سود اور اس کی حرمت (قسط 1)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

   آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں وہ فتنوں کا دور ہے، حرص و طمع اور افراطِ زر کی خواہش اکثر لوگوں کے اندر گَھر کر گئی ہے۔ لوگوں کی ضروریاتِ زندگی نے کافی وسعت اختیار کر لی ہے جس کی وجہ سے لوگ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر کسبِ زر میں لگے ہوئے ہیں۔ مزید سود جیسی لعنتی وبا نے پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے، اور دنیا کی معیشت کے بیشتر حصہ کو سودی جال نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ گویا ہم اس دور سے گذر رہے ہیں جس کے متعلق سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ((يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ؛ أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ.)

ترجمہ : ’’لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ انسان کو کوئی پروا نہیں رہے گا کہ اس نے حلال سے کمایا ہے یا حرام سے۔‘‘ [صحيح بخاری کتاب البیوع باب من لم یبال من حیث کسب المال]

      نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیشین گوئی ہمارے اس دور پر منطبق ہوتی نظر آرہی ہے۔ دورِ حاضر میں لوگوں کی اکثریت حصولِ مال میں حلال و حرام کی تمیز نہیں رکھتی اور فانی دنیا کے معمولی فائدے کے لیے اپنے دین کا سودا کر رہی ہے۔ جب کہ فتنوں کے اس دور میں ہمیں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ اپنے دامن کو عقبیٰ میں کام آنے والی نیکیوں سے بھر لیں اور خود کو دنیا بھر کی غلاظتوں سے بچا لیں۔ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا – أَوْ : يُمْسِي مُؤْمِنًا، وَيُصْبِحُ كَافِرًا – يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا.))

      ترجمہ :  ’’تم لوگ (نیک) اعمال میں جلدی کرو، ان فتنوں سے پہلے جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور کفر کی حالت میں شام کرے گا۔ – یا یہ کہ شام کے وقت مومن ہوگا اور صبح کافر ہوگا –  وہ اپنے دین کو دنیاوی سامان کے بدلے بیچے گا۔‘‘ [صحيح مسلم کتاب الإيمان باب المبادرة بالأعمال قبل تظاهر الفتن]

      یعنی فتنے اس قدر رونما ہوں گے اور اتنے زود اثر ہوں گے کہ انسان کی حالت ایک ہی دن میں کچھ سے کچھ ہو جائے گی۔ لہذا ایسے پُر فتن دور میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیگر تمام حرام و مشتبہ امور سے بچتے ہوئے لعنتی فعل سودی لین دین سے بھی مقدور بھر بچنے کی کوشش کرے۔ جدید نظامِ معیشت نے تجارت، خرید و فروخت اور آپسی لین دین سے متعلق بہت سے ایسے امور متعارف کرائے ہیں جو اسلامی شریعت کے بالکل منافی ہیں اور بعض امور ایسے بھی ہیں جن کا تعلق مشتبہات سے ہے، جن کے حکم کے بارے میں علما کے مابین اختلاف ہے۔ لہذا جہاں تک ممکن ہو جن امور و معاملات کی حلت و حرمت کا قطعی علم نہ ہو ایسے مشتبہ امور سے بچنے کی کوشش کریں۔ اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے اور یہ تقویٰ و پرہیزگاری کا ضامن بھی ہے۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان یاد رکھا ہے :

      ((دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ.)) ترجمہ : ’’وہ چیز چھوڑ دو جو تمھیں شک میں مبتلا کرے اور اس چیز کو اپناؤ جو تمھیں شک میں نہ ڈالے۔‘‘ [نسائی کتاب الاشربۃ، الحث علی ترك الشبهات]

      نیز سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

     ((الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ.))

      ترجمہ: ’’حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں جنھیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔ جو کوئی شبہ والی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے جیسی ہے جو چراگاہ کے ارد گرد بکریوں کو چرائے تو قریب ہے کہ اس میں واقع ہو جائے گا۔ خبردار! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔‘‘ اور صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے کہ : ((وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ.)) ’’اور جو شبہے والی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں داخل ہو گیا۔‘‘ [بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرا لدینہ، مسلم کتاب المساقاۃ باب أخذ الحلال وترک الشبہات]

      تجارتی معاملات طے کرنے اور خرید و فروخت کرتے وقت کسبِ مال کے تئیں ہمارے پیشِ نظر یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ جو مال ہم کما رہے ہیں اس کے متعلق ہم سے بازپرس ہوگی کہ اس کو ہم نے کن ذرائع سے کمایا ہے اور کہاں کہاں خرچ کیا؟ قیامت کے دن اور دیگر سوالوں کے ساتھ ساتھ اس سوال کا جواب دیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس لیے مال و زر کے حصول کے لیے شرعی حدود کو ہمیں پامال نہیں کرنا چاہیے۔ سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ.))

