سود اور اس کی حرمت (قسط 4)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

⓸ کسی ایسے سامان کو فروخت کرنا مقصود ہو جس میں کئی جنس کے سامان مخلوط ہوں تو اس کی خرید و فروخت کے لیے بہتر یہ ہے کہ اگر انہیں الگ الگ کرنا ممکن ہو تو انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ کر لیا جائے تاکہ کسی طرح کا شبہ نہ پیدا ہو اور پھر ایسی صورت میں کمی و بیشی کی صورت بھی پیدا نہیں ہوگی اور اس میں خیر و برکت بھی ہوگا۔ سیدنا فَضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، جس میں سونا اور نگینے تھے۔ میں نے انہیں الگ الگ کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ مل گئے، پھر میں نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((لَا تُبَاعُ حَتَّى تُفَصَّلَ.)) ’’اسے الگ الگ کرنے سے پہلے بیچا نہ جائے۔‘‘ [صحيح مسلم كتاب المساقاة باب بيع القلادة فيها خرز و ذهب]

⓹ اور اگر دو ایسی جنسوں کا تبادلہ کیا جائے جن کا تعلق مذکورہ بالا جنسوں سے نہ ہو، مثلاً جانوروں اور غلاموں وغیرہ کا باہمی تبادلہ۔ تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہے اور اس کا شمار سود میں نہیں ہوگا مگر کسی طرف سے ادھار کرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً غلام کا تبادلہ غلام سے کرنا، جانور کا تبادلہ جانور سے کرنا، نیز غلام اور جانور کا باہمی تبادلہ کرنا۔ اس طرح ایک غلام کا تبادلہ دو غلاموں سے کرنا، ایک بکرے کے بدلے دو بکروں کا لینا اور دو اونٹ دے کر ایک غلام لینا درست ہے مگر دونوں کے لین دین میں کسی طرف سے ادھار کرنا درست نہیں ہے اور یہ کمی بیشی سود میں شمار نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

’’ایک غلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور ہجرت کرنے پر بیعت کرلی، آپ کو اس کے غلام ہونے کے بارے میں معلوم نہیں تھا، اس کا مالک اسے لینے کے لیے آیا تو آپ نے اس سے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا۔‘‘ [مسلم كتاب المساقاة باب جواز بيع الحيوان بالحيوان]

اور سنن ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ : ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى عَبْدًا بِعَبْدَيْنِ)) ’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک غلام کو دو غلاموں کے عوض خریدا۔‘‘ [ابو داؤد کتاب البیوع والإجازات باب في ذٰلك إذا كان يداً بيدٍ]

حدیثِ بالا میں موجود غلاموں کی بیع پر تمام جانداروں کی بیع کو قیاس کیا گیا ہے، اور بیچتے وقت ان کے باہمی تبادلے میں کمی بیشی کو جائز قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ یہ بیع دست بدست ہو۔ جیسا کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((الْحَيَوَانُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ، لَا يَصْلُحُ نَسِيئًا، وَلَا بَأْسَ بِهِ يَدًا بِيَدٍ.))

ترجمہ : ’’ایک جانور کے بدلے دو جانور ادھار (خریدنا) درست نہیں ہے، اور دست بدست میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ [ترمذی أبواب البیوع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب کراهية بيع الحيوان بالحيوان نسيئة]

نیز سیدنا سمُرہ بن جُندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً.)) ترجمہ : ’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ [ترمذی أبواب البیوع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب کراھیۃ بیع الحیوان بالحیوان نسیئہ]

مذکورہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار بیچنا درست نہیں ہے، اور پہلی حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر دونوں کی آپسی بیع دست بدست ہو تو اس میں تفاضل درست ہے۔

البتہ حیوانات کو حیوانات کے بدلے بطور قرض لینے کی صورت میں کسی ایک طرف سے ادھار کیا جا سکتا ہے اور کمی بیشی کے ساتھ بھی لیا دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً بطور قرض ایک اونٹ دو اونٹ دینے کے بدلے لیا جا سکتا ہے۔

حیوان کو حیوان کے بدلے قرض لینے کی صورت میں کسی ایک جانب سے دست بدست لے کر دوسری جانب سے ادھار کرنے کی دلیل گذشتہ صفحات میں گذری سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی سے اونٹ قرض پر لیا تھا اور پھر اس کے مطالبے پر اس سے بہتر اونٹ بدلے میں دیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے آپ صلی اللہ علیہ نے اونٹ کے بدلے میں اونٹ ادھار ہی لیا ہوگا تبھی اس نے آپ سے اونٹ کا مطالبہ کیا۔

نیز حیوانوں کو ادھار لینے کی صورت میں مقروض کی طرف سے زیادہ دینے کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے، وہ کہتے ہیں :

((أَنّ رسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُجَهِّزَ جَيْشًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَفِدَتِ الْإِبِلُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ فِي قِلَاصِ الصَّدَقَةِ فَكَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيرَ بِالْبَعِيرَيْنِ إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ.))

