سود اور اس کی حرمت (قسط 8)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

سود در سود کی مذمت

موجودہ دور میں بھی سود در سود لینے دینے کی وبا عام ہوچکی ، سودی بینکوں کا سود اسی طرح کا ہوتا ہے، عام قرض دہندگان کے یہاں بھی یہ بیماری پائی جاتی ہے کہ اصل رأس المال پر جو سود بنتا ہے آگے چل کر وہ رأس المال کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور پھر اسی اعتبار سے سود لیا دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس طرح کے سودی لین دین پر سخت مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۞ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ﴾

ترجمہ : ’’اے ایمان لانے والو! خوب بڑھا چڑھا کر دوگنا چوگنا کر کے سود نہ کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات پاؤ۔ اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ [آل عمران : 130-131]

خوب بڑھا چڑھا کر دوگنا چوگنا کرکے سود نہ کھاؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر سود بڑھا چڑھا کر نہ لیا جائے تو وہ جائز ہوگی بلکہ سود مطلقاً حرام ہے چاہے وہ کم ہو یا زیادہ، مفرد ہو یا مرکب، سود کی ہر صورت حرام ہے جیسا کہ اوپر کی آیات و احادیث اور دیگر توضیحات میں اس کا تفصیلی بیان ہوا ہے۔ یہاں اس آیتِ کریمہ میں اصلاً زمانہ جاہلیت میں سودی کاروبار کرنے والوں کی سنگ دلی کا بیان ہو رہا ہے اور انھیں ان کی بد اطواری سے روکا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں مسلمانوں کو سود در سود کی قباحتوں سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اور آج ہمارے دور میں بھی وہی قدیم صورت حال پیدا ہو چکی ہے اور مسلمانوں کی کاروباری اکثریت سود در سود کی شکار نظر آرہی ہے، اور طرفہ تماشا یہ کہ اسے جائز قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دورِ جاہلیت کے ہر طرح کے سود کو ختم قرار دیتے ہوئے فرمایا :

((وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلَّهُ.))

ترجمہ : ’’اور جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا، اور اپنے سودوں میں سے سب سے پہلا سود میں عباس بن عبد المطلب کا سود ختم کرتا ہوں، وہ سب کا سب ختم کر دیا گیا۔‘‘ [صحيح مسلم کتاب الحج باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم]

سود خوروں اور ان کے معاونین پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت

سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والوں، کھلانے والوں، اس کے لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ سیدنا عبد بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

((لَا تَصْلُحُ سَفْقَتَانِ فِي سَفْقَةٍ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَعَنَ اللَّهُ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَهُ، وَكَاتِبَهُ.))

ترجمہ : ’’ایک سودے میں دو سودا کرنا درست نہیں ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کے گواہ اور اس کے کاتب پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ [مسند احمد]

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  :

((لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ : هُمْ سَوَاءٌ.))

ترجمہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ : ’’یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘ [صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب لعن اکل الربا وموکلہ]

سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :

((إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…… لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ وَالْمُصَوِّرَ.))

ترجمہ : ’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، گودنے والی، گودوانے والی اور مصور پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب اللباس باب من لعن المصور]

کھانے اور کھلانے والوں سے مراد سود لینے اور دینے والے ہیں۔ اس حدیث میں سودی کاروبار کا تعاون کرنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے جو اس کے کبیرہ گناہ ہونے کی دلیل ہے کیوں لعنت کی وعید کا موجب کبیرہ گناہ ہوا کرتی ہے اور اس لعنت کی وعید سے معلوم ہوتا ہے کہ سود کا لینا دینا انتہائی قبیح و شنیع فعل ہے، اور اس کارِ بد میں کسی طرح کی مدد و معاونت کرنا بھی گناہِ عظیم ہے۔ سودی بینکوں اور سودی کاروبار کرنے والے اداروں کو اپنی زمین و جائداد اور مکان و دوکان وغیرہ کو  کرایہ پر دینے والے لوگ بھی تعاون علی الاثم اور شدید وعید کے مستحق ہوتے ہیں۔

سود خوری ایک عظیم گناہ

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جن سات ہلاکت خیز گناہوں سے بچنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک سود خوری بھی ہے، فرمایا:

((اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا هُنَّ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّحْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْلُ الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ.))

ترجمہ: ’’ہلاک کرنے والی سات گناہوں سے بچو! صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم!‘‘ وہ کون کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، اللہ نے جس جان کو حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا اور پاک دامن بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر بہتان لگانا۔‘‘ [بخاری کتاب الوصایا باب قول اللہ تعالیٰ: إنَّ الذین یاکلون أموال الیتامیٰ ظلماً، مسلم کتاب الایمان باب بیان الکبائر و اکبرھا]

لہذا اے مسلمانو! اللہ کے واسطے اس گناہِ عظیم کے ارتکاب سے باز آجاؤ، سودی لین دین کو ترک کر دو، اس کے دروازے کو کھولنے والی راہوں کے بھی قریب نہ جاؤ اور تمام طرح کی مشتبہ لین دین سے دوری اختیار کرو ورنہ یہ ہمیں اور ہماری معیشت کو لے ڈوبے گی، اللہ کی رحمت کو ہم سے دور کردے گی، ہماری روسیاہی اور دنیا و آخرت میں ہماری ہلاکت کا باعث ہوگی۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