      ترجمہ : ’’قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں قدم نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے پوچھ نہ لیا جائے اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں بِتائی؟ اس کے علم کے متعلق کہ اس پر کتنا عمل کیا؟ اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا؟‘‘ [ترمذی ابواب صفة القيامة…… باب في القيامة]

      اور یہ بھی یاد رکھیں کہ حرام کمائی سے پرورش پانے والے گوشت کا دخول جنت میں نہیں ہوگا۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

((إِنَّهُ لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ، النَّارُ أَوْلَى بِهِ))

      ترجمہ : ’’یقیناً حرام سے پرورش پانے والا گوشت جنت میں ہرگز نہیں داخل ہوگا، جہنم اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔‘‘ [مسند أحمد، دارمی کتاب الرقاق باب فی أكل السحت]

      اللہ ہمیں کسبِ حرام اور ممنوع و حرام معاملات کے ساتھ ساتھ مشتبہ امور سے بھی بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

سود کی تعریف

       سود کی حرمت و مضرت پر گفتگو کرنے سے پہلے سود کی لغوی و اصطلاحی تعریف کا جان لینا ضروری ہے تاکہ اس سے متعلق باتیں سمجھنے میں آسانی رہے۔ آئیے پہلے سود کی لغوی اصطلاحی تعریف کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں :

      سود کے لیے کتاب و سنت میں ’’رِبَوٰا/رِبَا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو رَبَا یَرْبُوا رِبَاءً و رَبْوًا و رُبُوًّا سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی اضافہ، زیادتی اور بڑھوتری کے ہیں، مال میں اضافہ ہونے کے لیے ’’رَبَا الْمَالُ‘‘ بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ﴾ ترجمہ : ’’پھر جب ہم نے اس پر پانی نازل کیا تو وہ شاداب ہو گئی اور ابھرنے لگی۔‘‘ [الحج : 5] آیتِ کریمہ میں ’’رَبَتْ‘‘ کا لفظ اضافہ اور بڑھوتری کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔

      اور شریعت کی اصطلاح میں آپسی لین دین کی صورت میں کسی حق اور تجارتی عقود کے بغیر محض مہلت کے عوض مشروط و معین طریقے سے اصل رأس المال سے زائد لینے یا دینے کو اور نقود نیز ایک ہی جنس کی دو چیزوں کے باہمی تبادلے کے وقت کسی جانب سے زیادہ لینے دینے یا کسی جانب سے ادھار رکھنے کو سود کہتے ہیں۔

      اسی طرح بعض فقہا کے نزدیک ہر قسم کی حرام و ناجائز خرید و فروخت پر بھی سود کا اطلاق ہوتا ہے۔ فقہا نے سود کی دو قسمیں بیان کی ہیں، ایک ربا الفضل اور دوسرے ربا النسیئۃ۔ اوپر سود کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس کے پہلے حصے کو ربا النسیئۃ اور دوسرے حصے کو ربا الفضل کہتے ہیں۔ فقہا نے ربا کی تعریف اس طرح کی ہے :

      (هو زيادة أحد البدلين المتجانسين من غير أن يقابل هذه الزيادة عوض.)

     ’’سود اس زائد مال کو کہتے ہیں جو ایک ہی جنس کی دو چیزوں کے آپسی تبادلہ کے وقت لی جائے جس کے مقابلے میں کوئی معاوضہ نہ ہو۔‘‘ [الفقہ علی المذاہب الاربعۃ  2 / 221]

      علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :

      (هو في الشرع الزيادة على أصل المال من غير عقد تبايع.) ’’شریعت میں کسی عقدِ بیع کے بغیر أصل مال سے زیادہ لینے کو سود کہتے ہیں۔‘‘ [النهاية لإبن أثير 2 / 192]

      نیز علامہ ابن عثيمين رحمہ اللہ ربا کی شرعی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

      (فإنه الزيادة بين شيئين حرم الشارع التفاضل بينهما بعوض أو التأخير في قبض ما يشترط قبضة.) ’’ربا دو چیزوں کے درمیان عوض کے تحت پائی جانے والی اس زیادتی کو کہتے ہیں جن کے مابین عوض کے ساتھ تفاضل کو شارع نے حرام قرار دیا ہو یا قبضہ حاصل کرنے میں تاخیر کرنا جن میں شارع نے فوری قبضہ کی شرط رکھی ہو۔‘‘ [فتح ذی المنان بشرح بلوغ المرام 4 / 10]

      مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’شریعتِ اسلام میں ربا اس فاضل مال کو کہتے ہیں جو کسی عوض (بدل) کے بغیر معاملہ کا ایک فریق دوسرے سے طے شدہ شرط کے تحت حاصل کرے۔ علم الاقتصاد میں ربا اس رقم کو کہتے ہیں جو قرض لینے والا مقررہ شرائط کے مطابق اصل قرض کے علاوہ ادا کرتا ہے۔‘‘ [القاموس الوحید ص: 595]

      اسی سے ملتی جلتی تعریف دیگر اہلِ علم نے بھی کی ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ بعض اہلِ علم نے سود کی تعریف میں صرف ایک ہی نوع یعنی رباالنسیئۃ کو ملحوظ رکھا ہے جیسا کہ اوپر کی کچھ تعریف میں یہ بات نظر آرہی ہے جب کہ رباالفضل کو بھی حدیث میں عین سود قرار دیا گیا ہے۔

      آئندہ صفحات میں سود کی مذکورہ دونوں قسموں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔

ربا النسیئۃ کی حقیقت

      قرض دے کر یا قرض لے کر اس پر مشروط طریقے سے متعین شرحِ فیصد کے ساتھ اصل رأس المال سے کچھ زیادہ لینا یا دینا سود ہے، اور مدت کے عوض ادھار کے اس سود کو ربا النسیئۃ کہتے ہیں یعنی قرض دے کر کسی حق کے بغیر مجرد مہلت کے عوض مقروض سے کسی بھی طرح کا اضافی فائدہ حاصل کرنا سود میں داخل ہے، خواہ یہ قرض ذاتی اغراض کے تحت لیا دیا جائے یا تجارتی مقاصد کے تحت لیا دیا جائے یا کسی اور غرض سے، اور یہ بالاتفاق حرام ہے۔ ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں :

