روزہ اور خود احتسابی

شاہ مدثر

الحمدللہ۔! رمضان کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے۔ماہِ رمضان دراصل روحانی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے جس میں ﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بڑا اچھا انتظام کیا ہے۔روزوں کے ذریعے ایک بندۂ مومن تقویٰ کی صفات سے آراستہ ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ۔روزے کی فرضیت کابنیادی مقصد ہی تقویٰ کی آبیاری ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔(البقرہ)۔رمضان اور روزے کی فرضیت اور فضیلت کے حوالے سے بےشمار احادیث ملتی ہیں۔اس متعلق ایک حدیث بڑی اہمیت رکھتی ہے۔جس پر غور و تدبر اور عمل کی ضرورت ہے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.  جوشخص ایمان اوراحتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے گا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (بخاری) اس حدیث میں لفظ’’ احتساب‘‘ اپنے اندر ایک وسیع معنی رکھتا ہے، جس میں رمضان کاروزہ،ایمان کی پختگی اور احتساب کی نیت کے ساتھ رکھنے والوں کے گناہوں کو معاف کردینے کی ضمانت دی گئی ہے۔ چونکہ رمضان المبارک جنت کے حصول اور خود احتسابی کا مہینہ بھی ہے۔ماہ رمضان خود احتسابی کاعظیم درس دیتا ہے۔خود احتسابی بہت بڑا وصف اور بندہ مؤمن کی ترقی و عروج کا زینہ ہے ۔خود احتسابی یہ ہے کہ ہر بندۂ مومن ماہ رمضان میں یہ غور کرے کہ پچھلی زندگی میں نے کیسی گزاری؟؟ کیا کھویا اور کیا پایا؟؟ اللّٰہ تعالیٰ کے کن کن احکامات پر عمل کیا؟؟ اپنی زندگی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق بسر کی یا نہیں؟؟؟ اس پرسنجیدگی سے غور وفکر کرنے ، اپنی غلطیوں سے سبق لینے اوران کی مناسب اصلاح کرنے کا نام خود احتسابی ہے۔

ہر بندۂ مومن کو اپنا محاسبہ خود کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہر شخص اپنے آپ سے اچھی طرح واقف ہے، اسے معلوم ہے کہ ’میرا ضمیر مجھے کس کام کی ترغیب دے رہا ہے۔ کن باتوں پر اکسارہا ہے۔قرآن کریم نے خود احتسابی کی طرف ایک جگہ یوں رہنمائی کی ہے:

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (سورۃ القیامۃ: 14)

’’ بلکہ انسان اپنے آپ کا نگہبان ہے۔‘‘

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: اِقْرَاْ كِتَابَكَۚ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا (سورۂ اسراء:14) ’’ آج کے دن ،اے انسان، توہی اپنے احتساب کے لئے کافی ہے.‘‘ ان آیات کا ماحصل یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں، گاہے بگاہے ان کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہم اپنے خالق کی مرضی کے خلاف تو نہیں چل رہے؟ اگر ایسا ہے، تو ہمیں فوراً توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ ورنہ آخرت میں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ چناں چہ حدیث مبارکہ میں ہے: ’’عقل مند وہ آدمی ہے جو اپنے نفس کا خیال رکھے۔‘‘ امام ترمذیؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص قیامت سے پہلے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے (وہ عقل مند انسان ہے)۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’حساب لیے جانے سے پہلے پہلے اپنا حساب کرلو۔ کیوں کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا محاسبہ کر لیا، روزِ قیامت اس کا حساب آسان لیا جائے گا۔‘‘ یعنی خود ہی اپنی زندگی کا حساب کرنا خود کو کامیاب بنانے کے برابر ہے، اور اپنا محاسبہ آپ نہ کرنا خود کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کی مانند ہے۔ اس لحاظ سے بحیثیت مسلمان ہمیں ہرحال میں اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔یہ احتساب نہ صرف انفرادی طور پر ضروری ہے بلکہ اسے اجتماعی زندگی میں بھی بڑی اہمیت ہے، قوموں کے عروج زوال میں احتساب کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ماضی کے ہر ہر عمل کے بارے میں خود احتسابی کرنا ماہ رمضان کا سب سے اہم تقاضا ہے۔لیکن صد افسوس کہ ہم لوگوں میں اخلاق اور تقویٰ کے جذبات صرف ماہ رمضان میں ہی موجزن ہوتے ہیں ، بلکہ عبادت و ریاضت بھی ہم ذوق و شوق سے صرف اسی ماہ میں کرتے ہیں۔اور اسی ماہ میں مسجدیں آباد ہوتی ہیں۔ پھر سارا سال مسجدیں خالی رہتی ہیں۔ معاشرے میں فحش و منکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔دھوکہ،فریب،جھوٹ اور بے حیائی پھر سے زندگی کا حصّہ بن جاتی ہے۔ یہ تو ہمارے رویّوں اور عمل کا تضاد ہے۔ آج ہمیں اسی متضاد زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔اور یہ کام خود احتسابی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔

