سود اور اس کی حرمت (قسط 10)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

بعض سودی کمپنیوں کا فریب

      موجودہ دور میں دھوکا و فراڈ پر مبنی بہت سی کمپنیاں معرضِ وجود میں آچکی ہیں جو مسلسل اپنے صارفین کو دھوکا دے کر صرف سرمایہ وصولتی ہیں، منافع کا سبز باغ دکھا کر لوگوں کو اپنے دامِ فریب میں پھانستی ہیں، اور مسلمانوں کو جھانسا دینے کے لیے بیعِ غرر پر مشتمل سودی منافع کو سود کا نام دینے کے بجائے اسے تجارتی منفعت قرار دیتی ہیں۔ اس طرح کی اکثر و بیشتر کمپنیاں جھوٹ، فراڈ، جعل سازی، جوا اور سودی لین دین میں ملوث ہوتی ہیں۔ ایک تو اس میں شرکت سے ہمارا دین و ایمان جاتا ہے دوسرے مالی خسارہ بھی ہوتا ہے۔ ایک زنجیر کی طرح گراہک کو جوڑنے والی ممبر سازی پر مشتمل ملٹی لیول قسم کی جتنی بھی کمپنیاں ہیں آپ اس میں دیکھیں گے کہ سوائے ابتدائی چند لوگوں کے اور دوسروں کا نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح کی کمپنیوں میں بیک وقت کئی شرعی قباحتیں پائی جاتی ہیں لہٰذا ان سے دور رہنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ ان کمپنیوں کا دار و مدار فقط ممبر سازی اور حرام قسم کی دلالی پر ہوتا ہے اور دھوکا دینے کے لیے بظاہر چند پروڈکٹ ہوتے ہیں اور وہ بھی کسی کمپنی سے ہتھیائے ہوئے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ عام مارکیٹ ویلیو سے کافی مہنگے بھی ہوتے ہیں۔ اور پھر اس طرح کی فراڈ کمپنیوں میں شریک ہو کر اس کے لیے ممبر بنانا بھی تعاون علی الإثم کے زمرے میں ہے جو کہ ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾

      ترجمہ : ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو نیز گناہ اور سرکشی کے کاموں میں مدد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ [المائدة: 2]

      اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ فَعَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنِ اتَّبَعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.))

      ترجمہ : ’’اور جس نے کسی گمراہی کی طرف بلایا تو اس پر بھی اسی کے مثل گناہ ہوگا جتنا اس کی پیروی کرنے والے پر ہوگا اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ [ابن ماجه المقدمۃ باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیئۃ]

      ابھی کچھ دہائیوں قبل آر سی ایم (RCM) اور آر ایم پی (RMP) نامی مارکیٹنگ کمپنیوں کا کافی بول بالا تھا لوگ دھڑا دھڑ اس کا ممبر بننے کی ہوڈ لگائے ہوئے تھے اور پھر زیادہ تر لوگوں کو وقت اور مال کے ضیاع کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ لگا۔ اسکائی بز (SKYBIZ) نامی کمپنی کا بھی یہی حال ہے، کئی جگہوں پر اس کا فراڈ سامنے آیا ہے۔ یہی حال ویسٹیج (VESTIGE) اور سیو شاپ (SAVE SHOP) نامی کمپنیوں کا بھی ہے، ان کا طریقہ کار نیٹ ورک مارکیٹنگ سسٹم کے طرز پر ہوتا ہے، گراہک جس قدر ممبر جوڑتا ہے اتنا اسے فائدہ ملتا ہے اور اس کے توسط سے جڑے ہوئے ممبرز جب اپنے پیچھے دیگر ممبران کو جوڑتے ہیں تو اس پر بھی اسے کچھ حصہ ملتا ہے اس طرح جس قدر اس کے نیچے لوگ جڑتے جائیں گے اوپر والے کو کسی محنت اور حق کے بغیر اس کا حصہ ملتا رہے گا۔ اس طرح ان میں کئی ایک خامیاں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح کی کمپنیوں میں لاعلمی کی بنا پر یا جانتے بوجھتے اپنی سرکشی کی بنیاد پر کافی مسلم لوگ بھی جڑے رہتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ اس طرح کی کمپنیوں کا جب زور اٹھتا ہے تو ہمارے بہت سے سادہ لوح بھائی غلط طریقے سے علما کے ذریعہ جوازی فتویٰ بھی لے آتے ہیں، ہمارے محترم علمائے کرام کو بھی نئے تجارتی امور پر اس کی مکمل جانکاری لیے بنا فتویٰ دینے سے پرہیز کرنا چاہیے کیوں کہ لوگ ان تک غلط جانکاری پہنچا کر بڑی عیاری و چالاکی سے جوازی فتویٰ حاصل کر لیتے ہیں، جب کہ دیکھنے میں ایسا بھی آیا ہے کہ کمپنی کا کوئی وجود بھی نہیں ہوتا ہے صرف کاغذ اور سودی بینکوں میں اس کا کاروبار چلتا ہے اور بڑا نام دیکھ کر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اس طرح کی کمپنیوں میں شرکت کرنے سے پہلے ہمیں ان کے طریقہ کار کی مکمل جانکاری لے لینی چاہیے اور پھر اپنی شراکتی حیثیت کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہم کمپنی میں شریک کی حیثیت سے یا مضارب کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں اور کمپنی کے شرائط و ضوابط کیا ہیں؟ آیا وہ اسلامی قانونِ تجارت سے میل کھاتے ہیں یا اس سے متصادم ہیں؟