’’بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا تو اونٹ کم پڑ گئے، اس لیے آپ نے انھیں صدقہ کے جوان اونٹ کے بدلے اونٹ (ادھار) لینے کا حکم دیا۔ اور انھوں نے صدقہ کے اونٹ آنے تک دو اونٹ کے بدلے ایک اونٹ لے لیا۔‘‘ [ابو داؤد کتاب البیوع باب الرخصۃ فی ذٰلك]

بعض اہلِ علم نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث کو منسوخ اور سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی مذکورہ حدیث کو ناسخ قرار دیا ہے۔ امام شافعی اور خطابی رحمہما اللہ نے اس حدیث کو دو طرفہ ادھار پر محمول کیا ہے یعنی حیوان کی بیع حیوان کے بدلے اس وقت ممنوع ہے جب دونوں طرف سے ادھار ہو جیسا کہ بیع الکالی بالکالی میں ہوتا ہے، اور اگر ایک طرف ادھار ہو تو یہ جائز ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ وغیرہ نے نہی والی احادیث کو کئی وجوہاتِ ترجیح کی بنا پر راجح قرار دیا ہے یعنی حیوان کی بیع حیوان کے بدلے ادھار درست نہیں ہے۔ جب کہ بعض محدثین نے مذکورہ حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی شواہد کو بھی ضعیف گردانا ہے، شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

((إسناده ضعيف، عمرو ابن حريش مجهول الحال كما في التقريب (٥٠١٠) و للحديث شواهد ضعيفة.)) [أنوار الصحيفة ص: 121]

اور بعض اہلِ علم اس حدیث کو حسن قرار دیتے ہیں۔ چناں چہ اگر مذکورہ حدیث حسن ہے تو اس کی بہترین توجیہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ حیوان کے بدلے حیوان کی بیع ادھار ہو تو ممنوع ہے البتہ حیوان کے بدلے حیوان کو قرض لینا جائز ہے اور اس حدیث کی بنیاد پر ایک کے بدلے دو دینا بھی جائز ہے یعنی کسی جانب سے کمی بیشی کرنا بھی جائز ہے، اس طرح تمام روایات پر عمل ہو جاتا ہے۔ اور اگر ضعیف مانا جائے تو ادھار کی صورت میں تفاضل جائز نہیں ہوگا۔ مگر حدیث کے حسن ہونے کا پہلو غالب ہے۔

بعض اہلِ علم نے اس حدیث سے نقد و ادھار کی قیمتوں میں تفریق رکھنے کے جواز پر استدلال کیا ہے حالانکہ یہ حدیث حیوانوں کے ادھار لین دین کے ساتھ خاص ہے اور خرید و فروخت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ اوپر اس کی وضاحت کی گئی ہے، اور اگر اسے حیوان کی بیع سے متعلق مان کر اس کے مفہوم کو عام مانا جائے تو اس سے دیگر ممنوع قباحتیں لازم آئیں گی۔ مثلاً دس کلو گیہوں کے بدلے پندرہ کلو ادھار گیہوں کی بیع جائز قرار پائے گی جب کہ یہ صریح سود ہے اور اس کی حرمت پر سبھوں کا اتفاق ہے۔ اس لیے اس دلیل کو حیوانوں کے آپسی ادھار لین دین کے ساتھ خاص ماننا ہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم بالصواب

حیوانات وغیرہ کے باہمی تبادلہ اور خرید و فروخت میں کمی بیشی اس لیے جائز ہے کہ حیوانات کی قیمتوں میں بسا اوقات نمایاں فرق ہوتا ہے، ایک اونٹ کی قیمت بیس ہزار ہوتی ہے تو وہیں اسی جنس کے دوسرے اونٹ کی قیمت ایک لاکھ ہوتی ہے، اسی طرح اور دیگر جانوروں کا بھی معاملہ ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