     ’’کان رباً یَتَبایَعُون به فی الجاهلیة، فلما أسلَموا اُمِرُوا أنْ یأخذوا رُءوسَ أموالِهم‘‘ ’’جاہلیت میں لوگ سودی خرید و فروخت کرتے تھے پھر جب وہ لوگ اسلام لائے تو انھیں اپنا رأس المال لینے کا حکم دیا گیا۔‘‘ [تفسیر طبری 5/51]

      اور عملاً خوش حال لوگ ہی زیادہ تر قرض لیتے ہیں اور انھیں کو قرض دیا بھی جاتا ہے اور تنگ دست لوگوں کو کم ہی لوگ قرض دینا گوارا کرتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ قرض کی وصولی میں تنگ دست کو مہلت دی جائے، سود لینا تو بہت دور کی بات ہے اور اگر قرض کو معاف کر دیا جائے تو یہ عمل زیادہ بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾

      ترجمہ : ’’اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو، اور اگر صدقہ کر دو تو تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو۔‘‘ [البقرۃ : 280]

      سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ، أَوْ يَضَعْ عَنْه.))

      ترجمہ :  ’’جو شخص یہ پسند کرے کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو چاہیے کہ وہ تنگ دست کو مہلت و سہولت دے یا اسے معاف کر دے۔‘‘ [صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب فضل انظار المعسر]

      سیدنا ابو یسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ؛ أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ.)) ترجمہ : ’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دیا یا اسے معاف کر دیا تو اللہ اسے اپنے (عرش کے) سائے تلے سایہ دے گا۔‘‘ [صحيح مسلم كتاب الزهد والرقائق باب حديث جابر الطويل]

      سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ، وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ، فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.))

      ترجمہ : ’’جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے گا اس کے لیے ہر دن کے بدلے صدقہ (کا ثواب) ہوگا، اور جو میعاد گزر جانے کے بعد اسے مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس قرض کے برابر صدقہ (کا ثواب) ملے گا۔‘‘ [ابن ماجہ کتاب الصدقات باب انظار المعسر] اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ الدَّيْنُ، فَإِذَا حَلَّ الدَّيْنُ فَأَنْظَرَهُ فَلَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ مِثْلَيْهِ  صَدَقَةٌ.))

      ترجمہ : ’’قرض چکانے کی مدت سے پہلے اسے ہر دن کے عوض صدقہ (کے برابر ثواب ملے گا) اور قرض چکانے کی مدت آنے پر اسے مہلت دے تو ہر دن کے بدلے اسے دوگنا صدقہ کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ [مسند احمد : 2418]

      معلوم ہوا کہ ہر طرح کے قرض پر مقروض کو مہلت دینا اسلامی تعلیم ہے اور شریعتِ مطہرہ نے قرض دار کو مہلت دینے پر اجر و ثواب کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جب کہ صاحبِ حیثیت کو قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنے کی صورت میں ظالم قرار دیا ہے۔ نیز قرض پر کچھ مشروط اضافہ لینا سود ہے، اور قرض پر اس طرح کے سود کی مذکورہ تمام صورتیں اہلِ عرب میں معروف و رائج تھیں، خوش حال لوگ بھی سود لیتے تھے اور تنگ دست لوگ بھی سود لیتے تھے، ذاتی ضرورت کے تحت بھی سود لینے کا رواج تھا اور کاروبار و تجارتی امور کے تحت بھی سود لیا دیا جاتا تھا، یہ کہنا کہ ان کے یہاں کاروبار کے لیے سود کا رواج نہیں تھا اور صرف تنگ دست لوگ ہی اپنی ضرورت کے لیے سودی قرض لیتے تھے درست نہیں ہے۔ یہ نظریہ مذکورہ آیتِ کریمہ کی منشا کے بھی خلاف ہے۔ نیز فرمانِ الٰہی :

      ﴿وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ﴾

’’اور اگر تم نے توبہ کیا تو تمہارے لیے تمہارے اموال کا اصل سرمایہ ہے۔‘‘

      سے یہ بات بھی صاف ہو جارہی ہے کہ رأس المال پر جو بھی زائد مال بغیر حق اور تجارت کے لی جائے گی اس کا شمار سود میں ہوگا اس سے کوئی مطلب نہیں کہ وہ کس طرح کے قرضے پر لیا جا رہا ہے، جس طرح کا بھی قرضہ ہو آدمی صرف اپنے رأس المال کا حق دار ہے۔ اس لیے قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں سود کی جو حرمت آئی ہے اس حرمت میں مذکورہ تمام صورتیں شامل ہیں۔ اور علمائے امت کے یہاں یہ قاعدہ مسلم ہے کہ :

      ((كُلُّ قرضٍ جرَّ مَنفعةً فَهُو رِبًا.)) ’’ہر وہ قرض جو کوئی فائدہ لائے وہ سود ہے۔‘‘ [یہ قول فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے موقوفاً اس طرح بھی مروی ہے : كُلُّ قرضٍ جرَّ مَنفَعَةً فهو وجهٌ من وُجوهِ الرِّبَا. نیز واضح رہے کہ یہ ربا کے ایک جزئی تشریح ہے نا کہ ربا کی مکمل تعریف] علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

      (وكل قرضٍ شرَط فيه أن يزيده : فهو حرام بغير خلاف، قال ابن المنذر : أجمعوا على أن المسلِّف إذا شرَط على المستسلف زيادة أو هدية، فأسلف على ذلك أن أخذ الزيادة على ذلك ربا. وقد روي عن أبي بن كعب، وابن عباس، وابن مسعود، أنهم نهوا عن قرض جر منفعة. ولأنه عقد إرفاق وقربة، فإذا شرط فيه الزيادة أخرجه عن موضوعه.)