      کچھ سودی کمپنیاں آج کے اس ترقی یافتہ دور میں آن لائن سودی تجارت کو فروغ دے کر لوٹ و کھسوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ معمولی رقم کے جھانسے میں آکر ہمارے مسلم نوجوان بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں، پے ٹیم (Paytm) اور فون پے (Phone Pe) وغیرہ کی طرف سے آن لائن منی ٹرانسفر پر جو کیش بیک (CASHBACK) دیا جاتا ہے وہ بھی مشکوک ہے، اس کے اندر دھوکا و فریب اور مختلف جہات سے تعاون علی الإثم پایا جاتا ہے بلکہ ایک طرح سے اس میں ربا الفضل کا شائبہ پایا جاتا ہے اس اعتبار سے کیش بیک (CASHBACK) کی صورت میں ملنے والا یہ زائد رقم سودی رقم ہوگا۔ آپ خود غور کریں! آخر وہ محض ٹرانسفر کی خدمات دے کر ہم سے کچھ چارج لینے کے بجائے بغیر کسی حق کے متعین شرح کے مطابق پیسہ واپس کرتی ہیں، جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نقد کے بدلے نقد کی تجارت ہوتی ہے۔ آن لائن خرید و فروخت کا معاملہ طے کرتے ہوئے ہمیں مکمل اطمنان کے بعد براہ راست اپنے بینک اکاؤنٹ سے متعلقہ کمپنی کو رقم ٹرانسفر کرنا چاہیے اور مشکوک و حرام ذرائع سے مال کمانے سے بچنا چاہیے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

      ادھر چند دہائیوں سے کچھ تجارتی یا غیر تجارتی کمپنیوں کی طرف سے شرعی و اسلامی تجارت کے نام پر مسلمانوں کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔ اسلام تجارت کا قائل ضرور ہے مگر اس نے فراڈ و چالبازی اور دھوکا و فریب سے ورے بالکل صاف شفاف تجارت کی تعلیم دی ہے، اور صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے بہترین عمل قرار دیا ہے مگر استحصالی ذہنیت رکھنے والوں نے اس متبرک پیشہ کو بھی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ سودی لین دین سے بچنے اور دھوکا دہی سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ جو بھی کمپنی اسلامی شراکت و مضاربت کے نام پر ہمارے سامنے آئے تو اس سلسلے میں ہمیں درج ذیل پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے :

(الف) پہلی چیز اسلام نے تجارت کے اندر باہمی رضامندی کو بنیادی جز قرار دیا ہے کہ دونوں فریق مکمل اطمنان اور آزادانہ طریقے سے کسی جائز معاہدے پر رضامند ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾

      ترجمہ : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اموال کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ تمھاری آپس کی رضامندی سے تجارت کی کوئی صورت ہو، اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر ہمیشہ سے بہت مہربان ہے۔‘‘ [النساء : 29]

      یعنی حلال تجارت کے لیے باہمی رضامندی کا ہونا ضروری ہے۔ باطل طریقے سے مال کمانے کے لیے باہمی رضامندی سے کوئی تجارت حلال نہیں ہوگی۔ اور اگر کسی بھی جانب سے حلال تجارت میں بھی باہمی رضامندی کے پہلو کو ٹھیس پہنچے تو ایسی تجارت فاسد ہوگی، خواہ بائع و مشتری کا آپسی معاملہ ہو یا پھر مشارکین و مضاربین کے آپسی شرائط کا معاملہ ہو۔ جب کہ ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کی کمپنیوں میں صرف کمپنی کی من مانی چلتی ہے اور سرمایہ لگانے والوں کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور لوگ محض منافع حاصل کرنے کے لیے ہر ایک بات کو صرفِ نظر کر دیتے ہیں۔ البتہ اگر شفافیت برقرار ہے، شرائط ظالمانہ نہیں ہیں اور کمپنی سودی لین دین میں ملوث نہیں ہے تو پھر شراکت یا مضاربت میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔

(ب) دوسری بات اس میں شریک ہوتے وقت ہماری نظر صرف نفع حاصل کرنے پر ٹکی رہتی ہے، ہمیں کمپنی کے کاروبار سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ہے، بس مفت میں فائدے کی کوئی صورت نظر آجائے ہم اس میں کود پڑتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ کمپنی میں ہم اپنی حیثیت کو بھی پہچانیں، اگر ہم کمپنی کے شراکت دار ہیں تو یہ بھی متعین ہونا چاہیے کہ فائدے میں کتنا فیصد ہمارا حصہ ہوگا اور کتنا کمپنی کا حصہ ہوگا، اور کس قدر ہماری حصہ داری اس میں ہو رہی ہے تاکہ نفع کے ساتھ نقصان میں بھی ہم شریک رہیں، مزید اس بات پر بھی ہماری نگاہ ہونی چاہیے کہ تجارت کی نوعیت کیا ہوگی؟ ایسا نہ ہو کہ سرمایہ آپ لگائیں کپڑے کی تجارت کے لیے اور فریق ثانی کسی اور کاروبار میں لگا دے۔ پھر نفع یا نقصان کی صورت میں یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ دیے ہوئے سرمائے پر کتنا منافع ہوا اور کس طرح فریقین میں نفع کی تقسیم ہوئی؟ اور اگر ہم بحیثیت مضارب شریک ہو رہے ہیں تو اس میں بھی مذکورہ صورتوں کی وضاحت ہونی چاہیے، ساتھ ہی یہ بات بھی علم میں رہنی چاہیے کہ ایسی صورت میں اگر گھاٹا ہوا تو رب المال سرمائے کا ذمہ دار ہوگا یعنی مکمل نقدی خسارہ اس کے ذمہ ہوگا اور دوسرے فریق یعنی کمپنی کی محنت اکارت جائے گی۔ جب کہ عملاً ممبران کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف نفع کے خواہاں ہوتے ہیں اور نقصان اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

(ج) تیسری بات یہ کہ شراکت و مضاربت سے پہلے تجارتی امور سے متعلق یہ جانکاری لینا ضروری ہے کہ کمپنی کس چیز کی تجارت کر رہی ہے یا کرنا چاہتی ہے، وہ حلال ہے یا حرام؟ اور اس تجارت سے کمپنی کے مقاصد کیا ہیں، اس کے پیچھے کوئی نیک مقصد ہے یا وہ کسی طرح کی سازش رچ رہی ہے؟ اور ان دونوں چیزوں کی جانکاری کے بعد کمپنی کے طریقہ کار کا جائزہ لیں کہ کیا وہ شرعی دائرے میں رہ کر تجارت کر رہی ہے یا محض لیبل اسلامی ہے اور باقی سارے کام غیر اسلامی ہیں؟ ہمارا فوکس اکثر ظاہر کیے جانے والے مقاصد پر ہوتا ہے اور نفع خوری کے چکر میں باقی چیزوں کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں جب کہ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کے لیے مقصد کی درستی کے ساتھ ساتھ طریقہ کار کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔ اور ہر اس طریقے سے مال کمانا جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے باطل طریقہ ہوگا اور وہ تجارت درست نہیں ہوگی۔ باطل طریقے سے مال کمانے کی چند صورتیں حسب ذیل ہیں ان طریقوں سے بچنا اور ان طریقوں کو اپنانے والی کمپنیوں سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے :

➀  ہر وہ کام ہےجس سے دوسرے کا مالی نقصان ہو جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، غبن وغیرہ۔

➁  سود اور اس کی تمام شکلیں، خواہ یہ سود مفرد ہو، مرکب ہو، ڈسکاؤنٹ ہو، مارک اپ اور مارک ڈاؤن ہو یا خواہ یہ ذاتی قرضے کا سود ہو اور خواہ یہ ربا النسیئہ (مدت کے عوض سود) ہو یا ربا الفضل (ایک ہی جنس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ) ہو۔

➂  ہر ایسا کام جس میں تھوڑی سی محنت سے کثیر مال ہاتھ آتا ہو جیسے جوا، لاٹری اور سٹہ بازی وغیرہ اور بعض حالتوں میں بیمہ پالیسی۔

➃  اندھے سودے یا قسمت کے سودے جن میں صرف ایک ہی عوض مقرر ہوتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔ (عوضین یہ ہے کہ مثلاً ایک کتاب کی قیمت سو روپے ہے تو کتاب کا عوض سو روپے اور سو روپے کا عوض کتاب) جیسے غوطہ خور سے ایک غوطہ کی قیمت مقرر کرنا، بیع ملامسہ، منابذہ، بچوں کا کھیل کہ جس چیز پر بچے کا نشانہ لگے وہ اتنی قیمت میں اس کی۔

      [مُلَامَسَہ یہ ہے کہ خریدار سامان کو نہ کھولے اور نہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھے صرف اس کے چھو لینے سے خواہ رات ہو یا دن بیع لازم ہوجائے۔ مُنَابَذَہ یہ ہے کہ بائع اپنا سامان خریدنے والے کی طرف پھینک دے اور پھر اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے اور اس کے بارے میں سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی دونوں کے درمیان رضامندی کے بغیر بیع پختہ مان لی جائے۔]

➄  ہر وہ لین دین جس میں کسی ایک کا فائدہ یقینی ہو دوسرے کو خواہ فائدہ ہو یا نقصان جیسے سود اور ایسے تمام سودے اور معاملات جن میں یہ شرط پائی جاتی ہو۔

➅  ایسے سودے جو محض تخمینہ سے طے کیے جائیں اور ان میں دھوکا کا احتمال موجود ہو جیسے کسی ڈھیر کا بالقطع سودا کرنا یا مال خرید کر قبضہ کیے بغیر آگے چلا دینا یا غیر موجود مال کا سودا کرنا اور باغات وغیرہ کے پیشگی سودے۔ (ان میں بیع سلم اور بیع عرایا کی رخصت ہے جو چھوٹے پیمانہ پر ہوتی ہے اور غریبوں کی سہولت کے لیے جائز کی گئی ہے۔)

➆  وہ بیع جس میں مشتری دھوکا دینے کی کوشش کرے مثلاً عیب چھپانا، جانور کا دودھ روک کر بیچنا، ناپ تول میں کمی بیشی کر جانا، دوسرے کو پھنسانے کے لیے بولی چڑھانا وغیرہ۔

➇  جو اشیاء حرام ہیں ان کی خرید و فروخت جیسے شراب کی سوداگری یا ان اشیاء کی جو شراب خانے میں استعمال ہوتی ہیں، مردار کا گوشت، تصویریں اور مجسمے، فحاشی پر مشتمل کتابیں اور تصویریں، کسی حرام کاروبار کے لیے دکان یا مکان کرایہ پر دینا، کاہن کی کمائی، فاحشہ کی کمائی، کتے کی قیمت وغیرہ۔