 خود احتسابی کے حوالے سے ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔خود احتسابی کے عمل نے صحابہ کرام کو اتنا حساس کردیا تھا کہ وہ اپنی قلبی کیفیات کو بھی چیک کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے کہ حضرت حنظلہ، بلند آواز میں یہ کہتے ہوئے جارہے تھے کہ حنظلہ، منافق ہوگیا! حنظلہ، منافق ہوگیا! حضرت ابوبکر صدیقؓ راستے میں ملتے ہیں پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ حضرت حنظلہ، بتاتے ہیں حضورﷺ کی مجلس میں ہوتا ہوں تو  ایمان کچھ اور ہوتا ہے، عمل کے ارادے بہت ہوتے ہیں لیکن جب آپﷺ کی مجلس سے  گھر آتا ہوں تو ایمان کی کیفیت کمزور ہوجاتی ہے عمل میں کمی آجاتی ہے حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں یہ ہی کچھ کیفیت میں بھی محسوس کرتا ہوں چلو حضورﷺ کے  پاس چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ وہاں جاتے ہیں کیفیت بیان کرتے ہیں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے جواب سے دل کا اطمینان پاتے ہیں۔صحابہ کرام اور سلف صالحین خود احتسابی اور اپنے اعمال کی نگرانی کرتے ہوئے اپنے نفس کو ہمیشہ قابو میں رکھا کرتے تھے، وہ اپنے زندگی کا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات اور اطاعت مکمل طور پر بجا لاتے تھے، جو کہ اخلاص سے بھر پور اور بدعات، ریاکاری اور خود پسندی سے پاک ہوتی تھی، وہ ہمیشہ نیک اعمال کے ذریعے رضائے الہی اور اخروی زندگی کی تلاش میں رہتے تھے۔اس لئے ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم اپنی زندگی اور اپنے اعمال کا احتساب کرتے رہیں۔چونکہ ہمارے ہر ہر عمل پر ﷲ تعالیٰ کی گہری نظر ہے۔ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی بول چال کا بھی احتساب ہمیشہ کرتے رہیں، چنانچہ اپنی زبان کو غلط اور غیر ضروری گفتگو کیلئے استعمال میں نہیں لانا چاہیے، بلکہ ہمارے اندر یہ احساس زندہ رہنا چاہیے کہ دو فرشتے ہماری  ایک ایک بات کو لکھ رہے ہیں، لہذا ہمارے کیے ہوئے ہر عمل پر بدلہ دیا جائے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ Oكِرَامًا كَاتِبِينَ O يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ : "اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں،وہ معزز لکھنے والے ہیں اور جو بھی تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں (الانفطار ) ایک اور مقام پراسی طرح فرمایا گیا ہے: مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ:(سورہ ق)”جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے.” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ: "وہ(فرشتے) ہر اچھی اور بری بات کو لکھتے ہیں، حتی کہ وہ یہ بھی لکھتے ہیں: میں نے کھا لیا، میں نے پی لیا، میں چلا گیا، میں آگیا، میں نے دیکھا”

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "بیشک آدمی رضائے الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اس کی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے، اور بیشک آدمی غضبِ الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اس کی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔ (بخاری) اسی طرح بندہ مؤمن کو چاہیئے کہ وہ اپنے خیالات کا بھی ہمیشہ محاسبہ کرتے رہے، اور دل میں آنے والے شیطانی وساوس، گندے خیالات اور شکوک و شبہات کا مقابلہ کرے وہ اس لئے کہ بات چاہے اچھی ہو یا بری ان کی ابتدا سب سے پہلے دل میں آنے والے خیالات سے ہوتی ہے، چنانچہ اگر مسلمان دل میں آنے والے برے خیالات پر قابو پالے، اور اس کی جگہ اچھے اور نیک خیالات پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارے تو وہ فوز و فلاح کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے،اور اگر شیطانی وسوسوں کا شکار رہا، اور انہیں قبول کرکے اس مطابق عمل کیا تو یہی وسوسے اسے گناہوں میں ملوث کر دینے کے لئے کافی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "اور اگر شیطان کی طرف سے آپکو کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگو، بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔”(حم السجدہ :36) اور اسی طرح اللہ تعالی نے سورت "الناس” میں شیطانی وساوس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "شیطان ابن آدم کے دل پر تسلی سے بیٹھتا ہے، چنانچہ اگر انسان (اللہ تعالیٰ کو) بھول جائے،تو وہ وسوسہ ڈالتا ہے، اور اگر اللہ کو یاد کر لے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔” لہذٰا روزوں کے ذریعے اپنے اندر اچھے اور نیک خیالات کو تقویت دیجئے اور شیطانی وساوس سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے رہیئے۔