      ’’ہر وہ قرض جس میں اس سے زیادہ لینے کی شرط لگائی جائے وہ بغیر کسی اختلاف کے حرام ہے۔ ابن منذر (رحمہ اللہ) کہتے ہیں : ’’اس بات پر اجماع ہے کہ قرض خواہ جب قرض طلب کرنے والے سے اضافہ یا ہدیہ کی شرط لگائے اور اسی اضافی شرط پر قرض دے تو وہ زیادہ لینا سود ہے۔‘‘ سیدنا ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ان لوگوں نے اس قرض سے روکا ہے جو نفع کھینچ کر لائے۔ اس لیے کہ یہ (قرض) نرمی اور قربت کا معاہدہ ہے اس لیے اگر اس میں زیادہ لینے کی شرط رکھ دی جائے تو وہ اپنے مقصد سے نکل جائے گا۔‘‘ [المغني 4 / 240]

نقد و اُدھار کی قیمتوں میں فرق

      اسی لیے نقد و ادھار کی قیمتوں میں فرق کرنا بھی درست نہیں ہے بلکہ اہلِ علم کی ایک جماعت نے اسے بھی سود میں شمار کیا ہے کیوں کہ ادھار کی صورت میں جو اضافی رقم لیا دیا جاتا ہے وہ بھی ایک طرح سے قرض پر فائدہ حاصل کرنے کے قبیل سے ہے، اور اسلام میں مقروض کو نرمی و سہولت دینے کی جو بات کہی گئی ہے اس کے بھی خلاف ہے، مثلاً ایک چیز جس کی قیمت سو روپے معروف ہے اسے ادھار پر ایک سو بیس روپے میں بیچ کر بیس روپے محض ادھار کی شکل میں مہلت دے کر زائد لینا ظلم اور مفت خوری نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خرید و فروخت کے وقت ایک ہی سودے پر دو سودوں کے کرنے سے منع فرمایا ہے، اور نقد و ادھار کی قیمتوں میں فرق کرنے میں بھی ایک سودے میں دو طرح کا سودا کرنے کی صورت پائی جاتی ہے اس لیے یہ ممنوع ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

((نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ.))

      ترجمہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے روکا ہے۔‘‘ [ترمذی أبواب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب النهي عن بيعتين في بيعة، نسائی كتاب البيوع]

      اور ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا.)) ترجمہ : ’’جس نے ایک سودے میں دو سودا کیا تو اس کے لیے یا تو دونوں میں سے کم قیمت ہوگی یا پھر سود ہوگا۔‘‘ [ابو داؤد كتاب الإجارة باب فيمن باع بيعتين في بيعة]

      اور بیھقی وغیرہ میں ہے :

      ((نهى رسولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بيعتينِ في بيعةٍ صفقةً واحدةً.)) ترجمہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی سودا کی خرید و فروخت میں دو سودا کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ [بحوالہ هداية الرواة 3 / 166]

ایک سودے میں دو سودا کرنے کی مختلف صورتیں

      مذکورہ بالا روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک سودے میں دو سودا کرنا منع ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک سودے میں دو سودا کرنے کی کتنی صورتیں ہیں؟ اس کی مندرجہ ذیل کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں :

⓵ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کہے : میں یہ سامان تمھیں نقداً سو روپے میں دوں گا اور ادھار دو سو روپے میں دوں گا، یعنی ایک ہی سودے کی دو قیمت رکھے نقد کی صورت میں کم اور ادھار کی صورت میں زیادہ، گویا ادھار دے کر اس پر بغیر کسی حق اور عوض کے نفع حاصل کرے۔ اس صورت میں ایک بیع میں دو بیع ہونے کی صورت یہ ہے کہ ایک ہی چیز کی قیمت سو روپے بھی ہے اور دو سو روپے بھی ہے، چناں چہ نقد لینے کی صورت میں اس کی قیمت کم ہے اور ادھار لینے کی صورت میں زیادہ ہے جو کہ سود ہے۔

      فقہا کی ایک جماعت کے نزدیک نقد و ادھار کی قیمت میں فرق رکھنا جائز ہے، ان کا کہنا ہے کہ فریقین اگر کسی ایک قیمت پر متفق ہو کر جدا ہوں تو یہ بیع درست ہوگی۔ ان کے نزدیک ایک بیع میں دو بیع کی صورت اس وقت ہوگی جب کسی متعین شخص سے کہا جائے کہ فلاں سامان کی قیمت نقداً سو روپے ہے اور ادھار لینے کی صورت میں دو سو روپے ہے، لیکن اگر بائع سامان کی نقد قیمت، نقد لینے والوں کے لیے الگ رکھے اور ادھار لینے والوں کے لیے ادھار کی قیمت الگ رکھے تو یہ ایک بیع میں دو بیع کی صورت نہیں ہوگی اس لیے بیع کی یہ صورت جائز ہوگی۔ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ یہ بیع اس لیے منع ہے کیوں کہ اس میں قیمت مجہول ہوتی ہے اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک قیمت مقرر ہو جائے تو بیع کی یہ صورت جائز ہوگی۔

      مگر صحیح بات یہ ہے کہ نقد و ادھار کی قیمت میں فرق رکھنا ہی ایک بیع میں دو بیع کی صورت ہے اور اس زیادتی میں سود کا احتمال پایا جاتا ہے اس لیے اس طرح کی بیع درست نہیں ہوگی۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

      ((لَا تَصْلُحُ الصَّفْقَتَانِ فِي الصَّفْقَةِ، أَنْ يَقُولَ: هُوَ بِالنَسِيئَةِ بِكَذَا وَكَذَا، وَبَالنَّقْدِ بِكَذَا وَكَذَا))