➈  حکومت کے ذریعہ دوسروں کے مال بٹورنا مثلاً لین دین کے جھوٹے مقدمات اور رشوت وغیرہ یا حکومت کا لوگوں کی زمین پر قبضہ کر کے ان کو اپنی مرضی کے مطابق لین دین پر مجبور کرنا۔ جیسے حکومت کے محکمہ ہائے ایل ڈی اے، کے ڈی اے وغیرہ دوسرے لوگوں کی زمینیں ان کی رضامندی کے بغیر حاصل (EAQUIR) کر لیتے ہیں۔

➉  کتاب اللہ میں تحریف و تاویل اور غلط فتوؤں سے مال بٹورنا اور یہ کام بالخصوص علما سے مختص ہے۔ [ماخوذ از : تیسیر القرآن 2 / 386، اور مزید تفصیل و دلائل کے لیے متعلقہ صفحات ملاحظہ فرمائیں۔]

(د) فریقین پر آپسی معاہدے کے تمام پہلوؤں کا واضح اور اجاگر ہونا ضروری ہے اور آگے چل کر تجارت یا آپسی معاہدے میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کرنا مقصود ہو تو دو طرفہ گفت و شنید کے بعد معاملہ طے کیا جائے۔ مثلاً جس چیز کی تجارت کے کرنے پر دونوں کا آپسی اتفاق ہوا ہے اگر اس کے بنیادی ڈھانچے ہی کو بدلنا چاہے جیسے کپڑے کی تجارت تھی اب بدل کر کسی اور چیز کی تجارت کرنی ہے تو صاحبِ مال کی رضامندی بھی لینی ضروری ہے ممکن ہے وہ اس میں حصہ لے اور ممکن ہے نہ لے، اسی طرح آپسی معاہدے میں کوئی تبدیلی کرنا ہو تو فریق ثانی کے علم میں لائے بغیر وہ تبدیلی درست نہیں ہوگی۔ اور یہ ساری چیزیں اس طرح کی اکثر و بیشتر کمپنیوں میں مفقود نظر آتی ہیں، اور اگر یہ تحفظات موجود ہوں تو پھر مذکورہ امور کو دھیان میں رکھ کر اس طرح کی اسلامی تجارت میں بصد شوق شریک ہوں۔

(ہ) اس طرح کی کمپنیوں میں شریک ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس بات کا یقینی علم حاصل کریں کہ وہ کمپنی حقیقت میں موجود ہے یا صرف کاغذات میں موجود ہے۔ موجودہ دور میں ایسا بہت ہوتا ہے کہ کمپنی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا ہے صرف فراڈ کرکے پونجی اسکیم چلائی جاتی ہے جس طرح کہ ملٹی لیول قسم کی نام نہاد کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ پونجی اسکیم میں اسلام کے نام پر دھوکا دے کر محض دولت اکٹھا کیا جاتا ہے اور معمولی فرق کے ساتھ ماہانہ یا سالانہ آپ ہی کی جمع کردہ رقم میں سے بالاقساط لوٹائی جاتی ہے، اس طرح جو لوگ پہلے شریک ہوتے ہیں وہ تو کافی نفع اٹھالیتے ہیں اور بعد میں شریک ہونے والوں کا خسارہ ہوتا ہے۔ پونجی اسکیم میں بظاہر تجارت کے موجود ہونے کا دھوکا دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے، بلکہ جو کمپنی پونجی اسکیم چلاتی ہے بظاہر اس کی کوئی تجارت دکھائی جاتی ہے مگر شرکاء کے جمع کردہ رقم کی بنسبت وہ تجارت کھانے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں کا دس کروڑ روپیہ جمع ہے تو ان کے یہاں کوئی دس بیس لاکھ کی تجارت دکھائی دیتی ہے اس سے آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کمپنی محض فریب سے کام لے رہی ہے۔ پونجی اسکیموں میں فراڈ کے ساتھ ساتھ سود کا بھی عنصر پایا جاتا ہے۔ ایک تو رقم کے بدلے میں رقم تاخیر سے وہ بھی بسااوقات اضافے کے ساتھ دی جاتی ہے جو ربا النسیئۃ ہے اور اس پر بلاتجارت کے جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ ربا الفضل ہے۔   (جاری)

تبصرے بند ہیں۔