مسلم خاتون نے فقر و فاقہ سے تنگ آکر خود کشی کرلی: ذمے دار کون ؟

مسعود جاوید

کل سے اخبار کا یہ تراشہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور نزلہ بے چارے مدارس کے ذمے داران زکوٰۃ اور ملی تنظیموں پر گرا۔
اس میں شک نہیں کہ یہ ایک بہت ہی افسوسناک سانحہ ہے اور مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ مگر مسائل کو صحیح زاویے سے اگر نہیں دیکھا جائے تو پائدار حل نہیں نکلتا۔  اس میں دو رائے نہیں کہ زکوٰۃ کی رقم کو منظم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور بیت المال جیسا نظام قائم کرنے سے مسلمانوں کے بہت سارے سماجی رفاہی معاشی اور تعلیمی مسائل حل  ہو سکتے ہیں۔  لیکن زکوٰۃ کے مصارف اللہ سبحانه وتعالى نے جو طے کر دیا ہے اس سے روگردانی باعث ثواب کی بجائے باعث عذاب ہو سکتی ہے۔ منجملہ ان مصارف کے فقرا اور مساکین بھی ہیں۔

ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہر رفاہی کام کے لئے زکوٰۃ کی رقم  ہی کیوں نظر آتی ہے؟ حکومت کی تحویل میں جو ہیکٹر میں اوقاف کی اراضی مکانات اور دکانیں ہیں اس کی آمدنی کی بازیابی کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی جاتی ؟
دوسری بات یہ کہ جس خاتون کی خودکشی کی خبر شائع ہوئی ہے اخلاقی طور پر سب سے پہلے  اس کے پڑوس والے اس کے ذمے دار ہیں بلکہ اخلاقی مجرم ہیں۔ وہاں کے نوجوان ذمے دار ہیں اس لئے کہ انہوں نے خبر گیری کیوں نہیں کی۔ کئی ملی تنظیمیں ایسے فقرا کو ماہانہ وظیفے دیتی ہیں۔ حکومت کی اسکیم بھی عمر رسیدہ غریب خواتین کے لیے پنشن دینے کی ہے اس علاقے کے جوانوں نے اس خاتون کا

کارڈ کیوں نہیں بنوایا۔آپس میں خود کفالت کا کوئی نظم بنانے سے انہیں کس نے روکا؟  ملی تنظیموں کے سر ساری ذمے داری منڈهنا ذمہ داری سے فرار ہونا ہے۔ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کلکم راع و کلکم مسئول عن رعيته یعنی تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہوگا۔ اس علاقے کے لوگوں کی مالی حیثیت اگر اتنی نہیں ہے کہ مدد کر سکیں تو انہوں نے دوسرے جو مدد کرنے کے لائق ہیں ان کو کیوں نہیں بتایا۔ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا الدال على الخير کفاعله نیک کام کے لئے کسی کو بتانا ایسا ہے گویا اس نے خود نیک کام کیا۔ آپ کسی کو چند سو روپے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کوئی بات نہیں ۔آپ کی نظر میں کوئی ایسا ہے جو دے سکتا ہے اسے بتائیں یہ بھی ایسا ہی ہے گویا آپ نے چند سو روپے کسی کو دیا۔ زکوٰۃ کے بارے میں یہ غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ زکوٰۃ کی رقم  پیشہ ور فقیروں یا مدارس کو ہی دی جائے۔ زکوٰۃ کے بارے میں یہ غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ زکوۃ رشتہ داروں کو نہیں دے سکتے۔ زکوٰۃ صرف سر کے اوپر یعنی باپ ماں دادا دادی نانا نانی اور پیر کے نیچے یعنی بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کو نہیں دے سکتے۔ ان کے علاوہ مستحق  بھائ بہن اور دیگر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو دینا بہتر ہے۔ بھائی بہن اور قریبی رشتہ داروں کو دینا دو گنا ثواب کا باعث ہے ایک صلہ رحمی اور دوسرا فرضیت زکوٰۃ کی ادائیگی۔

پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے اتنی تاکید کی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لگنے لگا کہ کہیں ان کے میراث میں اللہ ان پڑوسیوں کا بھی حق نہ متعین کردے۔  یعنی ترکہ میں جہاں اللہ نے متوفی کی اہلیہ  اور بیٹے بیٹیوں کا حق قرآن میں متعین کردیا ہے ان میں پڑوسی کا حق بھی شامل نہ کردے۔

خودکشی حرام ہے اور فقر و فاقہ سے تنگ آنا بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ عزت نفس نے اس کنبہ کو سوال کرنے سے باز رکھا یہ کوئی جواز نہیں ہے۔ جان بچانے کے لئے اتنی رقم یا اشیاء کی چوری بھی جائز ہے جتنی سے رمق باقی رہے۔ دو روز مزدوری نہ ملنے سے ایسا بحران کہ اس  نے اتنا بڑا خطرناک قدم اٹھانے پر مجبور کردیا یہ مبالغہ ہر مبنی بات لگتی ہے۔ زکوٰۃ کی رقم مہیا ہونے کی صورت میں بھی اس مفلوک الحال تک رقم پہنچ جاتی اس کی کیا ضمانت ہے۔ پچھلے سال کی طرح اس  سال بھی دہلی میں افطار کٹ تقسیم کئے جا رہے ہیں۔شاہین باغ میں مقامی تنظیم وی او سی کے ممبران یہ کام آپسی تعاون سے کر رہے ہیں یہ کٹ ایک ماہ کی اشیاء خورد و نوش پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس بابت لوگوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ لوگ ان گھروں کی نشاندہی کریں جن کے افراد کو عزت نفس نے اپنا حال دوسروں پر آشکارا کرنے سے روکتا ہے۔ ہم لوگوں یعنی والنٹیرس آف چینج کا تجربہ ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔   یہ نشاندہی صرف قریبی رشتہ دار دوست اور پڑوسی ہی کر سکتے ہیں۔

مسئلہ رمضان اور زکوٰۃ کا نہیں ہے۔ ملی تنظیموں اور مدارس کا بھی نہیں ہے۔ یہ کام صرف اور صرف اس علاقے میں رہنے والوں کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ  ہم اپنے پڑوسیوں کے احوال سے واقف ہونے کی کوئی تحریک جیسے Know Your Neighbors چلائیں۔ اس کے کئی فوائد ہیں ایک تو یہ کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کی ہدایات اور سخت تاکید پر عمل ہوگا دوسرا یہ کہ کبھی کبھی فقر و فاقہ سے تنگ آکر فرسٹریشن میں یا منفی سوچ کی وجہ سے بچے اور نوجوان جرائم اور نشہ وغیرہ میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے تعلقات پڑوسیوں کے ساتھ اچھے ہوں گے تو بر وقت ایسے بچوں کو روکا جاسکتا ہے۔ جو بچے اسکول نہیں جاتے ان کے والدین کو تعلیم کی اہمیت بتا کر بچوں کو تعلیم سے جوڑا جا سکتا ہے۔  یاد رہے اگر ہمارا پڑوسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا تو ہم بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