      ترجمہ : ’’ایک سودے میں دو سودا کرنا درست نہیں ہے۔ اس طرح کہنا : وہ ادھار کی صورت میں اتنے اور اتنے میں ہے اور نقد کی صورت میں اتنے اور اتنے میں ہے۔‘‘ [مصنف عبد الرزاق 8 / 138]

      سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس وضاحتی قول سے معلوم ہوتا ہے کہ نقد و ادھار کی قیمت میں تفریق کرنا ایک سودے میں دو سودا کرنے کی صورت ہے اور یہ درست نہیں ہے اور سامان ادھار دینے کی صورت میں اس پر جو زائد رقم لی جائے گی اس کا شمار سود میں ہوگا۔ اس اعتبار سے ہمارے یہاں جو قسطوں کی تجارت عام ہے وہ بھی درست نہیں ہوگی، البتہ قسطوں والی بیع اس شرط کے ساتھ درست ہو سکتی ہے کہ سامان کی قیمت وہی ہو جو نقد کی قیمت ہے اور ادائیگی قسطوں کی شکل میں ہو۔

⓶ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کسی سے کوئی سامان ایک مدت تک کے لیے ادھار بیچے اور پھر چند دنوں بعد یا فی الفور خود ہی اس سامان کو کم قیمت دے کر خرید لے۔ یہ بھی ایک ہی بیع میں دو بیع کی صورت ہوئی جو کہ حرام ہے۔ اس صورت کی ایک شکل اس طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی کسی سے کوئی سامان ایک مدت تک کے لیے ادھار دو سو روپے میں خریدے اور پھر وہی سامان اسی سے جس سے خریدا تھا سو روپے میں بیچ دے اس طرح ادھار خریدنے والے کو فی الفور سو روپے مل جائیں گے اور بیچنے والے کو مقررہ میعاد پر سود سمیت دو سو روپے مل جائیں گے۔ یہ بھی ایک ہی بیع میں دو بیع کی صورت ہے جو واضح طور پر سود پر مبنی ہے۔ فقہا کے یہاں یہ بیع ’’بیع عِینہ‘‘ کہلاتی ہے جو حرام بیع ہے۔ البتہ قیمت چکانے اور قبضہ حاصل کرنے کے بعد یا اس سامان کی صفت بدلنے کے بعد اسی سے وہ سامان خریدے یا پھر وہی سامان کسی ایسے شخص سے خریدے جس سے اس نے بیچا نہیں ہے تو بیع کی یہ صورت جائز ہے کیوں کہ یہ شکل ایک ہی بیع میں دو بیع کی صورت نہیں ہوگی۔

⓷ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کوئی سامان خریدے اور پھر اس کا ضامن بننے یعنی اس پر قبضہ حاصل کرنے اور اس کے نفع و نقصان کا مالک بننے سے پہلے ہی اسے فروخت کر دے تو یہ بھی ایک سودے میں دو سودا کرنا ہوا اس لیے اس طرح سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

      موجودہ دور میں اِسی سے ملتی جلتی سود پر مشتمل بیع کی ایک صورت ہمارے یہاں رائج ہے بالخصوص تجارت پیشہ افراد کے یہاں معروف ہے، وہ یہ کہ چیک یا ڈرافٹ وغیرہ پر قبضہ حاصل کیے بغیر اسے دوسرے کے ہاتھوں بیچ دینا، اگر ایک ہزار روپئے کے چیک کو نو سو روپئے میں فروخت کیا جائے تو یہ صریح سود ہوگا اور اگر اسے خود حاصل کرنے سے پہلے ہی برابر قیمت پر کسی دوسرے کے ہاتھوں بیچ دیا جائے تو یہ بھی درست نہیں ہوگا کیوں کہ یہ شکل قبضہ حاصل کرنے سے پہلے اسے بیچنے کی ہوئی اور یہ ممنوع ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروان سے کہا : تم نے سودی تجارت کو حلال کر دیا ہے؟ مروان نے کہا : میں نے کیا کیا ہے؟ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا :

      ((أَحْلَلْتَ بَيْعَ الصِّكَاكِ وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الطَّعَامِ حَتَّى يُسْتَوْفَى.))

      ’’تم نے صکاک کی بیع حلال کر دی ہے حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مکمل قبضہ حاصل کرنے سے پہلے غلے کو بیچنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

      تو مروان نے خطبہ دے کر اس کی بیع سے روک دیا۔ سلیمان بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے محافظوں کو دیکھا کہ وہ صِکاک کو لوگوں کے ہاتھوں سے واپس لے رہے ہیں۔ [صحيح مسلم کتاب البیوع باب بطلان البیع قبل القبض]

      صِکاک صک کی جمع ہے اور صک اس دستاویز یا اقرار نامے کو کہتے ہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ فلاں کو اتنے مدت میں فلاں چیز کی اتنی مقدار یا اتنا پیسہ ادا کر دیا جائے یہ بعینہ وہی شکل ہے جو ہمارے دور میں چیک، ڈرافٹ اور انعامی بونڈ وغیرہ کی ہوتی ہے۔ خلیفہ مروان کے دور میں اس دستاویز کو وصولی سے پہلے بیچ دیا جاتا تھا یا اس کے ذریعہ کسی دوسرے سے ادائیگی کر لی جاتی تھی۔ چوں کہ یہ سودی تجارت کی شکل تھی جس سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبوی فرمان سے استدلال کر کے منع فرمایا۔ اسی طرح سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

      ((فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ.))

