می ٹو (Me Too):  اٹھتے ہیں حجاب آخر!

اسدالرحمن تیمی

آج کل ذرائع ابلاغ میں ایک مہم چلی ہوئی ہے اس مہم اور تحریک کا نام ہے ہیش ٹیگ می ٹو(Me Too )جس کے ذریعہ دوران ملازمت خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں، استحصال،نازیبا تبصرے اور بدسلوکی کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے اس تحریک کا آغاز سن ۲۰۰۶ء میں امریکہ میں ایک سماجی کارکن خاتون ٹرانا مورکے نے کیا تھا۔ ٹائم میگزین نے انہیں ۲۰۱۷ء میں اسی کام کے لئے person of the yearکا خطاب بھی دیا تھا۔ پورے امریکہ میں اس تحریک کے لئے ان کی کافی پذیرائی ہوئی تھی، اب یہ تحریک امریکہ سے نکل کر دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکی ہے۔ فی الحال ہندوستان میں اس کی شروعات ہفتہ عشرہ قبل فلمی اداکارہ تنوشری دتہ نے کی، انہوں نے مشہور فلم اداکار نانا پاٹیکر پر یہ الزام لگایا ہے کہ دس سال پہلے ایک فلم کے سیٹ پر موصوف نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی، اس بابت انہوں نے پولس میں شکایت بھی درج کرائی ہے۔

تنوشری دتہ کے اس عمل سے تحریک پاکر اب بالی ووڈ سمیت دیگر شعبوں کے خواتین نے بھی اپنے ساتھ ہوئے جنسی استحصال کی آواز بلند کرنی شروع کردی ہے۔ مشہور مصنف چیتن بھگت پر بھی ایک خاتون نے الزام لگایا ہے کہ وہ ان کے ساتھ فحش باتیں کرتے تھے۔ ہندوستان کے مشہور صحافی اور مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم. جے. اکبر پر بھی خواتین نے جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ جبکہ یہ تحریک شروع ہوئی ہے آئے دن کئی بڑی شخصیات اور ہستیوں پر الزام کا سلسلہ طویل ہوتا جارہا ہے۔ مثلا فلم ڈائرکٹر وکاش مہر، ادارکار رجت کپور، آلوک ناتھ، گلوکار کیلاش گھئی وغیرہ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ مردوں کے طرف سے اس مہم کی ہمت افزائی کے بجائے خواتین ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ایک ممبرپارلیامنٹ کے مطابق یہ تحریک مردوں کے خلاف ایک سازش ہے ، اس ہتھکنڈہ کے ذریعہ وہ مردوں پھنسا رہی ہے اور انتقام لے رہی ہیں،ایک بڑے فلمی اداکارسے جب تنوشری دتہ اور نانا پاٹیکر معاملہ پر اپنی رائے دینے کو کہا گیا تو انہوں نے ایک عجیب وغریب بیان دیا کہ’’ میں تنوشری دتہ ہوں نہ ناناپاٹیکر‘‘۔ایک دوسرے نامی اداکار کا رویہ بھی اس بابت خواتین کا مزاق اڑانے والا ہی تھا۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بالعموم خواتین کو دوران ملازمت مردوں کی طرف سے جنسی استحصال ،بدسلوکی ،بدتمیزی،بے ہودہ حرکت اور ناشائستہ تبصرے کا سامنا کرتا پڑتا ہے۔ بیشتر معاملوں میں خاتون خاموشی میں ہی اپنی بھلائی سمجھتی ہے یا پھر معاملہ کو حتی المقدور رفع دفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیوں کہ قصوروار خواہ جوبھی ہو صنف نازک کے ہی کردار پر داغ لگاتا ہے اور اسی کی بدنامی ہوتی ہے۔ اگر غیر شادی شدہ ہے تو اس کے رشتہ میں دقتیں درپیش آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اور اگر شادی شدہ ہو تو شوہر اور رشتہ داروں کی معتوب نظر بن جاتی ہے۔ مردوں پر تو ایسے معاملوں کا کچھ اثر ہی نہیں پڑتا مشہور محاورہ ہے کہ چھری تربوزہ پر گرے یا تربوزہ چھری پہ غلطی بہرصورت چھری کی ہی مانی جائے گی۔

حالانکہ خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور جنسی استحصال کا ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں خواتین پر نازیبا تبصرے، بدسلوکی اور استحصال کو سنجیدگی کے ساتھ لیا ہی نہیں لیا جاتااور نہ ہی لیا جانا چاہئے۔کیوں کہ چاہے کوئی کچھ بھی کہے ، سبھی مانتے ہیں کہ فلمی دنیا بے حیائی فحاشی اور اخلاق باختگی کامرکز ہے۔ یہاں کوئی خاتون اپنے حسن شباب کے جلوے بکھیر کر مردوں سے شرافت وشائستگی اور اپنی عفت وپاکدامنی کی امید رکھے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہوگی۔مردوں کے سامنے رقص وسرور کی محفلیں سجانا اور بدسلوکی ہونے پرشکایت کرنا کتنی حیرت انگیز بات ہے؟

مشرقی سماج اور روایات میں خواتین کا گھر سے باہر قدم رکھنا اور غیر محرم کے ساتھ میل جول معیوب اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن عصر حاضر میں مغربی تہذیب کی نقل، دنیا پرستی، دین سے بے خبری وبے زاری اور کچھ نئے زمانے کے تقاضوں جیسے مختلف اسباب وعوامل کے پیش نظر سماج کی اس سوچ اور روایات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔زندگی کے لگ بھگ سارے میدانوں میں صنف نازک کہی جانے والی خواتین مردوں کے ہم پلہ وشانہ بشانہ ہے۔تدریس،صحافت، طبابت ، وکالت، انجنیرنگ ،ڈرائیونگ ، سرحدوں کی حفاظت اور ملک وقوم کی قیادت جیسے امور سنبھال رہی ہیں، ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ بہتر سماج کی تشکیل کے لئے خواتین کے تئیں سوچ اور ذہنیت میں تبدیلی لائی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