سود کے مفاسد اور اس کی حرمت کے اسباب

سود سے متعلق مذکورہ تفصیلات اور اس ضمن میں وارد ہوئے کتاب و سنت کے واضح نصوص سود کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں اور کتاب و سنت کی مذکورہ تصريحات سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ شریعت نے سود کو مستقل حیثیت سے حرام قرار دیا ہے اور جس شدت و وعید کے ساتھ اسے حرام قرار دیا گیا ہے اس سے اس کی شناعت و قباحت ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص علت و سبب کی بنا پر اسے حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس سبب کے نا پائے جانے کی بنا پر یہ حلال ہوگی، ہاں سود سے پاک معاشرے اور غیر سودی نظامِ معیشت کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں تجارتی سود کی حلت سے متعلق جو باہمی رضا مندی کی بات کہی جاتی ہے وہ انتہائی بودی اور ناقابلِ التفات ہے۔ اگر کسی شخص کو سود ادا کیے بغیر بآسانی قرض ملے تو کیا اس کے باوجود بھی وہ سودی قرضہ لینے پر راضی ہوگا؟ یہ تو حلال معاملات کی بات ہے کہ معاملہ طے کرنے کے لیے فریقین کی آپسی رضامندی ضروری ہے۔ اور اگر فریقین میں سے کسی ایک فریق کی رضامندی کے بغیر کوئی حلال معاملہ طے ہو تو وہ درست نہ ہوگا جب تک کہ دو طرفہ باہمی رضا مندی نہ پائی جائے، ایسا نہیں ہے کہ کوئی حرام کام باہمی رضا مندی سے حلال و جائز ہو جائے گا۔ کیا کوئی ہوش مند شخص زنا و ہم جنس پرستی کو آپسی رضامندی پائے جانے کی وجہ سے درست کہہ سکتا ہے؟ علاوہ ازیں علما نے سود کی حرمت کے بہت سے اسباب و علل، مفاسد اور مصالح کا ذکر کیا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :

❶  سود ایک طرح کا ظلم ہے جو ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق پر ڈھائی جاتی ہے اور اس ظلم کی لپیٹ میں پورا معاشرہ اور پوری انسانیت آجاتی ہے۔ اور ظلم کو اللہ تعالیٰ نے قطعی حرام قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تبارك و تعالیٰ فرماتا ہے:

((يَا عِبَادِي! إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا))

ترجمہ : ’’اے میرے بندوں! یقیناً میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام کیا ہے، اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘ [مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الظلم]

❷  سود میں دھوکہ، فریب، غبن اور مکر و دغا پایا جاتا ہے، مختلف طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر پوری انسانیت کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور ناحق دوسروں کی گاڑھی کمائی کو دھوکہ و فریب کے ذریعہ غبن کیا جاتا ہے۔ کتاب و سنت میں صالح معاشرہ کی تشکیل کے لیے جو اصول و ضوابط بیان ہوئے ہیں سودی نظام سراسر اس کے مخالف ہے۔ اسلام جس طرح کا معاشرہ اور اخوت و بھائی چارگی کا جو ماحول دیکھنا چاہتا ہے سودی نظام اسے ڈھا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا۔ آپ معاشرے میں ایسے بہت سے سادہ لوح افراد کو پاجائیں گے کہ جنہیں سودی بینک کے دلالوں نے چکنی چپڑی پڑھا کر اور مستقبل کا سبز باغ دکھا کر سودی قرضہ لینے پر مجبور کردیا اور پھر ان کی زندگی اجیرن ہو گئی،  ہنستا مسکراتا گھر تباہ و برباد ہوگیا، اور بنی بنائی تجارت بھی سودی قرضے کی ادائیگی کے پیچھے تہس نہس ہو گئی۔

❸  سودی نظام خرید و فروخت کے فطری و دینی نظام کو مختل اور درہم برہم کر دیتا ہے اور سودی قرضوں کی ادائیگی کے پیچھے سامانوں کی قیمتیں آسمان چھونے لگتی ہیں جب کہ اس کی حرمت سے تجارت کو فروغ ملتا ہے اور تجارتی وسائل و ذرائع کی حفاظت ہوتی ہے اور اشیاء کی قیمتیں حد سے تجاوز نہیں کرتی ہیں۔

❹  دلوں کے روگی اور کمزور ایمان والوں کے لیے سود کی حرمت میں ایمانی بقا کا راز پنہاں ہے، سود کی وجہ سے انسانی طبیعتوں پر سنگ دلی، خود غرضی، بخل اور مال و دولت سے جو بیجا قسم کی غیر معمولی محبت پیدا ہوتی ہے وہ سود سے پاک معاشرے میں ناپید ہو جاتی ہے اور سود کی حرمت کی وجہ سے ایسے لوگوں کو مذکورہ بُری خصلتوں سے نجات مل جاتی ہے اور حرام طریقے سے مال جمع کرنے کا داعیہ ختم ہو جاتا ہے۔ سود کی حرمت ان ساری قباحتوں کے لیے سدِ باب کی حیثیت رکھتی ہے۔

❺  سود ظلم و مفت خوری کا قبیح ترین مظہر ہے اور سودی نظام مال و دولت کو چند افرادِ معاشرہ تک محصور اور منجمد کر کے رکھ دیتا ہے جو شریعت کی منشا کے بالکل خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ﴾

ترجمہ : ’’تاکہ دولت تمھارے مال داروں کے درمیان میں ہی گردش کرتا نہ رہ جائے۔‘‘ [الحشر : 8]

لہٰذا سود کی حرمت اور صدقات کی بجاآوری کی وجہ سے شریعتِ حقہ کی منشا کے مطابق دولت تمام لوگوں کے درمیان گردش کرنے لگتی ہے۔   (جاری)

تبصرے بند ہیں۔