انسان اور زمین کی حکومت (قسط 115)

رستم علی خان

لڑائیوں کے متواتر سلسلہ نے سینکڑوں گھرانے برباد کر دئیے تھے اور قتل اور سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے- یہ دیکھ کر بعض طبیعتوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی- جنگِ فجار سے لوگ واپس مڑے تو زبیر بن عبدالمطلب نے جو آنحضرتﷺ کے چچا اور خاندان کے سرکردہ تھے یہ تجویز پیش کی- چنانچہ خاندانِ ہاشم، زہرہ اور تیم، عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور معاہدہ ہوا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے پائے گا- آنحضرتﷺ اس معاہدہ میں شریک تھے اور آپﷺ نبوت کے زمانہ میں فرمایا کرتے تھے کہ؛ "اگر معاہدہ کے بدلہ میں مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دئیے جاتے تو میں نہ بدلتا- اور آج بھی ایسے معاہدہ کے لیے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں-"

اس معاہدہ کو حلف الفضول اس لیے کہتے ہیں کہ اول اول اس معاہدہ کا خیال جن لوگوں کو آیا ان کے ناموں میں لفظ "فضیلت” کا مادہ داخل تھا- یعنی "فضیل بن حرث، فضیل بن عدہ اور مفضل-” یہ لوگ جرہم اور قطورا کے قبیلہ کے تھے- اگرچہ یہ معاہدہ بےکار گیا اور کسی کو یاد بھی نہ رہا- چنانچہ قریش نے نئے سرے سے بنیاد ڈالی، تاہم بانیِ اول کو نیک نیتی کا یہ ثمر ملا کہ ان کے نام کی یادگار اب تک باقی ہے-

کعبہ کی عمارت صرف قد آدم اونچی تھی اور دیواروں پر چھت نہ تھی- جس طرح ہمارے ملک میں عید گاہیں ہوتی ہیں- چونکہ عمارت نشیب میں تھی بارش کے موسم میں شہر کا پانی حرم میں آتا تھا- اس کی روک کے لیے بالائی حصہ پر بند بنوا دیا گیا تھا- لیکن وہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا اور عمارت کو بار بار نقصان پنہچتا تھا- بلآخر یہ رائے قرار پائی کہ موجودہ عمارت ڈھا کر نئے سرے سے زیادہ مستحکم عمارت بنائی جائے- حسنِ اتفاق یہ کہ جدہ کی بندرگاہ پر ایک تجارتی جہاز کنارہ سے ٹکرا کر بری طرح ٹوٹ گیا تھا- قریش کو خبر لگی تو ولید بن مغیرہ نے جدہ پنہچ کر جہاز کے تختے مول لے لیے- جہاز میں ایک رومی معمار تھا جس کا نام باقوم تھا- ولید اس کو ساتھ لایا اور تمام قریش نے ملکر تعمیر شروع کی- مختلف قبائل نے عمارت کے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لیے تھے کہ کوئی اس شرف سے محروم نہ رہ جائے- لیکن جب "حجرِ اسود” کے نصب کرنے کا موقع آیا تو سخت جھگڑا پیدا ہوا- ہر شخص چاہتا تھا کہ یہ خدمت اسی کے ہاتھ سے انجام پائے- نوبت یہاں تک پنہچی کہ تلواریں کھنچ گئیں- عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی شخص لڑائی میں جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر اس میں انگلیاں ڈبو لیتا تھا- اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی- چار دن تک یہ جھگڑا برپا رہا- پانچویں دن ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ معمر تھا رائے دی کہ کل صبح کو سب سے پہلے جو شخص کعبہ کے اندر آئے وہی ثالث قرار دے دیا جائے- پھر جو فیصلہ وہ کرے گا وہی سب کو منظور کرنا ہو گا- سب نے اس رائے کو تسلیم کیا- دوسرے دن تمام قبائل کے معزز آدمی موقع پر پنہچے- کرشمہِ ربانی دیکھو کہ صبح کو سب سے پہلے لوگوں کی نظریں جس شخصیت پر پڑیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ جمال جہاں تاب چہرہ محمدیﷺ تھا- لیکن رحمتِ عالمﷺ نے یہ قبول نہ کیا کہ اس شرف سے تنہا بہرہ ور ہوں- چنانچہ آپﷺ نے فرمایا جو قبائل دعویدار ہیں سب کا ایک ایک سردار منتخب کر لیا جائے- بعد اس کے آنحضرتﷺ نے ایک چادر بچھا کر حجرِ اسود کو اس میں رکھ دیا اور سرداروں سے فرمایا کہ چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اوپر کو اٹھائیں- اور پھر جب چادر حجرِ اسود کے نصب کرنے والی جگہ تک آ گئی تو آپﷺ نے حجرِ اسود کو اپنے دستِ مبارک سے اٹھایا اور نصب کر دیا- یہ گو اشارہ تھا کہ دین الہی کی عمارت کا تکمیلی پتھر بھی انہی مبارک ہاتھوں سے نصب ہو گا- یعنی آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا-