      ترجمہ : ’’یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سامان کو اسی جگہ بیچنے سے روکا ہے جہاں خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تجار اسے اپنے ٹھکانوں پر لے آئیں۔‘‘ [ابوداؤد کتاب الإجارة باب فی بیع الطعام قبل أن یستوفی] یعنی سودے پر قبضہ حاصل کرنے سے پہلے اسے بیچنے سے روکا گیا ہے۔

⓸ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کسی کو سو روپے دے کہ تم فلاں سامان ایک ماہ بعد مجھے دے دینا اور جب میعاد پوری ہو جائے تو سامنے والا (مشتری) سامان نہ دے سکے اور پہلے شخص سے کہے کہ تم مجھے وہ سامان دو ماہ کے لیے فروخت کر دو۔ یہ بھی ایک ہی سودے میں دو سودے کی صورت ہوئی جو کہ واضح سود پر مشتمل ہے۔

بیک وقت ادھار اور بیع

      مذکورہ بالا صورتیں ایک ہی سودے میں دو سودا کرنے کی ہیں، یہ سب صورتیں ممنوع اور حرام ہیں اور سود کے دروازے کو کھولنے والی ہیں یا صریح سود پر مبنی ہیں۔ ان کی حرمت و حقیقت کو مزید سمجھنے کے لیے سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی ملاحظہ فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں :

      ((لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ تَضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.))

      ترجمہ : ’’ادھار اور بیع (بیک وقت) حلال نہیں ہیں، اور نہ ایک ہی سودے میں دو شرطیں حلال ہیں، اور نہ اس چیز کا نفع حلال ہے جس کا وہ ابھی ضامن (قابض) نہیں ہوا ہے، اور نہ اس چیز کا سودا کرنا حلال ہے جو تمھارے پاس ہو ہی نہ۔‘‘ [ترمذی أبواب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب كراهية بيع ما ليس عندك، ابو داؤد كتاب الإجارة باب فى الرجل يبيع ما ليس عنده]

      بیک وقت ادھار اور بیع کی ایک صورت وہی ہے جو اوپر نقد و ادھار کی قیمت میں فرق رکھنے سے متعلق بیان کی گئی ہے، مزید اس کی ایک واضح سودی شکل یہ ہو سکتی ہے کہ قرض کی شرط کے ساتھ سودا کیا جائے مثلاً آدمی سو روپے کا سامان اسّی روپئے میں اس شرط کے ساتھ بیچے کہ خریدنے والا اسے تین سو روپے بطور قرض دے یا یہ کہ آدمی سو روپے کا سامان ڈیڑھ سو روپے میں اس شرط پر بیچے کہ وہ خریدار کو اس کے بدلے تین سو روپے بطور قرض دے گا، بیع کی یہ صورت واضح طور پر سود کی شکل ہے، کیوں کہ اگر دونوں کے بیچ سودا، نہ ہوتا تو قرض نہ ملتا یا قرض نہ ملنے کی صورت میں سودا نہ ہوتا، دونوں صورتوں میں قرض کے ذریعہ سود کی شکل میں فائدہ حاصل کیا جا رہا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔

      نیز بیع میں دو شرطوں کے حلال نہ ہونے کی صورت وہی ہے جو اوپر ’’بیع عِینہ‘‘ کے تحت مذکور ہوئی ہے، ورنہ بائع یا مشتری کی طرف سے بیع میں ایسی شرطیں لگانا جو شرعاً ممنوع اور محظور نہ ہوں، جائز ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے والی کوئی بھی شرط درست نہیں ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا.)) ترجمہ : ’’مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرے۔‘‘ [ترمذی أبواب الاحکام عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب ما ذكر عن رسول اللہ فی الصلح بین الناس]

بیع سلم کی حقیقت

      البتہ کسی کو پیشگی رقم اس شرط پر دینا کہ فلاں سامان اتنے مدت میں اتنا وزن مجھے دے دینا تو یہ جائز ہے کیوں کہ شریعت نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ میعاد، قیمت، سامان کا وصف اور ناپ متعین ہو۔ فقہا اسے بیع سلم یا بیع سلف کا نام دیتے ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ پہنچے تو لوگ کھجور میں دو اور تین سالوں کے لیے (بیع) سلف کرتے تھے یعنی پیشگی سودا کر لیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَ وَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ.))

      ترجمہ : ’’جو شخص کسی چیز میں سلف کرے یعنی پیشگی سودا کرے تو اسے چاہیے کہ متعین ناپ اور معلوم وزن میں متعین مدت تک سودا کرے۔‘‘ [صحيح بخاری کتاب السلم باب السلم فی وزن معلوم، صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب السلم]

      مزید بیعِ سلف میں یہ شرط بھی ضروری ہے کہ جب تک اس پر قبضہ نہ ہو جائے کسی اور کے ہاتھوں اس کا بیچنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس کی حصول یابی سے پہلے ہی اسے کسی اور چیز کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہے مثلاً پیشگی ادائیگی چاول کے لیے کی گئی ہو اور پھر لینے سے پہلے ہی اسے گیہوں سے بدلنا یا قبضہ سے پہلے بیچنا درست نہیں ہوگا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَلَا يَصْرِفْهُ إِلَى غَيْرِهِ.))