((قَدْ يَكُونُ الْبَعِيرُ خَيْرًا مِنَ الْبَعِيرَيْنِ.)) ترجمہ : ’’کبھی ایک اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہوتا تھا۔‘‘ [صحيح بخاری کتاب البیوع باب بیع العبید والحیوان بالحيوان نسیئۃ]

لیکن اگر جانور کی حالت بدل جائے یعنی اسے ذبح کر دیا جائے تو پھر چوں کہ وہ حیوان کے بجائے گوشت ہو گیا اور اسے تولا بھی جا سکتا ہے اس لیے گوشت کو گوشت کے بدلے فروخت کرتے وقت ان میں کسی طرف سے کمی بیشی جائز نہیں ہوگی اور اس تفاضل کا شمار سود میں ہوگا، مثلاً ایک کلو بکرے کا گوشت دے کر دوسرے سے دو کلو بکرے کا گوشت لینا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر جنس بدل جائے تو تفاضل تو جائز ہوگا مگر فوری قبضہ ضروری ہوگا، مثلاً دو کلو مرغی کے گوشت کے بدلے میں ایک کلو بکرے کا گوشت خریدنا جائز ہوگا بشرطیکہ فوری قبضہ ہو۔ والله أعلم بالصواب

⓺ رطب یعنی تر کھجور کو تمر یعنی خشک کھجور کے بدلے میں بیچنا جائز نہیں ہے کیوں کہ تر کھجور سوکھنے کے بعد کم ہو جائے گی جس کی وجہ سے تفاضل لازم آئے گا اس لیے اس طرح کا بیع دھوکا اور سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ زید ابو عیاش رحمہ اللہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ گیہوں کو ’’سُلت‘‘ (بغیر چھلکے والی جو) کے بدلے بیچنا کیسا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ان دونوں میں افضل کون سا ہے؟ صاف ستھرا گیہوں، تو انھوں نے اس سے منع کر دیا اور فرمایا :

((سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُسْأَلُ عَنْ شِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ))

ترجمہ: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے، آپ سے پوچھا جا رہا تھا کہ تمر کو رطب کے بدلے بیچنا کیسا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کیا رطب کم ہو جاتی ہے جب وہ سوکھ جائے؟ لوگوں نے کہا : ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں اس سے منع فرما دیا۔‘‘ [ابو داؤد کتاب البیوع والاجارات باب فی التمر بالتمر]

البتہ فقرا و مساکین کا لحاظ کرتے ہوئے محدود پیمانے پر بیع عرایا میں اس کی رخصت و اجازت دی گئی ہے۔ بیع عرایا یہ ہے کہ کسی باغ کا مالک کوئی مخصوص درخت کسی محتاج وضرورت مند کو دے دے تاکہ وہ اس درخت کے پھل سے فائدہ اٹھائے لیکن بار بار اس کے باغ میں آنے کی وجہ سے باغ کے مالک کو تکلیف پہنچے تو ایسی صورت میں اجازت دی گئی ہے کہ وہ شخص درخت پر پھل کے پختہ ہوجانے کے بعد درخت پر موجود رطب کو تمر کے بدلے باغ کے مالک سے بیچ دے اور باغ کے مالک کی جانب سے درخت پر موجود پھل کا اندازہ لگا کر اسی کے بقدر اس شخص کو خشک پھل دے دیا جائے مگر اس کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ پانچ وسق (تقریباً ساڑھے سات کنٹل) سے زیادہ نہ ہو۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع عرایا میں تمر سے اس کا اندازہ کر کے اسے پانچ وسق میں یا اس سے کم میں دینے کی رخصت دی ہے۔ [بخاری باب فی الشرب باب الرجل یکون لہ ممر أو شرب في حائط، مسلم کتاب البیوع باب تحریم بیع الرطب بالتمر إلا فی العرایا]

نیز سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع عرایا میں وزن کا اندازہ کر کے اسے بیچنے کی اجازت دی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : عرایا کھجور کے ان معین درختوں کو کہتے ہیں جو پھل لائے اور تو اسے خرید لے۔ [بخاری کتاب البیوع باب تفسیر العرایا، مسلم کتاب البیوع باب تحریم بیع الرطب بالتمر إلا فی العرایا] (جاری)

تبصرے بند ہیں۔