اس طرح ایک سخت لڑائی آپﷺ کے حسن تدبیر سے رک گئی- کعبہ کی عمارت اب مسقف کر دی گئی- لیکن چونکہ سامان تعمیر کافی نہ تھا- ایک طرف زمین کا کچھ حصہ چھوڑ کر بنیادیں قائم کی گئیں اور اس حصہ کے گرد چار دیواری کھینچ دی گئی کہ پھر موقع ہو گا تو اندر لے لیں گے- یہی حطہ ہے جس کو آج "حطیم” کہتے ہیں- اور جس کی نسبت بعد نبوت آنحضرتﷺ نے ارادہ فرمایا تھا کہ دیوار ڈھا کر نئے سرے سے بنائی جائے لیکن پھر خیال ہوا کہ نئے نئے مسلمان ہیں دیوار کعبہ کے ڈھانے سے بدگمان ہو جائیں گے-

عرب اور خصوصا قریش یعنی بنو اسماعیل ظہور اسلام سے ہزاروں برس پہلے سے تجارت پیشہ تھے- آنحضرتﷺ کے جدِ اعلیٰ "ہاشم” نے قبائل عرب سے تجارتی معاہدے کر کے اس خاندانی طریقہ اکتساب کو اور زیادہ مستحکم باقاعدہ کر دیا تھا- آنحضرتﷺ کے چچا ابوطالب بھی تاجر تھے- اس بنا پر سن رشد کو پنہچنے کے ساتھ آنحضرتﷺ کو جب فکر معاش کی طرف توجہ ہوئی تو تجارت سے بہتر کوئی پیشہ نظر نہ آیا- ابوطالب کے ساتھ آپﷺ بچپن میں بھی بعض تجارتی سفر کر چکے تھے- جس سے ہر قسم کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا- اور آپﷺ کے حسن معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی- لوگ عموماً اپنا سرمایا کسی تجربہ کار اور امین شخص کے ہاتھ میں دے کر اس کے منافع میں شرکت کر لیتے تھے- آنحضرتﷺ بھی خوشی کے ساتھ اس شرکت کو گوارہ فرماتے تھے- آنحضرتﷺ کے شرکائے تجارت کی شہادتوں سے جو احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ آپﷺ کس دیانت اور راست بازی سے اس کام کو انجام فرماتے تھے-

تاجر کے محاسن اخلاق میں سب سے زیادہ نادر مثال ایفائے عہد اور اتمام وعدہ کا ہو سکتا ہے- لیکن منصب نبوت سے پہلے مکہ کا تاجرِ امینﷺ اس اخلاقی نظیر کا بہترین نمونہ تھا- حضرت عبداللہؓ بن ابی الحمساء ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے آنحضرتﷺ سے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کیا تھا- کچھ معاملہ ہو چکا تھا کچھ باقی تھا- میں نے وعدہ کیا کہ پھر آؤں گا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ رہا- تیسرے دن جب وعدہ گاہ پر پنہچا تو آنحضرتﷺ کو اسی جگہ منتظر پایا- لیکن اس خلاف وعدہ سے آپﷺ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا اور صرف اس قدر فرمایا کہ؛ "تم نے مجھے زحمت دی میں اسی مقام پر تین دن سے موجود ہوں-"

کاروبار تجارت میں آپﷺ ہمیشہ اپنا معاملہ صاف رکھتے تھے- نبوت سے پہلے بھی جن لوگوں سے تجارت میں آپﷺ کا سابقہ تھا وہ بھی اس بات کی شہادت دیتے تھے- سائبؓ نام کے ایک صحابی جب مسلمان ہو کر خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے ان کی تعریف کی، تو آپﷺ نے فرمایا؛ "میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں-” سائبؓ نے کہا آپﷺ پر میرے ماں باپ قربان، آپﷺ میرے شریک تجارت تھے لیکن ہمیشہ معاملہ صاف رکھا- قیسؓ بن سائب مخزومی ایک اور صحابی بھی آپﷺ کے شریک تجارت تھے- وہ بھی انہی الفاظ میں آپﷺ کے حسن معاملہ کی شہادت دیتے ہیں- تجارت کی غرض سے آپﷺ نے شام، بصری اور یمن کے متعدد سفر کیے–

تبصرے بند ہیں۔