      ترجمہ : ’’جو کوئی پیشگی رقم دے کر کوئی سودا کرے تو اس پر قبضہ سے پہلے اسے کسی دوسری چیز کی طرف نہ پھیرے۔‘‘ [أبو داؤد کتاب الإجارۃ باب السلف لا یحول، ابن ماجہ کتاب التجارات باب من أسلم فی شیئ فلا یصرفه الی غیرہ، عطیہ بن سعد العوفی کے ضعف کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر مفہوم درست ہے کیوں کہ اس معنی میں کئی روایتیں موجود ہیں۔]

      بعض لوگوں نے اسی بیعِ سلم پر قیاس کرکے نقد و ادھار کی قیمتوں میں فرق رکھنے اور نقد کی بنسبت زائد قیمت کے ساتھ آسان قسطوں میں ادا کی جانے والی تجارت کو جائز قرار دیا ہے، حالاں کہ یہ قیاس درست نہیں ہے بلکہ قیاس مع الفارق اور باطل ہے کیوں کہ نقد و ادھار کی قیمتوں میں تفریق محض ادھار اور کچھ دن کے لیے مہلت دینے کی وجہ سے رکھی جاتی ہے اور یہ زائد قیمت اسی ادھار کے عوض لی جاتی ہے جو ادا کرنے کی مدت کی کمی و زیادتی کے حساب سے مقرر کی جاتی ہے یعنی قلیل مدت میں ادا کرنے کی صورت میں کچھ کم زائد رقم وصول کی جاتی ہے اور اس سے طویل مدت میں ادا کرنے کی صورت میں مزید زائد رقم وصول کی جاتی ہے جب کہ بیع سلم میں ادھار اور مدت کے عوض حالیہ ریٹ کے مطابق دی ہوئی قیمت سے زیادہ سامان نہیں لیا جاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ بیع سلم کو بیع کے عام قواعد سے الگ رکھ کر محدود و چھوٹے پیمانے پر غریبوں کی سہولت کے لیے نصِ صریح کے ذریعہ جائز قرار دیا گیا ہے اس لیے اس پر قیاس کر کے نقد و ادھار کی قیمت میں تفریق رکھنے کو جائز قرار دینا درست نہیں ہوگا کیوں کہ اس بیع میں واضح طور پر سود کا احتمال پایا جاتا ہے اور بعض سلف صالحین کی تشریح و وضاحت کے مطابق نقد و ادھار کی قیمتوں میں فرق رکھنا نص صریح کی وجہ سے منع ہے جیسا کہ گذشتہ صفحات میں اس سے متعلق سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تشریح و وضاحت بیان کی جا چکی ہے۔

     بعض حامیانِ سود اسی بیعِ سلم پر قیاس کرکے سود کو جائز قرار دیتے ہیں، ان کا استدلال یہ ہے کہ جس طرح سود میں نفع یقینی ہوتا ہے اسی طرح بیعِ سلم میں بھی نفع یقینی ہوتا ہے۔ حالاں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، بیع سلم میں نفع یقینی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں بھی دو طرفہ نقصان کا پہلو پایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ایک کنٹل گیہوں لینے کے لیے کسی کو پندرہ سو روپے چھ ماہ پیشتر پیشگی ادا کرے تو چھ ماہ بعد ممکن ہے ایک کنٹل گیہوں کی قیمت پندرہ سو روپے سے زائد ہو جائے یا اس سے کم ہو جائے، ایک صورت میں سامان ادا کرنے والے کے نقصان کا امکان پایا جاتا ہے اور دوسری صورت میں پیشگی طور پر نقد قیمت ادا کرنے والے کا نقصان ہو سکتا ہے، جب کہ سود میں ایسا قطعی نہیں ہوتا ہے۔

قرض اور سفارش کے بدلے میں ہدیہ لینا

      مذکورہ تفصیلات سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ قرض خواہ کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مقروض سے کسی طرح کے ہدایا و تحائف کا طلب گار ہو یا مقروض سے گاہے بگاہے ذاتی فوائد حاصل کرنے کا متمنی ہو کیوں کہ اس طرح کا مشروط نفع اٹھانا درست نہیں ہے اور اس طرح کے مشروط نفع خوری کا شمار سود میں ہوگا۔ ہمارے معاشرے اور سماج میں یہ عام رواج ہے کہ اگر ہم کسی کو بطور قرض کچھ دے دیتے ہیں تو ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں، مفت میں اس سے کام لینا، بات بات پر احسان جتلا کر مقروض کو اذیت و تکلیف دینا، ہر جائز و ناجائز معاملے میں اس کی حمایت طلب کرنا، کسی سماجی یا سیاسی معاملے میں اگر وہ ہمارے نقطۂ نظر کے مخالف ہے تو اسے سب و شتم کرتے ہوئے بزور قرض اپنا ہمنوا و ہم فکر بنانا اپنا حق سمجھتے ہیں، بلکہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صدقہ کے عوض اس طرح کا روّیہ اپناتے ہیں یعنی جسے صدقہ دیتے ہیں اسے اپنا زر خرید غلام سمجھ بیٹھتے ہیں، جب کہ احسان جتلانے، تکلیف و اذیت دینے اور ریا و نمود کا اظہار کرنے سے صدقے کا اجر ضائع ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا :

      ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾

      ترجمہ : ’’اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اور دکھ دے کر برباد نہ کرو، جیسے (وہ شخص) جو لوگوں کو دکھلانے کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا ہے، تو اس (کے خرچ) کی مثال اس چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو اور زوردار بارش برسے اور اسے صاف چھوڑ دے، اور وہ کچھ قدرت نہیں پائیں گے اس میں جو کچھ انھوں نے کمایا اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ [البقرة : 264]

      نیز قرض دے کر احسان جتلانا یا مقروض کو کسی طرح کی اذیت سے دوچار کرنا بھی قرض دینے کی فضیلت اور اس کے اجر و ثواب کو سبوتاژ کر دیتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے قرض کے تئیں فائدہ اٹھانا سود میں داخل ہے۔ جناب ابو بردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

      میں مدینہ آیا تو میں نے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی۔ انھوں نے کہا: آؤ میں تمھیں ستو اور کھجور کھلاتا ہوں اور تم ایک (باعظمت) گھر میں داخل ہو گے۔ پھر انھوں نے کہا : ’’تم ایک ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں سود بہت عام ہے، اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو تم اسے قبول نہ کرنا کیوں کہ وہ سود ہے۔‘‘

[صحيح بخاری کتاب مناقب الأنصار باب مناقب عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ]

      سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا فَأَهْدَى لَهُ، أَوْ حَمَلَهُ عَلَى الدَّابَّةِ، فَلَا يَرْكَبْهَا، وَلَا يَقْبَلْهُ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذَلِكَ.))

