور سنجیدگی و دانش مندی کے ساتھ اس ذلت و رسوائی کا حل ڈھونڈھتی،اس کے برعکس اپنے لئے مزید رسوائیوں کا سامان مہیا کرنے میں جٹی ہوئی ہے۔ اللہ کےرسول ؐکی یہ حدیث بے تحاشا یاد آرہی ہے جب آپ نے فرمایا تھا کہ آنے والے دور میں مسلمان وھن کا شکار ہوجائیں گے صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ کے رسو ل یہ وھن کیا ہوتا ہے آپ نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔ آج بلا شبہ ہم اسی بیماری کا شکار ہیں او ر یہ مرض خاص نہیں عام ہے۔

 مولانا سلمان ندوی کی ذہانت و فطانت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ان کا مطالعہ وسیع ہے اس کے باوجود وہ سواد اعظم سے بار باردور چلے جاتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس راہ کے متلاشی ہیں۔ گذشتہ سال انہوں نے بابری مسجد کا معاملہ اٹھاکر ایک ہیجان برپا کردیا تھا جبکہ اس کا معاملہ عدالت میں چل رہا ہے اور مسلم لیڈران بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہیں عدالت کا فیصلہ بہر صورت منظور ہے۔ اور اب اہل بیت اور اصحاب رسول ؐکے تعلق سے کچھ ایسی باتیں کردیں جس سے مسلمانوں کے مابین افتراق و انتشار کی خلیج مزید گہری ہوگئی۔ آخر انہیں چودہ سو سال قبل کے اس تنازعے کو ابھارنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔

۲۰۱۹کا پارلیمانی الیکشن بے حد قریب کیا بالکل سر پر آچکا ہے، سیاسی بھیڑیوں کی پینترے بازیاں عروج پر ہیں جوڑ توڑ کی ہوائیں انتہائی گرم ہیں اپنے مفاد کیلئےکام کے لوگوں کی خرید و فروخت کے بازارپُررونق ہیں۔سنگھ پریوار ہر حال میں الیکشن جیتنے کیلئے کمر کس چکا ہے اور اس کامیابی کیلئے تمام تر ہتھکنڈے آزمارہا ہے۔

سیاسی پارٹیوں میں اتحاد کے امکانات ابھی تک معدوم ہی دکھائی دے رہے ہیں اور کہیں اگر کوئی کرن دکھائی بھی دیتی ہے تو دوسرےہی لمحےبجھ بھی جاتی ہے۔ ایک طرف مسلمانوں میں شدید انتشار دوسری طرف سیاسی جماعتوں میں اتحادکا فقدان یہ دونوں عوامل آرایس ایس کے بڑھتے قدم کو بھرپور مواقع فراہم کررہے ہیں۔ آخر اتنی موٹی سی بات ہم سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں ظاہر ہے جب قوم اس حالت کو پہنچ جائےتو اسے تباہی وبربادی سے بھلا کون بچا سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