عزیزانِ گرامی! خیال رہے کہ جب ایمان بڑھتا ہے تو خود احتسابی کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے اور جب خود احتسابی کی عادت پڑجاتی ہے تو ایمان میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ گویا کہ ایمان و احتساب لازم و ملزوم ہیں۔اسی لئے ایمان اور احتساب کے حوالے سے ماہ رمضان کی بڑی اہمیت ہے۔ رمضان المبارک کی ٹریننگ ایمان اور احتساب میں اضافہ کرتے ہیں۔روزوں کے ذریعے بندہ مؤمن میں خود احتسابی پیدا ہوتی ہے۔ہم گھر میں ہوں یا کہیں باہر، یا پھر اپنے بزنس میں مصروف ہوں، ہمیں خوداحتسابی کا عمل جاری رکھنا چاہئیے۔ جب ہمیں یہ بابرکت مہینہ اخلاقی صفات اختیار کرنے کے لئے مل ہی چکا ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اُٹھائیں؟ اس ایک ماہ کی تربیت کو ہم پورے سال کے لیے کیوں نہ اپنائیں؟ ماہ رمضان کی مناسبت سے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ہر عادت اور عمل پر خاص توجہ دیں۔

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تلقین کی ہے:

    ’’اے مومنو! اللّٰہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر نفس یہ جائزہ لیتا رہے کہ وہ اپنی کل (آخرت) کیلئے کیا جمع کررہا ہے،بے شک اللّٰہ تمہارے ہر عمل کی خبر رکھتا ہے (کہ وہ عمل کتنا معیاری ہے)‘‘(الحشر18) ہمارا ایمان ہے کہ رب کائنات کے حضور ہماری پیشی کسی لمحے بھی متوقع ہے اور اس کی نگاہوں سے کسی لمحے بھی ہم اور ہمارے اعمال اوجھل نہیں ہو سکتے۔ اُس رب کی رحمت کا احساس، اس کی عظمت کی پہچان، اس رب کی حاکمیت کا یقین جس قدر دل میں مضبوط ہوگا ،اُسی قدر مؤمن "فلاح آخرت ” کے لئے سرگرم ہوگا۔ اس پر ہر لمحہ جواب دہی کا خوف غالب رہے گا اور یہی ایمان کا تقاضا ہے۔

عزیزانِ ملت! یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ آج ہر انسان  دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے جارہا ہے،دنوں پہ دن گز رہے ہیں ، اور ہمارے اچھے برے تمام تر اعمال کے صفحات لکھ کر لپیٹے جارہے ہیں ، لیکن افسوس کہ ہماری غفلت بھری زندگی ہمیں ناکامی کی جانب دھکیلتی ہی جارہی ہے۔ پس۔۔ ! جو شخص بھی اخروی کامیابی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے اندر خود احتسابی پیدا کرے ہر دن کے اختتام پر سوچے کہ آج میں نے کیا کھویا اور کیا حاصل کیا؟ کیا میں نے آج امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کوئی کام بھی کیا ہے ؟ کیا میں نے اسلام کی نشر و اشاعت کی خاطر اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو وقف بھی کیا ہے؟ کیا نہتے اور کمزور مسلمانوں کی مدد ونصرت کی کوششیں بھی کی ہیں؟؟ اس طرح کے سوالات ہر شخص اپنے ہی دل سے پوچھے۔ یہ صاف ستھری اور سچے دل سے سچی دعوت ہر بندہ مؤمن کے لیے ہے تاکہ وہ اس انداز سے اپنے آپ کا خود محاسبہ کرے اور سفرِ آخرت کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ زادِراہ جمع کرلے۔

پس روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرے،روزہ وہ ہے جو ہمیں فرمانبرداری اور پرہیزگاری کا سبق دے،روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر و استقامت عطا کرے،روزہ وہ ہے جو ہمیں باطل طاقتوں کے مقابلے میں ثابت قدم رکھے،روزہ وہ ہے جو ہمیں ہر طرح کی آزمائش اور تکلیف کو جھیلنے کا عادی بنائے،روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر برائیوں کے خلاف لڑنے کی قوت پیدا کرے،یہی رمضان المبارک کا تقاضہ ہے۔اور یہی روزے کا بنیادی مقصد ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر خود احتسابی کو پروان چڑھائے بار بار خود کا محاسبہ کریں ہر لمحے کا احتساب۔ ۔ ۔ اپنے اعمال و معمولات کا احتساب۔ ۔ ۔اپنی عبادتوں اور ریاضتوں کا احتساب۔۔۔ اپنے نفس کی خواہشات کا احتساب۔ ۔ ۔ شیطانی ترغیبات کی جانب دل کے جھکاؤ کا احتساب۔ ۔ ۔ اپنے خیالات کا احتساب۔۔۔۔اپنے قول و فعل کا احتساب اور اپنی زندگی اور  اپنے کردار کا احتساب کرتے رہیں تاکہ ہماری انفرادی زندگی بھی کامیابی سے ہمکنار ہو اور اجتماعی زندگی بھی کامیابی سے گزرے۔

 اللّٰہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمل صالحہ کی توفیق دے اور شیطانی راستوں پر چلنے سے محفوظ رکھے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

تبصرے بند ہیں۔