      ترجمہ : ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو قرض دے اور قرض لینے والا اس کو تحفہ دے یا اسے جانور پر سوار کرے، تو وہ اس پر سوار نہ ہو اور نہ وہ تحفہ قبول کرے۔  مگر یہ کہ ان دونوں کے درمیان پہلے سے ایسا ہوتا رہا ہو (تو ٹھیک ہے۔)‘‘ [ابن ماجہ کتاب الصدقات باب القرض، سنداً یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھیے: انوار الصحیفۃ ص: 466، تراجع العلامہ الألباني رقم الحدیث: 329]

      یہی حال ’’ہیوی ڈپازٹ‘‘ کا بھی ہے جو ہمارے یہاں کے بعض علاقوں میں بکثرت رائج ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ دوکان یا گھر کا مالک اپنے کرایہ دار سے بطور ڈپازٹ (امانت، ودیعت/زرِضمانت) بھاری رقم وصول کرتا ہے جو عام طور پر رائج ڈپازٹ سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے، اور پھر اس کے بدلے میں کرایہ دار کے کرایہ میں کافی تخفیف کر دیتا ہے۔ مثلاً اگر علاقہ کے عام حالات و رواج کے مطابق پانچ ہزار روپے کرایہ بنتا ہے تو وہ اس ڈپازٹ کے رقم کی وجہ سے محض ہزار یا پانچ سو روپیہ کرایہ ماہانہ وصول کرتا ہے اور کبھی کبھی اس سے بھی کم۔ یہ صریح سود کی شکل ہے جو بطور ڈپازٹ یا قرض دے کر کرائے میں بصورتِ تخفيف وصول کی جاتی ہے۔ اگر اس ڈپازٹ شدہ رقم کو امانت/ضمانت مانیں تب بھی اس کی وجہ سے کوئی فائدہ اٹھانا درست نہیں ہوگا اور امانت ماننے کی صورت میں ایک اور شرعی قباحت سامنے آتی ہے کہ مالک مکان اس میں من مانی تصرف کرتا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے الا یہ کہ اس سے متعلق دونوں کے مابین آپس میں کوئی معاہدہ طے ہوا ہو، اور اگر اس رقم کو قرض مانیں تب بھی اس کی وجہ سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا درست نہیں ہوگا، اور دونوں صورتوں میں یہی مشروط اضافی فائدہ حاصل کرنا ہی سود ہے۔ اور حقیقت میں ہمارے معاشرے میں رائج ہیوی ڈپازٹ کی یہ شکل قرض ہی کی ہے کیوں کہ شرعی نقطۂ نظر سے اس پر امانت کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے، اس لیے کہ شریعت میں امانت اسے کہتے ہیں جس میں کسی طرح کا تصرف نہ ہو اور جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے وہ اسے اسی حالت میں محفوظ رکھے جس حالت میں اس نے امانت یا زرِ ضمانت رکھنے والے شخص سے قبول کیا تھا اور جب اس نے اسے مروجہ طریقے کے مطابق یا ہیوی ڈپازٹ ادا کرنے والے شخص کی اجازت سے اپنے مصرف میں لے لیا تو وہ ہیوی ڈپازٹ، امانت کے بجائے قرض بن گیا اور قرض سے متعلق یہ قاعدہ مسلم ہے کہ قرض پر لیا جانے والا مشروط اضافی نفع سود ہے خواہ وہ ہدایا یا تحائف کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں ہو، بہرحال وہ سود ہی ہے خواہ اس کا نام کچھ بھی رکھ لیا جائے، لہذا اس طرح کے معاملات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہمیں ہر طرح کے سودی معاملات سے بچائے۔ آمین

      ایسے ہی کسی کی سفارش کر کے اس سے کسی تحفہ کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں ہے بلکہ یہ طریقہ سود میں ملوث ہونے کا ذریعہ ہے اور ایسا شخص سودی دروازے کو کھول کر اس میں داخل ہو جاتا ہے۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((مَنْ شَفَعَ لِأَخِيهِ بِشَفَاعَةٍ، فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا.))

      ترجمہ : ’’جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی تو اس نے اس سفارش کے بدلے میں اسے کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کر لیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا۔‘‘[ابوداؤد کتاب الاجارۃ باب فی الھدیۃ لقضاء الحاجۃ]

       ہر طرح کے قرض پر کسی بھی طرح کا فائدہ اٹھانے سے بچنا چاہیے، قرض احسان ہے اس لیے اسے احسان ہی کے باب میں رکھنا چاہیے، نیز ہر طرح کے معاملے میں رشوت دینے اور لینے سے بھی بچنا چاہیے کیوں کہ حدیثوں میں اس پر بڑی وعید آئی ہے اور ایسا کرنے والا سودی دروازہ کھولنے والا ہوتا ہے، اس طرح اس میں رشوت اور سود دونوں کی وعیدیں جمع ہوجاتی ہیں۔      (جاری)

تبصرے بند ہیں۔